شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر امریکا روس اتفاق
امریکا اور روس شام کے کیمیائی ہتھیاوں کے معاملے پر ایک منصوبے پر متفق ہو گئے ہیں۔۔۔
KARACHI:
امریکا اور روس شام کے کیمیائی ہتھیاوں کے معاملے پر ایک منصوبے پر متفق ہو گئے ہیں جس کے تحت آیندہ سال کے وسط تک یہ ہتھیار شام سے کسی اور جگہ منتقل یا پھر تلف کر دیے جائیں گے۔ یہ اعلان روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لائوروف اور ان کے امریکی ہم منصب جان کیری کے درمیان تین روز تک جنیوا میں جاری بات چیت کے بعد کیا گیا۔ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ شام کو لازمی طور پر کیمیائی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے سے متعلق دیے گئے وقت کی پابندی کرنا ہو گی۔ دوسری طرف شامی حکومت کے مخالف باغیوں کی تنظیم ''فری سیرین آرمی'' نے اس سمجھوتے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے یہ روس کے ایما پر شامی حکومت کی جانب سے وقت حاصل کرنے کی کوشش ہے لہذا لڑائی جاری رکھی جائے گی۔
جینیوا میں مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا بشار الاسد حکومت کے پاس موجود کیمیائی ہتھیاروں کی تعداد اور نوعیت کے بارے میں متفقہ طور پر اندازے لگا لیے گئے ہیں اور اب امریکا اور روس انھیں جلد از جلد ضایع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ شام ایک ہفتے میں اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کی فہرست فراہم کرے اور نومبر تک عالمی معائنہ کاروں کو رسائی دے۔ شام کے تمام کیمیائی ہتھیار 2014کے وسط تک تلف کرنے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لائوروف نے کہا طے شدہ سمجھوتے میں اس بات کا ذکر نہیں کہ اگر شام اس ٹائم فریم کی پابندی نہیں کرتا تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال ہو گا لیکن کسی قسم کی خلاف ورزی کا جائزہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لیا جائے گا۔ روس کے شدید اعتراضات کے بعد اب امریکا شام سے متعلق قرارداد میں فوجی طاقت کے استعمال کے اصرار سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔یوں شام پر فوری حملے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ شام میں اڑھائی سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امن بات چیت شروع کرنے پر بھی بات کی گئی ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے دعویٰ کیا کہ شام کے 45 مقامات پر کیمیائی ہتھیار موجود ہیں جن کا کنٹرول شام کی حکومت کے پاس ہے۔ نیز شام کے پاس ایک ہزار میٹرک ٹن کیمیائی مواد اور زہریلی گیسیں بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے روس امریکا سمجھوتے کا خیر مقدم کیا ہے اور سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے مکمل حمایت کا بھی یقین دلایا ہے۔ امریکی صدر اوباما نے بھی اس سمجھوتے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے' دمشق کو سمجھوتہ کے مطابق عملدرآمد کرنا ہو گا' اگر بشارالاسد حکومت سمجھوتے پر پورا نہیں اترتی تو امریکا اپنے اتحادی روس سے پوچھے گا اور حملے کے لیے تیار رہے گا۔ برطانیہ اور جرمنی نے بھی سمجھوتے کو خوش آیند کہتے ہوئے کہا ہے ک شام کے مسئلہ پر سیاسی استحکام کے لیے تازہ موقع پیدا ہوا ہے۔
فرانس نے بھی اس منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ''اہم قدم'' قرار دیا ہے۔ اس معاہدے سے بظاہر تو شام پر امریکی فوج کشی وقتی طور پر رک گئی ہے لیکن امریکا کے طیارہ بردار بحری بیڑے بدستور شام کا محاصرہ کیے کھڑے ہیں اور حملے کے لیے کسی نئے بہانے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت تو اب ساری دنیا جان چکی ہے کہ امریکا کسی بھی ملک پر حملے کے لیے کوئی بھی بہانہ تراش سکتا ہے خواہ اس میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو جیسا کہ عراق پر حملے کے موقعے پر ہوا تھا۔ خطے میں شام کے سب سے اہم اتحادی ایران نے اس سمجھوتے کے حوالے سے کہا ہے کہ اب امریکا کے پاس شام پر حملے کا کوئی جواز نہیں رہا۔
امریکا اور روس شام کے کیمیائی ہتھیاوں کے معاملے پر ایک منصوبے پر متفق ہو گئے ہیں جس کے تحت آیندہ سال کے وسط تک یہ ہتھیار شام سے کسی اور جگہ منتقل یا پھر تلف کر دیے جائیں گے۔ یہ اعلان روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لائوروف اور ان کے امریکی ہم منصب جان کیری کے درمیان تین روز تک جنیوا میں جاری بات چیت کے بعد کیا گیا۔ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ شام کو لازمی طور پر کیمیائی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے سے متعلق دیے گئے وقت کی پابندی کرنا ہو گی۔ دوسری طرف شامی حکومت کے مخالف باغیوں کی تنظیم ''فری سیرین آرمی'' نے اس سمجھوتے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے یہ روس کے ایما پر شامی حکومت کی جانب سے وقت حاصل کرنے کی کوشش ہے لہذا لڑائی جاری رکھی جائے گی۔
جینیوا میں مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا بشار الاسد حکومت کے پاس موجود کیمیائی ہتھیاروں کی تعداد اور نوعیت کے بارے میں متفقہ طور پر اندازے لگا لیے گئے ہیں اور اب امریکا اور روس انھیں جلد از جلد ضایع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ شام ایک ہفتے میں اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کی فہرست فراہم کرے اور نومبر تک عالمی معائنہ کاروں کو رسائی دے۔ شام کے تمام کیمیائی ہتھیار 2014کے وسط تک تلف کرنے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لائوروف نے کہا طے شدہ سمجھوتے میں اس بات کا ذکر نہیں کہ اگر شام اس ٹائم فریم کی پابندی نہیں کرتا تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال ہو گا لیکن کسی قسم کی خلاف ورزی کا جائزہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لیا جائے گا۔ روس کے شدید اعتراضات کے بعد اب امریکا شام سے متعلق قرارداد میں فوجی طاقت کے استعمال کے اصرار سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔یوں شام پر فوری حملے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ شام میں اڑھائی سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امن بات چیت شروع کرنے پر بھی بات کی گئی ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے دعویٰ کیا کہ شام کے 45 مقامات پر کیمیائی ہتھیار موجود ہیں جن کا کنٹرول شام کی حکومت کے پاس ہے۔ نیز شام کے پاس ایک ہزار میٹرک ٹن کیمیائی مواد اور زہریلی گیسیں بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے روس امریکا سمجھوتے کا خیر مقدم کیا ہے اور سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے مکمل حمایت کا بھی یقین دلایا ہے۔ امریکی صدر اوباما نے بھی اس سمجھوتے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے' دمشق کو سمجھوتہ کے مطابق عملدرآمد کرنا ہو گا' اگر بشارالاسد حکومت سمجھوتے پر پورا نہیں اترتی تو امریکا اپنے اتحادی روس سے پوچھے گا اور حملے کے لیے تیار رہے گا۔ برطانیہ اور جرمنی نے بھی سمجھوتے کو خوش آیند کہتے ہوئے کہا ہے ک شام کے مسئلہ پر سیاسی استحکام کے لیے تازہ موقع پیدا ہوا ہے۔
فرانس نے بھی اس منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ''اہم قدم'' قرار دیا ہے۔ اس معاہدے سے بظاہر تو شام پر امریکی فوج کشی وقتی طور پر رک گئی ہے لیکن امریکا کے طیارہ بردار بحری بیڑے بدستور شام کا محاصرہ کیے کھڑے ہیں اور حملے کے لیے کسی نئے بہانے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت تو اب ساری دنیا جان چکی ہے کہ امریکا کسی بھی ملک پر حملے کے لیے کوئی بھی بہانہ تراش سکتا ہے خواہ اس میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو جیسا کہ عراق پر حملے کے موقعے پر ہوا تھا۔ خطے میں شام کے سب سے اہم اتحادی ایران نے اس سمجھوتے کے حوالے سے کہا ہے کہ اب امریکا کے پاس شام پر حملے کا کوئی جواز نہیں رہا۔