بلیک ہول

جو ذہن دل کا درجہ پا لے اُس کو وقت کا بلیک ہول کبھی نہیں نگل سکتا

ایک دفعہ کا ذکر ہے، میری ایک دادی ہوا کرتی تھی۔ اُس کی خامشی، اُس کے لفظ، ہونٹ، آنکھیں اور چہرہ بنا کسی تمہید کے سب باتیں کیا کرتے تھے۔ اُس کا جسم اتنا نحیف تھا جیسے سوکھا ہوا مشکیزہ، مگر چہرہ تھا جیسے روشن ماہتاب، اُس کے چاند سے چہرے پر ایک بڑھیا رہا کرتی تھی، جو ہر دم محبت اور شفقت کا چرخہ کاتتی رہتی تھی۔ یہ وہ دور تھا، جب ابھی زوال کو زوال نہیں آیا تھا اور روشنیوں کے شہر کی سڑکیں بوری بند انسانوں سے نا آشنا تھیں، اُس زمانے میںکردار اپنی کہانی اور الفاظ اپنے معانی سے لپٹ کر نہیں روتے تھے۔

مشکیزے کبھی پیاس سے بھرے نہیں ہوتے تھے اور سورج کے دل میں کبھی چھتری کی تمنا نہیںہوئی تھی۔ مٹی سے بنا انسان مٹی ہی میں خوش تھا وہ ابھی دھاتوں کا بچاری نہیں بنا تھا۔ اُس وقت کی دُلہن لُٹ جانے کے خوف سے نقلی زیور نہیں پہنا کرتی تھی۔ وقت کا چرواہا بے حسی کی لاٹھی سے سانسوں کے ریوڑ کو مقتل کی جانب نہیں ہانکتا تھا۔ ایک وقت میں ایک ہی تابوت ہوا کرتا تھا۔ روح کے بدن بے سُدھ لاشے نہیں بنے تھے۔ اُس زمانے میں ''زینب'' اپنی ننھی بانہوں میں چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی چوڑیاں پہنے بے خوف و خطر گلیوں میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلتی پھرتی تھی اور گڈی گڈے کی فرضی شادی میں سکھیوں کے ساتھ شاد رہتی تھی۔ اور بابا بلھے شاہ امن اور محبت کی تسبیح اپنے ہاتھوں میں لیے سکون کی نیند لیے اپنی لحد میں سوتا تھا۔ پھر وقت اور تغیّر کا بلیک ہول سب کچھ نگل گیا۔

دادی موت کی اندھی گھاٹی اُتر گئی۔ میری پھوپھو کہتی تھی دادی کی موت بڑی خوبصورت تھی کیوں کہ وہ شب قدر کو فوت ہوئی تھی۔ یہ بات مجھے اپنی کچی عمر میں بھی عجیب لگی تھی، میں سوچنے لگ گیا کبھی موت بھی خوبصورت ہوئی ہے، خوبصورت تو ہمیشہ زندگی ہوتی ہے۔ بشرطیکہ وہ محبت کے آنچل میںلپٹی اور مامتا کی صندل جھیل میں نہائی ہوئی ہو۔ وہ کہتی تھیں بیٹیاں تو فرشتوں کی طرح ہوتی ہیں، ان سے محبت رب سے محبت ہے۔ کہتی تھیں وقت کا قاضی اگر انا اور جھوٹی عزت کا اسیر ہو تو پگڑیوں کے فیصلے آنچلوں کے لیے جہنم بن جاتے ہیں۔

مجھے اب اپنی ماں شدت سے یاد آتی ہے، ماںمجھے بچپن ہی میں چھوڑ کر عدم کے سفر پر روانہ ہو گئی تھی، میں سب سے چھوٹا تھا، مجھ سے بڑی پانچ بہنیں تھیں، پڑوس میں رہنے والی اماں کہتی تھی یکے بعد دیگرے پانچ بیٹیوں کی پیدائش نے اُس کی کوکھ اُجاڑ دی تھی۔ ماں کے جانے کے بعد ہمیں دادی نے پالا تھا۔ دادی تعلیم کے زیور سے آراستہ تھی وہ پرانے دور کی گریجویٹ تھی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں سرکس لگی تھی۔ اُس میں ایک شخص دائرے میں سائیکل چلاتا تھا، وہ سائیکل چلاتے چلاتے کرتب بھی دکھاتا تھا مگر کبھی اُس کا پاؤں زمین کو نہیں چھوتا تھا وہ سائیکل پر ہی کھانا کھاتا تھا پانی پیتا تھا اور سائیکل چلاتے چلاتے ہی نہاتا تھا ساتویں دن گاؤں کے چوہدری نے معززین کے ہمراہ پھولوں کے ہار اُس کے گلے میں ڈال کر اُسے سائیکل سے اُتارا لوگوں نے بڑی خوشی سے اُس کو داد دی اور انعام و کرام سے نوازا ۔ میں نے گھر آ کر جب ماں کو بتایا تو ماں بولی پُتر جب تم اپنی زندگی کی سائیکل چلانا تو سیدھی چلانا دائرے میں سائیکل چلانے والا مداری بن جاتا ہے۔

میں نے حیرانی سے پوچھا ماں اس کا کیا مطلب ہے۔ دادی بولی بیٹا تیری ماں کے کہنے کا مطلب ہے ہم عمر بھر اپنی ہی ذات کے حصار میں قید رہتے ہیں اپنی زیست کی سائیکل بھی اسی دائرے کے گرد چلاتے رہتے ہیں۔ دائرے میں سائیکل چلانے والا تو مداری ہوتا ہے۔ پھر دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے آہستہ سے خود کلامی کے انداز میں بولی:

جو سیدھی سائیکل چلاتا ہے، اُسے ''الف'' کی سنگت نصیب ہو جاتی ہے اور دیکھنے والے اُسے ''شاہ مدار'' کہتے ہیں۔

جب ماں ہم سے جدا ہوئی وہ موسم خزاںکا آغاز تھا وہ بھی زردپتے کی طرح اجل کی آندھی میں بکھر گئی اُس روز آنگن کے پیڑ سے ایک گھونسلہ بھی زمین پر گر گیا تھا۔ چڑیا چیخ رہی تھی اُس کے بچے اب زمانے کے رحم و کرم پہ تھے جس عمر میں بچے خواب دیکھتے ہیں، میں نے ماں کا جنازہ دیکھا تھا۔ اُس دن مجھے لگا میں اپنی مُٹھی سے ریت کی مانند گرتا جا رہا ہوں۔ مجھے لگا لفظ محبت کے معنی کی شام ہو گئی ہے۔ شب زیست کی گلیوں میں اندھیروں کی چاپ سنائی دینے لگی تھی۔ اُس دن دادی بھی بہت روئی تھی ۔ اُس کا سینہ کھولتی ہنڈیا کی طرح کھول رہا تھا۔ مجھے گلے لگا کر سسکتے ہوئے بولی ماؤں کو مرنا نہیں چاہیے۔ زندگی کا مفہوم مر جاتا ہے پھر مجھے چوم کر بولی کسی کو بھی مرنا نہیں چاہیے۔ مرتا وہ ہے جو دعاؤں اور یادوں سے نکل جاتا ہے۔ تمھاری ماں مری نہیں وہ ہمیشہ زندہ رہے گی ہماری یادوں میں ہماری دُعاؤں میں۔ پُتر تم بڑے ہو کر لکھاری بننا ادیب کبھی نہیں مرتے وہ اپنے لفظوں اپنی کہانیوں میں زندہ رہتے ہیں جیسے اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی وغیرہ زندہ ہیں۔

بیٹا ہر انسان کے اندر ایک لاپتا مامتا ہوتی ہے جو اس کو تلاش کر لیتا ہے جو تخلیق کار بن جاتا ہے۔ پھر افسردہ لہجے میں بولی فٹ پاتھ پر پڑی زخم زخم کتابوں کی لاشیں مجھے کہتی ہیں کیا ہمارا یہی مقام تھا۔ کتاب تو زندگی ہے کتاب تو اُجالا ہے وہ چیخ چیخ کر کہتی ہیں خدا کے لیے لفظ معنی کی شام مت ہونے دو وگرنہ جہالت کی ایسی آندھی چلے گی کہ علم کے سارے دِیے بجھ جائیں گے۔ قلم کا سر کبھی قلم نہ کرنا کیونکہ قلم کی بریدگی صرف خون لکھتی ہے۔ علم کا چراغ بجھ جائے تو پھر اندھیروں کا قاضی اُجالوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگ جاتا ہے۔ موت کی عدالتیں زندگیوں کا فیصلہ کرنے لگتی ہیں قبرستان پھیلنے لگتے ہیں اور مامتا کو ٹوٹے ہوئے کھلونوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ میرے بیٹے ہمیشہ مثبت لکھنا کسی پر تنقید نہ کرنا کیونکہ جس کی تنقید کی آنکھ کھل جائے اُس کی محبت کی آنکھ بند ہو جاتی ہے اور جس کی محبت کی آنکھ بند ہو جائے اُس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور کالے قلب جہنم کا ایندھن ہوتے ہیں۔


وہ بڑی خاموش رات تھی دادی نے مجھے اپنے پاس بلایا اُس رات اُس نے مجھ سے ڈھیروں باتیں کیں وہ رات بھر مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ کہنے لگی تم نے ایک بار پوچھا تھا میںنے ماں کو کبھی رات کو سوتے ہوئے نہیں دیکھا وہ کیوں نہیں سوتی تھی۔ بیٹا ایک بار تم رات کو خواب میں ڈر گئے تھے اُس دن سے تمھاری ماں کبھی رات کو نہیں سوئی مامتا ایک الہامی کیفیت کا نام ہے۔جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کہنے لگی میری باتیں دھیان سے سننا تمھیںزندگی میں کام آئیں گی۔ روزی کمانے کے لیے کبھی دوسرے مُلک نہیںجانا ہر جگہ کا رازق ایک ہی ہے۔ شام کو اگر کوئی لوٹ کر نہ آئے تو شام تنہائی کا کنواں بن جاتی ہے تمھارے والد سے زنگ آلود قُفل کا دُکھ برداشت نہیں ہو سکے گا۔ روٹھی ہوئی خاموشی سے بولتی شکائتیں اچھی ہوتی ہیں۔ دنیا میں سب سے مشکل کام دل سے اُترے ہوئے لوگوں میں گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ اپنے کردار کو جناح کرو کیونکہ دنیا میں سب سے ذلت والا کام کسی کے دل سے اُتر جانا ہے۔ آئینہ سازی کی صنعت میں اگر خسارہ ہونے لگے تو سمجھ جانا ہم دورِ منافقت میں رہ رہے ہیں۔

جب عقیدتیں اندھی ہو جائیں اور بصیرتیں مفلوج ہو جائیں تو ہر پتھر دیوتا ہونے کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے۔ اکثر لوگ ریل کی کھڑکی سے دُنیا کو دیکھتے ہیں۔ دنیا کو سمجھنے اور جاننے کے لیے ٹھہرنا پڑتا ہے۔ بیٹا رشتوں کو ضرور نبھانا چاہے اس کے لیے ہتھیلیوں پر دستکوں کے نشان ہی کیوںنہ پڑ جائیں۔ تیری ماں کو رشتے نبھانے آتے تھے وہ تیرے باپ سے بہت محبت کرتی تھی۔ بیٹا کچھ محبتیں سجدوں کی طرح ہوتی ہیں زندگی کی پیشانی پر وفا کا نشان چھوڑ جاتی ہیں۔ اپنی کوئی بھی ضرورت تیرے باپ کو اُسے بتانا نہیں پڑتی تھی جن سے روح کے تار جڑے ہوئے اُن کے اندر کی سب بولیاں سب الفاظ سنائی دینے لگتے ہیں۔ انسان وہ نظم بھی سُن لیتا ہے جو کسی نے ابھی سنائی ہی نہ ہو۔

بچے جب روتے ہیں توماں اُن کو چُپ کرانے کے لیے کھلونے لا کر دیتے ہیں۔ بیٹا کبھی کبھی بڑوں کو بھی رو لینا چاہیے۔ جو نیلی چھتری والے کے آگے تنہائی میں روتا ہے تو رب اُس کو پھر کسی اور کے آگے رونے نہیں دیتا۔ اُس کی زندگی میں کبھی زرد خزاںنہیں آتی۔ سوہنا رب بھی رونے والے کو کھلونے دیتا ہے کسی کو سکون قلب کا کھلونا، کسی رونے والے کو جنت کاکھلونا اورجو ضدی بچہ بہت روتاہے اللہ اُسے اپنے قرب کا تحفہ عطا فرما دیتے ہیں۔

موت کی تیاری مکمل رکھو یہ اُس کو بھی آ جاتی ہے۔ جو وصیت نہیں بھی کرتا۔ کوئی راستہ پوچھے تو خوشی سے بتا دیا کرو کبھی کبھی انسان راستہ بتاتے بتاتے خود منزل بن جاتا ہے۔ مخلوق سے نفرت کرنے والا خالق سے محبت نہیں کر سکتا۔

کہنے لگی بچوں کے لیے رزق حرام نہ کمانا کیونکہ اُنکے پالنہار تم نہیں آپ کو صرف care taker بنایا گیا ہے۔ منفی اور بُرے لوگوں کی زہریلی باتیں ان سُنی کر دیں یاد رکھیں سپیرے کی شاعری میں زہر کا ذکر ضرور ہو گا۔ صدقہ ضرور دیا کرو علم کا صدقہ جاہل کی باتوں کو برداشت کرنا ہے اور زندگی کا صدقہ زندوں کی تکریم ہے۔

کہنے لگی محبت ناممکن کی نفی ہے نفرت کی کوکھ میں پلنے والے ایک دن خود نامرادی کی قبر میں اُتر جاتے ہیں۔ بچوں کی طرح مٹی میںپاؤں سے گھروندے بنایا کرو تاکہ تمھیں یاد رہے زندگی کتنی ناپائیدار ہے۔ لوگوں کو تقسیم نہ کرنا یہ آفاقی گناہ ہے اور آفاقی گناہ کی کم از کم سزا دل کی بے اطمینانی ہے۔ جس شہر کے باسیوں کا شجرہ نسب یاجوج ماجوج سے ملتا ہو وہاں دیوارپر نام لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

بولی پُتر علم اس کمال کا حاصل کرنا کہ ذہن دل کا درجہ پا لے جب کوئی ذہن دل کا مقام حاصل کر لیتا ہے تو کائنات سرشاری سے جھوم جاتی ہے۔ وقت کا بلیک ہول سب کچھ نگل جاتا ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جن کا علم ذہن کو اس طرح روشن کر دیتا ہے کہ وہ دل کے مقام کو جا پہنچتا ہے اور پھر تہجد کے وقت اُن کی خاموشی موت میں بدل گئی۔

دادی کو ہم سے جدا ہوئے پچیس سال ہو گئے ہیں۔

آج میں کونیہ میں شمس تبریز اورمولانا رومی کے مزاروںپر دعا مانگتے ہوئے سوچ رہا ہوں دادی صحیح کہتی تھی۔ جو ذہن دل کا درجہ پا لے اُس کو وقت کا بلیک ہول کبھی نہیں نگل سکتا۔ نہ جانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ کائنات رقص درویش کی طرح جھوم رہی ہے۔
Load Next Story