طالب علم کی تربیت میں معلم کا کردار
نسل ِ نو کی کرداری سازی کا سب بڑا ذمہ دار استاد ہے
نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ۔ یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کی جاسکتا۔
اور شاید یہ ایک واحد کام ہے جس میں ایک سے زیادہ لوگوں کی رہنمائی درکار ہے۔ پیدائش سے لے کر اپنے قدموں پر کھڑے ہونے تک ہر بچہ ماں باپ اور اساتذہ کی رہنمائی کاطلب گاررہتا ہے۔ ایک کامیاب انسان بنانے میں والدین اور خاص طور پر ماں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن دنیا میں ہمارے ارد گرد بعض بچے ایسے بھی موجود ہوتے ہیں کہ جن کو والدین کی نعمت میسر نہیں ہوتی، اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ بچے جو اس صورتِ حال کاشکار ہیں یا پھر اگر کسی بھی وجہ سے والدین اپنے بچے کی پرورش نہ کرسکیں، تو پھر آخر ان بچوں کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟ تو اس کا عمومی جواب ہو گا اساتذہ، تو ایسی صورت میں اساتذہ کی اہمیت اور ان کے کندھوں پر نسلوں کی پرورش کی بھاری ذمہ داری کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹیچر بننا کوئی نہیں چاہتا۔ جب ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی، ہیں تو لوگ تنگ آکر ٹیچر بن جاتے ہیں۔ جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اساتذہ اپنا کام کرتے ہیں ویسے ہی نتائج کے حامل ان کے طالب علم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ہاں پرائمری سطح پر بالکل غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور سونپ دی جاتی ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ صرف نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ ہمارے ہاں اخلاقیات پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں، چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے کاشوق بھی بہت ہوتا ہے، استاد خود بھی موقع کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا کر سنا سکتے ہیں۔
بڑی کلاسز کے بچوں کے لیے حقیقی دنیا کی باتیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں۔ ہمارے اردگرد ہر وقت نئی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور معجزات رونما ہوتے ہیں۔ ایک اچھا استاد بڑی آسانی سے اپنے طالب علموں کو حالات سے آگاہ بھی رکھ سکتا ہے اور اچھے برے کی پہچان بھی کرواسکتا ہے۔ بچوں کو خواب دیکھنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے کبھی نہ روکیں۔ خواب دیکھنے والے بچے ہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ خواب دیکھنے سے کیا مراد ہے۔ ایک دس سال کا بچہ جس کاباپ ایک بہت بڑے اصطبل کا رکھوالہ تھا، گھوڑے پالنے کا بڑا شوق رکھتا تھا۔ ایک روز کلاس میں خاتون استاد نے بچوں سے اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں مضمون لکھنے کو کہا۔
اس بچے نے اپنے ایک خواب کو خوبصورت ڈرائنگ کی شکل دے کر کاغذ پر اتارا۔ استاد نے دیکھ کر اسے بہت ڈانٹا کہ کیوں خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو، اتنے غریب ہو کر تمہیں یہ سب سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ کہہ کر استاد نے بچے کو ٹیسٹ میں فیل کردیا اور کہا ایک ہفتے کے اندر اندر نیا مضمون لکھ کر لائو ورنہ اسکول نہ آنا۔ وہ بچہ بڑا پریشان ہوا لیکن اس نے مضمون نہ بدلا اور ایک ہفتے کے بعد وہی مضمون لے کر دوبارہ استاد کے پاس گیا اور کہا میں مضمون نہیں تبدیل کروں گا اور اسکول چھوڑ دیا۔ 20 سال بعد وہی ٹیچر کسی دعوت پر اپنی کلاس کے بچوں کو لے کر ایک زرعی فارم لے گئی۔ استقبال کرنے کے لئے ان کاوہی طالب علم کھڑا تھا جس نے کبھی یہ خواب دیکھا تھا اور وہ زرعی فارم ایسا ہی تھا، جیسے اس نے تصویر میں بنایا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ ٹیچر بہت شرمندہ تھی کیوں کہ اس کامیابی میںاُس کا حصہ نہیں تھا۔
بچوں کی نشوونما پر ایک استاد کا کیا اثر ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ایک اسکول میں تجربہ کیا گیا۔ کلاس میں بچے بڑی اچھی طرح اپنا کام کرتے تھے، ان کی ٹیچر ان کو ہر وقت یہ احساس دلاتی تھی کہ وہ بہت اچھے بچے ہیں۔ دوسری طرف اسی طرح کی ایک کلاس کے بچے کچھ سست واقع ہوتے تھے، کیوں کہ ان کی ٹیچر کہتی تھی کہ تم کچھ کرہی نہیں سکتے۔ تجربے کے طور پر پہلی ٹیچر کو دوسری کلاس کے بچے دے دئے گئے اور دوسری ٹیچر کو پہلی کلاس کے بچے دئے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ اچھا کام کرنے والے بچوں نے ٹیچر بدلنے کے بعد پڑھائی پر توجہ دینا کم کر دی جس سے وہ ہر ٹیسٹ میں بری طرح ناکام ہونے لگے جبکہ دوسری طرف صورت حال کچھ یوں تھی کہ نالائق بچے ٹیچر کی طرف سے حوصلہ افزائی کرنے کے باعث بہترین نتائج کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اس تجربہ کی روشنی میں اس بات کا خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک استاد کی حوصلہ افزائی بچوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔
جب اساتذہ اپنا فرض مکمل انصاف سے پورا کرتے ہیں، تو جو عزت واحترام ان کے حصے میں آتی ہے، اس کااندازہ صرف وہ استاد ہی لگا سکتا ہے(اس موقع پر وہ واقعہ قابلِ بیان ہے) جب خلیفہ ہارون رشید اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے مسجد گئے تو وہاں ان کے بیٹوں کے استاد بھی نماز پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی دونوں لڑکے بھاگے کہ دیکھتے ہیں استاد کے جوتے کون اٹھا کر لاتا ہے۔ خلیفہ ہارون رشید کی آنکھیں عقیدت سے بھر آئیں جب اُنہوں نے دیکھا کہ ایک بیٹے نے ایک جوتا اُٹھایا ہوا ہے اور دوسرے نے دوسرا جوتا اُٹھایا ہوا تھا اور وہ دونوں استاد کاانتظار کررہے تھے۔ یقیناً اگر ہم نے اس معاشرے کو اچھے استاد دئیے تو یہ معاشرہ بھی ہمیں ایسے ہی طالب علم دے گا۔
اور شاید یہ ایک واحد کام ہے جس میں ایک سے زیادہ لوگوں کی رہنمائی درکار ہے۔ پیدائش سے لے کر اپنے قدموں پر کھڑے ہونے تک ہر بچہ ماں باپ اور اساتذہ کی رہنمائی کاطلب گاررہتا ہے۔ ایک کامیاب انسان بنانے میں والدین اور خاص طور پر ماں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن دنیا میں ہمارے ارد گرد بعض بچے ایسے بھی موجود ہوتے ہیں کہ جن کو والدین کی نعمت میسر نہیں ہوتی، اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ بچے جو اس صورتِ حال کاشکار ہیں یا پھر اگر کسی بھی وجہ سے والدین اپنے بچے کی پرورش نہ کرسکیں، تو پھر آخر ان بچوں کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟ تو اس کا عمومی جواب ہو گا اساتذہ، تو ایسی صورت میں اساتذہ کی اہمیت اور ان کے کندھوں پر نسلوں کی پرورش کی بھاری ذمہ داری کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹیچر بننا کوئی نہیں چاہتا۔ جب ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی، ہیں تو لوگ تنگ آکر ٹیچر بن جاتے ہیں۔ جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اساتذہ اپنا کام کرتے ہیں ویسے ہی نتائج کے حامل ان کے طالب علم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے ہاں پرائمری سطح پر بالکل غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور سونپ دی جاتی ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ صرف نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ ہمارے ہاں اخلاقیات پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں، چھوٹے بچوں کو کہانیاں سننے کاشوق بھی بہت ہوتا ہے، استاد خود بھی موقع کی مناسبت سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنا کر سنا سکتے ہیں۔
بڑی کلاسز کے بچوں کے لیے حقیقی دنیا کی باتیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں۔ ہمارے اردگرد ہر وقت نئی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور معجزات رونما ہوتے ہیں۔ ایک اچھا استاد بڑی آسانی سے اپنے طالب علموں کو حالات سے آگاہ بھی رکھ سکتا ہے اور اچھے برے کی پہچان بھی کرواسکتا ہے۔ بچوں کو خواب دیکھنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے کبھی نہ روکیں۔ خواب دیکھنے والے بچے ہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ خواب دیکھنے سے کیا مراد ہے۔ ایک دس سال کا بچہ جس کاباپ ایک بہت بڑے اصطبل کا رکھوالہ تھا، گھوڑے پالنے کا بڑا شوق رکھتا تھا۔ ایک روز کلاس میں خاتون استاد نے بچوں سے اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں مضمون لکھنے کو کہا۔
اس بچے نے اپنے ایک خواب کو خوبصورت ڈرائنگ کی شکل دے کر کاغذ پر اتارا۔ استاد نے دیکھ کر اسے بہت ڈانٹا کہ کیوں خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو، اتنے غریب ہو کر تمہیں یہ سب سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ کہہ کر استاد نے بچے کو ٹیسٹ میں فیل کردیا اور کہا ایک ہفتے کے اندر اندر نیا مضمون لکھ کر لائو ورنہ اسکول نہ آنا۔ وہ بچہ بڑا پریشان ہوا لیکن اس نے مضمون نہ بدلا اور ایک ہفتے کے بعد وہی مضمون لے کر دوبارہ استاد کے پاس گیا اور کہا میں مضمون نہیں تبدیل کروں گا اور اسکول چھوڑ دیا۔ 20 سال بعد وہی ٹیچر کسی دعوت پر اپنی کلاس کے بچوں کو لے کر ایک زرعی فارم لے گئی۔ استقبال کرنے کے لئے ان کاوہی طالب علم کھڑا تھا جس نے کبھی یہ خواب دیکھا تھا اور وہ زرعی فارم ایسا ہی تھا، جیسے اس نے تصویر میں بنایا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ ٹیچر بہت شرمندہ تھی کیوں کہ اس کامیابی میںاُس کا حصہ نہیں تھا۔
بچوں کی نشوونما پر ایک استاد کا کیا اثر ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ایک اسکول میں تجربہ کیا گیا۔ کلاس میں بچے بڑی اچھی طرح اپنا کام کرتے تھے، ان کی ٹیچر ان کو ہر وقت یہ احساس دلاتی تھی کہ وہ بہت اچھے بچے ہیں۔ دوسری طرف اسی طرح کی ایک کلاس کے بچے کچھ سست واقع ہوتے تھے، کیوں کہ ان کی ٹیچر کہتی تھی کہ تم کچھ کرہی نہیں سکتے۔ تجربے کے طور پر پہلی ٹیچر کو دوسری کلاس کے بچے دے دئے گئے اور دوسری ٹیچر کو پہلی کلاس کے بچے دئے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ اچھا کام کرنے والے بچوں نے ٹیچر بدلنے کے بعد پڑھائی پر توجہ دینا کم کر دی جس سے وہ ہر ٹیسٹ میں بری طرح ناکام ہونے لگے جبکہ دوسری طرف صورت حال کچھ یوں تھی کہ نالائق بچے ٹیچر کی طرف سے حوصلہ افزائی کرنے کے باعث بہترین نتائج کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اس تجربہ کی روشنی میں اس بات کا خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک استاد کی حوصلہ افزائی بچوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔
جب اساتذہ اپنا فرض مکمل انصاف سے پورا کرتے ہیں، تو جو عزت واحترام ان کے حصے میں آتی ہے، اس کااندازہ صرف وہ استاد ہی لگا سکتا ہے(اس موقع پر وہ واقعہ قابلِ بیان ہے) جب خلیفہ ہارون رشید اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے مسجد گئے تو وہاں ان کے بیٹوں کے استاد بھی نماز پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی دونوں لڑکے بھاگے کہ دیکھتے ہیں استاد کے جوتے کون اٹھا کر لاتا ہے۔ خلیفہ ہارون رشید کی آنکھیں عقیدت سے بھر آئیں جب اُنہوں نے دیکھا کہ ایک بیٹے نے ایک جوتا اُٹھایا ہوا ہے اور دوسرے نے دوسرا جوتا اُٹھایا ہوا تھا اور وہ دونوں استاد کاانتظار کررہے تھے۔ یقیناً اگر ہم نے اس معاشرے کو اچھے استاد دئیے تو یہ معاشرہ بھی ہمیں ایسے ہی طالب علم دے گا۔