ایوان بالا میں سیاست کا کھیل
وزیر اعظم عمران خان نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی
میر حاصل بزنجو کو حزب اختلاف نے سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کردیا۔ حکومت اب سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی وجہ سے سینیٹ کا اجلاس بلانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے قانونی مشیر فرماتے ہیں کہ حزب اختلاف نے سینیٹ کے چیئرمین اور حکومتی اراکین نے ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں پیش کی ہیں، یوں سینیٹ کے قواعد و ضوابط اس بارے میں خاموش ہیں۔
اب فیصلہ صدر پاکستان کریں گے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں پر غور کے لیے سینیٹ کا اجلاس کب بلایا جائے۔ اس وقت حزب اختلاف کے سینیٹروں کی تعداد 67 ہے۔ ایک سینیٹر سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار برطانیہ میں مقیم ہیں۔ حکومتی سینیٹروں کی تعداد 37 ہے ۔ حکومت شکست سے بچنے کے لیے سینیٹ کے اجلاس کو التوا میں رکھنے کی حکمت عملی پر عمل کر رہی ہے، یوں ایک طرف ایوان بالا معطل ہے تو دوسری طرف جمہوری روایات پامال ہو رہی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ ہمیشہ سے برطانوی جمہوریت کے مداح رہے۔برطانوی جمہوری روایات کا مطالعہ کرنے والے صاحبان علم کہتے ہیں کہ برطانوی پارلیمنٹ کے اسپیکر کو اگر یہ خدشہ پیدا ہوجائے کہ وہ اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو رہے ہیں تو وہ فوری طور پرمستعفی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ برطانیہ میں اسپیکر ہی نہیں وزیر اعظم کو بھی جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کھو رہے ہیں تو فوری طور پر استعفیٰ دیتے اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ خالی کردیتے ہیں مگر وزیر اعظم عمران خان اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی برطانیہ کی اعلیٰ پارلیمانی روایات کو فراموش کر بیٹھے۔ وزیر اعظم نے پہلے تو چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کو جمہوریت مخالف اقدام قرار دیا۔ پھر فرمایا کہ انھوں نے چیئرمین سنجرانی کو ایک ملاقات میں یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ کا بھرپور دفاع کرے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے کے ساتھ یہ خدشات ظاہر ہوئے کہ حکومت ریاستی طاقت کے ذریعے سینیٹروں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ بعض سیاسی کارکنوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بعض حزب اختلاف کے سینیٹروں کو عدم اعتماد والے دن غائب ہونے کے لیے مختلف اداروں کے کارندوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ بعض لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایک سرکاری محکمہ والوں کو عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، یوں یہ بھی کہا گیا کہ بدعنوانی کے مقدمات میں گرفتاریوں اور ترغیبات کے ہتھیاروں کو خوبصورتی سے استعمال کیا جائے گا۔
حاصل بزنجو کو خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی کیایک سیاستدان کا جہاز سینیٹروں کو ڈھونے کے لیے استعمال ہوگا۔ ایک دفعہ 1947 سے 2007 تک کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں منتخب اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی روایت خاصی قدیم ہے۔ 1948 میں سرحد میں مسلم لیگ کے مرد آہن خان عبدالقیوم خان کی حکومت کے قیام سے لے کر ون یونٹ کے قیام، ری پبلک پارٹی کے راتوں رات اقتدار میں آنے، پہلے آمر ایوب خان کا مسلم لیگ پر قبضہ، یحییٰ خان کا عوامی لیگ کے اراکین کو نااہل قرار دے کر مشرقی پاکستان میں جعلی انتخابات کا انعقاد، بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کی برطرفی کے بعد نواب اکبر بگٹی، بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے دادا جام غلام قادر کی حکومت کے قیام سے لے کر سندھ میں جام صادق کی حکومت اور پرویز مشرف دور میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا قیام ایک سیاہ تاریخ کا حصہ ہے مگر اس دوران مقتدرہ اور سول بیوروکریسی اپنے مقاصد حاصل کرتی رہی۔ مقتدرہ اور سول بیورو کریسی کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے در بدر ہوئے۔ کچھ جیلوں کی بیرکوں میں مقید رہے اور کچھ سیاسی منظر نامے سے لاپتہ ہوگئے مگر ملک کو ایک مضبوط پائیدار جمہوری نظام نہیں مل سکا۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے معاونین پہلے ایوب خان کی حکومت کے گن گاتے ہیں مگر وہ تاریخ کے اس سیاہ باب کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان، بلوچستان، سندھ اور سرحد میں احساس محرومی شدت اختیار کرگیا اور مشرقی پاکستان کے عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے علیحدہ وطن کے فلسفے کے حامی ہوتے چلے گئے۔ ایوب خان عوامی تحریک کا دباؤ برداشت نہ کرسکے اور اپنا دستور خود منسوخ کرکے اور ملک کو ایک اور مارشل لا کے حوالے کرکے چلے گئے۔ ان کے پیش رو جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کے اراکین کی اکثریت والی قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے کا فیصلہ کیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے احتجاجی تحریک شروع کی، آپریشن ہوا۔ پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا۔
ضیا الحق کا دور اور 1985 سے 1999 تک ہارس ٹریڈنگ، دباؤ اور ترغیب کے ہتھیاروں کے استعمال سے سیاسی جمہوری نظام مستحکم نہیں ہوسکا۔ پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بناکر پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے سے روکا اور انھوں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو سے این آر او کیا۔ مشرف 2002 کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرتے اور ہارس ٹریڈنگ کے ہتھیار کا سہارا نہیں لیتے تو پھر انھیں امریکا کے دباؤ پر این آر او جیسا معاہدہ نہیں کرنا پڑتا۔ تحریک انصاف کی قیادت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ 2017 سے ایک سرکاری محکمہ والے انتخابی نقشہ سازی کے عمل میں مصروف تھے۔
اس وقت محکمے والوں نے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کو اقتدار کے کیک میں حصے کی جھلک دکھائی تھی، یوں زرداری صاحب کی سرپرستی میں بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی اور تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر اتفاق رائے ہوا۔ بلوچستان سے آزاد سینیٹر صادق سنجرانی کو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے سینیٹروں نے ووٹ دیے اور تحریک انصاف کے سینیٹروں کے ووٹوں سے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کامیاب ہوئے مگر 2018 کے انتخابات کے حتمی نقشے میں تمام راستے اور راہداریاں تحریک انصاف کے لیے مختص تھیں، یوں آصف زرداری تنہا رہ گئے۔ حکومت کے دباؤ پر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ زرداری صاحب کی سیاست ناکام ہوگئی۔ اب بلاول بھٹو نے معاملات سنبھالے، یوں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں کل جماعتی کانفرنس میں جمع ہوئیں اور سینیٹ کی چیئرمین شپ واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہوئیں کہ جمہوریت کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرنے والے میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو جو زمانہ طالب علمی سے جمہوریت مخالف قوتوں کے خلاف صف آرا ہیں اس منصب کے لیے مناسب امیدوار ہیں۔ میر حاصل بزنجو کے مشترکہ امیدوار بننے کے بعد سینیٹ کا منظرنامہ واضح ہوگیا تھا۔ حکومت کو جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے صادق سنجرانی کو مستعفی ہونے کا مشورہ دینا چاہیے تھا مگر حکومت کی ہٹ دھرمی اور سینیٹ کے اجلاس نہ بلانے کی حکمت عملی سے واضح ہوتا ہے کہ سینیٹ میں اقلیت ہونے کے باوجود وفاقی حکومت 2 سال کے لیے یہ عہدہ حزب اختلاف کو دینے کو تیار نہیں ہے۔
اس صورتحال نے نہ صرف حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا ہے بلکہ ناقدین کو یہ کہنے کا بھی موقع ملا ہے کہ تحریک انصاف جرمنی کے آمر ہٹلر کے نقش قدم پر عمل پیرا ہے۔ ہٹلر کی طرح، حکومت ہر صورت میں منتخب ایوان بالا کے سربراہ کا منصب اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی ہے، خواہ اس صورتحال میں ایوان بالا معطل ہوکر ہی رہ جائے۔ ایوان بالا کے بغیر پارلیمنٹ مکمل نہیں ہے۔ سینیٹر صوبوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ سینیٹ کے معطل ہونے سے صوبوں کی آواز کمزور ہوجائے گی اور وفاقیت پر ضرب پڑے گی۔ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور فوری طور پر سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریکوں پر ووٹنگ ہونی چاہیے۔ اس مسئلے کا صرف یہی ایک حل ہے۔
اب فیصلہ صدر پاکستان کریں گے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں پر غور کے لیے سینیٹ کا اجلاس کب بلایا جائے۔ اس وقت حزب اختلاف کے سینیٹروں کی تعداد 67 ہے۔ ایک سینیٹر سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار برطانیہ میں مقیم ہیں۔ حکومتی سینیٹروں کی تعداد 37 ہے ۔ حکومت شکست سے بچنے کے لیے سینیٹ کے اجلاس کو التوا میں رکھنے کی حکمت عملی پر عمل کر رہی ہے، یوں ایک طرف ایوان بالا معطل ہے تو دوسری طرف جمہوری روایات پامال ہو رہی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ ہمیشہ سے برطانوی جمہوریت کے مداح رہے۔برطانوی جمہوری روایات کا مطالعہ کرنے والے صاحبان علم کہتے ہیں کہ برطانوی پارلیمنٹ کے اسپیکر کو اگر یہ خدشہ پیدا ہوجائے کہ وہ اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو رہے ہیں تو وہ فوری طور پرمستعفی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ برطانیہ میں اسپیکر ہی نہیں وزیر اعظم کو بھی جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کھو رہے ہیں تو فوری طور پر استعفیٰ دیتے اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ خالی کردیتے ہیں مگر وزیر اعظم عمران خان اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی برطانیہ کی اعلیٰ پارلیمانی روایات کو فراموش کر بیٹھے۔ وزیر اعظم نے پہلے تو چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کو جمہوریت مخالف اقدام قرار دیا۔ پھر فرمایا کہ انھوں نے چیئرمین سنجرانی کو ایک ملاقات میں یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ کا بھرپور دفاع کرے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے کے ساتھ یہ خدشات ظاہر ہوئے کہ حکومت ریاستی طاقت کے ذریعے سینیٹروں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ بعض سیاسی کارکنوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بعض حزب اختلاف کے سینیٹروں کو عدم اعتماد والے دن غائب ہونے کے لیے مختلف اداروں کے کارندوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ بعض لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایک سرکاری محکمہ والوں کو عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، یوں یہ بھی کہا گیا کہ بدعنوانی کے مقدمات میں گرفتاریوں اور ترغیبات کے ہتھیاروں کو خوبصورتی سے استعمال کیا جائے گا۔
حاصل بزنجو کو خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی کیایک سیاستدان کا جہاز سینیٹروں کو ڈھونے کے لیے استعمال ہوگا۔ ایک دفعہ 1947 سے 2007 تک کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں منتخب اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی روایت خاصی قدیم ہے۔ 1948 میں سرحد میں مسلم لیگ کے مرد آہن خان عبدالقیوم خان کی حکومت کے قیام سے لے کر ون یونٹ کے قیام، ری پبلک پارٹی کے راتوں رات اقتدار میں آنے، پہلے آمر ایوب خان کا مسلم لیگ پر قبضہ، یحییٰ خان کا عوامی لیگ کے اراکین کو نااہل قرار دے کر مشرقی پاکستان میں جعلی انتخابات کا انعقاد، بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کی برطرفی کے بعد نواب اکبر بگٹی، بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے دادا جام غلام قادر کی حکومت کے قیام سے لے کر سندھ میں جام صادق کی حکومت اور پرویز مشرف دور میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا قیام ایک سیاہ تاریخ کا حصہ ہے مگر اس دوران مقتدرہ اور سول بیوروکریسی اپنے مقاصد حاصل کرتی رہی۔ مقتدرہ اور سول بیورو کریسی کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے در بدر ہوئے۔ کچھ جیلوں کی بیرکوں میں مقید رہے اور کچھ سیاسی منظر نامے سے لاپتہ ہوگئے مگر ملک کو ایک مضبوط پائیدار جمہوری نظام نہیں مل سکا۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے معاونین پہلے ایوب خان کی حکومت کے گن گاتے ہیں مگر وہ تاریخ کے اس سیاہ باب کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان، بلوچستان، سندھ اور سرحد میں احساس محرومی شدت اختیار کرگیا اور مشرقی پاکستان کے عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے علیحدہ وطن کے فلسفے کے حامی ہوتے چلے گئے۔ ایوب خان عوامی تحریک کا دباؤ برداشت نہ کرسکے اور اپنا دستور خود منسوخ کرکے اور ملک کو ایک اور مارشل لا کے حوالے کرکے چلے گئے۔ ان کے پیش رو جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کے اراکین کی اکثریت والی قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے کا فیصلہ کیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے احتجاجی تحریک شروع کی، آپریشن ہوا۔ پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا۔
ضیا الحق کا دور اور 1985 سے 1999 تک ہارس ٹریڈنگ، دباؤ اور ترغیب کے ہتھیاروں کے استعمال سے سیاسی جمہوری نظام مستحکم نہیں ہوسکا۔ پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بناکر پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے سے روکا اور انھوں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو سے این آر او کیا۔ مشرف 2002 کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرتے اور ہارس ٹریڈنگ کے ہتھیار کا سہارا نہیں لیتے تو پھر انھیں امریکا کے دباؤ پر این آر او جیسا معاہدہ نہیں کرنا پڑتا۔ تحریک انصاف کی قیادت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ 2017 سے ایک سرکاری محکمہ والے انتخابی نقشہ سازی کے عمل میں مصروف تھے۔
اس وقت محکمے والوں نے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کو اقتدار کے کیک میں حصے کی جھلک دکھائی تھی، یوں زرداری صاحب کی سرپرستی میں بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی اور تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر اتفاق رائے ہوا۔ بلوچستان سے آزاد سینیٹر صادق سنجرانی کو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے سینیٹروں نے ووٹ دیے اور تحریک انصاف کے سینیٹروں کے ووٹوں سے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کامیاب ہوئے مگر 2018 کے انتخابات کے حتمی نقشے میں تمام راستے اور راہداریاں تحریک انصاف کے لیے مختص تھیں، یوں آصف زرداری تنہا رہ گئے۔ حکومت کے دباؤ پر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ زرداری صاحب کی سیاست ناکام ہوگئی۔ اب بلاول بھٹو نے معاملات سنبھالے، یوں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں کل جماعتی کانفرنس میں جمع ہوئیں اور سینیٹ کی چیئرمین شپ واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہوئیں کہ جمہوریت کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرنے والے میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو جو زمانہ طالب علمی سے جمہوریت مخالف قوتوں کے خلاف صف آرا ہیں اس منصب کے لیے مناسب امیدوار ہیں۔ میر حاصل بزنجو کے مشترکہ امیدوار بننے کے بعد سینیٹ کا منظرنامہ واضح ہوگیا تھا۔ حکومت کو جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے صادق سنجرانی کو مستعفی ہونے کا مشورہ دینا چاہیے تھا مگر حکومت کی ہٹ دھرمی اور سینیٹ کے اجلاس نہ بلانے کی حکمت عملی سے واضح ہوتا ہے کہ سینیٹ میں اقلیت ہونے کے باوجود وفاقی حکومت 2 سال کے لیے یہ عہدہ حزب اختلاف کو دینے کو تیار نہیں ہے۔
اس صورتحال نے نہ صرف حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا ہے بلکہ ناقدین کو یہ کہنے کا بھی موقع ملا ہے کہ تحریک انصاف جرمنی کے آمر ہٹلر کے نقش قدم پر عمل پیرا ہے۔ ہٹلر کی طرح، حکومت ہر صورت میں منتخب ایوان بالا کے سربراہ کا منصب اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی ہے، خواہ اس صورتحال میں ایوان بالا معطل ہوکر ہی رہ جائے۔ ایوان بالا کے بغیر پارلیمنٹ مکمل نہیں ہے۔ سینیٹر صوبوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ سینیٹ کے معطل ہونے سے صوبوں کی آواز کمزور ہوجائے گی اور وفاقیت پر ضرب پڑے گی۔ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور فوری طور پر سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریکوں پر ووٹنگ ہونی چاہیے۔ اس مسئلے کا صرف یہی ایک حل ہے۔