عظیم معدومیت حصہ اول
آسمان صاف ہوا توکرنوں نے دیکھا کہ زمین پر موجود سب سے بڑی مخلوق صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔
دورکہیں آسماں پر آگ کا گولہ نمودار ہوا اور زمین سے ٹکرا گیا۔ قریبی جنگلوں میں آگ لگ گئی اور مٹی کے عظیم بادل نے پورے کرہ ارض کو ڈھک لیا۔مہینوں سورج نے دھرتی کی صورت نہ دیکھی۔بالآخر جب آسمان صاف ہوا توکرنوں نے دیکھا کہ زمین پر موجود سب سے بڑی مخلوق صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔
ڈائنوسارکی پوری نسل ایک کائناتی ٹکراؤ کے نتیجے میں ختم ہوگئی تھی۔ یہ 66 ملین سال پہلے کی بات ہے جب زمین سے تقریباً 8 میل قطرکا پتھر جا ٹکرایا تھا۔ اس سے مٹی کے اتنے بادل اٹھے تھے کہ پوری زمین مٹی کے دبیزکمبل میں ڈھک گئی تھی اور نتیجتاً صرف ڈائنوسارکی موت بڑی تعداد کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا۔ ماہرین ارضیات اس واقعے کو عظیم معدومیت (Mass Extinction) کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
لیکن یہ ٹکراؤ کیوں ہوا تھا؟ کیا یہ محض ایک اتفاقی حادثہ تھا یا زمین کی بدبختی لیکن حال ہی میں محققین کو ایک عجیب و غریب بات کے شواہد ملے۔زمین پر ہر 26 ملین سال بعد عظیم معدومیت کا عمل ہوتا رہا ہے اور ڈائنوسارکی موت بھی اسی ڈرامے کا ایک سین ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نظام شمسی میں ایک نہیں دو سورج ہیں۔ جی ہاں دو سورج ! دوسرا سورج جسے سائنسدان نیمیسس (Nemesis) کا نام دیتے ہیں، 26 ملین سال کے وقفے سے نظام شمسی کے بیرونی حصے سے گزرتا ہے۔ یہاں پرکائناتی دھول مٹی کا بہت بڑا بادل ''اوورٹ بادل'' (Oort Cloud) موجود ہے نیمیسس کی قوت ثقل کی وجہ سے ''اوورٹ بادل'' سے پتھروں اور دم دار ستاروں کی بارش سیاروں پر برستی ہے اور زمین پر موجود نازک زندگی سنگسار ہو جاتی ہے۔
ایک اور طبقے کے خیال میں موت کا ستارہ نہیں بلکہ '' موت کا سیارہ '' اصل ملزم ہے۔ نظام شمسی کا یہ سیارہ خفیہ سیارہ ''ایکس'' (Planet X) ہے۔ اس کا مدار سیاروں کے مدار کے عمودی (Perpendlcular) ہے اور شاید اسی وجہ سے اب تک انسان کی نگاہوں اور آلات سے اوجھل ہے۔ بہرحال یہ بھی ہر 26 ملین سال بعد اوورٹ بادل سے گزرکر موت کا تحفہ دے جاتا ہے۔ خفیہ سیارہ ہو یا دوسرا ستارہ، ہر 26 ملین سال بعد زندگی کو موت آہی جاتی ہے لیکن اب کائناتی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ گردش (سائیکل) ٹوٹ جائے گی۔ زمین پر عظیم معدومیت کے لیے نیمیسس یا سیارہ ''ایکس'' کو زحمت نہیں کرنی پڑے گی اس لیے کہ یہ ذمے داری خود انسان نے اپنے ناتواں کاندھوں پر لے لی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دم دار ستاروں کی اگلی بارش کا نظارہ دیکھنے کے لیے سیارہ ''زمین'' پر کوئی موجود نہ ہو۔ شاید خود یہ سیارہ بھی۔
سائنسدانوں کو چھ کروڑ لاکھ برس قبل زمین سے شہاب ثاقب کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے ثبوت ملے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس ٹکراؤکی وجہ سے ہی دنیا سے ڈائنوسار ختم ہوگئے تھے۔ امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں کھدائی کے دوران مچھلیوں اور درختوں کے فوسل دریافت کیے گئے ہیں جن پر وہ چٹانی اور شیشے کے ذرات موجود ہیں جو آسمان سے برسے تھے۔ ان باقیات کے پانی میں غرقاب ہونے کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں جوکہ شہاب ثاقب گرنے کے بعد اٹھنے والی دیوقامت لہروں کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تحقیق پی این اے ایس جرنل میں شایع کی گئی ہے۔
یونیورسٹی آف کنساس سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈیپالما اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کھدائی کا مقام تانس نامی جگہ پر ہے اور اس سے ان واقعات کی شاندار جھلک ملتی ہے جو شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکراؤکے اندازاً دس منٹ سے چند گھنٹوں کے دوران رونما ہوئے ہوں گے۔ ان کے مطابق جب 12 کلومیٹر چوڑا شہابیہ اس مقام پرگرا جہاں آج خلیج میکسیکو ہے تو اس سے اربوں ٹن پگھلی ہوئی چٹانیں ہر سمت میں اڑی ہوں گی اور یہ ملبہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے تک گیا ہوگا۔
تانس کے مقام پر موجود فوسل اس وقت کی نشانی ہے جب یہ ملبہ اچھلنے کے بعد دوبارہ گرا اور اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔ مچھلیوں کے فوسل میں یہ ملبہ ان کے گلپھڑوں میں ملا جو ممکنہ طور پر سانس لینے کے عمل کے دوران ان کے جسم میں آیا ہوگا۔ اس کے علاوہ درختوں کے رکاز میں بھی اس ملبے کے ذرات ملے ہیں۔
ارضیاتی کیمیا کے ماہرین نے ان ذرات کا تعلق خلیج میکسیکو میں چکسولب کہے جانے والے مقام سے جوڑا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ملبہ چھ کروڑ 57 لاکھ 60 ہزار برس قدیم ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا اور اس کے ثبوت دنیا کے دیگر مقامات سے بھی مل چکے ہیں۔
تانس میں جو باقیات دریافت ہوئی ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان سے لگتا ہے کہ وہ پانی کی ایک بہت بڑی لہر میں بہہ کر آئی ہیں۔ اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ شہاب ثاقب ٹکرانے سے ایک بہت بڑی سونامی نے جنم لیا تھا لیکن اس لہر کو خلیج میکسیکو سے شمالی ڈکوٹا پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے ہوں گے۔
تاہم محققین کا خیال ہے کہ دس گیارہ درجے کے زلزلے سے ملتی جلتی شاک ویو نے اس سونامی کے آنے سے کہیں پہلے علاقے کے سمندر میں تلاطم برپا کیا ہوگا اور یہی پانی بڑی لہر کی شکل میں زمین پر آیا ہوگا۔ یہ لہر اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے گئی ہوگی اور ان چیزوں کو اس مقام پر جا پھینکا ہوگا جہاں وہ اب دریافت ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر ڈیپالما کا کہنا ہے کہ ''زمین پر چڑھ دوڑنے والی لہر نے تازہ پانی کی مچھلیوں، فقاریہ جانوروں، درختوں، شاخوں، تنوں سمیت بہت سی چیزوں کو یہاں تہہ در تہہ بچھادیا۔'' انھوں نے یہ بھی کہا کہ ''سونامی کو اس مقام پر پہنچنے میں کم ازکم 17گھنٹے لگے ہوں گے لیکن سیسمک لہریں اور پھر سمندری لہر یہاں چند منٹوں میں پہنچ گئی ہوگی۔
پی این اے ایس جرنل کی یہ تحقیق جو آن لائن شایع ہو رہی ہے اس میں اس تحقیق کے مصنف، والٹر آلوارز جو کیلیفورنیا کے ماہر ارضیات ہیں اور جنھوں نے اپنے والد لوئز آلوارز کے ساتھ اس نظریے پر کام کیا ہے، ڈائنوسار کیسے ختم ہوئے کو سراہا گیا ہے۔ ان ارضیاتی ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ زمین کے قدیم جغرافیائی ادوار میں چونے کی تہہ میں اریڈیم دھات کثرت سے موجود ہے جو شہاب ثاقب اور شہابی پتھروں میں پایا جانے والا جزوی عنصر ہے۔ اریڈیم دھات کے ذرات تانس میں موجود باقیات سے بھی ملے تھے۔
پروفیسر آلوارزکا کہنا ہے کہ ''جب ہم شہاب ثاقب کے زمین پرگرنے سے ڈائنوسارز کے دنیا سے ختم ہونے کے مفروضے کی بات کرتے تھے تو یہ اریڈیم دھات کی موجودگی کی بنا پر کہتے تھے جوکسی شہاب ثاقب یا دم دار ستارے میں پائی جاتی ہے۔ تب سے ہم اس کے ثبوت بتدریج اکٹھے کر رہے تھے لیکن مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہم اس طرح کی جگہ تک رسائی حاصل کرسکیں گے جہاں اس وقت کے جانوروں کے فوسل بڑی تعداد میں موجود ہوں۔
یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے فل ماننگ نے، جو اس تحقیقی مقالے میں واحد برطانوی مصنف ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ''یہ دنیا کی اہم جگہوں میں سے ایک جگہ ہے، آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کو ڈائنوسار کے دنیا میں آخری دن کے بارے میں واقعی جاننا ہے تو اس کے لیے یہی جگہ ہے۔
چکزولوب کا آتش فشائی عمل
ایک 12 کلو میٹر چوڑے پتھر نے 100 کلو میٹر تک زمین پرگڑھا بنادیا جو 30 کلومیٹر گہرا ہے۔یہ گڑھا پھر منہدم ہوگیا اور آتش فشاں کے دہانے کو 200 کلومیٹر تک پھیلایا اور چند کلومیٹر گہرائی تک محدود کیا۔ آج اس آتش فشاں کا زیادہ تر حصہ ساحل میں 600 میٹر زمین کی تہہ میں دفن ہوگیا ہے۔ زمین پر اس کو چونے کی چٹانوں نے ڈھانپ لیا ہے۔سائنسدانوں نے حال ہی میں یہاں کھدائی کی ہے تاکہ وہ آتش فشاں کی ساخت اور اس کے بننے کی وجوہات جان سکیں۔
شہاب ثاقب ہوں یا دم دار ستارے دونوں ہی اکثر زمین پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہیلی کا دم دار سیارہ مشہور ہے۔ ہیلی کا دم دار سیارہ تقریباً 76 سال بعد زمین سے گزرتا ہے، برطانوی فلکیات دان ایڈمونڈ ہیلی نے نوٹ کیا کہ یہ دم دار سیارہ 1758 کو ایک بار پھر نمودار ہوگا اور اپنے دوست نیوٹن کو اس کے بارے میں بتایا، مگر 1758 کو جب یہ دم دار سیارہ واقعی دوبارہ نمودار ہوا تو ایڈمونڈ ہیلی اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں تھا، وہ اس سے چھ سال پہلے ہی مر چکا تھا، چنانچہ اس فلکیاتی دریافت اور ایڈمونڈ ہیلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس دم دار ستارے کا نام ہیلی کا دم دار سیارہ رکھ دیا گیا۔
(جاری ہے-)
ڈائنوسارکی پوری نسل ایک کائناتی ٹکراؤ کے نتیجے میں ختم ہوگئی تھی۔ یہ 66 ملین سال پہلے کی بات ہے جب زمین سے تقریباً 8 میل قطرکا پتھر جا ٹکرایا تھا۔ اس سے مٹی کے اتنے بادل اٹھے تھے کہ پوری زمین مٹی کے دبیزکمبل میں ڈھک گئی تھی اور نتیجتاً صرف ڈائنوسارکی موت بڑی تعداد کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا۔ ماہرین ارضیات اس واقعے کو عظیم معدومیت (Mass Extinction) کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
لیکن یہ ٹکراؤ کیوں ہوا تھا؟ کیا یہ محض ایک اتفاقی حادثہ تھا یا زمین کی بدبختی لیکن حال ہی میں محققین کو ایک عجیب و غریب بات کے شواہد ملے۔زمین پر ہر 26 ملین سال بعد عظیم معدومیت کا عمل ہوتا رہا ہے اور ڈائنوسارکی موت بھی اسی ڈرامے کا ایک سین ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نظام شمسی میں ایک نہیں دو سورج ہیں۔ جی ہاں دو سورج ! دوسرا سورج جسے سائنسدان نیمیسس (Nemesis) کا نام دیتے ہیں، 26 ملین سال کے وقفے سے نظام شمسی کے بیرونی حصے سے گزرتا ہے۔ یہاں پرکائناتی دھول مٹی کا بہت بڑا بادل ''اوورٹ بادل'' (Oort Cloud) موجود ہے نیمیسس کی قوت ثقل کی وجہ سے ''اوورٹ بادل'' سے پتھروں اور دم دار ستاروں کی بارش سیاروں پر برستی ہے اور زمین پر موجود نازک زندگی سنگسار ہو جاتی ہے۔
ایک اور طبقے کے خیال میں موت کا ستارہ نہیں بلکہ '' موت کا سیارہ '' اصل ملزم ہے۔ نظام شمسی کا یہ سیارہ خفیہ سیارہ ''ایکس'' (Planet X) ہے۔ اس کا مدار سیاروں کے مدار کے عمودی (Perpendlcular) ہے اور شاید اسی وجہ سے اب تک انسان کی نگاہوں اور آلات سے اوجھل ہے۔ بہرحال یہ بھی ہر 26 ملین سال بعد اوورٹ بادل سے گزرکر موت کا تحفہ دے جاتا ہے۔ خفیہ سیارہ ہو یا دوسرا ستارہ، ہر 26 ملین سال بعد زندگی کو موت آہی جاتی ہے لیکن اب کائناتی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ گردش (سائیکل) ٹوٹ جائے گی۔ زمین پر عظیم معدومیت کے لیے نیمیسس یا سیارہ ''ایکس'' کو زحمت نہیں کرنی پڑے گی اس لیے کہ یہ ذمے داری خود انسان نے اپنے ناتواں کاندھوں پر لے لی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دم دار ستاروں کی اگلی بارش کا نظارہ دیکھنے کے لیے سیارہ ''زمین'' پر کوئی موجود نہ ہو۔ شاید خود یہ سیارہ بھی۔
سائنسدانوں کو چھ کروڑ لاکھ برس قبل زمین سے شہاب ثاقب کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے ثبوت ملے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس ٹکراؤکی وجہ سے ہی دنیا سے ڈائنوسار ختم ہوگئے تھے۔ امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں کھدائی کے دوران مچھلیوں اور درختوں کے فوسل دریافت کیے گئے ہیں جن پر وہ چٹانی اور شیشے کے ذرات موجود ہیں جو آسمان سے برسے تھے۔ ان باقیات کے پانی میں غرقاب ہونے کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں جوکہ شہاب ثاقب گرنے کے بعد اٹھنے والی دیوقامت لہروں کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تحقیق پی این اے ایس جرنل میں شایع کی گئی ہے۔
یونیورسٹی آف کنساس سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈیپالما اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کھدائی کا مقام تانس نامی جگہ پر ہے اور اس سے ان واقعات کی شاندار جھلک ملتی ہے جو شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکراؤکے اندازاً دس منٹ سے چند گھنٹوں کے دوران رونما ہوئے ہوں گے۔ ان کے مطابق جب 12 کلومیٹر چوڑا شہابیہ اس مقام پرگرا جہاں آج خلیج میکسیکو ہے تو اس سے اربوں ٹن پگھلی ہوئی چٹانیں ہر سمت میں اڑی ہوں گی اور یہ ملبہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے تک گیا ہوگا۔
تانس کے مقام پر موجود فوسل اس وقت کی نشانی ہے جب یہ ملبہ اچھلنے کے بعد دوبارہ گرا اور اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔ مچھلیوں کے فوسل میں یہ ملبہ ان کے گلپھڑوں میں ملا جو ممکنہ طور پر سانس لینے کے عمل کے دوران ان کے جسم میں آیا ہوگا۔ اس کے علاوہ درختوں کے رکاز میں بھی اس ملبے کے ذرات ملے ہیں۔
ارضیاتی کیمیا کے ماہرین نے ان ذرات کا تعلق خلیج میکسیکو میں چکسولب کہے جانے والے مقام سے جوڑا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ملبہ چھ کروڑ 57 لاکھ 60 ہزار برس قدیم ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا اور اس کے ثبوت دنیا کے دیگر مقامات سے بھی مل چکے ہیں۔
تانس میں جو باقیات دریافت ہوئی ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان سے لگتا ہے کہ وہ پانی کی ایک بہت بڑی لہر میں بہہ کر آئی ہیں۔ اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ شہاب ثاقب ٹکرانے سے ایک بہت بڑی سونامی نے جنم لیا تھا لیکن اس لہر کو خلیج میکسیکو سے شمالی ڈکوٹا پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے ہوں گے۔
تاہم محققین کا خیال ہے کہ دس گیارہ درجے کے زلزلے سے ملتی جلتی شاک ویو نے اس سونامی کے آنے سے کہیں پہلے علاقے کے سمندر میں تلاطم برپا کیا ہوگا اور یہی پانی بڑی لہر کی شکل میں زمین پر آیا ہوگا۔ یہ لہر اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے گئی ہوگی اور ان چیزوں کو اس مقام پر جا پھینکا ہوگا جہاں وہ اب دریافت ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر ڈیپالما کا کہنا ہے کہ ''زمین پر چڑھ دوڑنے والی لہر نے تازہ پانی کی مچھلیوں، فقاریہ جانوروں، درختوں، شاخوں، تنوں سمیت بہت سی چیزوں کو یہاں تہہ در تہہ بچھادیا۔'' انھوں نے یہ بھی کہا کہ ''سونامی کو اس مقام پر پہنچنے میں کم ازکم 17گھنٹے لگے ہوں گے لیکن سیسمک لہریں اور پھر سمندری لہر یہاں چند منٹوں میں پہنچ گئی ہوگی۔
پی این اے ایس جرنل کی یہ تحقیق جو آن لائن شایع ہو رہی ہے اس میں اس تحقیق کے مصنف، والٹر آلوارز جو کیلیفورنیا کے ماہر ارضیات ہیں اور جنھوں نے اپنے والد لوئز آلوارز کے ساتھ اس نظریے پر کام کیا ہے، ڈائنوسار کیسے ختم ہوئے کو سراہا گیا ہے۔ ان ارضیاتی ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ زمین کے قدیم جغرافیائی ادوار میں چونے کی تہہ میں اریڈیم دھات کثرت سے موجود ہے جو شہاب ثاقب اور شہابی پتھروں میں پایا جانے والا جزوی عنصر ہے۔ اریڈیم دھات کے ذرات تانس میں موجود باقیات سے بھی ملے تھے۔
پروفیسر آلوارزکا کہنا ہے کہ ''جب ہم شہاب ثاقب کے زمین پرگرنے سے ڈائنوسارز کے دنیا سے ختم ہونے کے مفروضے کی بات کرتے تھے تو یہ اریڈیم دھات کی موجودگی کی بنا پر کہتے تھے جوکسی شہاب ثاقب یا دم دار ستارے میں پائی جاتی ہے۔ تب سے ہم اس کے ثبوت بتدریج اکٹھے کر رہے تھے لیکن مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہم اس طرح کی جگہ تک رسائی حاصل کرسکیں گے جہاں اس وقت کے جانوروں کے فوسل بڑی تعداد میں موجود ہوں۔
یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے فل ماننگ نے، جو اس تحقیقی مقالے میں واحد برطانوی مصنف ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ''یہ دنیا کی اہم جگہوں میں سے ایک جگہ ہے، آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کو ڈائنوسار کے دنیا میں آخری دن کے بارے میں واقعی جاننا ہے تو اس کے لیے یہی جگہ ہے۔
چکزولوب کا آتش فشائی عمل
ایک 12 کلو میٹر چوڑے پتھر نے 100 کلو میٹر تک زمین پرگڑھا بنادیا جو 30 کلومیٹر گہرا ہے۔یہ گڑھا پھر منہدم ہوگیا اور آتش فشاں کے دہانے کو 200 کلومیٹر تک پھیلایا اور چند کلومیٹر گہرائی تک محدود کیا۔ آج اس آتش فشاں کا زیادہ تر حصہ ساحل میں 600 میٹر زمین کی تہہ میں دفن ہوگیا ہے۔ زمین پر اس کو چونے کی چٹانوں نے ڈھانپ لیا ہے۔سائنسدانوں نے حال ہی میں یہاں کھدائی کی ہے تاکہ وہ آتش فشاں کی ساخت اور اس کے بننے کی وجوہات جان سکیں۔
شہاب ثاقب ہوں یا دم دار ستارے دونوں ہی اکثر زمین پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہیلی کا دم دار سیارہ مشہور ہے۔ ہیلی کا دم دار سیارہ تقریباً 76 سال بعد زمین سے گزرتا ہے، برطانوی فلکیات دان ایڈمونڈ ہیلی نے نوٹ کیا کہ یہ دم دار سیارہ 1758 کو ایک بار پھر نمودار ہوگا اور اپنے دوست نیوٹن کو اس کے بارے میں بتایا، مگر 1758 کو جب یہ دم دار سیارہ واقعی دوبارہ نمودار ہوا تو ایڈمونڈ ہیلی اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں تھا، وہ اس سے چھ سال پہلے ہی مر چکا تھا، چنانچہ اس فلکیاتی دریافت اور ایڈمونڈ ہیلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس دم دار ستارے کا نام ہیلی کا دم دار سیارہ رکھ دیا گیا۔
(جاری ہے-)