پاکستان کرکٹ کے مستقبل کی راہیں متعین کرنے کا وقت آگیا
غلط فیصلوں کا خمیازہ آئندہ ورلڈکپ میں بھگتنا پڑے گا
قوموں کی طرح ٹیموں پر بھی مشکل وقت آتے ہیں،دانشمندانہ قیادت اور مدبرانہ سوچ کے ساتھ مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے حل تلاش کرنے کی کوشش ہو تو بالآخر بہتری کے راستے نکل ہی آتے ہیں۔
ورلڈکپ 2015میں انگلش ٹیم کا جو حشر ہوا، اس کے بعد محسوس ہورہا تھا کہ شاید ہی شکستوں کی کھائی سے نکلنے کی کوئی تدبیر ہوسکے لیکن انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اپنے کھلاڑیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا، حالیہ ورلڈکپ سے قبل کے 4سالہ عرصہ میں انگلش ٹیم عالمی نمبر ون بن چکی تھی اور اس بار اپنے ہوم گراؤنڈ پر عالمی چیمپئن کا تاج بھی سرپر سجانے میں کامیاب ہوگئی۔
گزشتہ میگا ایونٹ میں کچھ اسی طرح کی صورتحال کا شکار پاکستان ٹیم بھی تھی،اس ناکام مہم کے بعد ریٹائر ہونے والے کپتان مصباح الحق کے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنے کی ضرورت شدت کیساتھ محسوس کی گئی،بہتری لانے کی بلند بانگ دعوے بھی کئے گئے لیکن فیصلہ ایسا کیا گیا کہ دنیائے کرکٹ حیران رہ گئی، ورلڈکپ کے سکواڈ میں شمولیت کے قابل بھی نہ سمجھے جانے والے اظہر علی کو ون ڈے ٹیم کی قیادت سونپنے کا حیران کن فیصلہ کیا گیا،'' مصباح الحق ٹو'' کو کپتان بنائے جانے کے بعد مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کا غیر فطری منصوبہ ناکام ہوا تو قرعہ فال سرفراز احمد کے نام نکلا،کپتان اور کھلاڑیوں کی میدان میں اچھل کود تو زیادہ ہوئی لیکن مستقل مزاجی کی امیدیں حسرت میں بدل گئیں۔
انضمام الحق نے چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ سے ایک روزہ میچز کیلئے موزوں ٹیلنٹ تلاش کرنے کے بجائے پی ایس ایل سے سامنے آنے والے نوجوان کرکٹرز پر انحصار کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم تو فتوحات کا تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی لیکن ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں ٹمپرامنٹ کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی کمی ہوتی گئی، تکینک،مزاج اور فٹنس میں کمی کی وجہ سے عامیانہ معیار کے کرکٹرز کو آزمانے اور باہر بٹھانے کا سلسلہ جاری رہا، مستقبل غیر یقینی ہونے کی تلوار لٹکی رہنے سے کئی کھلاڑی بننے کے بجائے بگڑے اور پھر ٹیم سے باہر ہی ہوگئے،کبھی کسی ایک بیٹنگ یا بولنگ پوزیشن پر کسی نے کارکردگی دکھائی بھی تو اگلی سیریز میں حریف ٹیم اور کنڈیشنز بدلتے ہی مسائل سامنے آنے لگے۔
مثال کے طور پر فخرزمان کا کیس ہی لے لیں تو چیمپئنز ٹرافی میں احمد شہزاد سے مایوس ہوکر ان کو موقع دیا گیا، ٹیمیں ان کی بیس بال طرز کی بیٹنگ تکنیک سے واقف نہیں تھیں،اس لئے انہوں نے کارکردگی بھی دکھائی، بعد ازاں ان کا بیٹ زیادہ ترکمزور ٹیموں کیخلاف ہی چلتا نظر آیا، فخرزمان نے یواے ای میں ہی پی ایس ایل کے دوران عمدہ بیٹنگ کی دھاک بٹھاتے ہوئے قومی ٹیم میں جگہ بنائی تھی لیکن یہاں ہی کھیلے جانے والے ایشیا کپ کے دوران مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا،وجہ یہ تھی کہ ایونٹ میں شریک ٹیموں نے ان کی تکنیک پر اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا تھا اور کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا،ورلڈکپ میں بھی فخرزمان کوئی بڑی اور تہلکہ خیز اننگز کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،روہت شرما، ڈیوڈ وارنر، ایرون فنچ سے موازنہ کیا جائے تو اوپنرز کہیں آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔
امام الحق کی اوسط اور ریکارڈز کو دیکھا جائے تو بڑے کامیاب نظر آتے ہیں لیکن آغاز کے بعد اہم موڑ پر وکٹ گنوادینا ان کی عادت رہی ہے، تکنیکی طور پر بہتر ہونے کے باوجود آف سٹمپ سے باہر جاتی گیندوں اور باؤنسرز پر ان کی کمزوری پر قابو پانے کی کوچز نے کوشش کی اور نہ ہی اوپنر خود کامیاب ہوسکے،بابر اعظم اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھاتے رہے لیکن ٹاپ آرڈر کی ناکامیوں نے ان کے نیچرل کھیل کو بھی متاثر کیا،ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کے بعد اننگز کو سنبھالا دینے کی کوشش کرتے، اپنے مزاج کے خلاف بڑے سٹروکس کھیلنے کی کوشش میں وکٹ گنواتے رہے۔
مڈل آرڈر میں محمد حفیظ اور شعیب ملک صرف نام کے سینئرز بن کر رہ گئے، بعد ازاں پاور ہٹر بھی کوئی نہیں تھا،آصف علی تھے بھی تو ان کو موقع ہی کم ملا، ڈراپ کیچز نے ان کا ٹیم سے اخراج آسان بنادیا، دو سال کے دوران ون ڈے کرکٹ میں صرف ایک، دو چھکے لگانے والے آؤٹ آف فارم کپتان سرفراز احمد بیشتر مواقع پر دھوکا دے گئے، بابر اعظم پر دباؤ بڑتا اور وہ بھی اپنے مزاج سے ہٹ کر کھیلتے ہوئے چلتے بنتے، ٹیموں میں توازن نہ ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اگر کہیں پر صورتحال بگڑے تو ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے والے کندھے کمزور پڑ جائیں، پاکستان ٹیم کو ورلڈکپ میں اسی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔
بولنگ میں بھی پاکستان کے تجربات کا سلسلہ آخر تک ختم نہیں ہوا،ورلڈکپ سکواڈ میں شمولیت کے بھی اہل نہ سمجھے جانے والے محمد عامر اور وہاب ریاض کو جنید خان اور فہیم اشرف کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد شامل کیا گیا،میگا ایونٹ کے دوران بھی تجربات کا سلسلہ جاری رہا،ستم ظریفی یہ ہے کہ سلیکشن میں سنگین غلطیاں اور ان کا دفاع کرنے والے چیف سلیکٹر انضمام الحق بعد میں اپنے ہی منتخب کردہ سکواڈ میں سے پلیئنگ الیون کے انتخاب میں مداخلت کرنے کیلئے انگلینڈ پہنچ گئے،اس طرح کی تتر بتر پلاننگ سے ورلڈکپ تو کیا سیریز بھی نہیں جیتی جاسکتی۔
بہرحال ورلڈکپ 2019ماضی بن چکا،چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے بیشتر اختیارات کے بھی مالک بنائے جانے والے منیجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کی جانب سے پورے سسٹم میں سدھار لانے کا دعویٰ کیا گیا ہے،ورلڈکپ کے بعد اکھاڑ پچھاڑ پاکستان کرکٹ کی روایت رہی ہے، چیف سلیکٹر انضمام الحق کی رخصتی کیساتھ اس بار بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیا، تبدیلی کی یہ لہر چلتی رہے گی،اس میں کوئی خرابی بھی نہیں، کسی بھی نئی تعمیر کیلئے پرانی عمارت کو گرانا پڑتا ہے لیکن نئی بنیادیں بھی کمزور ہی رکھ دیں تو اکھاڑ پچھاڑ کا کوئی فائدہ نہیں۔
گزشتہ 4سال میں قوم کو سبز باغ دکھاتے ہوئے کروڑوں اپنی جیبوں میں ڈال لینے والے کوچنگ سٹاف اور عہدیداروں کو رخصت ہونا ہی چاہیے لیکن ان کی جگہ لینے والے پاکستان کرکٹ کا تجربہ اور درد رکھنے والے والوں کو لایا جائے تو بہتری کے امکانات روشن ہوں گے،ہمارا ملکی کلچر یہ ہے کہ عہدے کیلئے کسی فرد کی موزونیت کو دیکھنے کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نام نہاد سسٹم میں ''فٹ'' بیٹھ جانے کے جراثیم رکھتا ہے یا نہیں،اگر بندہ تنگ کرنے اور مشکلات پیدا کرنے والا ہو تو اس کو دور رکھنا ہی بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں پی سی بی کی جانب سے انڈر19کوچ کی اسامی کیلئے موزوں امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں،لیول فور کوچز موجود ہونے کے باوجود صرف لیول ٹو کی شرط رکھنے جانے سے صاف ظاہر ہے کہ کرکٹ کیلئے نہیں بلکہ پی سی بی کیلئے موزوں کسی شخصیت کیلئے آسانی پیدا کردی گئی ہے، چیف سلیکٹر کے تقرر کیلئے بھی ایم ڈی وسیم خان نے ''شفاف'' طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسامی مشتہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،خدشہ یہی ہے کہ کسی موزوں شخص کا داخلی فیصلہ کرتے ہوئے بعد ازاں اخبار میں اشتہار بھی دیدیا جائے گا، کئی امیدوار شارٹ لسٹنگ، دیگر انٹرویو وغیرہ میں فارغ ہوجائیں گے۔
ہیڈ کوچ کے عہدے پر اگر وقتی طور پر مکی آرتھر کو توسیع دے بھی دی گئی تو اگلے میگا ایونٹ کی تیاری کیلئے مستقبل بنیادوں پر کسی کی خدمات حاصل کرنا ہیں،اس کیلئے بھی گوری چمڑی سے مرعوب ہونے کے بجائے کسی پاکستانی کا انتخاب کرنا ہوگا،ذاتی کارکردگی کے ریکارڈ کے بجائے کرکٹ کی سمجھ بوجھ، ٹیلنٹ کو پرکھنے والی نظر اور اس کو نکھارنے کی صلاحیت ہونا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ کو نام نہاد ''شفاف'' فیصلوں کی نہیں بلکہ درد دل کیساتھ اٹھائے جانے والے اقدامات کی ضرورت ہے،ابھی تک اپنا بیشتر وقت آبائی وطن انگلینڈ کے سیرسپاٹوں میں گزارنے والے وسیم خان کی کمان میں پاکستان کرکٹ میں کتنی بہتری آتی ہے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا، پاکستان کو تکنیکی طور پر مضبوط اوپنرز، ثابت قدم مڈل آرڈر، پاور ہٹر، ایک مستند آل را?نڈر کی ضررورت ہے،محمد عامر اور وہاب ریاض بھی اگلے ورلڈکپ پلان کا حصہ نہیں ہوسکتے، پیس بیٹری میں نئی جان ڈالنا ہوگی،چیف سلیکٹر اور کوچ کوئی بھی اس کو توقعات کا بھاری بوجھ اٹھانا ہوگا، اگر درست فیصلے نہ کئے گئے تو اگلے ورلڈکپ کے بعد بھی بورڈ حکام دعوے کررہے ہوں گے کہ آئندہ 4سال میں بہترین ٹیم تیار کریں گے۔
ورلڈکپ 2015میں انگلش ٹیم کا جو حشر ہوا، اس کے بعد محسوس ہورہا تھا کہ شاید ہی شکستوں کی کھائی سے نکلنے کی کوئی تدبیر ہوسکے لیکن انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور اپنے کھلاڑیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا، حالیہ ورلڈکپ سے قبل کے 4سالہ عرصہ میں انگلش ٹیم عالمی نمبر ون بن چکی تھی اور اس بار اپنے ہوم گراؤنڈ پر عالمی چیمپئن کا تاج بھی سرپر سجانے میں کامیاب ہوگئی۔
گزشتہ میگا ایونٹ میں کچھ اسی طرح کی صورتحال کا شکار پاکستان ٹیم بھی تھی،اس ناکام مہم کے بعد ریٹائر ہونے والے کپتان مصباح الحق کے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنے کی ضرورت شدت کیساتھ محسوس کی گئی،بہتری لانے کی بلند بانگ دعوے بھی کئے گئے لیکن فیصلہ ایسا کیا گیا کہ دنیائے کرکٹ حیران رہ گئی، ورلڈکپ کے سکواڈ میں شمولیت کے قابل بھی نہ سمجھے جانے والے اظہر علی کو ون ڈے ٹیم کی قیادت سونپنے کا حیران کن فیصلہ کیا گیا،'' مصباح الحق ٹو'' کو کپتان بنائے جانے کے بعد مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کا غیر فطری منصوبہ ناکام ہوا تو قرعہ فال سرفراز احمد کے نام نکلا،کپتان اور کھلاڑیوں کی میدان میں اچھل کود تو زیادہ ہوئی لیکن مستقل مزاجی کی امیدیں حسرت میں بدل گئیں۔
انضمام الحق نے چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ سے ایک روزہ میچز کیلئے موزوں ٹیلنٹ تلاش کرنے کے بجائے پی ایس ایل سے سامنے آنے والے نوجوان کرکٹرز پر انحصار کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم تو فتوحات کا تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی لیکن ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں ٹمپرامنٹ کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی کمی ہوتی گئی، تکینک،مزاج اور فٹنس میں کمی کی وجہ سے عامیانہ معیار کے کرکٹرز کو آزمانے اور باہر بٹھانے کا سلسلہ جاری رہا، مستقبل غیر یقینی ہونے کی تلوار لٹکی رہنے سے کئی کھلاڑی بننے کے بجائے بگڑے اور پھر ٹیم سے باہر ہی ہوگئے،کبھی کسی ایک بیٹنگ یا بولنگ پوزیشن پر کسی نے کارکردگی دکھائی بھی تو اگلی سیریز میں حریف ٹیم اور کنڈیشنز بدلتے ہی مسائل سامنے آنے لگے۔
مثال کے طور پر فخرزمان کا کیس ہی لے لیں تو چیمپئنز ٹرافی میں احمد شہزاد سے مایوس ہوکر ان کو موقع دیا گیا، ٹیمیں ان کی بیس بال طرز کی بیٹنگ تکنیک سے واقف نہیں تھیں،اس لئے انہوں نے کارکردگی بھی دکھائی، بعد ازاں ان کا بیٹ زیادہ ترکمزور ٹیموں کیخلاف ہی چلتا نظر آیا، فخرزمان نے یواے ای میں ہی پی ایس ایل کے دوران عمدہ بیٹنگ کی دھاک بٹھاتے ہوئے قومی ٹیم میں جگہ بنائی تھی لیکن یہاں ہی کھیلے جانے والے ایشیا کپ کے دوران مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا،وجہ یہ تھی کہ ایونٹ میں شریک ٹیموں نے ان کی تکنیک پر اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا تھا اور کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا،ورلڈکپ میں بھی فخرزمان کوئی بڑی اور تہلکہ خیز اننگز کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،روہت شرما، ڈیوڈ وارنر، ایرون فنچ سے موازنہ کیا جائے تو اوپنرز کہیں آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔
امام الحق کی اوسط اور ریکارڈز کو دیکھا جائے تو بڑے کامیاب نظر آتے ہیں لیکن آغاز کے بعد اہم موڑ پر وکٹ گنوادینا ان کی عادت رہی ہے، تکنیکی طور پر بہتر ہونے کے باوجود آف سٹمپ سے باہر جاتی گیندوں اور باؤنسرز پر ان کی کمزوری پر قابو پانے کی کوچز نے کوشش کی اور نہ ہی اوپنر خود کامیاب ہوسکے،بابر اعظم اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھاتے رہے لیکن ٹاپ آرڈر کی ناکامیوں نے ان کے نیچرل کھیل کو بھی متاثر کیا،ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کے بعد اننگز کو سنبھالا دینے کی کوشش کرتے، اپنے مزاج کے خلاف بڑے سٹروکس کھیلنے کی کوشش میں وکٹ گنواتے رہے۔
مڈل آرڈر میں محمد حفیظ اور شعیب ملک صرف نام کے سینئرز بن کر رہ گئے، بعد ازاں پاور ہٹر بھی کوئی نہیں تھا،آصف علی تھے بھی تو ان کو موقع ہی کم ملا، ڈراپ کیچز نے ان کا ٹیم سے اخراج آسان بنادیا، دو سال کے دوران ون ڈے کرکٹ میں صرف ایک، دو چھکے لگانے والے آؤٹ آف فارم کپتان سرفراز احمد بیشتر مواقع پر دھوکا دے گئے، بابر اعظم پر دباؤ بڑتا اور وہ بھی اپنے مزاج سے ہٹ کر کھیلتے ہوئے چلتے بنتے، ٹیموں میں توازن نہ ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اگر کہیں پر صورتحال بگڑے تو ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے والے کندھے کمزور پڑ جائیں، پاکستان ٹیم کو ورلڈکپ میں اسی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔
بولنگ میں بھی پاکستان کے تجربات کا سلسلہ آخر تک ختم نہیں ہوا،ورلڈکپ سکواڈ میں شمولیت کے بھی اہل نہ سمجھے جانے والے محمد عامر اور وہاب ریاض کو جنید خان اور فہیم اشرف کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد شامل کیا گیا،میگا ایونٹ کے دوران بھی تجربات کا سلسلہ جاری رہا،ستم ظریفی یہ ہے کہ سلیکشن میں سنگین غلطیاں اور ان کا دفاع کرنے والے چیف سلیکٹر انضمام الحق بعد میں اپنے ہی منتخب کردہ سکواڈ میں سے پلیئنگ الیون کے انتخاب میں مداخلت کرنے کیلئے انگلینڈ پہنچ گئے،اس طرح کی تتر بتر پلاننگ سے ورلڈکپ تو کیا سیریز بھی نہیں جیتی جاسکتی۔
بہرحال ورلڈکپ 2019ماضی بن چکا،چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے بیشتر اختیارات کے بھی مالک بنائے جانے والے منیجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کی جانب سے پورے سسٹم میں سدھار لانے کا دعویٰ کیا گیا ہے،ورلڈکپ کے بعد اکھاڑ پچھاڑ پاکستان کرکٹ کی روایت رہی ہے، چیف سلیکٹر انضمام الحق کی رخصتی کیساتھ اس بار بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیا، تبدیلی کی یہ لہر چلتی رہے گی،اس میں کوئی خرابی بھی نہیں، کسی بھی نئی تعمیر کیلئے پرانی عمارت کو گرانا پڑتا ہے لیکن نئی بنیادیں بھی کمزور ہی رکھ دیں تو اکھاڑ پچھاڑ کا کوئی فائدہ نہیں۔
گزشتہ 4سال میں قوم کو سبز باغ دکھاتے ہوئے کروڑوں اپنی جیبوں میں ڈال لینے والے کوچنگ سٹاف اور عہدیداروں کو رخصت ہونا ہی چاہیے لیکن ان کی جگہ لینے والے پاکستان کرکٹ کا تجربہ اور درد رکھنے والے والوں کو لایا جائے تو بہتری کے امکانات روشن ہوں گے،ہمارا ملکی کلچر یہ ہے کہ عہدے کیلئے کسی فرد کی موزونیت کو دیکھنے کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نام نہاد سسٹم میں ''فٹ'' بیٹھ جانے کے جراثیم رکھتا ہے یا نہیں،اگر بندہ تنگ کرنے اور مشکلات پیدا کرنے والا ہو تو اس کو دور رکھنا ہی بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں پی سی بی کی جانب سے انڈر19کوچ کی اسامی کیلئے موزوں امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں،لیول فور کوچز موجود ہونے کے باوجود صرف لیول ٹو کی شرط رکھنے جانے سے صاف ظاہر ہے کہ کرکٹ کیلئے نہیں بلکہ پی سی بی کیلئے موزوں کسی شخصیت کیلئے آسانی پیدا کردی گئی ہے، چیف سلیکٹر کے تقرر کیلئے بھی ایم ڈی وسیم خان نے ''شفاف'' طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسامی مشتہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،خدشہ یہی ہے کہ کسی موزوں شخص کا داخلی فیصلہ کرتے ہوئے بعد ازاں اخبار میں اشتہار بھی دیدیا جائے گا، کئی امیدوار شارٹ لسٹنگ، دیگر انٹرویو وغیرہ میں فارغ ہوجائیں گے۔
ہیڈ کوچ کے عہدے پر اگر وقتی طور پر مکی آرتھر کو توسیع دے بھی دی گئی تو اگلے میگا ایونٹ کی تیاری کیلئے مستقبل بنیادوں پر کسی کی خدمات حاصل کرنا ہیں،اس کیلئے بھی گوری چمڑی سے مرعوب ہونے کے بجائے کسی پاکستانی کا انتخاب کرنا ہوگا،ذاتی کارکردگی کے ریکارڈ کے بجائے کرکٹ کی سمجھ بوجھ، ٹیلنٹ کو پرکھنے والی نظر اور اس کو نکھارنے کی صلاحیت ہونا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ کو نام نہاد ''شفاف'' فیصلوں کی نہیں بلکہ درد دل کیساتھ اٹھائے جانے والے اقدامات کی ضرورت ہے،ابھی تک اپنا بیشتر وقت آبائی وطن انگلینڈ کے سیرسپاٹوں میں گزارنے والے وسیم خان کی کمان میں پاکستان کرکٹ میں کتنی بہتری آتی ہے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا، پاکستان کو تکنیکی طور پر مضبوط اوپنرز، ثابت قدم مڈل آرڈر، پاور ہٹر، ایک مستند آل را?نڈر کی ضررورت ہے،محمد عامر اور وہاب ریاض بھی اگلے ورلڈکپ پلان کا حصہ نہیں ہوسکتے، پیس بیٹری میں نئی جان ڈالنا ہوگی،چیف سلیکٹر اور کوچ کوئی بھی اس کو توقعات کا بھاری بوجھ اٹھانا ہوگا، اگر درست فیصلے نہ کئے گئے تو اگلے ورلڈکپ کے بعد بھی بورڈ حکام دعوے کررہے ہوں گے کہ آئندہ 4سال میں بہترین ٹیم تیار کریں گے۔