بوجھ اٹھانا بھارت سے سیکھئے
بوجھ جب اٹھانے کا طریقہ نہ آتا ہو تب ہی وہ بوجھ بنتا ہے، ورنہ تو وہ توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے
شیام بینگال کی جن ابتدائی چار فلموں نے بھارتی سینما کا مزاج بدل کر رکھ دیا تھا اور ''مڈل سینما'' کی اصطلاح معرض وجود میں آئی، ان میں ایک فلم ''انکُر'' (بیج) بھی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکا نے ذہن کے پردہ سیمیں پر مذکورہ فلم کو پھر سے متحرک کردیا ہے، کیوں کہ اس کی مدد سے پاک امریکا تعلقات کو سمجھنا سہل ہوجاتا ہے۔
شبانہ اعظمی کی اس پہلی فلم میں بتایا گیا تھا کہ جن طبقات کے بیج الگ الگ ہوں، وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلیے ایک دوسرے کے قریب تو آتے ہیں مگر ضرورت پورا ہونے پر جلد ہی اپنی اصل کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ جاگیردار صاحب کے بیٹے انٹر تک ہی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں کہ والد محترم کا حکم ہوتا ہے کہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرو۔ برخوردار کالج کی مزید تعلیم کی آڑ میں موج مستی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے، مگر جاگیردار یہی ارادے بھانپ کر اسے جاگیر سنبھالنے کا حکم جاری کرتا ہے۔ بیٹے کو زمینوں پر پہنچ کر اپنی رہائش گاہ پر خدمت کرنے والی کی صورت میں کالج کی تشنگی دور کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ غربت کی ماری اس خوبصورت سیوک کا بیکار اور گونگا شوہر جب ایک دن اچانک اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو وہ نوجوان جاگیردار کے اصرار پر اسی کی رہائش گاہ پر رہنے لگتی ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلتا اور جاگیردار کی بیاہتا آن دھمکتی ہے جو سیوک کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے۔ اب نوجوان کے اندر کا جاگیردار بھی جاگتا ہے اور وہ اس سیوک کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک جاگیردار کو کرنا چاہیے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کے اختتام پر جب یہی سیوک جاگیردار کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتی ہے تو وہ دیکھنے والوں کی شرح صدر کردیتی ہے۔
حالات حاضرہ سے واقفیت کا شوق رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک بار پارلیمنٹ میں اسی طرح بھڑاس امریکا پر نکالی، تو ہم نے مزے لے لے کر سنی تھی۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی اپنے دورۂ امریکا کے دوران ہمارے وزیر خارجہ غالب کے اس شعر:
لیں بوسہ، یا مصیبت ہجراں بیاں کریں
اک منہ ہے، کون کون سے ارماں نکالیے
کے مصداق امریکا میں بیٹھ کر حافظ سعید کو بوجھ قرار دے رہے تھے۔ اسی دن امریکی ایوان نمائندگان میں دو ڈیموکریٹس ارکان نے سلامتی کونسل کےلیے بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت میں قرارداد پیش کی تھی۔ مذکورہ قرارداد کا لب لباب یہ تھا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یہ امریکا کے بھی مفاد میں ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنایا جائے تاکہ دہشت گردی کے خلاف بہتر انداز میں لڑا جاسکے۔ اگلے دن بھارت کے تمام سرکردہ اخبارات میں ہمارے وزیر خارجہ اور بھارتی حمایت میں پیش کی جانے والے امریکی قرارداد کی خبریں ساتھ ساتھ فلیش ہوئیں اور دنیا کو ایک ان کہا پیغام دیا گیا۔
ظاہر ہے باریک بیں اور زیرک بھارتی میڈیا یہ نادر موقع ضائع کیوں کرتا، جو ہمارے اعلیٰ صلاحیتوں سے مسلح وزیر خارجہ نے بنا سنوار کے انہیں دیا تھا۔ ایشیا سوسائٹی کے ساتھ ہونے والی خواجہ آصف کی مذکورہ گفتگو کے بعد نواز شریف کی وزارت خارجہ اپنے پاس رکھنے کی حکمت سمجھ آنے لگی تھی۔
بوجھ جب اٹھانے کا طریقہ نہ آتا ہو تب ہی وہ بوجھ بنتا ہے، ورنہ تو وہ توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ اب ذرا ملاحظہ کیجئے، چالاکیوں کے ماہر ہندوستان نے اپنے اس سے ملتے جلتے بوجھ کو کس طرح اپنے توازن کو بہتر بنانے کےلیے استعمال کیا۔ امریکی وزیر دفاع گزشتہ سال جب بھارت کے دورے پر آئے تو ان کے ایجنڈے میں دو باتیں شامل تھیں۔ ایک ایف سولہ طیاروں کی بھارت کو فروخت اور دوسرا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے تعلقات پر تشویش کا اظہار۔ دیکھا جائے تو ایجنڈا یک نکاتی ہی تھا، یعنی طیاروں کی فروخت کے ساتھ تشویش کا اظہار اس لیے تھا کہ اسے دور کرنے کےلیے طیارے خریدنے کی حامی بھرلی جائے۔ مگر صدقے جائیں بھارتی دماغوں کے، انہوں نے تشویش بھی رفع کردی اور طیارے خریدنے پر بھی آمادگی ظاہر نہ کی، اور سب سے بڑھ کر امریکا بہادر کو ناراض بھی نہ کیا۔ بھارت ایف سولہ کے بجائے سوئیڈش گریپن طیارہ خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اب اس کا عذر دیکھئے۔ وہ کہتا ہے کہ ایف سولہ طیارے چونکہ پاکستان کے پاس بھی ہیں اور اس نے یہ ٹیکنالوجی چین کو منتقل کردی ہے، لہٰذا یہ طیارہ بھارت کے کام کا نہیں رہا۔
ٹی ٹی پی سے تعلقات کا بوجھ اس خوبصورتی سے اٹھایا گیا کہ مکرر مکرر کہنے کو دل کرتا ہے۔ بھارت نے بڑے رازدارانہ انداز میں امریکی وزیر دفاع کو سمجھایا کہ ریاست جموں وکشمیر میں سرگرم جیش محمد اور لشکر طیبہ کا توڑ کرنے کےلیے ٹی ٹی پی سے تعلقات استوار کیے گئے تھے اور اب یہ تعلقات افغانستان میں بھی ممد و معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ہمیں ان کی بدولت وہاں تک رسائی حاصل ہے، جہاں تک ہمارے لیے ممکن نہ تھی۔ اس خوبصورت شعری خیال کے سحر میں مبتلا امریکی وزیر دفاع مکرر مکرر کہتے ہوئے اپنے دیس کو سدھارے۔
اپنے ایک شہری کلبھوشن یادیو کےلیے عالمی عدالت سے قونصلر رسائی حاصل کرنا بھارت ہی کا خاصا ہے۔ وہ نازک راستوں سے نہایت متوازن انداز سے نکلنا جانتا ہے۔ ظاہر ہے اس کےلیے درکار چالاکی سے وہ گوڈے گوڈے مسلح ہے۔ اب یہ گتھی بھی ہم ہی کو سلجھانی ہے کہ کرنل رینک کا حاضر سروس ''را'' کا ایجنٹ پاکستان میں گرفتار ہے اور مذاکرات کی راہ میں حائل بھی پاکستانی دہشت گردی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شبانہ اعظمی کی اس پہلی فلم میں بتایا گیا تھا کہ جن طبقات کے بیج الگ الگ ہوں، وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلیے ایک دوسرے کے قریب تو آتے ہیں مگر ضرورت پورا ہونے پر جلد ہی اپنی اصل کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ جاگیردار صاحب کے بیٹے انٹر تک ہی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں کہ والد محترم کا حکم ہوتا ہے کہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرو۔ برخوردار کالج کی مزید تعلیم کی آڑ میں موج مستی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے، مگر جاگیردار یہی ارادے بھانپ کر اسے جاگیر سنبھالنے کا حکم جاری کرتا ہے۔ بیٹے کو زمینوں پر پہنچ کر اپنی رہائش گاہ پر خدمت کرنے والی کی صورت میں کالج کی تشنگی دور کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ غربت کی ماری اس خوبصورت سیوک کا بیکار اور گونگا شوہر جب ایک دن اچانک اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو وہ نوجوان جاگیردار کے اصرار پر اسی کی رہائش گاہ پر رہنے لگتی ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلتا اور جاگیردار کی بیاہتا آن دھمکتی ہے جو سیوک کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے۔ اب نوجوان کے اندر کا جاگیردار بھی جاگتا ہے اور وہ اس سیوک کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک جاگیردار کو کرنا چاہیے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کے اختتام پر جب یہی سیوک جاگیردار کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتی ہے تو وہ دیکھنے والوں کی شرح صدر کردیتی ہے۔
حالات حاضرہ سے واقفیت کا شوق رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک بار پارلیمنٹ میں اسی طرح بھڑاس امریکا پر نکالی، تو ہم نے مزے لے لے کر سنی تھی۔ لیکن اس کے بعد جلد ہی اپنے دورۂ امریکا کے دوران ہمارے وزیر خارجہ غالب کے اس شعر:
لیں بوسہ، یا مصیبت ہجراں بیاں کریں
اک منہ ہے، کون کون سے ارماں نکالیے
کے مصداق امریکا میں بیٹھ کر حافظ سعید کو بوجھ قرار دے رہے تھے۔ اسی دن امریکی ایوان نمائندگان میں دو ڈیموکریٹس ارکان نے سلامتی کونسل کےلیے بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت میں قرارداد پیش کی تھی۔ مذکورہ قرارداد کا لب لباب یہ تھا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یہ امریکا کے بھی مفاد میں ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنایا جائے تاکہ دہشت گردی کے خلاف بہتر انداز میں لڑا جاسکے۔ اگلے دن بھارت کے تمام سرکردہ اخبارات میں ہمارے وزیر خارجہ اور بھارتی حمایت میں پیش کی جانے والے امریکی قرارداد کی خبریں ساتھ ساتھ فلیش ہوئیں اور دنیا کو ایک ان کہا پیغام دیا گیا۔
ظاہر ہے باریک بیں اور زیرک بھارتی میڈیا یہ نادر موقع ضائع کیوں کرتا، جو ہمارے اعلیٰ صلاحیتوں سے مسلح وزیر خارجہ نے بنا سنوار کے انہیں دیا تھا۔ ایشیا سوسائٹی کے ساتھ ہونے والی خواجہ آصف کی مذکورہ گفتگو کے بعد نواز شریف کی وزارت خارجہ اپنے پاس رکھنے کی حکمت سمجھ آنے لگی تھی۔
بوجھ جب اٹھانے کا طریقہ نہ آتا ہو تب ہی وہ بوجھ بنتا ہے، ورنہ تو وہ توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ اب ذرا ملاحظہ کیجئے، چالاکیوں کے ماہر ہندوستان نے اپنے اس سے ملتے جلتے بوجھ کو کس طرح اپنے توازن کو بہتر بنانے کےلیے استعمال کیا۔ امریکی وزیر دفاع گزشتہ سال جب بھارت کے دورے پر آئے تو ان کے ایجنڈے میں دو باتیں شامل تھیں۔ ایک ایف سولہ طیاروں کی بھارت کو فروخت اور دوسرا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے تعلقات پر تشویش کا اظہار۔ دیکھا جائے تو ایجنڈا یک نکاتی ہی تھا، یعنی طیاروں کی فروخت کے ساتھ تشویش کا اظہار اس لیے تھا کہ اسے دور کرنے کےلیے طیارے خریدنے کی حامی بھرلی جائے۔ مگر صدقے جائیں بھارتی دماغوں کے، انہوں نے تشویش بھی رفع کردی اور طیارے خریدنے پر بھی آمادگی ظاہر نہ کی، اور سب سے بڑھ کر امریکا بہادر کو ناراض بھی نہ کیا۔ بھارت ایف سولہ کے بجائے سوئیڈش گریپن طیارہ خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اب اس کا عذر دیکھئے۔ وہ کہتا ہے کہ ایف سولہ طیارے چونکہ پاکستان کے پاس بھی ہیں اور اس نے یہ ٹیکنالوجی چین کو منتقل کردی ہے، لہٰذا یہ طیارہ بھارت کے کام کا نہیں رہا۔
ٹی ٹی پی سے تعلقات کا بوجھ اس خوبصورتی سے اٹھایا گیا کہ مکرر مکرر کہنے کو دل کرتا ہے۔ بھارت نے بڑے رازدارانہ انداز میں امریکی وزیر دفاع کو سمجھایا کہ ریاست جموں وکشمیر میں سرگرم جیش محمد اور لشکر طیبہ کا توڑ کرنے کےلیے ٹی ٹی پی سے تعلقات استوار کیے گئے تھے اور اب یہ تعلقات افغانستان میں بھی ممد و معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ہمیں ان کی بدولت وہاں تک رسائی حاصل ہے، جہاں تک ہمارے لیے ممکن نہ تھی۔ اس خوبصورت شعری خیال کے سحر میں مبتلا امریکی وزیر دفاع مکرر مکرر کہتے ہوئے اپنے دیس کو سدھارے۔
اپنے ایک شہری کلبھوشن یادیو کےلیے عالمی عدالت سے قونصلر رسائی حاصل کرنا بھارت ہی کا خاصا ہے۔ وہ نازک راستوں سے نہایت متوازن انداز سے نکلنا جانتا ہے۔ ظاہر ہے اس کےلیے درکار چالاکی سے وہ گوڈے گوڈے مسلح ہے۔ اب یہ گتھی بھی ہم ہی کو سلجھانی ہے کہ کرنل رینک کا حاضر سروس ''را'' کا ایجنٹ پاکستان میں گرفتار ہے اور مذاکرات کی راہ میں حائل بھی پاکستانی دہشت گردی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔