حکمرانی مقبولیت غیرمقبولیت
جو گروہ معاشرے میں بسنے والے مختلف طبقوں کو یکجا کرکے ان کی فلاح کا راستہ اپناتاہے وہ مقبول اور کامیاب حکمراں ہوتا ہے۔
انسانی سماج کے چلانے کے علم کو سیاست کہتے ہیں جو گروہ یا فرد معاشرے میں بسنے والے مختلف طبقوں کو یکجا کرکے ان کی فلاح کا راستہ اپناتاہے۔ وہ مقبول اور کامیاب حکمراں ہوتا ہے اور جو گروہ انسانی نفسیات اور ان کے جذبات کو ابھار کر اقتدار حاصل کرلیتا ہے اور اپنے دعوئوں اور نعروں کو بھول جاتاہے وہ زیادہ عرصہ برسر اقتدار نہیں رہ پاتا۔ ماضی کا شہنشاہی نظام ہو یا نئے دور کی پارلیمانی جمہوریت، عوام کو مطمئن کرنے والے حکمرانوں نے طویل عرصے حکمرانی کی ہے، پاکستان کی66سالہ تاریخ میں جس میں فوجی حکمراں بھی رہے اور سول افراد کی حکمرانی بھی رہی زیادہ تر لوگوں کو وہی لوگ یاد ہیں جنھوں نے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیے، ملک میں پہلا مارشل لاء لگانیوالے جنرل ایوب خان کو لوگ ان کی صنعتی پالیسی کے باعث آج بھی یاد کرتے ہیں۔
جب کہ ڈھاکہ فال کے بعد مغربی پاکستان کے حکمراں بننے والے ذوالفقار علی بھٹو کو اس وجہ سے یاد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بے آئین پاکستان کو 1973کا متفقہ آئین دیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی، بھارت کی قید سے 90 ہزار جنگی قیدی چھڑائے، پاکستان اسٹیل ہیوی الیکٹریکل و میکینکل کمپلیکس بنوایا اور ایٹمی ری پروسنگ کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کو ہر پاکستانی اس وجہ سے نہیں سراہتا کیوں کہ انھوںنے امریکا کے کہنے پر ملک کی جمہوری بساط لپیٹ دی، منتخب وزیراعظم کو سر دار چڑھا دیا اور امریکا کے ہی مفادات کے تحفظ کے لیے روس کے خلاف پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنادیا جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ و لسانی عصبیتوں کو فروغ ملا۔ پاکستانی معاشرہ میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا اور ایسے گروہ پیدا ہوئے جنھوںنے قانون کے بجائے بندوق کو اپنا قانون بنالیا۔
جنرل ضیا کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد منتخب ہونے والی کسی اسلامی ملک کی پہلی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو صرف ایک سال اور آٹھ ماہ کا موقع دیاگیا اور کرپشن اور بیڈ گورننس کا الزام لگاکر ہٹادیا گیا۔ انھوںنے اپنے مختصر دور اقتدار میں پاکستان اسٹیل پی آئی اے اور دیگر سرکاری نیم سرکاری اداروں کے نکالے ہوئے محنت کشوں کو نوکریوں پر بحال کیا، شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی۔ 1990کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر کے ووٹ بینک کو چرایا گیا اور IJI کے نام پر قائم کیے جانے والے سیاسی اتحاد کو کامیاب کرایاگیا جو زیادہ عرصہ قائم نہ رہا اور پھر انتخابات کرائے گئے اور 1993میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک بار پھر اقتدار سونپاگیا جو تین سال تک قائم رہا۔ 1996میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے ہٹاکر میاں نواز شریف کو اقتدار دیاگیا ان کے پاس اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی ان کے دور میں یلو کیب اسکیم اور چھوٹے قرضے کی اسکیمیں کامیاب ہوئیں اور عوام ان کو یلوکیب منصوبے کے باعث یاد کرتے ہیں۔
1999تک میاں نواز شریف کی حکمرانی قائم رہی پھر اس کے بعد پرویز مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا اور وہ خود برسر اقتدار آگئے۔ انھوںنے ناظمین کا بلدیاتی نظام متعارف کرایا۔ تین سال تک وہ مقبول رہے لیکن جب انھوںنے سیاسی جماعتوں کے باغی عناصر کو ملاکر مسلم لیگ (ق) بنائی ان پر تنقید شروع ہوگئی۔ انھوںنے اپنے میں دور الیکٹرانک میڈیا کو فروغ دیا۔ 9/11کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر فرنٹ لائن اسٹیٹ بنادیا، ان کے دور میں بلوچ رہنما اکبر بگٹی کو ایک کارروائی کے ذریعے ہلاک کیاگیا، لال مسجد آپریشن ہوا اور پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل کیاگیا جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔
آصف علی زرداری نے قومی مفاہمت کا سیاسی فارمولا اپناتے ہوئے ملک کی ان تمام سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں شامل کیا جو قومی وصوبائی اسمبلیوں میں کامیاب ہوکر آئی تھیں۔ میاں نواز شریف بھی کچھ عرصہ ان کے سیاسی اتحادی رہے۔ آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو مشکل اور خطرناک چیلنجز کے باوجود پانچ سال چلایا۔ نگراں حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کرائے۔ 1973کے آئین میں آمرانہ دور میں کی گئی تمام ترامیم کو ختم کیا۔ NFCایوارڈ دیاگیا، صوبائی خود مختاری جیسے خاص مسئلے کو حل کیا لیکن نہ وہ بہتر امن و امان قائم رکھ سکے اور نہ ہی بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پاسکے۔ آصف علی زرداری ملک کے پہلے صدر ہیں جو باعزت طورپر صدارت کے عہدے سیالگ ہوئے، ان کے دور کو منفی اور مثبت دونوں پہلوئوں سے یاد رکھاجائے گا۔
دو بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف اس وقت ملک کے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ انتخابی وعدوں میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بجلی اور گیس کا بحران ختم کردیںگے۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردیںگے، امریکا کی کاسہ لیسی ختم کراکے ڈرون حملے بند کردیں گے اور طالبان کی دہشت گردی روکنے کے لیے ان سے مذاکرات کریںگے اس وقت ان کو برسر اقتدار آئے ہوئے چند ماہ ہوئے ہیں، ان کی کارکردگی ابھی تک متاثر کن نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے وعدے بھی پورے نہیں کیے ہیں، ڈالر کی قیمت سو روپے سے زائد ہوگئی، بجلی اور گیس کا بحران جاری ہے، امن و امان کی صورتحال بھی زیادہ بہتر نہیں ہوئی ہے، ڈرون حملے جاری ہیں، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر اقتصادی نظام کو چلایا جارہاہے۔
اب تک ان کی کارکردگی کے بارے میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترے کیوںکہ انھوںنے مہنگائی، بیروزگاری، غربت کے خاتمے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی اور نہ ہی یہ محسوس ہورہاہے کہ ان کے پاس عوام کی بھلائی کا کوئی طویل المدتی منصوبہ موجود ہے۔ حال ہی میں کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے میاں نواز شریف کا دو روزہ دورہ اور اس میں کیے جانے والے فیصلوں کا کوئی واضح نتیجہ نظر نہیں آرہا ہے۔قتل کی وارداتیں کم ضرور ہوئی ہیں تاہم سلسلہ جاری ہے، مختلف علاقوں میں بیگناہ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں، تاجروں، صنعت کاروں اور عام آدمی سے بھتے کی وصولی جاری ہے، دیکھتے ہیں ایک ماہ بعد کیا صورتحال ہوتی ہے جس کے بارے میں میاں صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ ایک ماہ میں وہ کراچی میں امن قائم کردیںگے۔
جب کہ ڈھاکہ فال کے بعد مغربی پاکستان کے حکمراں بننے والے ذوالفقار علی بھٹو کو اس وجہ سے یاد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بے آئین پاکستان کو 1973کا متفقہ آئین دیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی، بھارت کی قید سے 90 ہزار جنگی قیدی چھڑائے، پاکستان اسٹیل ہیوی الیکٹریکل و میکینکل کمپلیکس بنوایا اور ایٹمی ری پروسنگ کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کو ہر پاکستانی اس وجہ سے نہیں سراہتا کیوں کہ انھوںنے امریکا کے کہنے پر ملک کی جمہوری بساط لپیٹ دی، منتخب وزیراعظم کو سر دار چڑھا دیا اور امریکا کے ہی مفادات کے تحفظ کے لیے روس کے خلاف پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنادیا جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ و لسانی عصبیتوں کو فروغ ملا۔ پاکستانی معاشرہ میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا اور ایسے گروہ پیدا ہوئے جنھوںنے قانون کے بجائے بندوق کو اپنا قانون بنالیا۔
جنرل ضیا کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد منتخب ہونے والی کسی اسلامی ملک کی پہلی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو صرف ایک سال اور آٹھ ماہ کا موقع دیاگیا اور کرپشن اور بیڈ گورننس کا الزام لگاکر ہٹادیا گیا۔ انھوںنے اپنے مختصر دور اقتدار میں پاکستان اسٹیل پی آئی اے اور دیگر سرکاری نیم سرکاری اداروں کے نکالے ہوئے محنت کشوں کو نوکریوں پر بحال کیا، شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی۔ 1990کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر کے ووٹ بینک کو چرایا گیا اور IJI کے نام پر قائم کیے جانے والے سیاسی اتحاد کو کامیاب کرایاگیا جو زیادہ عرصہ قائم نہ رہا اور پھر انتخابات کرائے گئے اور 1993میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک بار پھر اقتدار سونپاگیا جو تین سال تک قائم رہا۔ 1996میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے ہٹاکر میاں نواز شریف کو اقتدار دیاگیا ان کے پاس اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی ان کے دور میں یلو کیب اسکیم اور چھوٹے قرضے کی اسکیمیں کامیاب ہوئیں اور عوام ان کو یلوکیب منصوبے کے باعث یاد کرتے ہیں۔
1999تک میاں نواز شریف کی حکمرانی قائم رہی پھر اس کے بعد پرویز مشرف نے ان کا تختہ الٹ دیا اور وہ خود برسر اقتدار آگئے۔ انھوںنے ناظمین کا بلدیاتی نظام متعارف کرایا۔ تین سال تک وہ مقبول رہے لیکن جب انھوںنے سیاسی جماعتوں کے باغی عناصر کو ملاکر مسلم لیگ (ق) بنائی ان پر تنقید شروع ہوگئی۔ انھوںنے اپنے میں دور الیکٹرانک میڈیا کو فروغ دیا۔ 9/11کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر فرنٹ لائن اسٹیٹ بنادیا، ان کے دور میں بلوچ رہنما اکبر بگٹی کو ایک کارروائی کے ذریعے ہلاک کیاگیا، لال مسجد آپریشن ہوا اور پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل کیاگیا جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔
آصف علی زرداری نے قومی مفاہمت کا سیاسی فارمولا اپناتے ہوئے ملک کی ان تمام سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں شامل کیا جو قومی وصوبائی اسمبلیوں میں کامیاب ہوکر آئی تھیں۔ میاں نواز شریف بھی کچھ عرصہ ان کے سیاسی اتحادی رہے۔ آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو مشکل اور خطرناک چیلنجز کے باوجود پانچ سال چلایا۔ نگراں حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کرائے۔ 1973کے آئین میں آمرانہ دور میں کی گئی تمام ترامیم کو ختم کیا۔ NFCایوارڈ دیاگیا، صوبائی خود مختاری جیسے خاص مسئلے کو حل کیا لیکن نہ وہ بہتر امن و امان قائم رکھ سکے اور نہ ہی بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پاسکے۔ آصف علی زرداری ملک کے پہلے صدر ہیں جو باعزت طورپر صدارت کے عہدے سیالگ ہوئے، ان کے دور کو منفی اور مثبت دونوں پہلوئوں سے یاد رکھاجائے گا۔
دو بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف اس وقت ملک کے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ انتخابی وعدوں میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بجلی اور گیس کا بحران ختم کردیںگے۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردیںگے، امریکا کی کاسہ لیسی ختم کراکے ڈرون حملے بند کردیں گے اور طالبان کی دہشت گردی روکنے کے لیے ان سے مذاکرات کریںگے اس وقت ان کو برسر اقتدار آئے ہوئے چند ماہ ہوئے ہیں، ان کی کارکردگی ابھی تک متاثر کن نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے وعدے بھی پورے نہیں کیے ہیں، ڈالر کی قیمت سو روپے سے زائد ہوگئی، بجلی اور گیس کا بحران جاری ہے، امن و امان کی صورتحال بھی زیادہ بہتر نہیں ہوئی ہے، ڈرون حملے جاری ہیں، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر اقتصادی نظام کو چلایا جارہاہے۔
اب تک ان کی کارکردگی کے بارے میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترے کیوںکہ انھوںنے مہنگائی، بیروزگاری، غربت کے خاتمے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی اور نہ ہی یہ محسوس ہورہاہے کہ ان کے پاس عوام کی بھلائی کا کوئی طویل المدتی منصوبہ موجود ہے۔ حال ہی میں کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے میاں نواز شریف کا دو روزہ دورہ اور اس میں کیے جانے والے فیصلوں کا کوئی واضح نتیجہ نظر نہیں آرہا ہے۔قتل کی وارداتیں کم ضرور ہوئی ہیں تاہم سلسلہ جاری ہے، مختلف علاقوں میں بیگناہ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں، تاجروں، صنعت کاروں اور عام آدمی سے بھتے کی وصولی جاری ہے، دیکھتے ہیں ایک ماہ بعد کیا صورتحال ہوتی ہے جس کے بارے میں میاں صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ ایک ماہ میں وہ کراچی میں امن قائم کردیںگے۔