لیاری ایکسپریس وے کے اطراف ایک لاکھ درخت لگانا ممکن

لیاری ندی کی قدرتی نمی اور وسیع خالی جگہ پر شجر کاری سے شہر کراچی پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے

لیاری ندی اور ایکسپریس وے کی جانب لاکھوں درختوں کی شجرکاری کی جاسکتی ہے (فوٹو: آفتاب خان)

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آلودگی اور ہیٹ اسٹروک کے خطرات اب حقیقت بن چکے ہیں، اس شہر کو شجرکاری کی شدید ضرورت ہے۔

شہرکے عین درمیان سے گزرنے والی لیاری ندی کے دونوں اطراف لیاری ایکسپریس وے کا تیز تر سڑکوں کا منصوبہ پروان چڑھا ہے۔ اب ماہرین ارضیات و ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر لیاری ندی پر درخت اگائے جائیں تو شہر کو ماحولیاتی اعتبار سے پہنچنے والے نقصان کی بڑی حد تک تلافی ممکن ہے۔

کم خرچ و بالا نشین کے مصداق یہاں پانی کا ذخیرہ موجود ہے، ندی کے پانی کی قدرتی کھاد موجود ہے جس کے نیچے تازہ نمی بھی رہتی ہے، یہ ان درختوں کو انتہائی تیزی سے بڑھنے میں مدد دے گی۔ اندازہ ہے کہ اس مقام پر ایک لاکھ درخت باآسانی لگائے جاسکتے ہیں۔



شہرکے طول و ارض میں کئی علاقوں کو ملانے والے لیاری ایکسپریس وے سے متصل لیاری ندی کے دونوں جانب کئی کلومیٹر پر محیط رقبہ بنجر زمین کی شکل میں موجود ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اگراس مقام پر حکومتی سطح یا مخیر حضرات کے تعاون سے کسی خصوصی شجرکاری مہم کے تحت درخت لگا دیے جائیں تو شہر کے مجموعی ماحول کو کئی گنا بہتر اور صحت مند بنایا جاسکتا ہے۔



یہ ماضی کی بات ہے جب شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر نیم، بادام، جامن، گل مہر، آم کے قدآور درخت دکھائی دیتے تھے۔ ہرے بھرے درخت نہ صرف آنکھوں کو بھلے لگتے تھے بلکہ ان کی وجہ سے موسم کافی معتدل ہوا کرتا تھا۔ مگر پھریہ قدرتی نظارے تیز رفتار ترقی کے دوران کنکریٹ کے جال میں کہیں کھوگئے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ لیاری ندی کراچی کے عین درمیان سے گزرتی ہے جس کے دونوں طرف لیاری ایکسپریس وے بن چکا ہے۔ اس 10 کلومیٹر طویل فاصلے پرایک لاکھ درخت باآسانی لگائے جاسکتے ہیں۔


قدرت کی طرف سے بنا بنایا سسٹم موجود ہے جس پر خرچ بھی معمولی آئے گا۔ لیاری ندی کے کنارے طویل رقبے پر آباد شہریوں کا کہنا ہے کہ ندی کے پانی کی قدرتی کھاد موجود ہے جس کے نیچے تازہ نمی بھی رہتی ہے یہ ان درختوں کو انتہائی تیزی سے بڑھنے میں مدد دے گی۔

نیم کے بارے میں تحقیق موجود ہے کہ اس کے نیچے درجہ حرارت میں 3 سے 4 ڈگری کمی رہتی ہے۔ یہ پودا 30 سے50 روپے میں باآسانی مل جاتا ہے۔ اگرلیاری ندی کے اطراف نیم کے پودے لگا دیے جائیں تو وہ اگلے 3 سال کے دوران قدآور درخت بن جائیں گے جس کے ثمرات شہریوں کو ملنا شروع ہوجائیں گے۔

شہریوں کے مطابق ایک لاکھ درختوں کے اس جنگل سے ایک جانب اگر شہر کی دلکشی کو چارچاند لگ جائیں گے تو وہیں ان درختوں سے چرند و پرند کی افزائش کے علاوہ معیاری پھل اور سبزیاں بھی اگائی جاسکتی ہیں۔



ماہرین کے مطابق لیاری، ملیر ندی اور ان جیسے شہر کے دیگر مقامات پر اگر شجرکاری مہم کے تحت پودے لگائے جائیں تو اس کے نتیجے میں گرمی کی شدت میں کمی، بارشوں میں اضافے سمیت دیگر تعمیری مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر معظم خان کے مطابق پانی کہیں بھی دستیاب ہو، وہ سرفیس واٹر کہلاتا ہے، لیاری ندی بھی اسی کی ایک شکل ہے اور ایک بہت بڑا پانی کا ذخیرہ ہے، اگر یہ کسی بھی مقصد کے لیے استعمال ہو تو اس سے خوش آئندہ بات اور کیا ہوسکتی ہے۔



اگر لیاری ندی کے اردگرد پودے لگ جائیں وہ ہر صورت ماحول کو فائدہ ہی پہنچائیں گے، حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) خاص طورپر پرندوں کی افزائش کے لیے بھی زیادہ معاون ثابت ہوگا تاہم اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ شہر کے ماحول سے مطابقت رکھنے والے پودے اور درخت لگائے جائیں، یوکلپٹس اور کونوکارپس سمیت دیگر درختوں کے بجائے پیپل، نیم، بادام، بڑ، آم، ناریل اور دیگر درخت لگاکر زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔

Load Next Story