’ مولانا فضل الرحمان کا بحران‘
مولانا فضل الرحمان کی سیاست بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ جتنا سیاسی دلدل سے نکلنے کی کوشش کر تے ہیں...
مولانا فضل الرحمان کی سیاست بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ جتنا سیاسی دلدل سے نکلنے کی کوشش کر تے ہیں، اتنا ہی دھنستے چلے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ضمنی الیکشن میں بھی جے یو آئی کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں ملی یہاں تک کہ ان کی اپنی خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست تحریک انصاف لے اڑی ہے۔ یہ صورتحال اگر مولانا فضل الرحمان کے لیے باعث تشویش ہے تو تعجب کی بات نہیں۔ وہ عمران خان سے ناخوش اور نالاں ہیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے تاہم مولانا فضل الرحمن عمران خان پر جو 'سب و شتم' فرما رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا، یہ ان جیسے سینئر سیاست دان کے لیے مناسب ہے۔
مولانا فضل الرحمان جامعہ ازہر مصر سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ ازہر میں ان کے ایم اے کے مقالہ کا عنوان تھا ، Political Aspects of Islam۔ گویا، سیاسیاست کا ان کا نظری مطالعہ بھی گہرا ہے۔ ان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود صرف سیاستدان نہیں، عالم باعمل بھی تھے۔ 1970میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت نصف النہار پر تھی، تو اس بوریا نشیں نے انھیں ہرا دیا تھا۔ 'مغربی پاکستان' میں یہ واحد حلقہ تھا جہاں سے بھٹو نے الیکشن ہارا۔ مارچ 1972 میں مولانا مفتی محمود صوبہ خیبر پختونخوا جو اس وقت 'سرحد' کہلاتا تھا مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ منتخب کیے گئے تاہم فروری 1973 میں جب وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان میں 'نیپ، جے یو آئی مخلوط حکومت' برطرف کر دی، تو مولانا مفتی محمود، صوبائی کابینہ سمیت احتجاجاً خیبر پختون خوا حکومت سے مستعفی ہو گئے۔1977 میں مولانا مفتی محمود کو پیپلز پارٹی کے خلاف متفقہ طور پر ' قومی اتحاد ' کا قائد چن لیا گیا۔ اکتوبر 1980 میں عالم سجدہ میں انتقال فرما گئے۔
مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمان کا ورود ہوتا ہے، ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر۔ نوجوان مولانا کو سیاست میں معمر نوابزادہ کا شاگرد خاص سمجھا جاتا تھا۔ 1985 میں ایم آر ڈی کا متفقہ فیصلہ تھا کہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس طرح مولانا فضل الرحمان یہ الیکشن نہیں لڑ سکے تھے۔ پہلا الیکشن انھوں نے 1988 کا لڑا۔ نوجوان مولانا کی اٹھان ایک ماڈریٹ مذہبی سیاستدان کی تھی۔ اس ایک ثبوت یہ ہے کہ جب اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے بینظیر بھٹو کے خلاف یہ مہم چلائی جا رہی تھی کہ اسلام میں عورت، سربراہ مملکت نہیں ہو سکتی، تو مولانا فضل الرحمان نے نہ صرف اس مذہبی نقطہ ء نظر سے اختلاف کیا، بلکہ محترمہ کا بھرپور دفاع کیا۔ انھوں نے1990 کا الیکشن نواز شریف کے تعاون سے لڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تعاون ان کو مہنگا پڑا اور وہ ہار گئے۔ 1993 میں انھوں نے کھل کر بینظیر بھٹو کا ساتھ دیا، اور اپنی سیٹ جیت لینے میں کامیاب ہو گئے۔ وزیر اعظم بینظیر نے ان کو امور خارجہ کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ اس زمانہ میں، وہ بے نظیر بھٹو کے با اعتماد مشیر قرار پا چکے تھے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی 'افغان طالبان پالیسی' میں ان کا کردار کم اہم نہیں تھا۔ 1998 میں بینظیر بھٹو نے نواز شریف کے ''سیف الرحمان احتساب بیورو'' سے تنگ آ کے 'جلاوطنی' اختیار کر لی اور مولانا فضل الرحمان قائم مقام اپوزیشن لیڈر مقرر کیے گئے، تو اس میں بے نظیر بھٹو کی آشیر واد شامل تھی۔
مولانا فضل الرحمان کو مگر عروج جنرل پرویز مشرف دور میں ملا اور یہ عروج مرہون احسان تھا متحدہ مجلس عمل کا۔ یہ بات کہیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ2002میں مسلم لیگ ق ابتدائی طور پر متحدہ مجلس عمل سے مل کر حکومت بنانا چاہتی تھی، اور جو فارمولہ طے پا رہا تھا، اس کے تحت مولانا فضل الرحمان کو 'نائب وزیراعظم' بننا تھا۔ بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تاہم جب چوہدری برادران نے میر ظفراللہ جمالی کا نام وزارت عظمیٰ کے لیے پیش کیا تو انھوں نے ان سے کہا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے وہ میر ظفراللہ جمالی سے بہتر امیدوار ہیں۔ وکی لیکس میں امریکی سفیر پیڑسن کے حوالہ سے یہ بات منظر عام پر آ چکی ہے کہ انھوں نے ان کی وساطت سے امریکی حکام کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ حقیقتاً، اس سعی ِ ناکام کے بعد ہی انھوںنے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ قبول کیا تھا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف وہ، خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہے تھے، اور دوسری طرف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ جب جماعت اسلامی نے آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلہ کے تحت 2008کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تو مولانافضل الرحمان جنھیں ایم آرڈی کے بائیکاٹ کا تلخ تجربہ تھا، ان کا مؤقف تھا کہ 5 برس بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کرنے کے بعد الیکشن کا بائیکاٹ کرنا احمقانہ پن ہو گا۔
اصولی طور پر ان کا فیصلہ بے شک درست تھا لیکن عملاً ہوا یہ کہ جمعیت علمائے اسلام الیکشن ہار گئی۔ وہ خود بمشکل کامیاب ہو سکے تھے لیکن انھوں نے بہ انداز دگر دوبارہ وہی پالیسی اختیار کر لی، صوبہ میں اپوزیشن بنچوں پر اور وفاق میں حکومتی بنچوں پر۔ آخری سال، اگرچہ انھوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن صرف ظاہری طور۔11 مئی سے پہلے صاف نظر آ رہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں اگر متحدہ مجلس عمل بحال نہ ہو سکی تو جے یو آئی کے لیے یہ الیکشن 2008 کے الیکشن کا 'ری پلے' ثابت ہو گا لیکن شاید مولانا فضل الرحمان کا تجزیہ یہ تھا کہ ''اے این پی کی شکست نوشتہ دیوار بن چکی ہے، نتیجتاً خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کا سنہرا دور لوٹ آنے کو ہے۔'' انھوں نے عمران خان کے خلاف بے رحمانہ ریمارکس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ضمنی الیکشن میں عمران خان کے خلاف انھوں نے جو نوکیلے خطابات کیے، ضمنی الیکشن کا نتیجہ ان نوکیلے خطابات کا منطقی نتیجہ تھا۔ مولانا فضل الرحمان پر ان کے مخالف ''بھارتی ایجنٹ'' ہونے کا بے سروپا الزام عائد کرتے ہیں۔ مولانا نے ان الزامات کو ہمیشہ غیر سنجیدہ سیاست کا مظہر قرار دیا ہے، لیکن عمران خان پر ''اسرائیلی ایجنٹ'' ہونے کا الزام بھی اسی طرح کی غیر سنجیدہ سیاست ہے، جس طرح کی غیر سنجیدہ سیاست کا مرتکب وہ اپنے مخالفین کو قرار دیتے ہیں۔
11 مئی کے بعد جے یو آئی کے لیے صوبہ اور وفاق میں بطور اپوزیشن کے طور پر بروئے کار آنے کا ایک بہترین موقع تھا لیکن شاید دوسری پارٹیوں کی طرح وہ بھی حقیقی اپوزیشن بننے کا خطرہ مول لینے کو تیا ر نہیں۔ ان کے دست راست اکرم درانی، وفاقی وزیر بن چکے ہیں۔ ظاہر ہے، ابھی اور بہت کچھ ہو گا۔اصل بات یہ ہے کہ ایک تو مولانا فضل الرحمان، عمران خان کے مقابلے میں ضرورت سے زیادہ گھبراہٹ کا شکار نظر آتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ بہر صورت حکومت کا حصہ بن کے رہنا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان جامعہ ازہر مصر سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ ازہر میں ان کے ایم اے کے مقالہ کا عنوان تھا ، Political Aspects of Islam۔ گویا، سیاسیاست کا ان کا نظری مطالعہ بھی گہرا ہے۔ ان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود صرف سیاستدان نہیں، عالم باعمل بھی تھے۔ 1970میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت نصف النہار پر تھی، تو اس بوریا نشیں نے انھیں ہرا دیا تھا۔ 'مغربی پاکستان' میں یہ واحد حلقہ تھا جہاں سے بھٹو نے الیکشن ہارا۔ مارچ 1972 میں مولانا مفتی محمود صوبہ خیبر پختونخوا جو اس وقت 'سرحد' کہلاتا تھا مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ منتخب کیے گئے تاہم فروری 1973 میں جب وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان میں 'نیپ، جے یو آئی مخلوط حکومت' برطرف کر دی، تو مولانا مفتی محمود، صوبائی کابینہ سمیت احتجاجاً خیبر پختون خوا حکومت سے مستعفی ہو گئے۔1977 میں مولانا مفتی محمود کو پیپلز پارٹی کے خلاف متفقہ طور پر ' قومی اتحاد ' کا قائد چن لیا گیا۔ اکتوبر 1980 میں عالم سجدہ میں انتقال فرما گئے۔
مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمان کا ورود ہوتا ہے، ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر۔ نوجوان مولانا کو سیاست میں معمر نوابزادہ کا شاگرد خاص سمجھا جاتا تھا۔ 1985 میں ایم آر ڈی کا متفقہ فیصلہ تھا کہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس طرح مولانا فضل الرحمان یہ الیکشن نہیں لڑ سکے تھے۔ پہلا الیکشن انھوں نے 1988 کا لڑا۔ نوجوان مولانا کی اٹھان ایک ماڈریٹ مذہبی سیاستدان کی تھی۔ اس ایک ثبوت یہ ہے کہ جب اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے بینظیر بھٹو کے خلاف یہ مہم چلائی جا رہی تھی کہ اسلام میں عورت، سربراہ مملکت نہیں ہو سکتی، تو مولانا فضل الرحمان نے نہ صرف اس مذہبی نقطہ ء نظر سے اختلاف کیا، بلکہ محترمہ کا بھرپور دفاع کیا۔ انھوں نے1990 کا الیکشن نواز شریف کے تعاون سے لڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تعاون ان کو مہنگا پڑا اور وہ ہار گئے۔ 1993 میں انھوں نے کھل کر بینظیر بھٹو کا ساتھ دیا، اور اپنی سیٹ جیت لینے میں کامیاب ہو گئے۔ وزیر اعظم بینظیر نے ان کو امور خارجہ کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ اس زمانہ میں، وہ بے نظیر بھٹو کے با اعتماد مشیر قرار پا چکے تھے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی 'افغان طالبان پالیسی' میں ان کا کردار کم اہم نہیں تھا۔ 1998 میں بینظیر بھٹو نے نواز شریف کے ''سیف الرحمان احتساب بیورو'' سے تنگ آ کے 'جلاوطنی' اختیار کر لی اور مولانا فضل الرحمان قائم مقام اپوزیشن لیڈر مقرر کیے گئے، تو اس میں بے نظیر بھٹو کی آشیر واد شامل تھی۔
مولانا فضل الرحمان کو مگر عروج جنرل پرویز مشرف دور میں ملا اور یہ عروج مرہون احسان تھا متحدہ مجلس عمل کا۔ یہ بات کہیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ2002میں مسلم لیگ ق ابتدائی طور پر متحدہ مجلس عمل سے مل کر حکومت بنانا چاہتی تھی، اور جو فارمولہ طے پا رہا تھا، اس کے تحت مولانا فضل الرحمان کو 'نائب وزیراعظم' بننا تھا۔ بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تاہم جب چوہدری برادران نے میر ظفراللہ جمالی کا نام وزارت عظمیٰ کے لیے پیش کیا تو انھوں نے ان سے کہا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے وہ میر ظفراللہ جمالی سے بہتر امیدوار ہیں۔ وکی لیکس میں امریکی سفیر پیڑسن کے حوالہ سے یہ بات منظر عام پر آ چکی ہے کہ انھوں نے ان کی وساطت سے امریکی حکام کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ حقیقتاً، اس سعی ِ ناکام کے بعد ہی انھوںنے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ قبول کیا تھا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف وہ، خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہے تھے، اور دوسری طرف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ جب جماعت اسلامی نے آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلہ کے تحت 2008کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تو مولانافضل الرحمان جنھیں ایم آرڈی کے بائیکاٹ کا تلخ تجربہ تھا، ان کا مؤقف تھا کہ 5 برس بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کرنے کے بعد الیکشن کا بائیکاٹ کرنا احمقانہ پن ہو گا۔
اصولی طور پر ان کا فیصلہ بے شک درست تھا لیکن عملاً ہوا یہ کہ جمعیت علمائے اسلام الیکشن ہار گئی۔ وہ خود بمشکل کامیاب ہو سکے تھے لیکن انھوں نے بہ انداز دگر دوبارہ وہی پالیسی اختیار کر لی، صوبہ میں اپوزیشن بنچوں پر اور وفاق میں حکومتی بنچوں پر۔ آخری سال، اگرچہ انھوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن صرف ظاہری طور۔11 مئی سے پہلے صاف نظر آ رہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں اگر متحدہ مجلس عمل بحال نہ ہو سکی تو جے یو آئی کے لیے یہ الیکشن 2008 کے الیکشن کا 'ری پلے' ثابت ہو گا لیکن شاید مولانا فضل الرحمان کا تجزیہ یہ تھا کہ ''اے این پی کی شکست نوشتہ دیوار بن چکی ہے، نتیجتاً خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کا سنہرا دور لوٹ آنے کو ہے۔'' انھوں نے عمران خان کے خلاف بے رحمانہ ریمارکس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ضمنی الیکشن میں عمران خان کے خلاف انھوں نے جو نوکیلے خطابات کیے، ضمنی الیکشن کا نتیجہ ان نوکیلے خطابات کا منطقی نتیجہ تھا۔ مولانا فضل الرحمان پر ان کے مخالف ''بھارتی ایجنٹ'' ہونے کا بے سروپا الزام عائد کرتے ہیں۔ مولانا نے ان الزامات کو ہمیشہ غیر سنجیدہ سیاست کا مظہر قرار دیا ہے، لیکن عمران خان پر ''اسرائیلی ایجنٹ'' ہونے کا الزام بھی اسی طرح کی غیر سنجیدہ سیاست ہے، جس طرح کی غیر سنجیدہ سیاست کا مرتکب وہ اپنے مخالفین کو قرار دیتے ہیں۔
11 مئی کے بعد جے یو آئی کے لیے صوبہ اور وفاق میں بطور اپوزیشن کے طور پر بروئے کار آنے کا ایک بہترین موقع تھا لیکن شاید دوسری پارٹیوں کی طرح وہ بھی حقیقی اپوزیشن بننے کا خطرہ مول لینے کو تیا ر نہیں۔ ان کے دست راست اکرم درانی، وفاقی وزیر بن چکے ہیں۔ ظاہر ہے، ابھی اور بہت کچھ ہو گا۔اصل بات یہ ہے کہ ایک تو مولانا فضل الرحمان، عمران خان کے مقابلے میں ضرورت سے زیادہ گھبراہٹ کا شکار نظر آتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ بہر صورت حکومت کا حصہ بن کے رہنا چاہتے ہیں۔