چوہدری نثار کی پریشانی
کراچی کے کئی ’’سیاسی سورما‘‘ اپنی جان کے خوف سے ایسے مگر مچھوں سے لاتعلقی کا ڈھونگ نہیں رچا سکتے۔
ہر روز کی طرح ارادہ آج بھی میرا یہی تھا کہ کراچی کے علاوہ کسی اور موضوع پر لکھنا ہے۔ مگر کیا کروں دو ایسے لوگوں کی زبانی جن کی بات پر میں بطور رپورٹر اعتماد کرنے پر مجبور ہوں، مجھے یہ خبر ملی کہ بدھ کا سارا دن چوہدری نثار علی خان بڑے پریشان رہے۔ وزیر داخلہ نے اس دن سے ایک ہی روز پہلے ٹی وی کیمروں کے سامنے آ کر اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران اس دن تک 150 سے زیادہ لوگ گرفتار کیے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد اپنا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے بتاتے ہیں۔ مگر ان جماعتوں کے رہ نما ان کی گرفتاریوں پر خاموش ہیں۔ مثبت خاموشی کا یہ ماحول مگر اس وقت برقرار نہ رہ سکا جب ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ایک سابقہ رکن سندھ اسمبلی کو دو پولیس اہلکاروں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس رکن کا معاملہ اب عدالت کے روبرو ہے۔ وہ جانے اور اس کا کام۔ میرے لیے حیرت کی بات تو چوہدری نثار علی خان کی پریشانی تھی۔
تھوڑی تحقیق کے بعد دریافت ہوا کہ بہت سوچ بچار کے بعد انھوں نے جو حکمتِ عملی بنائی تھی اس کے مطابق کراچی میں تعینات رینجرز کے اہلکاروں کو آپریشن کے ابتدائی ایام کے دوران اپنی توجہ صرف ان چھوٹے چھوٹے گروہوں کی گرفتاری پر مرکوز رکھنا تھی جنہوں نے اپنے اپنے علاقے ''بانٹ'' رکھے ہیں۔ اپنے ''زیر نگین'' علاقوں میں وہ لوگوں سے موبائل چھینتے اور درمیانی درجے کے دکانداروں سے بھتے وغیرہ وصول کرتے ہیں۔ یہ گروہ اور ان کے سرپرست جرم کی دُنیا میں نسبتاََ ''چھوٹے مگر مچھ'' شمار کیے جاتے ہیں۔ مگر کراچی کے عام شہریوں کی بے پناہ اکثریت کا واسطہ ان ہی لوگوں سے رہتا ہے۔ ایسے جرائم پیشہ افراد کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں ایک بڑا جاندار Feel Good ماحول پیدا کر سکتی تھیں۔
ایسے جرائم پیشہ افراد کے مقامی سرپرستوں کی سیاسی جماعتوں سے جھوٹی سچی وفاداریاں بھی ہیں۔ مگر وہ اتنے نامور اور با اثر ہر گز نہیں ہیں کہ ان کی خاطر کوئی بڑی سطح کے سیاسی یا مذہبی رہنما عوام میں آ کر ان کی بے گناہی ثابت کرنے کا رسک لیں۔ اپنی کم تر حیثیت کی وجہ سے یہ ایک حوالے سے وہ پیادے تصور کیے جا سکتے ہیں جنھیں اپنے اپنے وسیع تر مفاد میں سیاسی جماعتیں قربان کر سکتی ہیں۔ منصوبہ یہ بنایا گیا تھا کہ چھوٹے مگر شہر میں ہر سو پھیلے ان جرائم پیشہ گروہوں اور ان کے سرپرستوں کی گرفتاری کے بعد آہستہ آہستہ بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ان میں سے چند ایک کا اس شہر پر حاوی دکھنے والی سیاسی جماعتوں سے تعلق روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
کراچی کے کئی ''سیاسی سورما'' اپنی جان کے خوف سے ایسے مگر مچھوں سے لاتعلقی کا ڈھونگ نہیں رچا سکتے۔ مگر توقع یہ تھی کہ ان مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے تک ٹارگٹڈ آپریشن کی ساکھ بن چکی ہو گی۔ لوگوں کی اکثریت کو یقین آ چکا ہو گا کہ اس کے ذریعے نہ صرف جرائم پیشہ لوگ گرفتار ہوئے ہیں بلکہ روزمرہ ّکے جرائم میں نمایاں کمی بھی شہر میں موجود نظر آ رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما کی گرفتاری چوہدری نثار کو ''اُڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے'' والے مخمصے میں مبتلا کر گئی۔ وہ اور ان کے چند قریبی رفقاء بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کہیں ایم کیو ایم کے ایک بڑے رہنما کی گرفتاری ایک گہری سازش تو نہیں جس کا مقصد کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو خوب سوچ بچار کے بعد طے شدہ حکمتِ عملی کے ساتھ مرحلہ وار گلیوں اور بازاروں کی سطح سے بتدریج بلند ہوتے ہوئے اپنی انتہاء تک پہنچانا تھا۔
چوہدری نثار علی خان کی اس ضمن میں فکر مندی میں ذاتی طور پر خوب سمجھتا ہوں۔ میں 1992ء میں سچ مچ کا ایک محنتی رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ اس سال مئی کے مہینے سے مجھے اشارے ملنا شروع ہوئے کہ ان دنوں کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم ''سندھ'' کے حالات پر بڑے پریشان ہیں۔ جام صادق علی مرحوم ہو چکے تھے اور الطاف حسین کراچی چھوڑ کر لندن میں مقیم۔ آرمی چیف کا خیال تھا کہ ان دونوں افراد کی عدم موجودگی نے سندھ میں قیادت کا خلاء پیدا کر دیا ہے اور صوبائی حکومت اسے پُر کرنے سے قاصر ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف مگر اس معاملے پر زیادہ پریشان نہ تھے۔ ان کا مسئلہ مگر یہ تھا کہ وہ ایک ایسے صدر کے تحت کام کر رہے تھے جنھیں آٹھویں ترمیم والے اختیارات بھی حاصل تھے۔ غلام اسحاق خان ویسے بھی سیاست دان سے زیادہ ایک بیوروکریٹک ذہن رکھتے تھے، فوجی قیادت کے خدشات کو ''لاہو سے آئے کم عمر اور بے فکر'' وزیر اعظم سے کہیں زیادہ بہتر سمجھنے کے دعوے دار بھی۔ انھوں نے نواز شریف پر ''سندھ کا کچھ کیجیے'' والا دبائو بڑھا دیا۔
بالآخر ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آصف نواز مرحوم کے جاسوسی امور سے متعلق افسران نے بڑی تفصیل سے یہ دعویٰ کیا کہ اندرون سندھ میں کس کس سیاستدان نے کس طرح دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی ''کیٹیوں'' میں وہ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جہاں ڈاکو، اغواء برائے تاوان والے گروہ اور اُجرتی قاتل چھوٹی چھوٹی جزیرہ نما ریاستیں چلا رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان ان دنوں وزیر اعظم کے انتہائی طاقتور مشیر بھی ہوا کرتے تھے اور اس حیثیت میں ان کا ایک دفتر وزیر اعظم ہائوس میں بھی قائم تھا۔ انھوں نے اس بریفنگ میں سب سے زیادہ سوالات کیے اور اپنے باس کو قائل کرلیا کہ فوج کو ''اندرون سندھ'' آپریشن کی اجازت دی جائے۔ غلام اسحاق خان ان کے اس کردار سے بہت خوش ہوئے۔ مجھے اس سب معاملے کی پوری خبر ہو گئی۔ چوہدری صاحب پریشان ہو کر میری معلومات کا کھوج لگاتے رہے۔
''اندرون سندھ'' جب آپریشن ہو رہا تھا تو اسلام آباد سے صحافیوں کا ایک وفد وہاں لے جایا گیا۔ میں بھی ان دنوں ''سینئر صحافیوں'' کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ لے جایا گیا۔ مگر عجیب اتفاق ہوا کہ جیسے ہی ہم اندرون سندھ سے کراچی پہنچے تو ''حقیقی'' منظر عام پر آ گئی اور ''جناح پور'' کا قصہ بھی۔ جب میں اسلام آباد لوٹا تو چوہدری صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا۔ وہ اس ملاقات کے درمیان ملٹری آپریشن کے ''اندرون سندھ'' سے ''اچانک'' کراچی پہنچ جانے پر ہکا بکا دکھائی دیے اور بار بار یاد دلاتے رہے کہ اس آپریشن کی وجوہات اور اہداف وزیر اعظم کو تو کچھ اور بتائے گئے تھے۔ ان کا اس معاملہ پر جزبز ہونا بالآخر ان کے مرحوم آصف نواز جنجوعہ کے درمیان بڑی بدگمانیاں پیدا کرنے کا سبب بھی ہوا۔
مجھے حیرت ہے کہ 1992ء کے اتنے بڑے تجربے کے بعد بھی چوہدری نثار علی خان کو کیوں یقین تھا کہ 2013ء میں وزیر اعظم کا منظور کردہ ٹارگٹڈ آپریشن اسی طرح عمل میں لایا جائے گا جیسا سوچا اور بتایا گیا تھا۔ فوجیوں کی ایک کہاوت ہے کہ بڑے سے بڑا جنگی منصوبہ میدانِ جنگ میں پہلی گولی چل جانے کے بعد کسی کام کا نہیں رہتا۔ میدانِ جنگ کے لمحہ بہ لمحہ تقاضے نئے راستوں پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کراچی میں ''پہلی گولی'' چل چکی ہے۔ اب چوہدری نثار علی خان کو کچھ دن خاموشی سے اُبھرتی ہوئی صورتحال کا انتظار کرنا ہو گا۔
تھوڑی تحقیق کے بعد دریافت ہوا کہ بہت سوچ بچار کے بعد انھوں نے جو حکمتِ عملی بنائی تھی اس کے مطابق کراچی میں تعینات رینجرز کے اہلکاروں کو آپریشن کے ابتدائی ایام کے دوران اپنی توجہ صرف ان چھوٹے چھوٹے گروہوں کی گرفتاری پر مرکوز رکھنا تھی جنہوں نے اپنے اپنے علاقے ''بانٹ'' رکھے ہیں۔ اپنے ''زیر نگین'' علاقوں میں وہ لوگوں سے موبائل چھینتے اور درمیانی درجے کے دکانداروں سے بھتے وغیرہ وصول کرتے ہیں۔ یہ گروہ اور ان کے سرپرست جرم کی دُنیا میں نسبتاََ ''چھوٹے مگر مچھ'' شمار کیے جاتے ہیں۔ مگر کراچی کے عام شہریوں کی بے پناہ اکثریت کا واسطہ ان ہی لوگوں سے رہتا ہے۔ ایسے جرائم پیشہ افراد کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں ایک بڑا جاندار Feel Good ماحول پیدا کر سکتی تھیں۔
ایسے جرائم پیشہ افراد کے مقامی سرپرستوں کی سیاسی جماعتوں سے جھوٹی سچی وفاداریاں بھی ہیں۔ مگر وہ اتنے نامور اور با اثر ہر گز نہیں ہیں کہ ان کی خاطر کوئی بڑی سطح کے سیاسی یا مذہبی رہنما عوام میں آ کر ان کی بے گناہی ثابت کرنے کا رسک لیں۔ اپنی کم تر حیثیت کی وجہ سے یہ ایک حوالے سے وہ پیادے تصور کیے جا سکتے ہیں جنھیں اپنے اپنے وسیع تر مفاد میں سیاسی جماعتیں قربان کر سکتی ہیں۔ منصوبہ یہ بنایا گیا تھا کہ چھوٹے مگر شہر میں ہر سو پھیلے ان جرائم پیشہ گروہوں اور ان کے سرپرستوں کی گرفتاری کے بعد آہستہ آہستہ بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ان میں سے چند ایک کا اس شہر پر حاوی دکھنے والی سیاسی جماعتوں سے تعلق روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
کراچی کے کئی ''سیاسی سورما'' اپنی جان کے خوف سے ایسے مگر مچھوں سے لاتعلقی کا ڈھونگ نہیں رچا سکتے۔ مگر توقع یہ تھی کہ ان مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے تک ٹارگٹڈ آپریشن کی ساکھ بن چکی ہو گی۔ لوگوں کی اکثریت کو یقین آ چکا ہو گا کہ اس کے ذریعے نہ صرف جرائم پیشہ لوگ گرفتار ہوئے ہیں بلکہ روزمرہ ّکے جرائم میں نمایاں کمی بھی شہر میں موجود نظر آ رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما کی گرفتاری چوہدری نثار کو ''اُڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے'' والے مخمصے میں مبتلا کر گئی۔ وہ اور ان کے چند قریبی رفقاء بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کہیں ایم کیو ایم کے ایک بڑے رہنما کی گرفتاری ایک گہری سازش تو نہیں جس کا مقصد کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو خوب سوچ بچار کے بعد طے شدہ حکمتِ عملی کے ساتھ مرحلہ وار گلیوں اور بازاروں کی سطح سے بتدریج بلند ہوتے ہوئے اپنی انتہاء تک پہنچانا تھا۔
چوہدری نثار علی خان کی اس ضمن میں فکر مندی میں ذاتی طور پر خوب سمجھتا ہوں۔ میں 1992ء میں سچ مچ کا ایک محنتی رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ اس سال مئی کے مہینے سے مجھے اشارے ملنا شروع ہوئے کہ ان دنوں کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم ''سندھ'' کے حالات پر بڑے پریشان ہیں۔ جام صادق علی مرحوم ہو چکے تھے اور الطاف حسین کراچی چھوڑ کر لندن میں مقیم۔ آرمی چیف کا خیال تھا کہ ان دونوں افراد کی عدم موجودگی نے سندھ میں قیادت کا خلاء پیدا کر دیا ہے اور صوبائی حکومت اسے پُر کرنے سے قاصر ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف مگر اس معاملے پر زیادہ پریشان نہ تھے۔ ان کا مسئلہ مگر یہ تھا کہ وہ ایک ایسے صدر کے تحت کام کر رہے تھے جنھیں آٹھویں ترمیم والے اختیارات بھی حاصل تھے۔ غلام اسحاق خان ویسے بھی سیاست دان سے زیادہ ایک بیوروکریٹک ذہن رکھتے تھے، فوجی قیادت کے خدشات کو ''لاہو سے آئے کم عمر اور بے فکر'' وزیر اعظم سے کہیں زیادہ بہتر سمجھنے کے دعوے دار بھی۔ انھوں نے نواز شریف پر ''سندھ کا کچھ کیجیے'' والا دبائو بڑھا دیا۔
بالآخر ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آصف نواز مرحوم کے جاسوسی امور سے متعلق افسران نے بڑی تفصیل سے یہ دعویٰ کیا کہ اندرون سندھ میں کس کس سیاستدان نے کس طرح دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی ''کیٹیوں'' میں وہ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جہاں ڈاکو، اغواء برائے تاوان والے گروہ اور اُجرتی قاتل چھوٹی چھوٹی جزیرہ نما ریاستیں چلا رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان ان دنوں وزیر اعظم کے انتہائی طاقتور مشیر بھی ہوا کرتے تھے اور اس حیثیت میں ان کا ایک دفتر وزیر اعظم ہائوس میں بھی قائم تھا۔ انھوں نے اس بریفنگ میں سب سے زیادہ سوالات کیے اور اپنے باس کو قائل کرلیا کہ فوج کو ''اندرون سندھ'' آپریشن کی اجازت دی جائے۔ غلام اسحاق خان ان کے اس کردار سے بہت خوش ہوئے۔ مجھے اس سب معاملے کی پوری خبر ہو گئی۔ چوہدری صاحب پریشان ہو کر میری معلومات کا کھوج لگاتے رہے۔
''اندرون سندھ'' جب آپریشن ہو رہا تھا تو اسلام آباد سے صحافیوں کا ایک وفد وہاں لے جایا گیا۔ میں بھی ان دنوں ''سینئر صحافیوں'' کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ لے جایا گیا۔ مگر عجیب اتفاق ہوا کہ جیسے ہی ہم اندرون سندھ سے کراچی پہنچے تو ''حقیقی'' منظر عام پر آ گئی اور ''جناح پور'' کا قصہ بھی۔ جب میں اسلام آباد لوٹا تو چوہدری صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا۔ وہ اس ملاقات کے درمیان ملٹری آپریشن کے ''اندرون سندھ'' سے ''اچانک'' کراچی پہنچ جانے پر ہکا بکا دکھائی دیے اور بار بار یاد دلاتے رہے کہ اس آپریشن کی وجوہات اور اہداف وزیر اعظم کو تو کچھ اور بتائے گئے تھے۔ ان کا اس معاملہ پر جزبز ہونا بالآخر ان کے مرحوم آصف نواز جنجوعہ کے درمیان بڑی بدگمانیاں پیدا کرنے کا سبب بھی ہوا۔
مجھے حیرت ہے کہ 1992ء کے اتنے بڑے تجربے کے بعد بھی چوہدری نثار علی خان کو کیوں یقین تھا کہ 2013ء میں وزیر اعظم کا منظور کردہ ٹارگٹڈ آپریشن اسی طرح عمل میں لایا جائے گا جیسا سوچا اور بتایا گیا تھا۔ فوجیوں کی ایک کہاوت ہے کہ بڑے سے بڑا جنگی منصوبہ میدانِ جنگ میں پہلی گولی چل جانے کے بعد کسی کام کا نہیں رہتا۔ میدانِ جنگ کے لمحہ بہ لمحہ تقاضے نئے راستوں پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کراچی میں ''پہلی گولی'' چل چکی ہے۔ اب چوہدری نثار علی خان کو کچھ دن خاموشی سے اُبھرتی ہوئی صورتحال کا انتظار کرنا ہو گا۔