درآمدات میں کمی کے لیے اپنائی گئی پالیسیاں غیرمؤثر
تجارتی خسارہ محدود ہونے کی وجہ سی پیک منصوبے مکمل ہونے سے مشینری کی درآمد کم ہونا ہے
LONDON:
پاکستان کی درآمدات محدود کرنے کی پالیسیاں مؤثر ثابت نہیں ہورہیں سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے تجارتی خسارے میں کمی کی وجہ سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے باعث مشینری کی درآمدات میں کمی تھی۔
مرکزی بینک اور وفاقی حکومت نے تجارتی خسارے میں 6 ارب ڈالر کی کمی کا سبب درآمدات محدود کرنے کے لیے اپنائی گئی پالیسیوں کو قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر تجارتی خسارہ 6 ارب ڈالر کی کمی سے 54.8 ارب ڈالر رہا تھا۔ گذشتہ مالی سال میں درآمدات کم کرنے کے لیے مرکزی بینک نے کرنسی کی قدر 26 فیصد تک گرادی جب کہ وفاقی حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کرنے کے ساتھ ساتھ نان ٹیرف رکاوٹیں بھی کھڑی کردی تھیں۔ لیکن پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ درآمدات میں 45 فیصد ( 2.7 ارب ڈالر) کمی کی وجہ مشینری کی درآمد کا محدود ہوجانا تھا۔
ادارۂ شماریات کے مطابق مالی سال 2017-18ء میں 11.6 ارب ڈالر کی مشینری درآمد ہوئی تھی، مالی سال 2018-19 میں اس مد میں پاکستان نے 8.9 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ ایک سال کے دوران بجلی کی پیداواری مشینری کی درآمد 52 فیصد کمی سے 1.3 ارب ڈالر کی سطح پر آگئی۔ اسی طرح گذشتہ مالی سال کے دوران برقی مشینری کی درآمدات کم ہوکر 1.8 کی سطح پر آگئیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کے شعبے کی درآمدات بھی 44 کروڑ ڈالر ( 21.6 فیصد ) کم ہوکر 3.2 ارب ڈالر کی سطح پر آگئیں۔
وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق تجارتی خسارے میں کمی کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی گذشتہ مالی سال کے دوران کم ہوکر 13.6 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کے 4.8 فیصد تک آگیا۔ بہرحال درآمدات میں کمی کے لیے اختیار کی گئی پالیسیوں کی وجہ سے فوڈ اور ٹرانسپورٹ کا درآمداتی بل ضرور محدود ہوا۔ گذشتہ مالی سال کے دوران ان دونوں شعبوں کی درآمدات میں 1.8 ارب ڈالر کی کمی آئی۔
پاکستان کی درآمدات محدود کرنے کی پالیسیاں مؤثر ثابت نہیں ہورہیں سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے تجارتی خسارے میں کمی کی وجہ سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے باعث مشینری کی درآمدات میں کمی تھی۔
مرکزی بینک اور وفاقی حکومت نے تجارتی خسارے میں 6 ارب ڈالر کی کمی کا سبب درآمدات محدود کرنے کے لیے اپنائی گئی پالیسیوں کو قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر تجارتی خسارہ 6 ارب ڈالر کی کمی سے 54.8 ارب ڈالر رہا تھا۔ گذشتہ مالی سال میں درآمدات کم کرنے کے لیے مرکزی بینک نے کرنسی کی قدر 26 فیصد تک گرادی جب کہ وفاقی حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کرنے کے ساتھ ساتھ نان ٹیرف رکاوٹیں بھی کھڑی کردی تھیں۔ لیکن پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ درآمدات میں 45 فیصد ( 2.7 ارب ڈالر) کمی کی وجہ مشینری کی درآمد کا محدود ہوجانا تھا۔
ادارۂ شماریات کے مطابق مالی سال 2017-18ء میں 11.6 ارب ڈالر کی مشینری درآمد ہوئی تھی، مالی سال 2018-19 میں اس مد میں پاکستان نے 8.9 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ ایک سال کے دوران بجلی کی پیداواری مشینری کی درآمد 52 فیصد کمی سے 1.3 ارب ڈالر کی سطح پر آگئی۔ اسی طرح گذشتہ مالی سال کے دوران برقی مشینری کی درآمدات کم ہوکر 1.8 کی سطح پر آگئیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کے شعبے کی درآمدات بھی 44 کروڑ ڈالر ( 21.6 فیصد ) کم ہوکر 3.2 ارب ڈالر کی سطح پر آگئیں۔
وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق تجارتی خسارے میں کمی کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی گذشتہ مالی سال کے دوران کم ہوکر 13.6 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کے 4.8 فیصد تک آگیا۔ بہرحال درآمدات میں کمی کے لیے اختیار کی گئی پالیسیوں کی وجہ سے فوڈ اور ٹرانسپورٹ کا درآمداتی بل ضرور محدود ہوا۔ گذشتہ مالی سال کے دوران ان دونوں شعبوں کی درآمدات میں 1.8 ارب ڈالر کی کمی آئی۔