پکچر ابھی جاری ہے

سنا ہے کہ ایک فلم بڑی مشہور ہوئی تھی، نام تھا ’’بنکاک کے چور‘‘۔ فلم میں یہ دکھایا گیا تھا کہ دنیا بھر کے چور بنکاک...

سنا ہے کہ ایک فلم بڑی مشہور ہوئی تھی، نام تھا ''بنکاک کے چور''۔ فلم میں یہ دکھایا گیا تھا کہ دنیا بھر کے چور بنکاک میں جمع ہوجاتے ہیں جو وہاں کی پولیس کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ چورکتنے چالاک اور ہوشیار ہوتے ہیں اس سے تو سب واقف ہی ہیں لیکن بنکاک والوں اور وہاں کی پولیس کو کیسے ناکوں چنے چبوائے جاتے ہیں غالباً کچھ اسی قسم کی کہانی تھی۔ البتہ فلم کا نام پرتجسس تھا۔ کچھ عرصے سے کراچی کے جو حالات ہیں اسے دیکھ کر اسی قسم کا ایک نام ابھرتا ہے ''کراچی کے چور۔''

حالیہ حکومت کے آنے سے قبل بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال تھے ''کیا نئی حکومت پاکستان کے لیے واقعی مثبت تبدیلی لے کر آئے گی؟'' اس سوال کا جواب گزشتہ حکومت کی کارکردگی سے پیوستہ ہے، جس غیر ذمے داری، لاپرواہی اور بے ربطگی سے ملک کی گاڑی ریں ریں چلتی رہی تھی، اور اب ملبہ کہاں سے کہاں گر رہا ہے۔ شہر کراچی اس تمام صورت حال کا مرکز ہے جہاں پہلے بھی لاشیں گر رہی تھیں، شہری لٹ رہے تھے اور اب بھی لاشیں گر رہی ہیں، شہری لٹ رہے ہیں۔ اس شہر کی بربادی کا ذمے دار کون ہے، پرانی حکومت یا نئی حکومت؟

چوہدری نثار نے کراچی کے حوالے سے بہت سے خوش آیند اقدامات کا تذکرہ کیا تھا جو واقعی بڑے اچھے اور شہر کے لیے امن کا پروانہ لے کر چلا تھا لیکن جب تصور کو حقیقت کا رنگ دیا تو ایسا پھیکا پڑا کہ بہت سے دل جلوں کو مزید جلا گیا۔ یہ درست ہے کہ اس شہر کو امن کی ضرورت ہے۔ عروس البلاد کی روشنیاں پہلے ہی کچھ ہنگاموں اور کچھ الیکٹرک سپلائی والوں کی مرہون منت نذر شدہ ہوچکی ہیں لیکن امن کی چڑیا نہ جانے کس پنجرے میں جاکر سو گئی ہے، جس کی چابی فی الحال مرکز کے پاس نظر نہیں آتی، گو اس چابی کی تلاش میں مرکز کی جانب سے انتہائی دشوار راستوں کو اختیار کیا گیا جس سے ان کے جذبوں کی صداقت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن جس سیاسی بالائی کی طرف مرکز کو دھکیلا گیا ہے خدا جانے انھیں اس کا علم بھی ہے یا لاعلمی میں کلیجوں میں چٹکی نوچی گئی ہے۔

ہمارے ارباب اختیار کی وسیع النظری کو بھی شاید نظر لگ چکی ہے ورنہ جس بے اعتنائی کا سلوک ان کی جانب سے کیا گیا اور اس پر شرجیل میمن کا بیان پورے کراچی کو ایک ہی گھڑے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ یہ شہر بہت وسیع ہے، 1947 سے پہلے اس شہر کی حالت شہر لاہور کے مقابلے میں اونچے پہاڑ اور مٹی کے ڈھیری سے تھے۔ لاہور بنا بنایا خوبصورت شہر تھا جہاں دل والے پہلے بھی آباد تھے اور آج بھی نظر نہ لگے خیر آباد ہیں، لیکن 47 کے بعد سے کراچی نکھرتا گیا یہاں تک کہ دنیا بھر میں کراچی اور اس کی روشنیاں مشہور ہوگئیں۔ یہ قدرت کا ایک اصول ہے کہ لوگ ترقی کے مراکز کی جانب آباد ہوتے جاتے ہیں لیکن یہ بھی قدرت ہی کی جانب سے تھا جب اس شہر میں ایک ساتھ بہت سے لوگ آباد ہوگئے جو سارے اردو بولنے والے نہ تھے لیکن ان کی تعداد ضرور قابل ذکر تھی۔


اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمارے لیے سیاسی اقدار کچھ اس طرح پرورش پاچکی ہیں کہ شاید اس دور کو قائداعظم دیکھتے تو ان کا دل غم سے بھرجاتا۔ تعصب، لسانی اور مذہبی انتہاپسندی کا یہ دور اس ملک کی سرزمین پر ایسے ثبت ہوچکا ہے کہ جسے دیکھ کر ایک مظلوم درویش صابر شاہ کی یاد آتی ہے جو لاہور کے رہنے والے تھے ان کے دادا اور والد بھی درویش تھے۔ یہ وہی صابر شاہ ہیں جنہوں نے احمد شاہ ابدالی کو بادشاہ بننے کی بشارت دی تھی، جس کی وجہ سے احمد شاہ بادشاہ بننے کے بعد انھیں اور بھی زیادہ عزت و احترام کی نظروں سے دیکھنے لگا۔

1748 میں احمد شاہ ابدالی نے لاہور کے ناظم شاہنواز کو اس کی بدتمیزی کی سزا دینے کے لیے لاہور پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو صابر شاہ نے اپنے آبائی وطن سے محبت کا عہد نبھایا اور احمد شاہ کو روکا اور شاہنواز کو سمجھانے کے لیے خود لاہور روانہ ہوئے اور جیساکہ ہمارے یہاں ہوتا آیا ہے کہ بات کچھ کی کچھ کرکے پیش کی جاتی ہے، ایسا ہی ہوا اور اپنے وطن کی مٹی سے محبت کی سزا صابر شاہ کو ملی۔ مغرور شاہنواز نے سنی سنائی پر یقین کیا کہ صابر شاہ شاہنواز کی توپوں کو اپنے علم کے ذریعے ناکارہ کرنے احمد شاہ ابدالی کے کہنے پر آئے ہیں۔ شاہنواز نے اپنے دربار میں انھیں بلاکر ماجرا پوچھا تو صابر شاہ نے بیباکی سے اسے اس کے عہد کو پورا کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ عہد پورا نہ ہونے کی صورت میں احمد شاہ لاہور کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا لیکن شاہنواز نے اس درویش کی صاف گوئی کو گستاخی قرار دیا اور پگھلی ہوئی چاندی ان کے گلے میں ڈالنے کا حکم دیا۔

یوں گرم چاندی کا سیال اترنے کے باعث صابر شاہ درویش تو اپنی جان سے گئے لیکن پھر بھی لاہور نہ بچ سکا۔ شاہنواز نے ان کی بے کفن لاش پھینکوادی، احمد شاہ ابدالی کو شاہنواز کی اس حرکت کا علم ہوا تو وہ غصے سے کانپ اٹھا اور شالامار باغ کے سامنے آگیا، دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ شاہنواز شکست کھاکر دہلی فرار ہوگیا اور نقصان معصوم عوام کا ہوا۔ آج کے دور کے شاہنواز جیسے احمق حکمراں تو فرار بھی بڑے آرام سے ہوتے ہیں، پہلے اپنے سرمائے بغیر اٹھائے بٹھائے بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں پھر خود بھی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ہواؤں میں اڑتے یہ جا اور وہ جا۔ ویسے یہ بات صرف حکمرانوں تک ہی محدود نہیں ہے، بے چارے حکمرانوں کے علاوہ بھی اعلیٰ درجے کے افسران میں یہ بیماری کچھ زیادہ ہی عام ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے تاریخ اسے پھر دہراتی ہے، ہمیں لاہور کے صابر شاہ کو یاد رکھنا چاہیے جو ایک بادشاہ کے سنگ رہتے ہوئے بھی اپنے لاہور کی خوشبو نہ بھولے اور اسے بچاتے بچاتے خود اپنی جان گنوا بیٹھے، ہم اور کتنے صابر شاہ گنوائیں گے کہ جو جس مٹی میں رہتا ہے، جیتا ہے، کھاتا ہے پیتا ہے، اس سے بہت محبت کرتا ہے۔

بات شروع ہوئی تھی ''بنکاک کے چور'' نامی فلم سے اور ختم بھی اسی نام پر ہورہی ہے۔ کراچی ایک ایسے شہد کے چھتے کی مانند ہے جس پر دور دور سے لالچی مکھیاں آکر بیٹھ رہی ہیں۔ یہ لالچی مکھیاں پہلے ہی خاصی ہنرمند ہیں جو یہاں کے بسنے والوں کو ایسے لوٹتی کھسوٹتی ہیں جیسے لوٹ کھسوٹ ہمارے ملک کے لاء اینڈ آرڈر کے ساتھ نتھی ہوچکا ہے اب اسے الگ کرنے کی کیا ترکیب ہے خدا جانے، پر جو ترکیب اب چل رہی ہے یقین جانیے اس سے شہد کی مکھیوں پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا اس لیے کہ ان کے مقاصد میں لوٹ کھسوٹ اور سیاسی داؤ پیچ بھی شامل ہیں۔ چوہدری نثار کو چاہیے کہ کراچی کو بنکاک کے چوروں سے صاف کریں۔ شہد کی مکھیوں کو اڑانے کی کوشش کریں، اس طرح آسانی سے خود بالائی نہ بنیں ورنہ جو دلوں سے اتر جاتے ہیں پھر بڑی جانفشانی سے چڑھتے ہیں کیونکہ پکچر ''کراچی کے چور'' ابھی جاری ہے!
Load Next Story