معاشی صورتحال خوش آیند تبدیلی کی منتظر
بجٹ اقدام اور بجلی وگیس کے نرخ بڑھنے سے دو تین ماہ میں مہنگائی کی یکبار لہر رونما ہوگی۔
MOSCOW:
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا اور ساتھ ہی 17جولائی سے پالیسی ریٹ 13.25فیصد مقرر کردیا گیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضاباقرنے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 11سے 12فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔ بجٹ اقدام اور بجلی وگیس کے نرخ بڑھنے سے دو تین ماہ میں مہنگائی کی یکبار لہر رونما ہوگی۔ افراط زر میں آیندہ مالی سال کی دوسری ششماہی سے کمی آنا شروع ہوگی۔
بادی النظر میں ملکی معاشی صورتحال کے مستحکم ہونے کے عندیے مل رہے ہیں، مارکیٹ سے اچھی خبریں آرہی ہیں، تاہم مبصرین اور حکومتی و اپوزیشن حلقوں کی جانب سے ہنگامی اقتصادی فیصلوں کی گھن گرج جاری ہے،اندرون خانہ اہم معاشی تبدیلیوں کا تسلسل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی اضطراب اور بے یقینی نے معیشت کی گردن دبوچ رکھی ہے،عوام تک ریلیف کا کوئی بڑا ریلا آنے کو وقت مانگتا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر میں تاجر ہڑتال کرچکے، 17 فیصد ٹیکس کے نفاذ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تاجر اور حکومتی معاشی ٹیم اور ایف بی آر میں مذاکرات ناکام رہے، حکومت کی توجہ ایک دست ِ تہ سنگ معیشت کو ہر قسم کے دباؤ، رکاوٹ، بلیک میل اور مزاحمت سے بچانا ہے مگر سماجی حالات بھی تو کسی حکومتی اسکیم کے پابند نہیں رہتے اس لیے عوام کو گیس،بجلی،ٹرانسپورٹ اور مہنگائی کے سوالات اور مسائل نے اعصابی تناؤ اور مایوسی کا شکار بنا دیا ہے۔
وزیراعظم کے قریبی ذرایع کے مطابق حکومتی اہداف کا حصول وفاقی حکومت کا مطمع نظر ہے،اس نے کرپٹ عناصر کو ہر قیمت پر قانون اور احتساب کے شکنجہ میں جکڑنا ہے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا ۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ معاشی عدم استحکام میں شرح مبادلہ بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہے تاہم روپے کی قدر اب حقیقی شرح مبادلہ پر آچکی ہے، عوامی سطح پر پائی جانے والی بے یقینی کم ہوئی تو روپیہ مضبوط ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ شرح سود بڑھنے سے قومی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کرنیوالے ریٹائرڈ افراد کو فائدہ ہوگا جب کہ عام کھاتے داروں کو بھی ڈیپازٹ پر زیادہ بہتر منافع ملے گا، ڈالر خریدنے والے بھی اپنا سرمایہ روپے میں منتقل کرکے شرح سود بڑھنے کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضاباقرنے مزیدکہا کہ شرح سود میں اضافہ آیندہ دو ماہ میں بڑھنے والی مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، غیرمتوقع عوامل کی وجہ سے افراط زر بڑھنے کی صورت میں مانیٹری پالیسی مزید سخت جب کہ مہنگائی میں کمی آنے سے نرم کردی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک مستقبل کو مدنظر رکھ کرشرح سود کا تعین کرتا ہے اور مارکیٹ سے بھی آراء لی جاتی ہیں ایک فیصد اضافہ مارکیٹ کی توقعات کے مطابق ہے۔
انھوں نے کہا کہ خسارہ کم کرنے سے بیرونی دباؤ بھی کم ہورہا ہے اور معیشت کو دستاویزی شکل ملنے سے روپے کی قدر مستحکم ہوگی۔ انھوں نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے حکومتی کوششوں کو معاشی استحکام کے لیے معاون قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ فاریکس مارکیٹ میں غیرمعمولی تغیر کی صورت میں اسٹیٹ بینک ایکشن لے گا،حکومت کا وسط مدتی افراط زر کا ہدف 5 سے 7 فیصد ہے۔ اسٹیٹ بینک کا افراط زر سے متعلق تخمینہ اس وسط مدت کے ہدف سے ہم آہنگ ہے، مصنوعی طور پر ڈالر کی قدر میںاضافہ محسوس ہوا تو ایکشن لیا جائے گا، حکومت اور مرکزی بینک مل کر ایف اے ٹی ایف حکام کو مطمئن کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا زری پالیسی بیان کے مطابق آیندہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح میں کمی آنے کی توقع ہے ، حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ بھی ختم کرنے کا عزم کیا ہے جس سے مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری آئے گی۔
بہر کیف اقتصادی ذرایع نے معاشی اہداف تک رسائی میں حقیقت پسندانہ سمت سازی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کو ناگزیر کریک ڈاؤن سے مشروط کرنے کو اہم آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دی ہے ۔ لہذا معاشی ٹیم کو ہنگامی فیصلوں اور کلیدی عہدوں میں ردوبدل کی خبروں ، مزدور وتاجر برادریوں کے احتجاج، بیروزگاری،مہنگائی اور بجلی وگیس کے قیمتوںمیں اضافہ سے عوام پر پڑنے والے مالی بوجھ کا ادراک کرنا چاہیے۔
حکومت مخالف رہنماؤں کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کے جھوٹے دعویدار بے نقاب ہوگئے، ان کے مطابق شرح سود ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، ایسے میں کام کیسے چلے گا۔ ارباب اختیار کے لیے لازم ہے کہ وہ اس تاثر کو مٹائیں کہ معاشی پالیسیوں کا اختیار آئی ایم ایف کو دیا گیا ہے جب کہ حکومت کی نگاہیں صرف اقتصادی اور مالیاتی اونٹ کے کروٹ لینے پر ہیں ، کسی کو اس بات کی فکر بھی تو کرنی چاہیے کہ عوام کا بھرکس کیوں نکل رہا ہے۔افتادگان خاک کا کیا بنے گا؟
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کردیا اور ساتھ ہی 17جولائی سے پالیسی ریٹ 13.25فیصد مقرر کردیا گیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضاباقرنے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 11سے 12فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔ بجٹ اقدام اور بجلی وگیس کے نرخ بڑھنے سے دو تین ماہ میں مہنگائی کی یکبار لہر رونما ہوگی۔ افراط زر میں آیندہ مالی سال کی دوسری ششماہی سے کمی آنا شروع ہوگی۔
بادی النظر میں ملکی معاشی صورتحال کے مستحکم ہونے کے عندیے مل رہے ہیں، مارکیٹ سے اچھی خبریں آرہی ہیں، تاہم مبصرین اور حکومتی و اپوزیشن حلقوں کی جانب سے ہنگامی اقتصادی فیصلوں کی گھن گرج جاری ہے،اندرون خانہ اہم معاشی تبدیلیوں کا تسلسل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی اضطراب اور بے یقینی نے معیشت کی گردن دبوچ رکھی ہے،عوام تک ریلیف کا کوئی بڑا ریلا آنے کو وقت مانگتا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر میں تاجر ہڑتال کرچکے، 17 فیصد ٹیکس کے نفاذ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تاجر اور حکومتی معاشی ٹیم اور ایف بی آر میں مذاکرات ناکام رہے، حکومت کی توجہ ایک دست ِ تہ سنگ معیشت کو ہر قسم کے دباؤ، رکاوٹ، بلیک میل اور مزاحمت سے بچانا ہے مگر سماجی حالات بھی تو کسی حکومتی اسکیم کے پابند نہیں رہتے اس لیے عوام کو گیس،بجلی،ٹرانسپورٹ اور مہنگائی کے سوالات اور مسائل نے اعصابی تناؤ اور مایوسی کا شکار بنا دیا ہے۔
وزیراعظم کے قریبی ذرایع کے مطابق حکومتی اہداف کا حصول وفاقی حکومت کا مطمع نظر ہے،اس نے کرپٹ عناصر کو ہر قیمت پر قانون اور احتساب کے شکنجہ میں جکڑنا ہے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا ۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ معاشی عدم استحکام میں شرح مبادلہ بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہے تاہم روپے کی قدر اب حقیقی شرح مبادلہ پر آچکی ہے، عوامی سطح پر پائی جانے والی بے یقینی کم ہوئی تو روپیہ مضبوط ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ شرح سود بڑھنے سے قومی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کرنیوالے ریٹائرڈ افراد کو فائدہ ہوگا جب کہ عام کھاتے داروں کو بھی ڈیپازٹ پر زیادہ بہتر منافع ملے گا، ڈالر خریدنے والے بھی اپنا سرمایہ روپے میں منتقل کرکے شرح سود بڑھنے کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضاباقرنے مزیدکہا کہ شرح سود میں اضافہ آیندہ دو ماہ میں بڑھنے والی مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، غیرمتوقع عوامل کی وجہ سے افراط زر بڑھنے کی صورت میں مانیٹری پالیسی مزید سخت جب کہ مہنگائی میں کمی آنے سے نرم کردی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک مستقبل کو مدنظر رکھ کرشرح سود کا تعین کرتا ہے اور مارکیٹ سے بھی آراء لی جاتی ہیں ایک فیصد اضافہ مارکیٹ کی توقعات کے مطابق ہے۔
انھوں نے کہا کہ خسارہ کم کرنے سے بیرونی دباؤ بھی کم ہورہا ہے اور معیشت کو دستاویزی شکل ملنے سے روپے کی قدر مستحکم ہوگی۔ انھوں نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے حکومتی کوششوں کو معاشی استحکام کے لیے معاون قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ فاریکس مارکیٹ میں غیرمعمولی تغیر کی صورت میں اسٹیٹ بینک ایکشن لے گا،حکومت کا وسط مدتی افراط زر کا ہدف 5 سے 7 فیصد ہے۔ اسٹیٹ بینک کا افراط زر سے متعلق تخمینہ اس وسط مدت کے ہدف سے ہم آہنگ ہے، مصنوعی طور پر ڈالر کی قدر میںاضافہ محسوس ہوا تو ایکشن لیا جائے گا، حکومت اور مرکزی بینک مل کر ایف اے ٹی ایف حکام کو مطمئن کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا زری پالیسی بیان کے مطابق آیندہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح میں کمی آنے کی توقع ہے ، حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ بھی ختم کرنے کا عزم کیا ہے جس سے مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری آئے گی۔
بہر کیف اقتصادی ذرایع نے معاشی اہداف تک رسائی میں حقیقت پسندانہ سمت سازی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کو ناگزیر کریک ڈاؤن سے مشروط کرنے کو اہم آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دی ہے ۔ لہذا معاشی ٹیم کو ہنگامی فیصلوں اور کلیدی عہدوں میں ردوبدل کی خبروں ، مزدور وتاجر برادریوں کے احتجاج، بیروزگاری،مہنگائی اور بجلی وگیس کے قیمتوںمیں اضافہ سے عوام پر پڑنے والے مالی بوجھ کا ادراک کرنا چاہیے۔
حکومت مخالف رہنماؤں کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کے جھوٹے دعویدار بے نقاب ہوگئے، ان کے مطابق شرح سود ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، ایسے میں کام کیسے چلے گا۔ ارباب اختیار کے لیے لازم ہے کہ وہ اس تاثر کو مٹائیں کہ معاشی پالیسیوں کا اختیار آئی ایم ایف کو دیا گیا ہے جب کہ حکومت کی نگاہیں صرف اقتصادی اور مالیاتی اونٹ کے کروٹ لینے پر ہیں ، کسی کو اس بات کی فکر بھی تو کرنی چاہیے کہ عوام کا بھرکس کیوں نکل رہا ہے۔افتادگان خاک کا کیا بنے گا؟