پیپلز پارٹی کا مہنگائی کیخلاف احتجاجی مارچ اور تاجرں کی ہڑتال
پی پی نے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں کومتحد کرنے اورایک پلیٹ فارم پرلانے کی کوششوں کاآغاز کردیا۔
سندھ میں سیاست کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ سندھ مزاحمت اور احتجاج کی سیاست کی طرف جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ کراچی کا دورہ کیا لیکن ذرائع ابلاغ نے ان شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں شائع اور نشر کیں کہ تاجروں کے ساتھ وزیر اعظم کے مذاکرات ناکام رہے۔ وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلا ف ہفتہ 13 جولائی کو سندھ بھر میں تاجروں کی ہڑتال انتہائی کامیاب رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی کے خلاف ہفتہ 13 جولائی کو ہی احتجاجی مارچ کیا، جو سکھر سے شروع ہو کر پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں اختتام پذیر ہوا۔
پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں کو متحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ سندھ میں سیاسی میدان سج رہا ہے لیکن اس سے پہلے دنیا کی نظریں ایک اور سیاسی معرکہ پر ہیں۔ یہ معرکہ ضلع گھوٹکی کے حلقہ این اے ۔ 205 پر ضمنی انتخابات کی صورت میں ہے ، جو 23 جولائی کو ہونے جا رہا ہے۔
کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کی طرف سے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی زبردست مخالفت تمام حلقوں کے لیے حیرت کا باعث ہے کیونکہ کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں نے ہی تحریک انصاف کی سب سے زیادہ سیاسی حمایت اور معاونت کی تھی۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ کراچی آکر تاجروں، صنعت کاروں اور معیشت کے مختلف شعبوں کے نمائندہ افراد کے ساتھ کئی اجلاس منعقد کیے لیکن ہر اجلاس کے بعد باہر آنے والے لوگوں نے میڈیا کو یہی بتایاکہ وہ وزیر اعظم کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کے بقول وزیر اعظم نے صرف ایک ہی بات کی کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔
کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ وزیر اعظم کے دورہ کراچی کے بعد تاجروں کی ملک گیر ہڑتال کی کال پر کراچی سمیت پورے سندھ میں بڑی مارکیٹیں بند رہیں، جس سے یہ پیغام گیا ہے کہ کراچی سمیت پورے سندھ کے تاجر و صنعت کار وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔
پہلی مرتبہ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں اور قصبوں کی مارکیٹیں اور بازار بھی بند رہے۔ اس سے پہلے کبھی سندھ میں ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ ہڑتال والے دن ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف سکھر سے احتجاجی ریلی کی قیادت کی۔ یہ ریلی ضلع رحیم یار خان میں اختتام پذیر ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے جگہ جگہ استقبالی ہجوم سے خطاب کیا۔ اس احتجاجی مارچ یا ریلی کے سیاسی اثرات بہت گہرے ہیں۔ اس سے سندھ میں احتجاجی سیاست کا کامیاب آغاز ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول ہاؤس کراچی میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلایا اور آئندہ کی حکومت عملی طے کی۔ یہ اجلاس اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد کے لیے انتہائی معاون ہو سکتا ہے۔
گھوٹکی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۔ 205 پر ہونے والے ضمنی انتخابات اس وقت سب حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ نشست سردار علی محمد خان مہر کے اچانک انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ سردار علی محمد خان مہر سندھ کے سابق وزیر اعلی تھے اور انتقال کے وقت وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مہر قبیلے کے سربراہ سردار محمد بخش مہر کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ یہ الیکشن پیپلز پارٹی اورجی ڈی اے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن تحریک انصاف بھی جی ڈی اے کے امیدوار کو ہی کامیاب کرانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ ضمنی انتخابات کا نتیجہ سندھ کی آئندہ کی سیاست پر بہت اثرانداز ہو گا۔
گذشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ کراچی کا دورہ کیا لیکن ذرائع ابلاغ نے ان شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں شائع اور نشر کیں کہ تاجروں کے ساتھ وزیر اعظم کے مذاکرات ناکام رہے۔ وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلا ف ہفتہ 13 جولائی کو سندھ بھر میں تاجروں کی ہڑتال انتہائی کامیاب رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی کے خلاف ہفتہ 13 جولائی کو ہی احتجاجی مارچ کیا، جو سکھر سے شروع ہو کر پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں اختتام پذیر ہوا۔
پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں کو متحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ سندھ میں سیاسی میدان سج رہا ہے لیکن اس سے پہلے دنیا کی نظریں ایک اور سیاسی معرکہ پر ہیں۔ یہ معرکہ ضلع گھوٹکی کے حلقہ این اے ۔ 205 پر ضمنی انتخابات کی صورت میں ہے ، جو 23 جولائی کو ہونے جا رہا ہے۔
کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کی طرف سے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی زبردست مخالفت تمام حلقوں کے لیے حیرت کا باعث ہے کیونکہ کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں نے ہی تحریک انصاف کی سب سے زیادہ سیاسی حمایت اور معاونت کی تھی۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ کراچی آکر تاجروں، صنعت کاروں اور معیشت کے مختلف شعبوں کے نمائندہ افراد کے ساتھ کئی اجلاس منعقد کیے لیکن ہر اجلاس کے بعد باہر آنے والے لوگوں نے میڈیا کو یہی بتایاکہ وہ وزیر اعظم کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کے بقول وزیر اعظم نے صرف ایک ہی بات کی کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔
کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ وزیر اعظم کے دورہ کراچی کے بعد تاجروں کی ملک گیر ہڑتال کی کال پر کراچی سمیت پورے سندھ میں بڑی مارکیٹیں بند رہیں، جس سے یہ پیغام گیا ہے کہ کراچی سمیت پورے سندھ کے تاجر و صنعت کار وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔
پہلی مرتبہ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں اور قصبوں کی مارکیٹیں اور بازار بھی بند رہے۔ اس سے پہلے کبھی سندھ میں ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ ہڑتال والے دن ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف سکھر سے احتجاجی ریلی کی قیادت کی۔ یہ ریلی ضلع رحیم یار خان میں اختتام پذیر ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے جگہ جگہ استقبالی ہجوم سے خطاب کیا۔ اس احتجاجی مارچ یا ریلی کے سیاسی اثرات بہت گہرے ہیں۔ اس سے سندھ میں احتجاجی سیاست کا کامیاب آغاز ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول ہاؤس کراچی میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلایا اور آئندہ کی حکومت عملی طے کی۔ یہ اجلاس اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد کے لیے انتہائی معاون ہو سکتا ہے۔
گھوٹکی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۔ 205 پر ہونے والے ضمنی انتخابات اس وقت سب حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ نشست سردار علی محمد خان مہر کے اچانک انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ سردار علی محمد خان مہر سندھ کے سابق وزیر اعلی تھے اور انتقال کے وقت وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مہر قبیلے کے سربراہ سردار محمد بخش مہر کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ یہ الیکشن پیپلز پارٹی اورجی ڈی اے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن تحریک انصاف بھی جی ڈی اے کے امیدوار کو ہی کامیاب کرانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ ضمنی انتخابات کا نتیجہ سندھ کی آئندہ کی سیاست پر بہت اثرانداز ہو گا۔