2 ہزار پولیس افسران و اہلکار سنگین جرائم میں ملوث نکلے تحقیقاتی رپورٹ

2015 میں رپورٹ جاری ہوئی ، رپورٹ میں شامل نام اب بھی نہ صرف محکمے کا حصہ ہیں بلکہ کئی ایس ایچ او بنادیے گئے

تحقیقات انسپکٹر رینک تک کی گئی تھی،خواتین افسران بھی جرائم میں ملوث نکلی تھیں،سی ٹی ڈی میںکئی افسر ’’مجرم‘‘ نکلے تھے فوٹو: فائل

RAWALPINDI:
بری شہرت کے حامل افسران کی فہرستیں تو مرتب ہوجائیں گی لیکن اس کے بعد ان کے خلاف کارروائی کرنا کراچی پولیس چیف کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔

کراچی پولیس میں اس سے قبل سال 2015 میں بھی بڑے پیمانے پر بری شہرت اور جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے افسران کے خلاف تحقیقات کی گئی تھیں جن میں 2 ہزار پولیس افسران و اہلکار سنگین جرائم میں ملوث نکلے تھے لیکن وہ تمام اب بھی نہ صرف محکمے کا حصہ ہیں بلکہ کئی تو ایس ایچ او کے عہدے پر تعینات ہیں۔

تحقیقات سپاہی سے انسپکٹر رینک تک کی گئی تھی،کئی ایسے افسران بھی تھے جن کے جرائم کی فہرست طویل تھی اور وہ نہ صرف کئی بار معطل بلکہ ملازمت سے برخاست بھی کیے گئے تھے لیکن ہرباراپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بحال ہونے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔


رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زیادہ تر پولیس افسران و اہلکار جعلی مقابلوں،اغوا برائے تاوان کے علاوہ وسط مدتی اغوا (شارٹ ٹرم کڈنیپنگ)،زمینوں پر قبضے ، غیرقانونی واٹر ہائیڈرنٹ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی سرپرستی ،جوئے اور سٹے کے اڈوں سے رقم کی وصولی اور ریتی بجری کی فروخت میں ملوث تھے ، اس کے علاوہ تفتیش ناقص کرنا،کسی کی ایما پر مقدمہ درج کرنا ، غیر قانونی طور پر شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے میں بھی پولیس افسران و اہلکار اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سات پولیس افسران و اہلکار کراچی کے جبکہ اندرون سندھ کے ایک ہزار تیئس کے خلاف تحقیقات کی گئی تھیں،کراچی کے افسران و اہلکار میں خواتین پولیس افسران بھی شامل تھیں جوکہ جرائم میں ملوث نکلی تھیں، اس کے ساتھ ساتھ سی ٹی ڈی جیسے حساس شعبے کے پولیس افسران بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے اور سی ٹی ڈی کے 110 افسران نے اس دوڑ میں حصہ لیا۔

ان میں زیادہ تر شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے اور ان سے رقم وصول کرنے کے جرائم میں ملوث تھے جبکہ ایک انسپکٹر کی غفلت سے حب میں ایک دھماکا بھی ہوگیا تھا ، زیادہ تر کو ملازمت سے برخاست بھی کیا گیا تھا لیکن وہ ملازمت پر بحال ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
Load Next Story