دنیا و آخرت کی اسٹاک مارکیٹ
ایک اسلامی معاشرے کے ہر فرد کی سوچ اور فکر کا انداز ہی اسلامی معاشرے کو پروان چڑھاتا ہے
اگر کسی اکانومسٹ سے یا کسی ایسے شخص سے جو اسٹاکس کا یا اسٹاک مارکیٹ کے متعلق تھوڑا بہت جانتا ہے یا کسی نے شیئرز خرید رکھے ہوں، تو وہ یقیناً یہ بھی جانتا ہوگا کہ لوگوں کی سوچ اور فکر اسٹاک کی قیمت بڑھانے گھٹانے حتیٰ کہ کریش کرنے میں اہم کردارادا کرتی ہے۔ تو ہمارے لوگ فوری طور پر اسے مان لیں گے کیونکہ ہماری آنکھوں پر چڑھا مغربیت اور مغربی تعلیم کا عدسہ ہمیں یہ یقین کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن ایسے ہی اگر یہ کہا جائے کہ ایک اسلامی معاشرے کے ہر فرد کی سوچ اور فکر کا انداز ہی اسلامی معاشرے کو پروان چڑھاتا ہے، تو شائد لوگ اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ میں خود تو کوئی بھی معاملہ کرنے کےلیے ایک ایماندار شخص کا متلاشی ہوں، لیکن مجھے خود کبھی ایمانداری چھو کر بھی نہ گزری ہو۔ میں خود رشوت کو حرام بتاتا رہوں اور میرے گھر آنے والا آٹا، دال اور سبزی میں رشوت کی کمائی ہو۔ میں نے خود تو کبھی زکوٰۃ نہ دی ہو، لیکن دوسروں کو زکوٰۃ دینے کے مشورے دیتا ہوں۔ خود ٹیکس چور ہوں اور دوسروں کو ٹیکس دینے کا کہتا ہوں، خود میں یتیموں کو جھڑکتا ہوں اور سامنے والے کو یتیموں کےلیے احساس پیدا کرتا رہوں۔ خود تو مدینے کی ریاست کو خواب سمجھوں لیکن اگر کوئی ریاست مدینہ کی بات کرے تو مجھے فوری طور پر بنی بنائی ریاست مدینہ چاہیے۔ کیا ریاست مدینہ ایسے ہی بن گئی تھی؟ نہیں۔ ریاست مدینہ بھی ریاست کے ہر ایک فرد کی انفرادی سوچ سے بنی تھی، مائنڈسیٹ سے بنی۔ معاشرے کا ایک ایک فرد جب تک اپنے تئیں اپنا حصہ نہیں ڈالتا، تبدیلی آنا ممکن نہیں۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو صبح اٹھ کر یہ عہد کرتے ہیں کہ آج جھو ٹ نہیں بولیں گے، کسی کے ساتھ دھوکا و فراڈ نہیں کریں گے؟ یا کسی ایک انسان کی مدد کریں گے۔ یہ مقدمہ صرف امرا کےلیے نہیں ہے، سب ہی اس میں شامل ہیں۔ ایک رکشے والا کرایہ نہ ہونے پر یا ادا نہ کرنے پر بوڑھی عورت سے چھیناجھپٹی کرتا ہے یا ایک ریڑھی والا اچھا آم دکھا کر خراب آم ڈال دیتا ہے، لیکن اپنا مال ضرور بیچتا ہے۔ افسر ہی ظلم نہیں کرتا، اس کا چپڑاسی بھی اس کا شریک کار ہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے پڑوسی کے کھانے کا سوچتے ہیں؟ ہمارے اردگرد کتنے ہی لو گ ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کو پڑھانے کےلیے پیسے نہیں ہیں اور کتنے ہی لوگ ان کےلیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، چاہے وہ اچھا مشورہ دے کر ہی کیوں نہ ہو یا میٹھا بول، بولنے سے ہو۔
ﷲ رب العزت فرماتے ہیں ''پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کےلیے بہتر ہے جو ﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔'' (38 سورۃ الروم)
کیا ہم رشتے داری میں پورا اتر رہے ہیں؟ کیا یہ احساس ہمارے اندر موجود ہے کہ معاشرے کے مفلس اور یتیم لوگوں کا بھی ہمارے اوپر حق ہے؟ اسلامی معاشرہ تو ہر ایک کے حقوق و فرائض بہ احسن طور پر نبھانے کی ایک لطیف سوچ کا نام ہے۔ کیا نوکری کرنے والا اپنے مالک کے حقوق دے رہا ہے؟ اور کیا مالک اپنے پاس ملازموں کو رحمدلی سے رکھتا ہے؟ دونوں کا جواب متضاد ہوگا۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی موت کا مشاہدہ نہ کیا ہوگا؟ کتنے ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنوں کو دفن نہ کیا ہوگا یا کبھی لحد میں نہ اتارا ہوگا؟ تو کیا دفنانے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ کبھی دفن نہ ہوگا؟ کیا وہ ہمیشہ رہے گا، زمین کے اوپر؟ نہیں۔ جو اس دنیا میں آیا ہے واپس ضرور جائے گا۔ موسیٰؑ ہو یا فرعون۔ کیا یہ احساس ہمیں دنیا کی رنگینیوں سے نکالنے کےلیے کافی نہیں؟ کیا فطرت کے اس مشاہدے کے بعد، جو بار بار ہمیں میسر آتا ہے ہم اپنی اصلاح نہیں کرسکتے؟ اپنی ذات کی اصلاح کسی اور کی ذمے داری نہیں کہ کوئی آئے گا اور ہمیں آکر بدلے گا۔ یہ احساس ہم کو خود ہی کرنا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے شعور دیا، سمجھ بوجھ دی، اب صراط مستقیم کا تعین ہم کو خود کرنا ہے۔
ہم سب کا اپنا فرض ہے کہ ہم اپنا اور ساتھ میں ایک دوسرے کا احساس کریں۔ اپنے گھر والوں، اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں کا، مجموعی طور پر اپنے معاشرے کا اور ملک وقوم کا۔
ﷲ جنت میں جانے والے مومنین کے بارے میں فرماتا ہے ''کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم (دنیا میں) اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے۔ پس ﷲ تعالیٰ نے ہم پر بہت احسان کیا اور ہمیں تیز گرم ہواؤں کے عذاب سے بچالیا۔'' (26,27 سورہ الطور)
پھر ایک جگہ فرمایا ''زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جاپہنچے۔ ہرگز نہیں، تم عنقریب معلوم کرلو گے۔'' (1-3 سورۃالتکاثر)
ہمیں ڈرنا چاہیے اور اپنے متعلق تمام لوگوں کو رب العزت سے ڈرانا چاہیے، تاکہ من حیث القوم ہم آج کے جدید دور میں جدید فکر کے متوازی ایک ایسا اسلامی فلاحی معاشرہ یا ریاست قائم کرسکیں، جس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرے اور ہم اپنی دنیا و آخرت کی اسٹاک مارکیٹ کو کریش ہونے سے بچاسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ میں خود تو کوئی بھی معاملہ کرنے کےلیے ایک ایماندار شخص کا متلاشی ہوں، لیکن مجھے خود کبھی ایمانداری چھو کر بھی نہ گزری ہو۔ میں خود رشوت کو حرام بتاتا رہوں اور میرے گھر آنے والا آٹا، دال اور سبزی میں رشوت کی کمائی ہو۔ میں نے خود تو کبھی زکوٰۃ نہ دی ہو، لیکن دوسروں کو زکوٰۃ دینے کے مشورے دیتا ہوں۔ خود ٹیکس چور ہوں اور دوسروں کو ٹیکس دینے کا کہتا ہوں، خود میں یتیموں کو جھڑکتا ہوں اور سامنے والے کو یتیموں کےلیے احساس پیدا کرتا رہوں۔ خود تو مدینے کی ریاست کو خواب سمجھوں لیکن اگر کوئی ریاست مدینہ کی بات کرے تو مجھے فوری طور پر بنی بنائی ریاست مدینہ چاہیے۔ کیا ریاست مدینہ ایسے ہی بن گئی تھی؟ نہیں۔ ریاست مدینہ بھی ریاست کے ہر ایک فرد کی انفرادی سوچ سے بنی تھی، مائنڈسیٹ سے بنی۔ معاشرے کا ایک ایک فرد جب تک اپنے تئیں اپنا حصہ نہیں ڈالتا، تبدیلی آنا ممکن نہیں۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو صبح اٹھ کر یہ عہد کرتے ہیں کہ آج جھو ٹ نہیں بولیں گے، کسی کے ساتھ دھوکا و فراڈ نہیں کریں گے؟ یا کسی ایک انسان کی مدد کریں گے۔ یہ مقدمہ صرف امرا کےلیے نہیں ہے، سب ہی اس میں شامل ہیں۔ ایک رکشے والا کرایہ نہ ہونے پر یا ادا نہ کرنے پر بوڑھی عورت سے چھیناجھپٹی کرتا ہے یا ایک ریڑھی والا اچھا آم دکھا کر خراب آم ڈال دیتا ہے، لیکن اپنا مال ضرور بیچتا ہے۔ افسر ہی ظلم نہیں کرتا، اس کا چپڑاسی بھی اس کا شریک کار ہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے پڑوسی کے کھانے کا سوچتے ہیں؟ ہمارے اردگرد کتنے ہی لو گ ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کو پڑھانے کےلیے پیسے نہیں ہیں اور کتنے ہی لوگ ان کےلیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، چاہے وہ اچھا مشورہ دے کر ہی کیوں نہ ہو یا میٹھا بول، بولنے سے ہو۔
ﷲ رب العزت فرماتے ہیں ''پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کےلیے بہتر ہے جو ﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔'' (38 سورۃ الروم)
کیا ہم رشتے داری میں پورا اتر رہے ہیں؟ کیا یہ احساس ہمارے اندر موجود ہے کہ معاشرے کے مفلس اور یتیم لوگوں کا بھی ہمارے اوپر حق ہے؟ اسلامی معاشرہ تو ہر ایک کے حقوق و فرائض بہ احسن طور پر نبھانے کی ایک لطیف سوچ کا نام ہے۔ کیا نوکری کرنے والا اپنے مالک کے حقوق دے رہا ہے؟ اور کیا مالک اپنے پاس ملازموں کو رحمدلی سے رکھتا ہے؟ دونوں کا جواب متضاد ہوگا۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی موت کا مشاہدہ نہ کیا ہوگا؟ کتنے ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنوں کو دفن نہ کیا ہوگا یا کبھی لحد میں نہ اتارا ہوگا؟ تو کیا دفنانے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ کبھی دفن نہ ہوگا؟ کیا وہ ہمیشہ رہے گا، زمین کے اوپر؟ نہیں۔ جو اس دنیا میں آیا ہے واپس ضرور جائے گا۔ موسیٰؑ ہو یا فرعون۔ کیا یہ احساس ہمیں دنیا کی رنگینیوں سے نکالنے کےلیے کافی نہیں؟ کیا فطرت کے اس مشاہدے کے بعد، جو بار بار ہمیں میسر آتا ہے ہم اپنی اصلاح نہیں کرسکتے؟ اپنی ذات کی اصلاح کسی اور کی ذمے داری نہیں کہ کوئی آئے گا اور ہمیں آکر بدلے گا۔ یہ احساس ہم کو خود ہی کرنا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے شعور دیا، سمجھ بوجھ دی، اب صراط مستقیم کا تعین ہم کو خود کرنا ہے۔
ہم سب کا اپنا فرض ہے کہ ہم اپنا اور ساتھ میں ایک دوسرے کا احساس کریں۔ اپنے گھر والوں، اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں کا، مجموعی طور پر اپنے معاشرے کا اور ملک وقوم کا۔
ﷲ جنت میں جانے والے مومنین کے بارے میں فرماتا ہے ''کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم (دنیا میں) اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے۔ پس ﷲ تعالیٰ نے ہم پر بہت احسان کیا اور ہمیں تیز گرم ہواؤں کے عذاب سے بچالیا۔'' (26,27 سورہ الطور)
پھر ایک جگہ فرمایا ''زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جاپہنچے۔ ہرگز نہیں، تم عنقریب معلوم کرلو گے۔'' (1-3 سورۃالتکاثر)
ہمیں ڈرنا چاہیے اور اپنے متعلق تمام لوگوں کو رب العزت سے ڈرانا چاہیے، تاکہ من حیث القوم ہم آج کے جدید دور میں جدید فکر کے متوازی ایک ایسا اسلامی فلاحی معاشرہ یا ریاست قائم کرسکیں، جس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرے اور ہم اپنی دنیا و آخرت کی اسٹاک مارکیٹ کو کریش ہونے سے بچاسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔