ہارٹ اٹیک سے ناکارہ دل کے لیے انقلابی علاج کی طرف پیش رفت

۔ہارٹ اٹیک اس وقت ہوتا ہے جب دل بیمار ہو اور مناسب انداز سے خون کو پمپ کرنے میں ناکام ہوجائے۔

تحقیقی کے مطابق جن افراد کو ہارٹ اٹیک ہوچکا ہو ان میں ایک پروٹین SERCA2a کی سطح کم ہوجاتی ہے۔۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
یہ اٹھارہ مہینے پہلے کی بات ہے جب کیرول گیڈا کو زبردست ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔اس کے نتیجے میں اس کے دل کی کام کرنے کی صلاحیت صرف بیس فیصد رہ گئی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ اسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پریشانی ہوتی تھی۔بعض اوقات تو کسی سے بات کرتے ہوئے اس کا سانس پھول جاتا تھا۔کیرول گیڈا برطانیہ کے ان ساڑھے سات لاکھ افراد میں سے ایک ہے جنہیں ہارٹ اٹیک ہوچکا ہے۔ہارٹ اٹیک اس وقت ہوتا ہے جب دل بیمار ہو اور مناسب انداز سے خون کو پمپ کرنے میں ناکام ہوجائے۔

اگر چہ اس بیماری کا علاج موجود ہے لیکن دل کو جو نقصان ہوتا ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں۔تاہم اس کی کچھ امید دکھائی دی ہے۔ یہ امید دل کے لیے ''جین تھیریپی'' سے جاگی ہے۔مسز گیڈا کا تعلق ایسکس سے ہے اوروہ ان دوسو مریضوں میں سے ایک ہیں ، جنہیں بیمار دل کے علاج کے لیے جین تھیریپی کے تجربات میں شامل کیا گیا ہے۔اس تھیریپی کے ذریعے ان کے دل میں ایسا جینیاتی مواد شامل کیا جائے گا جو ہارٹ اٹیک سے بے کار ہوچکے ان کے دل کے خلیات کو صحت مند بناکر دل کے فعل کو درست کرے گا۔

امپیریل کالج لندن کے محققین کے مطابق جن افراد کو ہارٹ اٹیک ہوچکا ہو ان میں ایک پروٹین SERCA2a کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ رائل برامپٹن ہسپتال لندن جہاں پر مسز گیڈا کا علاج ہورہا ہے ان دو برطانوی مراکز میں سے ایک ہے جہاں پر مذکورہ بالا بین الاقوامی اسٹڈی ہورہی ہے جبکہ دوسرا گلاسگو میں واقع گولڈن جوبلی نیشنل ہسپتال ہے۔

تجربات میں شامل ہونے سے پہلے مسز گیڈا کی بیس لائن کی پیمائش کی گئی تاکہ اس کی فٹنس کا پتہ چل سکے۔وہ ہسپتال کے تیس میٹر لمبے برآمدے میں چھ منٹ تک چلتی رہی۔ اس نے اس دوران جتنا فاصلہ طے کیا اس کو محققین کی جانب سے نوٹ کیا گیا۔اس کے دل کی کارکردگی کو بھی ریکارڈ کیا گیا۔


رائل برامپٹن ہسپتال میں جین تھیریپی اس کے NIHR بائیومیڈیکل ریسرچ یونٹ میں فراہم کی جاتی ہے جو کہ لوکل اینستھیزیا کے تحت کورونیری اینجیوگرام کے ذریعے دی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق محققین نے مذکورہ جین کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایک وائرس کے اندر چھپا دیا ہے جو کہ دل کے پٹھوں سے چپک جاتا ہے تاہم یہ مکمل طور پر بے ضرر وائرس ہے۔یہ وائرس ''ٹروجن ہارس'' والا کام کرتا ہے اور خاموشی سے اضافی ڈی این اے کو دل کے خلیات کے نیوکلئیس میں پہنچا دیتا ہے۔

امید یہ ہے کہ جین دل کے خلیات کو متحرک کرے گا کہ وہ مزید SERCA2a پروٹین یعنی جین تیار کریں اور دل کے پٹھوں کو ہونے والے نقصان کی مرمت کریں۔تحقیق کے سلسلے میں نصف شرکاء کو جین تھیریپی دی جائے گی جبکہ نصف شرکاء کو محض''میٹھی گولی'' دی جائے گی۔ مسز گیڈا کہتی ہیں کہ وہ تجربات میں شامل کیے جانے پرخوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتی کہ انہیں جین تھیریپی دی جائے گی یا میٹھی گولی ، لیکن تجربات میں شامل ہونا ہی ان کے لیے بہت خوشی کی بات ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے تین بیٹے ہیں اور ان کی دل کی بیماری خاصی حد تک جینیاتی ہے لہٰذا تجربات میں شامل ہونے سے ان کے خاندان کو مستقبل میں فائدہ ہوسکتا ہے۔

ان تجربات کا نام CUPID2 رکھا گیا ہے اور اس کے لیے سرمایہ امریکی بائیوٹیکنالوجی کمپنی Celladon فراہم کررہی ہے اور اس کے نتائج تین سال تک سامنے آجائیں گے۔برٹش ہارٹ فائونڈیشن کے محقق اور رائل برامپٹن ہسپتال میں کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر الیگزینڈر لیون کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی یہ طریقہ علاج کامیابی سے بہت دور ہے تاہم تجربات کے حوالے سے بہت جوش پایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا میں کچھ مریضوں کو جین تھیریپی دی جاچکی ہے اور بظاہر وہ بہت اچھے نتائج دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اہم بات یہ ہے کہ ابتدائی تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ طریقہ علاج محفوظ ہے لیکن اس بارے میں یقینی طورپر کوئی بات کرنے سے پہلے ابھی بڑے پیمانے پر اسٹڈی کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں ان تجربات سے ایک موثر علاج مل جاتا ہے تو یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ ڈیوڈ پامر جس کا تعلق نارفوک سے ہے ، برطانیہ میں اس علاج کی سہولت حاصل کرنے والا پہلا مریض ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کے دل کا بایاں حصہ بڑا ہوچکا ہے اور اس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن ہر وقت بے ترتیب رہتی ہے اور وہ نقاہت اور کمزوری محسوس کرتا ہے۔پامر بتاتا ہے کہ ایک مرتبہ وہ فریج کھولتے ہوئے اس کے اندر گرپڑا ۔ وہ زخمی نہیں ہوا لیکن اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ ڈاکٹروں کے مطابق پامر کی دل کی بیماری بہت پرانی ہے اس لیے ہارٹ ٹرانسپلانٹ اس کے لیے موزوں نہیں۔جین تھیریپی اس کے لیے بہت موزوں ہوگی۔
Load Next Story