اصل دیوار چین
لائل پور سے میرے ایک دیرینہ دوست اسلم نے فون پر صرف یہ بتایا کہ اس کی ملز کا غیر ملکی منیجر اپنے...
KARACHI:
لائل پور سے میرے ایک دیرینہ دوست اسلم نے فون پر صرف یہ بتایا کہ اس کی ملز کا غیر ملکی منیجر اپنے کسی ذاتی کام سے میرے پاس آنا چاہتا ہے اور میں اس کی جو مدد ہو سکے ضرور کروں۔ میرے ذہن میں ابھی تک فیصل آباد شہر کا نام راسخ نہیں ہوا۔ میں جب اسے فیصل آباد کہتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی اور شہر کا ذکر کر رہا ہوں لیکن لائل پور کہتے ہی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ شاید یہ میری جنریشن کا مسئلہ ہے۔ شیخ اسلم نے مجھے جس طرح کا فون کیا، ایسے چار پانچ فون میں روز سنتا ہوں اور بساط کے مطابق لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں بلکہ بقول شاہد نسیم میں لوگوں کے کام اپنے اوپر طاری کر لیتا ہوں۔
اگلے دن کوئی گیارہ بجے وہ شخص میرے دفتر میں آیا۔ اس کا نام لی چنگ تھا اور وہ چین کا رہنے والا تھا۔ اس کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔ عام چینیوں کی طرح اس نے نظر کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔میرا خیال تھا کہ اس کا مسئلہ زیادہ سے زیادہ اپنے مالک مکان سے کرایہ کے کم کرنے کے متعلق ہو سکتا تھا۔
لی چنگ نے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا۔ وہ چینی لہجے میں عجیب و غریب اردو بول رہا تھا۔ جب لی چنگ نے اپنا مسئلہ بتانا شروع کیا تو میں تیز دھوپ میں برف کی طرح پگھلنا شروع ہو گیا۔ لی چنگ، لائل پور (فیصل آباد) میں ایک ملز میں منیجر تھا اور وہ 5 سال سے ایک ہی شہر اور ایک ہی مل میں کام کر رہا تھا۔ اسے پاکستان سے عشق تھا۔ اس نے بڑی محنت سے اردو سیکھی۔ وہ تمام پاکستانی کھانے بنانے جانتا تھا اور صرف پاکستانی کھانے کھاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ تم لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ دنیا کے لذیذ ترین کھانے یہاں بنائے جاتے ہیں۔
اس کا ایک انجینئر بھائی تھا جو پاکستان کے ایک دور دراز علاقے میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے لیے 3 سال سے بڑی محنت اور لگن سے کام کر رہا تھا۔ اس نے گیس اور تیل کے تین نئے ذخائر دریافت کیے اور اس کے بعد وہ اپنا تین سالہ کنڑیکٹ ختم کر کے چین واپس جانے والا تھا۔ واپسی سے چھ دن پہلے اسے نامعلوم لوگوں نے قتل کر دیا۔ اس کا نام لی مِن تھا۔ قاتل جو دس بارہ کے قریب تھے ، فرار ہو گئے۔ لی چنگ لائل پور سے اٹھارہ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد اپنے بھائی کی مقتل گاہ تک پہنچااوربھائی کی نعش کو چین بھجوا دیا۔
لی چنگ کو لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ واپس چلا جائے مگر اس نے کسی کی بات نہ مانی۔ تھانے سے لے کر وہ تمام ضلعی حکام سے ملا۔ ڈویژنل افسران، ڈی آئی جی سے ملتا رہا۔ پھر وہ ہوم سیکریٹری سے ملا۔ سب نے اسے ایک طرح کا جواب دیا کہ ہم قاتلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک سال گزر گیا، لی چنگ نے ہر بار 18 گھنٹے سفر کر کے حکام کو ملنے کے لیے 34 چکر لگائے۔ اس نے اپنے مالک سے مختلف اوقات میں 100 دن کی چھٹی لی مگر کوئی ملزم پکڑا نہ گیا۔ اس نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔چین جانے سے پہلے وہ مجھے یہ سب کچھ بتانا چاہتا تھا۔
لی نے مجھ سے ایک عجیب سوال کیا کہ اس کے ملک کی اصل دیوار چین کونسی ہے؟ میں نے اسے دیوار چین کے متعلق بتایا تو اس نے قہقہے لگانا شروع کر دیے اور کہا کہ تمہیں کچھ نہیں پتہ۔پھر وہ بولنا شروع ہوا، دیوار چین ساتویں صدی قبل مسیح میں شروع کی گئی اور ایک نہیں کئی دیواریں بنائی گئیں۔ پھر ان تمام دیواروں کو جوڑ دیا گیا۔ چین کے قدیم بادشاہ، کن شی ہونگ نے 206-220 قبل مسیح میں سب سے مضبوط اور مشہور دیوار بنائی جس کا بہت کم حصہ رہ گیا ہے۔ یہ تمام تعمیراتی کام چین کے شمال میں کیا گیا تا کہ ملک کو حملہ آوروں سے محفوظ کیا جائے۔ آج کی موجودہ دیوار منگ شاہی خاندان نے بنوائی۔ یہ 8,850 کلومیٹر طویل ہے مگر بعض ماہرین دیوار چین کی لمبائی21,996 کلومیٹر بتاتے ہیں۔
لی چنگ بولتا رہا مگر یہ مضبوط اور عظیم دیوار چین کو محفوظ نہ بنا سکی۔ پوست کی کاشت اور فصل پر جنگیں عام تھیں۔ اس مضبوط فصیل کی موجودگی میں بھی چین میں عام آدمی کی زندگی غیر محفوظ تھی ، اس کا مال اور خاندان ان اشخاص کے رحم و کرم پر تھا جو صرف ان کو سانس لینے کا حق دینا چاہتے تھے۔ کسان کی فصل بھی اس کی اپنی نہیں تھی۔
انقلاب چین کے بعد چین بالکل بدلنے لگا ۔ بیس پچیس برس پہلے چین نے اپنے آپ کو اقتصادی طور پر تمام دنیا کے لیے کھول دیا۔ چین دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو انتہائی تیز رفتاری سے بہت پیچھے چھوڑ گیا اور اب وہ معاشی طور پر امریکا سے صرف چند قدم پیچھے ہے۔ لی کے مطابق، اس ترقی کی بہت حیثیت ہے مگر اصل میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے مطابق ایسی ترقی دنیا کے کئی ملکوں نے کی ہے اور کرتے رہیں گے۔ تو پھر اور کیا چیز ہے جسکی طاقت سے یہ ملک عظیم ترین ملکوں کی صف میں کھڑا ہو چکا ہے۔
وہ بولتا رہا، تم پاکستانی کبھی نہیں سمجھ پائو گے۔ میں خاموش رہا مگر اس کا بیان جاری رہا۔ لہجے میں ہلکی سی تلخی آ چکی تھی۔ سنو، بوسلال (Bo-xilal) چونگنگ شہر کی کمیونسٹ پارٹی کا چیف تھا۔ وہ اس شہر کا میئر بھی تھا۔ اس کا مستقبل ایک روشن ستارے کی طرح تھا۔ وہ ایک دیو مالائی کردار کے طور پر ابھر رہا تھا۔ وہ جوان تھااور یہ بات طے تھی کہ وہ پولٹ بیورو کا اہم ترین رکن بننے والا ہے۔ لوگ اس کی مثالی ترقی پر رشک کرتے تھے اور اکثر مائوں کا خواب تھا کہ ان کے بچے Bo-xilal کی طرح ترقی کریں۔ اس کی بیوی گوکلال (Gu-Kilal) انتہائی کامیاب وکیل تھی۔ یہ جوڑا انتہائی دولت مند، طاقتور اور خوش نصیب گردانا جاتا تھا۔ کئی چینی سمجھتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ چین کی قیادت سنبھالنے کے منصب پر پہنچ پائے۔
مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک برطانوی تاجر نیل ہوڈ جس کا Bo-xilal کے خاندان کے ساتھ قریبی، تجارتی تعلق تھا۔ چونگ کنگ کے ہوٹل میں مردہ پایا گیا۔ اس کی موت کی وجہ شراب پینے سے دل کا دورہ بتائی گئی۔ ساری دنیا کے چینلز پر یہ خبر آئی اور کچھ دن کے بعد زندگی معمول کے مطابق رواں ہو گئی مگر بو سلال کے پولیس چیف وانگ لوجان نے اپنی تفتیش جاری رکھی اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ برطانوی تاجر کی موت قدرتی نہیں تھی۔ اس پر ایک خوفناک سچ کا انکشاف ہوا، کہ یہ قتل دراصل گو، کیلال اور اس کے ایک نوکر نے کیا ہے۔ جب یہ بات باہر نکلنے لگی تو بوسلال نے اسے چھپانے کی کوشش کی۔ پولیس چیف کو اس قدر ذہنی دبائو میں لایا گیا کہ اس نے Chengdu کے امریکی قونصلیٹ میں پناہ لے لی۔
وہاں ایک رات گزارنے کے بعد پولیس چیف وانگ لو کو واپس لایا گیا۔ Bo-xilal کے مطابق اس کا پولیس چیف کام کی زیادتی کی وجہ سے ذہنی تنائو کا شکار ہو چکا ہے لہٰذاسے مکمل آرام کی ضرورت ہے مگر اب تمام واقعات کھل چکے تھے۔ Boxilal اپنی تمام طاقت، اختیار اور حیثیت کے باوجود بے بس ہو چکا تھا۔ اس کی بیوی کو گرفتار کر لیا گیا اور عدالت میں برطانوی شہری کے قتل کے الزام پر اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ یہ قتل کا مقدمہ تین اگست 2012 کو شروع کیا گیا۔ گوکلال جو ایک امیر ترین وکیل تھی جس کا کہا ہوابہت اہمیت رکھتا تھا اورجس کا خاوند ملک کی سیاست میں ابھرتا ہوا سورج تھا، سب ملکر کچھ نہ کر سکے۔ 20 اگست2012یعنی صرف انیس روز کی سماعت میں گوکلال اور اس کے ساتھ شریک جرم کو سزائے موت سنا دی گئی۔
Bo-xilai کے خلاف رشوت، فراڈ اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے جرائم پر کارروائی شروع ہو گئی۔ اس کا جیٹ طیارہ اور یورپ میں ایک محل بھی زیر تفتیش آئے۔ اس کا ایک بیٹا جو امریکا میں ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ اس کی ٹیوشن فیس کے ذرایع پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ بو، کو چین کی کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو اسمبلی سے بھی نکالا گیا ۔ و ہ اپنے شہر کا میئر بھی نہ رہا۔ اب اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ عدالت کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں چند دنوں میں اس دیو مالائی کردار کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔
لی نے اپنا چشمہ صاف کیا اور کہا، ہماری اصل دیوار چین ہمارے انصاف پر مبنی نظام ہے جس میں طاقتور سے طاقتور انسان بھی اپنی حیثیت کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ جہاں Politbureau کا ہونے والا ممبر بھی پرَ نہیں مار سکتا۔ جہاں نظام کے سامنے امیر اور غریب میں رَتی برابر بھی فرق نہیں مگر تم لوگوں کا مسئلہ، میری سمجھ سے باہر ہے۔
لی اٹھا اور جانے سے پہلے مڑ کر کہنے لگا، مجھے پتہ ہے، میرے بھائی کے قاتلوں کو کچھ نہیں ہو گا۔ وہ کبھی گرفتار نہیں ہوں گے۔ مگر، مجھے، اب یہاں کسی دفتر میں نہیں جانا۔ یہ سب بے سود ہے۔ کھڑا ہونے کے بعد لی نے کہا، تمہیں علم ہے، کہ پاکستان کی پیدائش سے لے کر، اب تک، صرف پانچ سے سات ہزار خاندان، اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ انھوں نے، اور ان کے اہل و عیال نے، اپنے اوپر سونے کے لباس چڑھائے ہوئے ہیں۔ ان کی ہر انگلی میں، کوہ نور کے برابر، ہیرا ہے۔ اگر انھیں کسی کا سر چاہیے، تو وہ شخص خوف کی وجہ سے خود اپنا سر قلم کر کے، شکریہ کے ساتھ، ان لوگوں کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ قانون ان کے سامنے، ایک سدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح کھڑا رہتا ہے، اور وہ اس پر سوار ہو کر، عام لوگوں پر اپنے رحم کی بجلیاں برساتے ہیں۔ ان کی آنکھیں، یاقوت کی ہیں۔ جن سے لوگوں کے لیے صرف قہر برستا ہے۔ اور وہ خود اپنی ذات میں لوگوں کے لیے عدل ہیں۔ لی کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اگلے دن وہ ہمیشہ کے لیے اپنے وطن واپس چلا گیا۔
اس دن سے، میں کئی راتیں، سو نہیں پایا، میں اپنے ملک کا قصبہ قصبہ، قریہ قریہ، شہر شہر اور گائوں گائوں، بنجاروں کی طرح گھومتا رہا کہ شاید مجھے، پاکستان میں چین کی طرح کی اصل دیوار چین یا اصل دیوار پاکستان نظر آ جائے، مگر میں اب تک، ناکام ہوں، شاید اگر آپ کوشش کریں تو مجھے اس ملک کی اصل دیوار چین تلاش کر دیں؟ میں حقیقت میں ناکام نہیں ہونا چاہتا؟
لائل پور سے میرے ایک دیرینہ دوست اسلم نے فون پر صرف یہ بتایا کہ اس کی ملز کا غیر ملکی منیجر اپنے کسی ذاتی کام سے میرے پاس آنا چاہتا ہے اور میں اس کی جو مدد ہو سکے ضرور کروں۔ میرے ذہن میں ابھی تک فیصل آباد شہر کا نام راسخ نہیں ہوا۔ میں جب اسے فیصل آباد کہتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی اور شہر کا ذکر کر رہا ہوں لیکن لائل پور کہتے ہی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ شاید یہ میری جنریشن کا مسئلہ ہے۔ شیخ اسلم نے مجھے جس طرح کا فون کیا، ایسے چار پانچ فون میں روز سنتا ہوں اور بساط کے مطابق لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں بلکہ بقول شاہد نسیم میں لوگوں کے کام اپنے اوپر طاری کر لیتا ہوں۔
اگلے دن کوئی گیارہ بجے وہ شخص میرے دفتر میں آیا۔ اس کا نام لی چنگ تھا اور وہ چین کا رہنے والا تھا۔ اس کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔ عام چینیوں کی طرح اس نے نظر کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔میرا خیال تھا کہ اس کا مسئلہ زیادہ سے زیادہ اپنے مالک مکان سے کرایہ کے کم کرنے کے متعلق ہو سکتا تھا۔
لی چنگ نے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا۔ وہ چینی لہجے میں عجیب و غریب اردو بول رہا تھا۔ جب لی چنگ نے اپنا مسئلہ بتانا شروع کیا تو میں تیز دھوپ میں برف کی طرح پگھلنا شروع ہو گیا۔ لی چنگ، لائل پور (فیصل آباد) میں ایک ملز میں منیجر تھا اور وہ 5 سال سے ایک ہی شہر اور ایک ہی مل میں کام کر رہا تھا۔ اسے پاکستان سے عشق تھا۔ اس نے بڑی محنت سے اردو سیکھی۔ وہ تمام پاکستانی کھانے بنانے جانتا تھا اور صرف پاکستانی کھانے کھاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ تم لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ دنیا کے لذیذ ترین کھانے یہاں بنائے جاتے ہیں۔
اس کا ایک انجینئر بھائی تھا جو پاکستان کے ایک دور دراز علاقے میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے لیے 3 سال سے بڑی محنت اور لگن سے کام کر رہا تھا۔ اس نے گیس اور تیل کے تین نئے ذخائر دریافت کیے اور اس کے بعد وہ اپنا تین سالہ کنڑیکٹ ختم کر کے چین واپس جانے والا تھا۔ واپسی سے چھ دن پہلے اسے نامعلوم لوگوں نے قتل کر دیا۔ اس کا نام لی مِن تھا۔ قاتل جو دس بارہ کے قریب تھے ، فرار ہو گئے۔ لی چنگ لائل پور سے اٹھارہ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد اپنے بھائی کی مقتل گاہ تک پہنچااوربھائی کی نعش کو چین بھجوا دیا۔
لی چنگ کو لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ واپس چلا جائے مگر اس نے کسی کی بات نہ مانی۔ تھانے سے لے کر وہ تمام ضلعی حکام سے ملا۔ ڈویژنل افسران، ڈی آئی جی سے ملتا رہا۔ پھر وہ ہوم سیکریٹری سے ملا۔ سب نے اسے ایک طرح کا جواب دیا کہ ہم قاتلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک سال گزر گیا، لی چنگ نے ہر بار 18 گھنٹے سفر کر کے حکام کو ملنے کے لیے 34 چکر لگائے۔ اس نے اپنے مالک سے مختلف اوقات میں 100 دن کی چھٹی لی مگر کوئی ملزم پکڑا نہ گیا۔ اس نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔چین جانے سے پہلے وہ مجھے یہ سب کچھ بتانا چاہتا تھا۔
لی نے مجھ سے ایک عجیب سوال کیا کہ اس کے ملک کی اصل دیوار چین کونسی ہے؟ میں نے اسے دیوار چین کے متعلق بتایا تو اس نے قہقہے لگانا شروع کر دیے اور کہا کہ تمہیں کچھ نہیں پتہ۔پھر وہ بولنا شروع ہوا، دیوار چین ساتویں صدی قبل مسیح میں شروع کی گئی اور ایک نہیں کئی دیواریں بنائی گئیں۔ پھر ان تمام دیواروں کو جوڑ دیا گیا۔ چین کے قدیم بادشاہ، کن شی ہونگ نے 206-220 قبل مسیح میں سب سے مضبوط اور مشہور دیوار بنائی جس کا بہت کم حصہ رہ گیا ہے۔ یہ تمام تعمیراتی کام چین کے شمال میں کیا گیا تا کہ ملک کو حملہ آوروں سے محفوظ کیا جائے۔ آج کی موجودہ دیوار منگ شاہی خاندان نے بنوائی۔ یہ 8,850 کلومیٹر طویل ہے مگر بعض ماہرین دیوار چین کی لمبائی21,996 کلومیٹر بتاتے ہیں۔
لی چنگ بولتا رہا مگر یہ مضبوط اور عظیم دیوار چین کو محفوظ نہ بنا سکی۔ پوست کی کاشت اور فصل پر جنگیں عام تھیں۔ اس مضبوط فصیل کی موجودگی میں بھی چین میں عام آدمی کی زندگی غیر محفوظ تھی ، اس کا مال اور خاندان ان اشخاص کے رحم و کرم پر تھا جو صرف ان کو سانس لینے کا حق دینا چاہتے تھے۔ کسان کی فصل بھی اس کی اپنی نہیں تھی۔
انقلاب چین کے بعد چین بالکل بدلنے لگا ۔ بیس پچیس برس پہلے چین نے اپنے آپ کو اقتصادی طور پر تمام دنیا کے لیے کھول دیا۔ چین دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو انتہائی تیز رفتاری سے بہت پیچھے چھوڑ گیا اور اب وہ معاشی طور پر امریکا سے صرف چند قدم پیچھے ہے۔ لی کے مطابق، اس ترقی کی بہت حیثیت ہے مگر اصل میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے مطابق ایسی ترقی دنیا کے کئی ملکوں نے کی ہے اور کرتے رہیں گے۔ تو پھر اور کیا چیز ہے جسکی طاقت سے یہ ملک عظیم ترین ملکوں کی صف میں کھڑا ہو چکا ہے۔
وہ بولتا رہا، تم پاکستانی کبھی نہیں سمجھ پائو گے۔ میں خاموش رہا مگر اس کا بیان جاری رہا۔ لہجے میں ہلکی سی تلخی آ چکی تھی۔ سنو، بوسلال (Bo-xilal) چونگنگ شہر کی کمیونسٹ پارٹی کا چیف تھا۔ وہ اس شہر کا میئر بھی تھا۔ اس کا مستقبل ایک روشن ستارے کی طرح تھا۔ وہ ایک دیو مالائی کردار کے طور پر ابھر رہا تھا۔ وہ جوان تھااور یہ بات طے تھی کہ وہ پولٹ بیورو کا اہم ترین رکن بننے والا ہے۔ لوگ اس کی مثالی ترقی پر رشک کرتے تھے اور اکثر مائوں کا خواب تھا کہ ان کے بچے Bo-xilal کی طرح ترقی کریں۔ اس کی بیوی گوکلال (Gu-Kilal) انتہائی کامیاب وکیل تھی۔ یہ جوڑا انتہائی دولت مند، طاقتور اور خوش نصیب گردانا جاتا تھا۔ کئی چینی سمجھتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ ایک دن وہ چین کی قیادت سنبھالنے کے منصب پر پہنچ پائے۔
مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک برطانوی تاجر نیل ہوڈ جس کا Bo-xilal کے خاندان کے ساتھ قریبی، تجارتی تعلق تھا۔ چونگ کنگ کے ہوٹل میں مردہ پایا گیا۔ اس کی موت کی وجہ شراب پینے سے دل کا دورہ بتائی گئی۔ ساری دنیا کے چینلز پر یہ خبر آئی اور کچھ دن کے بعد زندگی معمول کے مطابق رواں ہو گئی مگر بو سلال کے پولیس چیف وانگ لوجان نے اپنی تفتیش جاری رکھی اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ برطانوی تاجر کی موت قدرتی نہیں تھی۔ اس پر ایک خوفناک سچ کا انکشاف ہوا، کہ یہ قتل دراصل گو، کیلال اور اس کے ایک نوکر نے کیا ہے۔ جب یہ بات باہر نکلنے لگی تو بوسلال نے اسے چھپانے کی کوشش کی۔ پولیس چیف کو اس قدر ذہنی دبائو میں لایا گیا کہ اس نے Chengdu کے امریکی قونصلیٹ میں پناہ لے لی۔
وہاں ایک رات گزارنے کے بعد پولیس چیف وانگ لو کو واپس لایا گیا۔ Bo-xilal کے مطابق اس کا پولیس چیف کام کی زیادتی کی وجہ سے ذہنی تنائو کا شکار ہو چکا ہے لہٰذاسے مکمل آرام کی ضرورت ہے مگر اب تمام واقعات کھل چکے تھے۔ Boxilal اپنی تمام طاقت، اختیار اور حیثیت کے باوجود بے بس ہو چکا تھا۔ اس کی بیوی کو گرفتار کر لیا گیا اور عدالت میں برطانوی شہری کے قتل کے الزام پر اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ یہ قتل کا مقدمہ تین اگست 2012 کو شروع کیا گیا۔ گوکلال جو ایک امیر ترین وکیل تھی جس کا کہا ہوابہت اہمیت رکھتا تھا اورجس کا خاوند ملک کی سیاست میں ابھرتا ہوا سورج تھا، سب ملکر کچھ نہ کر سکے۔ 20 اگست2012یعنی صرف انیس روز کی سماعت میں گوکلال اور اس کے ساتھ شریک جرم کو سزائے موت سنا دی گئی۔
Bo-xilai کے خلاف رشوت، فراڈ اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے جرائم پر کارروائی شروع ہو گئی۔ اس کا جیٹ طیارہ اور یورپ میں ایک محل بھی زیر تفتیش آئے۔ اس کا ایک بیٹا جو امریکا میں ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ اس کی ٹیوشن فیس کے ذرایع پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ بو، کو چین کی کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو اسمبلی سے بھی نکالا گیا ۔ و ہ اپنے شہر کا میئر بھی نہ رہا۔ اب اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ عدالت کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں چند دنوں میں اس دیو مالائی کردار کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔
لی نے اپنا چشمہ صاف کیا اور کہا، ہماری اصل دیوار چین ہمارے انصاف پر مبنی نظام ہے جس میں طاقتور سے طاقتور انسان بھی اپنی حیثیت کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ جہاں Politbureau کا ہونے والا ممبر بھی پرَ نہیں مار سکتا۔ جہاں نظام کے سامنے امیر اور غریب میں رَتی برابر بھی فرق نہیں مگر تم لوگوں کا مسئلہ، میری سمجھ سے باہر ہے۔
لی اٹھا اور جانے سے پہلے مڑ کر کہنے لگا، مجھے پتہ ہے، میرے بھائی کے قاتلوں کو کچھ نہیں ہو گا۔ وہ کبھی گرفتار نہیں ہوں گے۔ مگر، مجھے، اب یہاں کسی دفتر میں نہیں جانا۔ یہ سب بے سود ہے۔ کھڑا ہونے کے بعد لی نے کہا، تمہیں علم ہے، کہ پاکستان کی پیدائش سے لے کر، اب تک، صرف پانچ سے سات ہزار خاندان، اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ انھوں نے، اور ان کے اہل و عیال نے، اپنے اوپر سونے کے لباس چڑھائے ہوئے ہیں۔ ان کی ہر انگلی میں، کوہ نور کے برابر، ہیرا ہے۔ اگر انھیں کسی کا سر چاہیے، تو وہ شخص خوف کی وجہ سے خود اپنا سر قلم کر کے، شکریہ کے ساتھ، ان لوگوں کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ قانون ان کے سامنے، ایک سدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح کھڑا رہتا ہے، اور وہ اس پر سوار ہو کر، عام لوگوں پر اپنے رحم کی بجلیاں برساتے ہیں۔ ان کی آنکھیں، یاقوت کی ہیں۔ جن سے لوگوں کے لیے صرف قہر برستا ہے۔ اور وہ خود اپنی ذات میں لوگوں کے لیے عدل ہیں۔ لی کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اگلے دن وہ ہمیشہ کے لیے اپنے وطن واپس چلا گیا۔
اس دن سے، میں کئی راتیں، سو نہیں پایا، میں اپنے ملک کا قصبہ قصبہ، قریہ قریہ، شہر شہر اور گائوں گائوں، بنجاروں کی طرح گھومتا رہا کہ شاید مجھے، پاکستان میں چین کی طرح کی اصل دیوار چین یا اصل دیوار پاکستان نظر آ جائے، مگر میں اب تک، ناکام ہوں، شاید اگر آپ کوشش کریں تو مجھے اس ملک کی اصل دیوار چین تلاش کر دیں؟ میں حقیقت میں ناکام نہیں ہونا چاہتا؟