ہسٹریا اور ہپناسز

تنویمی ترغیبات کے ذریعے معمول پر التباس حواس کی کیفیت طاری کی جاسکتی ہے۔

waqar.ahmed@express.com.pk

تنویمی ترغیبات کے ذریعے معمول پر التباس حواس کی کیفیت طاری کی جاسکتی ہے۔ سامعہ (سننے کی حس) کو بھی فریب دیا جاسکتا ہے اور معمول کو ایسی آوازیں سنوائی جاسکتی ہیں جن کا خارج میں کہیں وجود ہی نہیں۔ بس یہ کافی ہے کہ معمول یہ باور کرے کہ اسے آواز سنائی دے رہی ہے، آواز سنائی دینے لگے گی۔ یہی حال ذائقے کا ہے، تنویمی حالت میں معمول، عامل کی ترغیبات کے تحت مٹھاس کو کڑواہٹ اور کڑواہٹ کو مٹھاس اور بدبو کو خوشبو محسوس کرسکتا ہے اور کرتا ہے، اسی طرح لامسہ (چھونے کی حس) اور شامہ (سونگھنے کی حس) کو بھی فریب دیا جاسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ تنویم کاری کے عمل پر تقریباً دو سو سال سے تحقیق ہورہی ہے لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ تنویمی نیند کی نوعیت کیا ہے؟ ہپناٹزم کی ابتدا مسمریزم سے ہوئی تھی۔ ہپناٹزم کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ہر جاندار کے جسم سے ایک پراسرار قوت (ODYLIC) خارج ہوتی ہے اور یہ قوت مریض کو بھلا چنگا کردیتی ہے۔

مسمریزم کرنے والا مختلف اشیا و اجسام مثلاً مقناطیسی اجزا، بلور اور پانی کو''مسمرائزڈ'' (یعنی اس پراسرار قوت کو ان اشیا میں منتقل کرکے) شفا بخشی کے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ بلاشبہ بارہا اس قوت کے مختلف مظاہر کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ مسمریزم کے ذریعے ہزارہا مریضوں کو شفا بخشی جاچکی ہے، خصوصاً اعصابی امراض میں تو علاج بذریعہ مسمریزم کے کارنامے مشہور عالم ہیں۔ مسمریزم کا ایک ماہر محقق (ESDAILE) لکھتا ہے کہ : ''یہ بات باور کرلینے کی مصدقہ دلیلیں موجود ہیں کہ ایک شخص کے جسم سے قوت حیات کی جو شفابخش لہریں خارج ہوتی ہیں، انھیں دوسرے آدمی کے جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے۔''خدا نے انسان کو حیرت انگیز صلاحیتیں بخشی ہیں جو صحت و شفا کی مکمل استعداد رکھتی ہیں۔ ایک صحت مند آدمی اپنی شفا بخش قوت سے دوسرے ناصحت مند اور کمزور آدمی کو تندرست کرسکتا ہے، اس کے صدہا ثبوت مل چکے ہیں۔ بعد ازاں اس نظریہ کو پسِ پشت ڈال دیا گیا کہ انسانی جسم اور دوسرے اجسام کی حیات بخش لہریں مریضوں کو شفا بخش سکتی ہیں۔

ہپناٹزم کی اصطلاح ڈاکٹر بریڈ کی ایجاد ہے۔ ڈاکٹر بریڈ کا بیان ہے کہ ہپناسز کی حالت (تنویمی نیند) کسی ایک نقطہ پر مکمل ارتکاز توجہ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ انسانی ذہن ایک نقطہ (تصور) سے اس طرح چپک کر رہ جاتا ہے کہ دوسرے تمام تصورات ذہن سے نکل جاتے ہیں اور پھر وہ ایک تصور، انسان کے تمام اعصابی نظام پر حکمراں ہوجاتا ہے۔ فرانس کے ممتاز ماہر اعصاب (نیورولوجسٹ) ڈاکٹر شارٹ کا اصرار ہے کہ ہپناسز، ہسٹریا کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ ہسٹریا کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے مشہور معالج نفسیات ڈاکٹر جی اے اصغر اپنی خودنوشت سوانح حیات ''سرگزشت'' میں لکھتے ہیں کہ: ہسٹریا میں ہر بیماری کی نقل پیش کی جاسکتی ہے۔ یہ نقل مریض کی سمجھ بوجھ اور اس بیماری کے بارے میں میں اس کے تجربات پر مبنی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بے ہوشی کے دورے کو لے لیں، ایسے دورے ہمیشہ سے عام تھے اور ہر عہد اور ہر دور میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔

پہلے تمام دماغی دوروں کو ہسٹریا کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، مریض کام کرتے کرتے یا کھڑے کھڑے یکایک چیخ مارتا ہے اور کوئی ایسی حرکت کرتا ہے کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوجائیں، پھر دھڑام سے فرش یا چارپائی پر گر جاتا ہے، جسم عجیب بے معنی سی حرکتیں کرنے لگتا ہے، دانت سختی سے بھنچ جاتے ہیں، منہ کھولنا مشکل ہوجاتا ہے، آنکھیں اتنی زور سے مچ جاتی ہیں کہ کھولنے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں، مریض ہلکے ہلکے پلکیں جھپکاتا ہے، بازو، ٹانگیں بلکہ سارا جسم لکڑی کی طرح اکڑ جاتا ہے یا کبھی کبھی موم کی طرح نرم۔ کبھی کبھی مریض اس تکلیف دہ پوزیشن میں پہروں پڑا رہتا ہے۔ عام لوگ اس حالت کو غشی کا دورہ یا ''پکڑ'' کہتے ہیں، پکڑ کا مطلب یہ کہ مریض کو کوئی بدروح یا جنات گرفت میں لیے ہوئے ہیں اور اسے ہر بیہودہ حرکت پر مجبور کررہے ہیں یعنی اول فول بکنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، سر کے بال بکھیر کر جھومنا۔ غشی کی یہ حالت درحقیقت مرگی کے دورے کی نقل ہوتی ہے جس کی نوعیت مریض کے تجربے اور وقت کی مناسبت سے بدلتی رہتی ہے۔ گنوار عورتوں اور ان پڑھ مردوں میں یہ دماغی دورے آج بھی عام ہیں، البتہ شہریوں اور تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ مرض اپنے اپنے رنگ ڈھنگ اور طور طریقہ بدلتا رہتا ہے۔


ان کیفیات کو اپنے اوپر طاری کرنے میں مریض کی شخصیت، ضرورت وقت، موقع کی مناسبت اور لاشعور میں دبی ہوئی خواہشات کا بھی کافی دخل ہوتا ہے اور خود مریض کا اپنا ارادہ اور مرضی بھی شامل ہوتی ہے۔ ان حالات میں بعض مریض سخت ترین اذیتیں برداشت کرتے رہتے ہیں تاکہ ماحول پر یہ واضح ہوسکے کہ مرض سنگین ہے اور مریض خود اس میں حصہ نہیں لے رہا۔ غشی کے عام دوروں اور مرگی و ہسٹریا کے دورے میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے مگر بعض نکات ذہن میں رکھے جائیں تو اس دورے کی تشخیص آسان ہوجاتی ہے۔ ہسٹریا کا دورہ اکثر مریض کے وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے گرد و پیش کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ دورہ کیوں پڑا؟ اور اس دورے کا گرد و پیش کے حالات سے کیا تعلق ہے؟ گو مریض اور اس کے رشتے دار اس دورے کا تعلق اکثر ماحول سے قائم نہیں کرتے۔ گھر کے اندر یا ماحول میں کچھ ایسے حالات ہوتے ہیں جو مریض کو ناپسند یا ناگوار ہوتے ہیں۔ مریض کی لاشعوری خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی دشواریوں کی طرف (جن پر وہ خود غالب آنے سے قاصر ہے) لوگوں کی توجہ مبذول کرائے۔ مریض خود اذیت سہہ کر دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے ذہنی سکون حاصل ہوجائے۔

ہسٹریا کا دورہ ایسے وقت پڑتا ہے جب مریض کو یہ امید ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکے گا اور لطف یہ ہے کہ جتنی زیادہ ہمدردی لوگوں کی حاصل ہوگی، دورے کی شدت میں اتنا ہی زیادہ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ہسٹریا کا مریض بظاہر بڑی جان لیوا کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے مگر بباطن وہ اس ڈرامے سے عجیب قسم کا سکون اور لذت محسوس کرتا ہے۔ ہسٹریا کا مریض مختلف معالجوں اور تیمارداروں کی بحث و گفتگو سننے کے بعد اپنی کیفیات دورہ میں مناسب تبدیلیاں کرتا رہتا ہے اور ان ہی کیفیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے جو اس دورے کے متعلق سن چکا ہے۔ لیکن نفسی معالج نقل اور اصل کے فرق کا اندازہ کرلیتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ مریض کیا سوانگ رچا رہا ہے؟ اس قسم کے دورے شدید جذباتی ماحول میں پڑتے ہیں اور ان کا سبب دبی ہوئی شدید جذباتی کشمکش ہوتی ہے، اس جذباتی کشمکش کا ڈرامائی اظہار ہسٹریا کے دورے کی شکل میں ہوتا ہے۔ اصل بے ہوشی میں مریض کی آنکھ آسانی کے ساتھ کھل جاتی ہے اور آنکھ کی پتلی دیکھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ بے ہوشی کی کیفیت اصلی ہے یا نقلی۔ ہسٹریا کی بہت سی قسمیں اور شکلیں ہوتی ہیں مثلاً ہسٹریا (جذباتی بحران) کے زیر اثر عارضی طور پر مریض کی بینائی زائل ہوجانا، گونگا بہرہ ہوجانا یا متلی، ہسٹریا کے دورے میں جسم کے بعض حصے سن اور شل ہوجاتے ہیں۔

(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)
Load Next Story