پاکستان کی سیاسی قیادت اور خوش فہمیاں
غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہونا طبعی امر ہے، لیکن حقیقت جاننے کے باوجود اس پر ڈٹے رہنا تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے
بلال میرے انتہائی قریبی رفقاء میں سےایک ہے۔ بلال کی باقی عادات تو بہت اچھی ہیں لیکن خوش فہمی اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ کوئی بھی نیا کام کرنے سے قبل اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ جس کے بعد رہی سہی کسر اس کی بری قسمت پورا کرتی ہے۔ قصہ مختصر اس کا کوئی کام بھی ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔
کچھ روز قبل بلال نے بسلسلہ روزگار لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ والدین سمیت تمام احباب کو یقین دلایا کہ میری لاہور میں ملازمت ہوگئی اور تنخواہ بھی انتہائی مناسب ہے۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے اسے واضح الفاظ میں میڈیا پر آئے بحران کے بارے میں بتایا لیکن شاید میری یہ بات اس کے پلے نہ پڑی۔ تقریباً ایک ہفتہ لاہور جانے کا خوب شور مچایا ۔والدین اور اہل وعیال کو بھی امید تھی کہ لاہور میں بلال کو ملازمت مل چکی ہے۔ ایک ہفتے بعد جب بلال نے اپنے اس دوست سے رابطہ کیا، جس نے نوکری دلوانے کا وعدہ کیا تھا تو اس کا نمبر بند تھا۔ اگر کبھی فون آن بھی ہوتا تو وہ بلال کا فون سننے سے گریز کرتا۔ یوں ہر بار کی طرح بے وجہ شور مچانے کے باعث اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
معاشرے میں بلال جیسے کئی افراد موجود ہیں جو شیخ چلی کی طرح صرف خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں۔ کبھی نیا کاروبار شروع کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں، تو کبھی ملازمت کا شوروغل مچاتے ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی بزرگوں کو یہ کہتے سنا کہ کسی کام کو کرنے سے قبل شور مچانے سے اس سے برکت ختم ہوجاتی۔ مطلب خاموشی سے اپنی کامیابی کےلیے تگ و دو کریں اور آپ کی کامیابی خودبخود دنیا پر عیاں ہوجائے گی۔
شیخ چلی کے خیالی پلاؤ کا تذکرہ ہوا تو ہمارے ملک کے سیاستدان بھی اس میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہر الیکشن میں سیاسی شخصیات عوام کو نت نئے خواب دکھاتے ہیں۔ کبھی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، تو کبھی پاکستان کا قرض اتارنے کے دلاسے۔ ہر سیاسی جماعت اپنا چورن بیچنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اِنہیں اقتدار کانٹوں کا بستر نظر آتا ہے۔
حکمران طبقے کی مثال گھر کے سربراہ کے جیسی ہوتی ہے، جس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ہر فرد کی ضروریات کو پورا کرے۔ آمدن اور اخراجات کے حوالے سے کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ گھر کے دیگر افراد بس اپنی اپنی ضروریات بتاتے جاتے ہیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں پورا کرے۔ اپنے گھر کے معاملات کو چلانے کےلیے اس کو کتنی دقت اور مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے، اس کا ادراک کبھی اپنے اہلخانہ کو نہیں ہونے دیتا۔
کچھ ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کے عہدے پر رہ کر بطور گھر کے سربراہ کی ذمے داریاں نبھائیں۔ کسی کو اس بات کا گمان نہ ہونے دیا کہ ملکی خزانے میں کتنی رقم باقی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے اور (ن) لیگ سے اقتدار چھیننے کی غرض سے ملکی معیشت کا سہارا لیا۔ گلی محلوں میں ڈھول پیٹا گیا کہ پاکستا ن کا خزانہ بالکل خالی ہے، جس کی اصل ذمے دار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہے۔ عوام کو بھی نیا چورن زیادہ پسند آیا اور یوں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔
ہمارے ملک کے سیاستدان اقتدار میں آنے سے قبل سمجھتے ہیں کہ تمام ملکی مسائل بس ان کی ایک چٹکی سے حل ہوجائیں گے۔ پی ٹی آئی کے تھنک ٹینک اور ماہر معاشیات اسد عمر کی خوش فہمی کہوں یا پھر کم علمی کہ انہوں نے ملکی معیشت کو سنبھالنےکا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ کیا کہ ملکی خزانے کو بحرانوں سے نکالنے کا جن پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس ہے۔
حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان سے دوریاں اختیار کرلیں۔ یقینی بات ہے کہ کسی بھی کمپنی کی مینجمنٹ اتنی بے وقوف نہیں ہوتی کہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرے جس کے حکمران چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ خزانے خالی ہوچکے ہیں اور سوائے چند ایک کے تقریباً تمام ادارے بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔
آئی ایم ایف سے قرض لینا شاید اتنا دشوار نہ ہوتا، اگر الیکشن کے دنوں میں روزوشب معیشت کی بدحالی کا راگ نہ الاپا جاتا۔
موجودہ حکومت ہر معاملے میں خوش فہمیوں کا شکار ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں پی ٹی آئی قیادت (ن) لیگی حکومت کو میٹرو بس میں کرپشن اور مہنگے منصوبوں کا طعنہ دیتی رہی۔ لیکن خیبرپختونخوا میں اچانک انہیں عوامی خدمت کا خیال آیا اور بی آر ٹی منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے وسیع اور سستا منصوبہ ہے۔ کے پی کے حکومت کے دعوؤں کے باوجود یہ منصوبہ کئی مشکلات کا شکار ہے۔ کبھی ناقص میٹریل تو کبھی نکاسی آب کا انتظام نہ ہونے کی خبریں پی ٹی آئی قیادت کا منہ چڑانے کےلیے کافی ہیں۔
یہ حال صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت کا ہے۔ (ن) لیگی رہنما شہباز شریف بھی کئی خوش فہمیوں کا شکار رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2013 کے الیکشن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور ملکی خزانے سے لوٹی گئی ایک ایک پائی وصول کریں گے۔ زرداری فیملی کو سڑکوں پر گھسیٹنے میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی، لیکن جیل کی سلاخوں سے بچنے کےلیے ایک دوسرے کی امداد میں مصروف عمل ہیں۔
سابقہ حکومت کی طرح موجودہ وزیراعظم عمران خان نے کرپشن کے خلاف ایک مہم چلائی۔ ملکی معیشت کو بحرانوں کی دلدل سے نکلتا مشکل دیکھ کر انہوں نے کرپٹ شخصیات سے وصولیوں کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلے سیاستدانوں کا احتساب کرنے کااعلان کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ نواز شریف اور آصف زداری سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک میں چھپائی گئی عوام کی رقم واپس لے کر آئیں گے۔ عدالتی احکامات پر دونوں رہنما جیل میں ہیں، لیکن حکومت ان سے ایک روپیہ بھی نکلوانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے دونوں رہنماؤں کو پلی بارگین کی دعوت دیتے ہوئے خود ہی یوٹرن لے لیا۔
ہمیشہ کی طرح حکومتی وزراء اور مشیر اپنی کامیابیوں کے گن گاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جوش خطابت میں ایسے دعوے کرتے ہیں، جن کا حقیقی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ چند روز قبل ایک خبر آئی کہ پاکستان نے سفارتی سطح پر بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ امریکی صدر کے بعد وزیراعظم پاکستان کو روسی صدر نے کثیرالملکی ایسٹرن اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اتنی بڑی سفارتی کامیابی کی خبر سنتے ہی ملک بھر میں تقریباً 2 روز خوشی کے ترانے گائے گئے، لیکن یہ خوشی کی خبر دیرپا ثابت نہ ہوسکی۔ روسی دفتر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کو دعوت کے حوالے سے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کو دورہ روس کی کوئی دعوت نہیں دی گئی۔
عارضی طور پران افواہوں کے باعث پی ٹی آئی حکومت کو شہرت ملی لیکن 2 روز بعد ہی یہ شہرت عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنی۔ خوش فہمی ہزار نعمت سہی، مگر جب یہ غلط فہمی ثابت ہوتی ہے تو شرمندگی اور مایوسی کے آثار چھوڑ جاتی ہے۔
پی ٹی آئی قیادت نے الیکشن مہم میں جو دعوے کیے ابھی تک ان کا حقیقت سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا، خواہ وہ ایک کروڑ نوکریوں کی خوشخبری ہو یا پھر اپنے گھر کا دلاسہ۔ اگر آپ سیاست میں نئے ہیں تو معاملات کو سمجھیں نہ کہ بلند بانگ دعوے کریں۔ اگر وزراء اور مشیر اپوزیشن سے ٹکر لینے کی غرض سے عوام کو نت نئی خوشخبریاں سنائیں گے، جن کا دور دور تک حقائق سے کوئی واسطہ ہی نہیں تو دیگر سیاسی جماعتوں اور پی ٹی آئی میں فرق کرنا عوام کےلیے مشکل ہوجائے گا۔
عوام کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے سے گزارش ہے کہ خوش فہمیوں کی دنیا سے باہر نکلیں اور حقیقت کو اپنائیں۔ عارضی مفادات کےلیے بلند بانگ دعوے کرنے سے نہ صرف آپ کی شخصیت متاثر ہوتی ہے، بلکہ قول و فعل میں بار بار تضاد آنے سے کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہونا طبعی امر ہے، لیکن حقیقت جاننے کے باوجود اس پر ڈٹے رہنا فرد واحد اور معاشرے دونوں کےلیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کچھ روز قبل بلال نے بسلسلہ روزگار لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ والدین سمیت تمام احباب کو یقین دلایا کہ میری لاہور میں ملازمت ہوگئی اور تنخواہ بھی انتہائی مناسب ہے۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے اسے واضح الفاظ میں میڈیا پر آئے بحران کے بارے میں بتایا لیکن شاید میری یہ بات اس کے پلے نہ پڑی۔ تقریباً ایک ہفتہ لاہور جانے کا خوب شور مچایا ۔والدین اور اہل وعیال کو بھی امید تھی کہ لاہور میں بلال کو ملازمت مل چکی ہے۔ ایک ہفتے بعد جب بلال نے اپنے اس دوست سے رابطہ کیا، جس نے نوکری دلوانے کا وعدہ کیا تھا تو اس کا نمبر بند تھا۔ اگر کبھی فون آن بھی ہوتا تو وہ بلال کا فون سننے سے گریز کرتا۔ یوں ہر بار کی طرح بے وجہ شور مچانے کے باعث اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
معاشرے میں بلال جیسے کئی افراد موجود ہیں جو شیخ چلی کی طرح صرف خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں۔ کبھی نیا کاروبار شروع کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں، تو کبھی ملازمت کا شوروغل مچاتے ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی بزرگوں کو یہ کہتے سنا کہ کسی کام کو کرنے سے قبل شور مچانے سے اس سے برکت ختم ہوجاتی۔ مطلب خاموشی سے اپنی کامیابی کےلیے تگ و دو کریں اور آپ کی کامیابی خودبخود دنیا پر عیاں ہوجائے گی۔
شیخ چلی کے خیالی پلاؤ کا تذکرہ ہوا تو ہمارے ملک کے سیاستدان بھی اس میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہر الیکشن میں سیاسی شخصیات عوام کو نت نئے خواب دکھاتے ہیں۔ کبھی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، تو کبھی پاکستان کا قرض اتارنے کے دلاسے۔ ہر سیاسی جماعت اپنا چورن بیچنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اِنہیں اقتدار کانٹوں کا بستر نظر آتا ہے۔
حکمران طبقے کی مثال گھر کے سربراہ کے جیسی ہوتی ہے، جس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ہر فرد کی ضروریات کو پورا کرے۔ آمدن اور اخراجات کے حوالے سے کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ گھر کے دیگر افراد بس اپنی اپنی ضروریات بتاتے جاتے ہیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں پورا کرے۔ اپنے گھر کے معاملات کو چلانے کےلیے اس کو کتنی دقت اور مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے، اس کا ادراک کبھی اپنے اہلخانہ کو نہیں ہونے دیتا۔
کچھ ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کے عہدے پر رہ کر بطور گھر کے سربراہ کی ذمے داریاں نبھائیں۔ کسی کو اس بات کا گمان نہ ہونے دیا کہ ملکی خزانے میں کتنی رقم باقی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے اور (ن) لیگ سے اقتدار چھیننے کی غرض سے ملکی معیشت کا سہارا لیا۔ گلی محلوں میں ڈھول پیٹا گیا کہ پاکستا ن کا خزانہ بالکل خالی ہے، جس کی اصل ذمے دار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہے۔ عوام کو بھی نیا چورن زیادہ پسند آیا اور یوں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔
ہمارے ملک کے سیاستدان اقتدار میں آنے سے قبل سمجھتے ہیں کہ تمام ملکی مسائل بس ان کی ایک چٹکی سے حل ہوجائیں گے۔ پی ٹی آئی کے تھنک ٹینک اور ماہر معاشیات اسد عمر کی خوش فہمی کہوں یا پھر کم علمی کہ انہوں نے ملکی معیشت کو سنبھالنےکا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ کیا کہ ملکی خزانے کو بحرانوں سے نکالنے کا جن پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس ہے۔
حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان سے دوریاں اختیار کرلیں۔ یقینی بات ہے کہ کسی بھی کمپنی کی مینجمنٹ اتنی بے وقوف نہیں ہوتی کہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرے جس کے حکمران چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ خزانے خالی ہوچکے ہیں اور سوائے چند ایک کے تقریباً تمام ادارے بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔
آئی ایم ایف سے قرض لینا شاید اتنا دشوار نہ ہوتا، اگر الیکشن کے دنوں میں روزوشب معیشت کی بدحالی کا راگ نہ الاپا جاتا۔
موجودہ حکومت ہر معاملے میں خوش فہمیوں کا شکار ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں پی ٹی آئی قیادت (ن) لیگی حکومت کو میٹرو بس میں کرپشن اور مہنگے منصوبوں کا طعنہ دیتی رہی۔ لیکن خیبرپختونخوا میں اچانک انہیں عوامی خدمت کا خیال آیا اور بی آر ٹی منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے وسیع اور سستا منصوبہ ہے۔ کے پی کے حکومت کے دعوؤں کے باوجود یہ منصوبہ کئی مشکلات کا شکار ہے۔ کبھی ناقص میٹریل تو کبھی نکاسی آب کا انتظام نہ ہونے کی خبریں پی ٹی آئی قیادت کا منہ چڑانے کےلیے کافی ہیں۔
یہ حال صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت کا ہے۔ (ن) لیگی رہنما شہباز شریف بھی کئی خوش فہمیوں کا شکار رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2013 کے الیکشن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور ملکی خزانے سے لوٹی گئی ایک ایک پائی وصول کریں گے۔ زرداری فیملی کو سڑکوں پر گھسیٹنے میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی، لیکن جیل کی سلاخوں سے بچنے کےلیے ایک دوسرے کی امداد میں مصروف عمل ہیں۔
سابقہ حکومت کی طرح موجودہ وزیراعظم عمران خان نے کرپشن کے خلاف ایک مہم چلائی۔ ملکی معیشت کو بحرانوں کی دلدل سے نکلتا مشکل دیکھ کر انہوں نے کرپٹ شخصیات سے وصولیوں کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلے سیاستدانوں کا احتساب کرنے کااعلان کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ نواز شریف اور آصف زداری سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک میں چھپائی گئی عوام کی رقم واپس لے کر آئیں گے۔ عدالتی احکامات پر دونوں رہنما جیل میں ہیں، لیکن حکومت ان سے ایک روپیہ بھی نکلوانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے دونوں رہنماؤں کو پلی بارگین کی دعوت دیتے ہوئے خود ہی یوٹرن لے لیا۔
ہمیشہ کی طرح حکومتی وزراء اور مشیر اپنی کامیابیوں کے گن گاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جوش خطابت میں ایسے دعوے کرتے ہیں، جن کا حقیقی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ چند روز قبل ایک خبر آئی کہ پاکستان نے سفارتی سطح پر بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ امریکی صدر کے بعد وزیراعظم پاکستان کو روسی صدر نے کثیرالملکی ایسٹرن اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اتنی بڑی سفارتی کامیابی کی خبر سنتے ہی ملک بھر میں تقریباً 2 روز خوشی کے ترانے گائے گئے، لیکن یہ خوشی کی خبر دیرپا ثابت نہ ہوسکی۔ روسی دفتر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کو دعوت کے حوالے سے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کو دورہ روس کی کوئی دعوت نہیں دی گئی۔
عارضی طور پران افواہوں کے باعث پی ٹی آئی حکومت کو شہرت ملی لیکن 2 روز بعد ہی یہ شہرت عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنی۔ خوش فہمی ہزار نعمت سہی، مگر جب یہ غلط فہمی ثابت ہوتی ہے تو شرمندگی اور مایوسی کے آثار چھوڑ جاتی ہے۔
پی ٹی آئی قیادت نے الیکشن مہم میں جو دعوے کیے ابھی تک ان کا حقیقت سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا، خواہ وہ ایک کروڑ نوکریوں کی خوشخبری ہو یا پھر اپنے گھر کا دلاسہ۔ اگر آپ سیاست میں نئے ہیں تو معاملات کو سمجھیں نہ کہ بلند بانگ دعوے کریں۔ اگر وزراء اور مشیر اپوزیشن سے ٹکر لینے کی غرض سے عوام کو نت نئی خوشخبریاں سنائیں گے، جن کا دور دور تک حقائق سے کوئی واسطہ ہی نہیں تو دیگر سیاسی جماعتوں اور پی ٹی آئی میں فرق کرنا عوام کےلیے مشکل ہوجائے گا۔
عوام کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے سے گزارش ہے کہ خوش فہمیوں کی دنیا سے باہر نکلیں اور حقیقت کو اپنائیں۔ عارضی مفادات کےلیے بلند بانگ دعوے کرنے سے نہ صرف آپ کی شخصیت متاثر ہوتی ہے، بلکہ قول و فعل میں بار بار تضاد آنے سے کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہونا طبعی امر ہے، لیکن حقیقت جاننے کے باوجود اس پر ڈٹے رہنا فرد واحد اور معاشرے دونوں کےلیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔