تحریک انصاف کی تنظیم سازی متنازعہ اور بہترین کا امتزاج

عمران خان حکومتی معاملات میں انتہائی مصروف ہیں،انہوں نے چند عہدوں کے حوالے سے خود فیصلہ کیا ہے۔

عمران خان حکومتی معاملات میں انتہائی مصروف ہیں،انہوں نے چند عہدوں کے حوالے سے خود فیصلہ کیا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم سازی کی بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے اوراس کے گلے میں باندھی جانے والی کئی گھنٹیاں حیران کن ہونے کے ساتھ''خاموش'' بھی ہیں۔

سندھ ،خیبر پختونخوا، سنٹرل،اسلام آباد، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی تنظیم کا اعلان کردیا گیا ہے، مجموعی طور پر صدر اور جنرل سیکرٹری کے عہدے اہل افراد کو دیئے گئے ہیں لیکن مرکزی سیکرٹری جنرل سمیت صوبائی تنظیموں میں شامل بعض عہدیداروں کے حوالے سے تحریک انصاف کے اندر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ان کا انتخاب کون سے''میرٹ'' پر ہوا ہے۔

عمران خان حکومتی معاملات میں انتہائی مصروف ہیں،انہوں نے چند عہدوں کے حوالے سے خود فیصلہ کیا ہے لیکن باقی تنظیم سازی کی ذمہ داری چیف آرگنائزر سیف نیازی کے سپرد کی ہے۔ پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔25 اضلاع یعنی 6 ڈویژنز ساہیوال، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی پر مشتمل پنجاب کی صدارت اعجاز چوہدری کو دی گئی ہے اور نور خان بھابھا کو ملتان، ڈی جی خان اور بہاولپور ڈویژن پر مشتمل جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کا صدر بنایا گیا ہے۔

اعجاز چوہدری کی تحریک انصاف کیلئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، انہوں نے پارٹی کیلئے بہت شاندار کام کیا ہے تاہم انہیں کچھ الزامات کا سامنا بھی رہا ہے۔ اعجاز چوہدری نے گزشتہ چند برسوں کے دوران خود کو بہت تبدیل کیا ہے اور اب وہ صرف''نظریاتی'' گروپ کے رہنما نہیں رہے بلکہ ان کے متوازن مزاج نے ''یونیٹی '' والوں کیلئے بھی انہیں قابل قبول بنا دیا ہے۔

پنجاب کے جنرل سیکرٹری شعیب صدیقی کو ان کی تیز رفتار کارکردگی اور پارٹی سرگرمیوں میں غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور عمران خان خود بھی شعیب صدیقی کو پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض رہنماوں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود کپتان نے شعیب صدیقی کو اہم ذمہ داری سونپی ہے۔

پنجاب کی تنظیم میں بحیثیت نائب صدر شامل ہونے والے چوہدری اشفاق احمد نے ویسٹ ریجن میں تحریک انصاف کے صدر کی حیثیت سے مثالی کام کیا تھا، چوہدری اشفاق جنہیں بطور رکن قومی اسمبلی اور ضلعی ناظم حکومتی معاملات کی بھی خوب سوجھ بوجھ ہے انہوں نے مسلم لیگ(ن) کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے فیصل آباد ڈویژن میں تحریک انصاف کو بہت مضبوط بنایا اور اس معاملے میں انہوں نے رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔

شبیر سیال کو نائب صدر بنا کر بانی ارکان کی بھی عزت افزائی کی گئی ہے۔ سیکرٹری اطلاعات پنجاب مقرر ہونے والے عثمان سعید بسرا کا خصوصی تعلق اعجاز چوہدری سے ہے لیکن عثمان سعید بسرا کو اس عہدے کیلئے غیر موزوں قرار دیا جا رہا ہے لہذا انہیں حقیقی معنوں میں کام کر کے دکھانا ہوگا۔ شمالی پنجاب کے صدر نور بھابھا کی تحریک انصاف کیلئے گرانقدر خدمات ہیں اور انہوں نے مشکل وقت میں کڑی محنت کی ہے ۔


جنوبی پنجاب تحریک انصاف کیلئے بہت اہم ہے کیونکہ اس مرتبہ تو ''مہربانوں'' نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں کو شامل کروا دیا ہے لیکن آئندہ الیکشن میں شطرنج کی نئی بساط ہو گی، مہرے بھی نئے ہوں گے اور چالیں بھی۔ جنوبی پنجاب تنظیم کی ساخت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ دانستہ طور پر ''اینٹی ترین'' افراد کو زیادہ تعداد میں شامل کیا گیا ہے۔ سنٹرل تنظیم میں مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر عامر کیانی کے تقرر کو پارٹی کے اندر بھی اور دیگر سیاسی حلقوں میں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

عامر کیانی پر بحیثیت وفاقی وزیر صحت ادویات ساز کمپنیوں کے ساتھی مبینہ ملی بھگت کر کے ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کا الزام ہے اور اسی الزام کی وجہ سے عامر کیانی کو کابینہ سے برخاست کردیا گیا تھا لیکن اب انہوں نے اپنی لابنگ کے زور پر سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل کو جس قدر فعال اور موثر ہونا چاہئے شاید عامر کیانی اس معیار پر پورا نہیں اتر سکیں گے۔

سابق سیکرٹری جنرل ارشد داد کو سینئر نائب صدر بنایا گیا ہے جبکہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات عمر سرفراز چیمہ کو بھی تبدیل کر کے نائب صدر کا نمائشی عہدہ دے دیا گیا ہے اور احمد جواد کو سیکرٹری اطلاعات بنایا گیا ہے۔ عمر سرفراز چیمہ کا تحریک انصاف میں ماضی نشیب وفراز کا شکار رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا مزاج اور سست کارکردگی ہے۔سندھ میں حلیم عادل شیخ کو تحریک انصاف کا صوبائی صدر بنایا گیا ہے۔ حلیم عادل شیخ ایک جنگجو قسم کے رہنما ہیں اور پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔

آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی صدارت کیلئے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے زیادہ طاقتور اور بااثر رہنما دوسرا کوئی نہیں ہے۔ سلطان چوہدری کو اب منظم انداز میں تحریک انصاف کو آزاد کشمیر میں مضبوط اور وسیع بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

تحریک انصاف کی خواتین کی جانب سے یہ شدید اعتراض اور احتجاج سامنے آرہا ہے کہ ملک بھر میںصوبائی تنظیم سازی کے تمام عہدوں میں سے صرف2 عہدے خواتین کو ملے ہیں تاہم اس حوالے سے سیف اللہ نیازی کا موقف مضبوط معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے نئے آئین میں خواتین ونگ کو مکمل طور پر خودمختار بنا دیا گیا ہے اور وہ براہ راست چیئرمین عمران خان کے ماتحت ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ صوبائی تنظیموں میں خواتین کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور جب خواتین ونگ اپنی صوبائی اور ضلعی تنظیمیں بنائے گا تو تمام خواتین ایڈجسٹ ہو جائیں گی۔

صوبائی تنظیم سازی مکمل ہونے کے بعد اب ڈویژن اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر تنظیم سازی کا عمل شروع ہونے لگا ہے اور یہی سب سے اہم اور مشکل مرحلہ ہے۔ اس میں گروپ بندی اور ذاتی پسند و ناپسند کی بجائے کارکردگی اور استعداد کا میرٹ سختی سے اپنانا ہوگا۔ لاہور میں ضلعی صدارت کیلئے مہر واجد عظیم اور ظہیر عباس کھوکھر میں کانٹے دار مقابلہ ہے، دونوں رہنما اپنی کارکردگی اور استعداد متعدد بار ظاہر کر چکے ہیں۔

اعجاز ڈیال جیسے اہم رہنما کو ریجن یا ڈسٹرکٹ کی تنظیم میں شامل کرنا بھی فائدہ مند رہے گا، اعجاز ڈیال کا لاہور میں ہی نہیں دیگر شہروں میں زبردست حلقہ احباب ہے اور وہ ایک بااثر رہنما کے طور پر تحریک انصاف میں جانے جاتے ہیں۔

حکومتی عہدوں کا بھی یہ عالم ہے کہ چند روز قبل چیئرمین ٹیوٹا حافظ فرحت عباس نے اچانک استعفٰی دیکر سب کو حیران کردیا، معلوم ہوا ہے کہ حافظ فرحت عباس کے بعض امور پر ایک صوبائی وزیر سے اختلافات تھے۔ اس سے قبل حماد اظہر کو وفاقی وزیر بنا کر انہیں ریونیو ڈویژن کا قلمدان سونپا گیا لیکن 24 گھنٹوں کے اندر ان سے یہ محکمہ واپس لیکر انہیں ''اپ گریڈ'' سے دوبارہ ''ڈی گریڈ'' کردیا گیا۔ تحرک انصاف کی تنظیم سازی اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب حکومتی وزراء اپنے تنظیمی ساتھیوں کے ساتھ مکمل تعاون کریں ۔
Load Next Story