فکرمندی کی گنجائش

میرے نظر میں ملک کاہر شخص جو تہمت اور بدکرداری سے پاک ہو وہ مخلص, محب وطن باشعور شہری کے زمرے میں آتا ہے۔

h.sethi@hotmail.com

ISLAMABAD:
چند روز قبل میں نے ایک تعلیم یافتہ' معتبر اور غیر سیاسی دوست سے مدد چاہی کہ وہ دس بیس نوجوانوں اور بڑی عمر کے لوگوں سے بات چیت کر کے معلوم کرے اور پھر میری رہنمائی کرے کیونکہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مختلف طبقات کے لوگ کس حد تک موجودہ صورت حالات سے مطمئن' مضطرب' خوش یا ناخوش ہیں اور لازمی طور پر یہ تجزیہ غیر متعصبانہ اور غیر سیاسی ہونا چاہیے۔ وہ میری درخواست سن کر ٹھٹھہ مار کے ہنسا جیسے میں نے کوئی احمقانہ سوال کر دیا ہو یا اسے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔ میرے چہرے پر کھسیانا پن دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوا اور بولا کہ عجیب اتفاق سمجھئے کہ ایسی ہی ایکسرسائز پچھلے دس پندر دن تک میں نے خود کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے کی لیکن خدا جانے آپ نے ٹیلی پیتھی یا کس علم کے ذریعے پڑھ لیا کہ میں اس موضوع پر فرسٹ ہینڈ معلومات رکھتا ہوں جنھیں کسی کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے بھرا پڑا ہوں۔

اس نے مجھ سے پوچھا کہ یقیناً آپ اس کیفیت اور افسردگی کا تو مجھ سے نہیں پوچھ رہے جو عہد شباب میں کالج کے زمانے میں کبھی کبھی نوجوان خبطیوں کو اپنی گرفت میں میں لے لیا کرتی ہے اور شعیب بن عزیز نے ایسی کیفیت پر شعر کہا ہے

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

میں نے اقرار کیا کہ میرا کسی قلبی واردات کے گھائل نوجوان کی طرف اشارہ نہیں تھا بلکہ میرے پیش نظر ملک کا ہر شخص' بچہ' بوڑھا اور جوان ہے جو ہر قسم کی تہمت اور بدکرداری سے پاک شخص ہو یعنی وہ ایک عام درد مند' مخلص' محب وطن' باشعور شہری کے زمرے میں آتا ہو۔

پھر میرے اس دوست نے اپنی دس پندرہ دنوں کی ریسرچ یا آبزرویشن کی آنکھوں دیکھی تفصیل بیان کرنا شروع کی۔ وہ پیدل گھومتا ایک گاڑیوں کے پرانے ٹائروں کی دکان میں جا گھسا جہاں دو نوجوان بے حد ردی گھسے پٹے پرانے ٹائر خریدنے کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے دو پھٹے پرانے ٹائر تلاش کر لیے جو دکاندار نے انھیں بخوشی بیس بیس روپے میں فروخت کر دیے۔ وہ دکان سے باہر نکلے تو میرے دوست نے ان سے مسکراتے ہوئے مصافحہ کیا اور پوچھا کہ اتنے ردی' پھٹے پرانے ٹائروں کا بھی کوئی مصرف ہوتا ہے۔ ان نوجوانوں نے کہا کہ ''اس دنیا میں بطور خاص اپنے ملک میں ہر چیز کا مصرف ہو سکتا ہے' ہم دونوں طالب علم ہیں اور ہمارے علاقے میں دن کے چوبیس گھنٹوں میں بیس گھنٹے بجلی نہیں آتی' کل ہمارے محلے کے تمام افراد شہر کی معروف سڑک پر ان ٹائروں کے چار چار ٹکڑے کاٹ کر جلائیں گے اور آدھا دن سڑک بلاک کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔'' ان سے پوچھا کہ ایسا کرنے سے بجلی آ جائے گی تو انھوں نے جواب دیا کہ بجلی تو نہیں آئے گی لیکن ہم تو اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں گے اور اگر پولیس نے دخل اندازی کی تو ان سے بھی دو دو ہاتھ ہو جائیں گے۔ یہ دونوں پڑھے لکھے نوجوان تھے لیکن ان کے غصے اور فرسٹریشن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔


میرا یہ دوست ایک اسکول دیکھنے گیا۔ اسکول کی چند گری ہوئی دیواریں موجود تھیں۔ چھتیں ملبے کا ڈھیر تھیں نہ وہاں کوئی دروازہ تھا نہ چھت لیکن ایک شخص ٹوٹی کرسی پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ نہ وہاں کوئی معلم تھا نہ طالب علم۔ اس نے اونگھتے شخص کو جگایا جس کی بابت معلوم ہوا کہ وہ اسکول کا چوکیدار ہے اور پورا وقت حاضری دیتا ہے۔ دس سال قبل اسکول تعمیر ہوا، اس کا افتتاح صوبائی اسمبلی کے ممبر نے کیا۔ دو تین سال تک کلاسیں ہوتی رہیں۔ پھر معلموں نے تبادلے کروانے شروع کر دیے اور طالب علموں نے غیر حاضریاں۔ اس کے بعد استادوں نے مرضی سے اور کبھی دیر سے اسکول آنا شروع کر دیا۔ ممبر اسمبلی کی زیر نگرانی ٹھیکیدار کا تعمیر کردہ اسکول دو تین برساتوں کے تھپیڑوں ہی سے ڈھیر ہو گیا لیکن اسکول کا چوکیدار روانہ اسکول آتا اور ٹوٹی کرسی پر نیند پوری کرتا۔ تنخواہ البتہ جس جس کا نام ریکارڈ میں موجود تھا باقاعدہ وصول کرتے تھے۔ نیم تعلیم یافتہ چوکیدار کو کوئی شرارتی شخص ایک فارسی شعر سنا اور رٹا گیا تھا جس کے معنی چوکیدار کو قطعی معلوم نہ تھے لیکن وہ اسکول وزٹ کرنے والے ہر شخص کو یہ شعر ضرور سناتا۔ شعر تھا:

گر ہمی مکتب و ہمی ملا

کار طفلاں تمام خواہد شد

میرے دوست کی اگلی منزل ایک معروف مارکیٹ تھی۔ صبح کے 8 بجے اس نے مارکیٹ کے ایک فٹ پاتھ کے کنارے پچیس تیس ورکرز مع اپنے سامان کے اکڑوں بیٹھے دیکھے۔ ان میں کوئی پینٹ پالش والا تھا' کوئی الیکٹریشن' کوئی سینٹری ورکر' کوئی ترکھان اور کوئی دیہاڑی دار مزدور۔ یہ تمام لوگ منتظر تھے ایسے اشخاص کے جنھیں مکان یا دکانوں کی تعمیر کے دوران کاریگروں کی ضرورت پڑ گئی ہو۔ ان میں سے کئی ایک کو تو کام مل جائے گا لیکن بہت سے مایوس ہو کر لوٹ جائیں گے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ تو رو پیٹ لیں گے لیکن کئی شیطانی خیالات کی گرفت میں آ جائیں گے۔

ایک روز ہمارا یہ دوست شہر کی معروف سیرگاہ جا پہنچا جہاں کچھ لوگ جاگنگ کرتے دیکھے۔ کچھ Brisk Walk کرتے اور کئی لوگ ٹولیوں کی صورت گپ بازی اور سیر میں مگن پائے۔ یہ بھی ایک پانچ چھ کی ٹولی کا پیچھا کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ ان میں سے ایک وقت میں ایک بولتا ہے اور پھر سب کے قہقہے بلند ہو جاتے ہیں۔ وہ ان کے مزید قریب ہو کر چلنے لگا تو قہقہوں کا راز کھلا۔ یہی کہ ملک میں خوراک کے علاوہ اب موبائل فون پر بطور تجارت پھیلائے جانے والے لطائف ہی رہ گئے ہیں جو پڑھ سن کر حس خبیث کو جگانے کا باعث بن جاتے ہیں۔

آج کی ملاقات میں اس دوست نے ایک شاندار عبادت گاہ میں گھومنے کا ذکر کیا جس کے ٹائلٹ میں اس نے اپنی ناک میں ٹشو پیپر گھسیڑ کر دو منٹ گزارے۔ اسی موضوع پر اس نے ایک مہنگی اور خوبصورت مارکیٹ کا بھی ذکر کیا جس میں پبلک ٹائلٹ بنانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی تھی۔ شاید اسی لیے اس مارکیٹ کا پچھواڑا بدبو گھر بنا رہتا ہے۔ اس نے اسی مارکیٹ کی ایک دیوار پر لکھی ہوئی حدیث بھی مجھے سنائی کہ ''صفائی نصف ایمان ہے۔''

اگرچہ میرے دوست نے میرے سوال کا جواب میری حسب منشا نہیں دیا تھا لیکن اس کے مشاہدات اس لیے بیان کر دیے کہ ان میں تمام سچ ہے اور ان میں فکر مندی کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔
Load Next Story