حمایت علی شاعر
حمایت بھائی کی شاعری سے ابتدائی تعارف میں ایک اور مرحوم دوست موسیقار خلیل احمدکابہت ہاتھ ہے۔
لاہور:
ساری اُردودنیا کے لیے حمایت علی شاعر اور ہمارے ادبی حلقوں کے حمایت بھائی بھی ایک خاصی طویل علالت کے بعد اُس علاقے کی طرف رجعت کرگئے جہاں ہر ذی روح انسان کے نام کی تختی اُس کا انتظار کر رہی ہے دیکھنے والی بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ آپ جب تک جیئے کیسے جیئے اور یہ کہ لوگ آپ کے جانے کے بعد آپ کو کن لفظوں میں اور کتنا یاد رکھتے ہیں، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حمایت بھائی کی زندگی کے ترانوے برس بلاشبہ اُن زندگیوں میں شمار ہوتے ہیں جو پسندیدہ اور قابلِ فخر کے دائرے میں گردش کرتی ہیں۔
حمایت بھائی کی شاعری سے ابتدائی تعارف میں ایک اور مرحوم دوست موسیقار خلیل احمدکابہت ہاتھ ہے کہ غالباً ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں انھوں نے مختلف فلموں کے لیے حمایت بھائی کے کچھ ایسے گیت کمپوز کیے جو آج بھی لوگوں کے دلوں اور یادوں میں تازہ ہیں، یہ دور وہ تھا جب حمایت بھائی بیک وقت ادب اور فلم کے میدانوں میں اپنا سکہ جما رہے تھے۔
مجھے یاد ہے اُن کی پروڈیوس کی ہوئی ایک فلم ''لوری''کے مکالمے احمد ندیم قاسمی صاحب نے لکھے تھے عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کا انتقال بھی اسی مہینے یعنی جولائی میں ہوا۔ یوں تو اُس زمانے میں کئی باکمال شاعر ترنم سے اپنا کلام پیش کرتے تھے مگر جن تین شاعروں کا ترنم اُن کی پہچان بنا وہ جمیل الدین عالیؔ، مظفر وارثی اور حمایت علی شاعر ہی تھے۔
میں نے اتفاق سے ان تینوں احباب کے ساتھ مشاعرے پڑھے۔بیرون ملک سفر کرنے اور ان کوایک ہی مشاعرے میں بارہا ایک ساتھ سننے کا موقع بھی ملا ہے جو ہماری پوری نسل کے لیے ایک تحفے اورخوبصورت یاد سے کم نہیں لیکن حمایت بھائی کی شخصیت کا اصل روپ اُن کی زندگی، انصاف ، انقلاب اور انسانی حقوق کی وہ پاسداری تھی جس نے اُن کی شاعری اور نظریات میں ایک انوکھی طاقت بھر دی تھی، وہ ایک اہلِ نظر ، صائب الرائے اور صاحبِ فکر لکھاری تھے اُن کی نظمیں ہوں، غزلیں یا ثلاثی یا نثری تحریریں اورمصاحبے ہر جگہ اُن کا گہرامطالعہ حیات اور سماج سے کمٹمنٹ ایک واضح اثر چھوڑتے نظر آتے ہیں وہ ایک خوش وضع اور خوش گفتار انسان تھے اور اُن سے بات کرکے یا اُن کا کلام سن یا پڑھ کرہمیشہ فرحت اور اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔ اپنے انتہائی مقبول اور خوش آہنگ ترنم کے باوجود وہ ہر شعری محفل میں اپنی فکر انگیز اور زندگی آمیز نظمیں ضرور سناتے تھے اور یوں ساقیؔ کے اُس شعرکی عملی تائید کرتے تھے کہ
اہلِ معنی کو ہے لازم سخن آرائی بھی
بزم میں اہلِ نظر ہی ہیں تماشائی بھی
گزشتہ چند برسوں سے وہ مسلسل علیل چلے آرہے تھے اور اُن کے صاحبزادے عزیزی اوجِ کمال سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اُن کی یادداشت بھی بہت زیادہ متاثر ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اُن کا کہیں آنا جانا اور ملنا جلنا بھی بہت محدود ہوگیا تھا ۔
گزشتہ برس کینیڈا کے ایک دورے کے درمیان باوجود کوشش کے اُن سے ملاقات نہ ہوسکی کہ اُن کے وہاں مقیم بچوں کے بقول وہ اب بہت کم کسی کو پہچان پاتے تھے اُن کے ساتھ کیے ہوئے سفر اور اُن سے کی ہوئی ملاقاتوں اور باتوں کا ایک ہجوم سا اس وقت مجھے گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اس ذکر کو کسی اور وقت پر اُٹھاتے ہوئے اُن کے چند اشعار کی صحبت میں آپ کو بھی ساتھ رکھنا چاہتا ہوں کہ شائد اس کی معرفت ہم اپنے اس جانے والے عزیزی دوست کو زیادہ بہتر خراج تحسین پیش کرسکتے ہیں۔
میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ مری بات
خوشبو کی طرح اُڑ کے ترے دل میں اُتر جائے
''سیاست'' کے عنوان سے لکھی گئی اُن کی ہی آٹھ لائنوں پر مشتمل نظم ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی ہے ۔
یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے!
میں سمجھتا ہوں میں بھی حق پر ہوں
تم سمجھتے ہو تم بھی حق پر ہو
میں تمہیں ماردوں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید
میں ہوں یا تم، یہاں بفضلِ خدا
سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں
ہیئت کے اعتبار سے تین مصرعوں پر مشتمل نظموں کو طرح طرح کے نام دیے گئے ہیں مگر حمایت علی شاعر نے انھیں ''ثلاثی'' کا عنوان دیا ہے اس کے کچھ نمونے دیکھیئے۔
کس طرح تراش کر سجائیں
ان دیکھے خیال کے بدن پر
لفظوں کی مِلی ہوئی قبائیں
............
شب کو سورج کہاں نکلتا ہے
اس جہاں میں تو اپنا سایا بھی
روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے
مرنا ہے تو دنیا میں تماشا کوئی کرجا
جینا ہے تو اک گوشہ تنہائی میں اے دل
معنی کی طرح لفظ کے سینے میں اُتر جا
............
اپنی زمیں کا حسن تھا اپنی نظر سے دُور
دنیا کو ماہتاب سے دیکھا تو یہ کُھلا
ہم ہوں اگر بلند تو یہ خاک بھی ہے نُور
اور اب چند غزلیہ اشعار کہ جن میں سے بیشتر اپنے انداز اور لہجے سے ہی اپنے لکھنے والے کا پتہ دے رہے ہیں۔ ربِ کریم اُن کی رُوح کو اپنی امان میں رکھے۔
چہرے پہ عمر بھر کی مسافت رقم سہی
دل کے لیے تمام سفر لمحہ بھر کا تھا
............
آتش کدہ دل کو ہَوا کیوں نہیں دیتے
پتھر تو نہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے
بیٹھے ہو جو یوں جسم کی قبروں میں سمٹ کر
کتبہ بھی سرِ قبر لگا کیوں نہیں دیتے
............
اک جبرِ وقت ہے کہ سہے جارہے ہیں ہم
اور اس کو زندگی بھی کہے جارہے ہیں ہم
اعجاز دیدنی ہے، طلسمِ سراب کا
دریا رکا ہوا ہے، بہے جارہے ہیں ہم
............
شبِ سیہ میں چراغِ نظر تری آنکھیں
رہِ حیات میں رختِ سفرتری آنکھیں
تو ساتھ ہوکہ نہ ہو زندگی کی راہوں میں
رہیں ہمیشہ مری ہم سفر، تری آنکھیں
ساری اُردودنیا کے لیے حمایت علی شاعر اور ہمارے ادبی حلقوں کے حمایت بھائی بھی ایک خاصی طویل علالت کے بعد اُس علاقے کی طرف رجعت کرگئے جہاں ہر ذی روح انسان کے نام کی تختی اُس کا انتظار کر رہی ہے دیکھنے والی بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ آپ جب تک جیئے کیسے جیئے اور یہ کہ لوگ آپ کے جانے کے بعد آپ کو کن لفظوں میں اور کتنا یاد رکھتے ہیں، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حمایت بھائی کی زندگی کے ترانوے برس بلاشبہ اُن زندگیوں میں شمار ہوتے ہیں جو پسندیدہ اور قابلِ فخر کے دائرے میں گردش کرتی ہیں۔
حمایت بھائی کی شاعری سے ابتدائی تعارف میں ایک اور مرحوم دوست موسیقار خلیل احمدکابہت ہاتھ ہے کہ غالباً ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں انھوں نے مختلف فلموں کے لیے حمایت بھائی کے کچھ ایسے گیت کمپوز کیے جو آج بھی لوگوں کے دلوں اور یادوں میں تازہ ہیں، یہ دور وہ تھا جب حمایت بھائی بیک وقت ادب اور فلم کے میدانوں میں اپنا سکہ جما رہے تھے۔
مجھے یاد ہے اُن کی پروڈیوس کی ہوئی ایک فلم ''لوری''کے مکالمے احمد ندیم قاسمی صاحب نے لکھے تھے عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کا انتقال بھی اسی مہینے یعنی جولائی میں ہوا۔ یوں تو اُس زمانے میں کئی باکمال شاعر ترنم سے اپنا کلام پیش کرتے تھے مگر جن تین شاعروں کا ترنم اُن کی پہچان بنا وہ جمیل الدین عالیؔ، مظفر وارثی اور حمایت علی شاعر ہی تھے۔
میں نے اتفاق سے ان تینوں احباب کے ساتھ مشاعرے پڑھے۔بیرون ملک سفر کرنے اور ان کوایک ہی مشاعرے میں بارہا ایک ساتھ سننے کا موقع بھی ملا ہے جو ہماری پوری نسل کے لیے ایک تحفے اورخوبصورت یاد سے کم نہیں لیکن حمایت بھائی کی شخصیت کا اصل روپ اُن کی زندگی، انصاف ، انقلاب اور انسانی حقوق کی وہ پاسداری تھی جس نے اُن کی شاعری اور نظریات میں ایک انوکھی طاقت بھر دی تھی، وہ ایک اہلِ نظر ، صائب الرائے اور صاحبِ فکر لکھاری تھے اُن کی نظمیں ہوں، غزلیں یا ثلاثی یا نثری تحریریں اورمصاحبے ہر جگہ اُن کا گہرامطالعہ حیات اور سماج سے کمٹمنٹ ایک واضح اثر چھوڑتے نظر آتے ہیں وہ ایک خوش وضع اور خوش گفتار انسان تھے اور اُن سے بات کرکے یا اُن کا کلام سن یا پڑھ کرہمیشہ فرحت اور اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔ اپنے انتہائی مقبول اور خوش آہنگ ترنم کے باوجود وہ ہر شعری محفل میں اپنی فکر انگیز اور زندگی آمیز نظمیں ضرور سناتے تھے اور یوں ساقیؔ کے اُس شعرکی عملی تائید کرتے تھے کہ
اہلِ معنی کو ہے لازم سخن آرائی بھی
بزم میں اہلِ نظر ہی ہیں تماشائی بھی
گزشتہ چند برسوں سے وہ مسلسل علیل چلے آرہے تھے اور اُن کے صاحبزادے عزیزی اوجِ کمال سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اُن کی یادداشت بھی بہت زیادہ متاثر ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اُن کا کہیں آنا جانا اور ملنا جلنا بھی بہت محدود ہوگیا تھا ۔
گزشتہ برس کینیڈا کے ایک دورے کے درمیان باوجود کوشش کے اُن سے ملاقات نہ ہوسکی کہ اُن کے وہاں مقیم بچوں کے بقول وہ اب بہت کم کسی کو پہچان پاتے تھے اُن کے ساتھ کیے ہوئے سفر اور اُن سے کی ہوئی ملاقاتوں اور باتوں کا ایک ہجوم سا اس وقت مجھے گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اس ذکر کو کسی اور وقت پر اُٹھاتے ہوئے اُن کے چند اشعار کی صحبت میں آپ کو بھی ساتھ رکھنا چاہتا ہوں کہ شائد اس کی معرفت ہم اپنے اس جانے والے عزیزی دوست کو زیادہ بہتر خراج تحسین پیش کرسکتے ہیں۔
میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ مری بات
خوشبو کی طرح اُڑ کے ترے دل میں اُتر جائے
''سیاست'' کے عنوان سے لکھی گئی اُن کی ہی آٹھ لائنوں پر مشتمل نظم ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی ہے ۔
یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے!
میں سمجھتا ہوں میں بھی حق پر ہوں
تم سمجھتے ہو تم بھی حق پر ہو
میں تمہیں ماردوں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید
میں ہوں یا تم، یہاں بفضلِ خدا
سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں
ہیئت کے اعتبار سے تین مصرعوں پر مشتمل نظموں کو طرح طرح کے نام دیے گئے ہیں مگر حمایت علی شاعر نے انھیں ''ثلاثی'' کا عنوان دیا ہے اس کے کچھ نمونے دیکھیئے۔
کس طرح تراش کر سجائیں
ان دیکھے خیال کے بدن پر
لفظوں کی مِلی ہوئی قبائیں
............
شب کو سورج کہاں نکلتا ہے
اس جہاں میں تو اپنا سایا بھی
روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے
مرنا ہے تو دنیا میں تماشا کوئی کرجا
جینا ہے تو اک گوشہ تنہائی میں اے دل
معنی کی طرح لفظ کے سینے میں اُتر جا
............
اپنی زمیں کا حسن تھا اپنی نظر سے دُور
دنیا کو ماہتاب سے دیکھا تو یہ کُھلا
ہم ہوں اگر بلند تو یہ خاک بھی ہے نُور
اور اب چند غزلیہ اشعار کہ جن میں سے بیشتر اپنے انداز اور لہجے سے ہی اپنے لکھنے والے کا پتہ دے رہے ہیں۔ ربِ کریم اُن کی رُوح کو اپنی امان میں رکھے۔
چہرے پہ عمر بھر کی مسافت رقم سہی
دل کے لیے تمام سفر لمحہ بھر کا تھا
............
آتش کدہ دل کو ہَوا کیوں نہیں دیتے
پتھر تو نہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے
بیٹھے ہو جو یوں جسم کی قبروں میں سمٹ کر
کتبہ بھی سرِ قبر لگا کیوں نہیں دیتے
............
اک جبرِ وقت ہے کہ سہے جارہے ہیں ہم
اور اس کو زندگی بھی کہے جارہے ہیں ہم
اعجاز دیدنی ہے، طلسمِ سراب کا
دریا رکا ہوا ہے، بہے جارہے ہیں ہم
............
شبِ سیہ میں چراغِ نظر تری آنکھیں
رہِ حیات میں رختِ سفرتری آنکھیں
تو ساتھ ہوکہ نہ ہو زندگی کی راہوں میں
رہیں ہمیشہ مری ہم سفر، تری آنکھیں