ہماری امید‘ ہمارے نوجوان
ہر قوم کی امید اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان بھی ہماری امیدوں کا محور ہیں
لڑکپن کے دور میں ایک بزرگ سے میں نے گزارش کی کہ حضور کوئی ایسی نصیحت فرمائیں جو ہم نوجوانوں کے کام آئے۔ بزرگ محترم نے جواب دیا ''آپ جیسے نوجوانوں کے لیے میرا مشورہ ہے ہماری عمر کے لوگوں سے دور رہیں''۔ میرے استفسار پر وہ گویا ہوئے کہ ان کی نسل کے لوگ ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکے اس لیے ان کی قربت نئی نسل کو گمراہی کے سوا کچھ نہیں دے سکے گی۔ آج اتنے سال گزر جانے کے بعد اپنی نسل کے لوگوں کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دونوں ادوار سے انفرادی مثالیں ضرور دی جا سکتی ہیں مگر اجتماعی پرفارمنس نہ ہونے کے برابر' ہم مسلسل زوال پذیر ہیں۔
ہر ادارہ تباہ ہو رہا ہے۔ کہیں سے امید کی کوئی کرن پھوٹتی ہے' ابھی اس پہ اعتبار آنے لگتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ فریب نظر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کوئی نخلستان دکھائی دیتا ہے' زیادہ قریب ہونے پر وہی سراب نظر آتا ہے۔ ہم اچانک کسی کو ہیرو بناتے ہیں وہ زیرو بھی نہیں نکلتا۔ ہمارے جیسے ملکوں میں عمر کے ساتھ مایوسی کا بڑھنا شاید فطری ہے۔ ہر قوم کی امید اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان بھی ہماری امیدوں کا محور ہیں۔ دائود شیخ اور ان کے ساتھی ایسے ہی نوجوان ہیں جو قوم کا درد رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔ بزرگ صحافی حمید اختر مرحوم آخری عمر تک ان کی مدد کرتے رہے۔ انھی کا ایک کالم حاضر خدمت ہے جو گزشتہ برس اگست میں شایع ہوا تھا۔
''28اگست 2011
نجی شعبے میں ٹیکنیکل یونیورسٹی کا قیام
حیرت کی بات ہے کہ جو کام سرکاری اور بڑے نجی تعلیمی ادارے کے کرنے کا ہے وہ طلباء نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کچھ درد مند طلباء نے جب نوجوانوں کے مسائل' ان کی وجوہات اور حل پر غور کیا کہ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جائے تو انھیں شدت سے احساس ہوا کہ بے روزگاری صرف بابوئوں کے لیے ہے مگر صنعتوں میں ملازمتیں موجود ہیں' کمی ہنرمند نوجوان کی ہے۔ ان طلباء نے' جن کے روح رواں دائود شیخ ہیں' گزشتہ برس ینگ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر کے اس کے زیر انتظام جدید اور سستی فنی تعلیم کے لیے ملک میں اپنی طرز کی پہلی مثالی ٹیکنیکل اور ووکیشنل یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ بنایا۔
مقصد نوجوانوں کو ملکی صنعتوں سے جوڑنا ہے۔ یہ منصوبہ ظاہر ہے بہت بڑا ہے۔ اس کو وجود میں لانے کے لیے محب وطن مخیر افراد کی ضرورت تھی۔ خدا نے ان طلباء کی مدد کی اور پنجاب کے سابق وزیر تعلیم و صحت چوہدری محمد اقبال نے گوجرانوالہ کھیالی بائی پاس کے قریب زمین کا ایک قطعہ ٹرسٹ کے نام کر دیا۔ نجی ٹیکنیکل یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے ایسے ہی حدود اربعہ میں جگہ درکار تھی جہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا گوجرانوالہ' گجرات' وزیر آباد اور سیالکوٹ کی صنعتوں میں کھپائے جا سکیں جن سے نہ صرف پڑھے لکھے بابوئوں کی بے روزگاری ختم ہو گی بلکہ ملک کی صنعتی پیداوار میں اضافہ بھی ممکن ہو گا۔
ٹیکنیکل یونیورسٹی کا قیام کٹھن تجربہ ہے تاہم ٹرسٹ نے کام شروع کر دیا ہے۔ ایک ایکڑ اراضی پر نقشہ بنوایا گیا ہے۔ ٹو ڈی اور تھری ڈی تیار کرائیں پھر BOQ بنوایا' اس کی تعمیر پر بارہ کروڑ کی لاگت کا اندازہ ہے مگر ان باہمت نوجوانوں کو پوری توقع ہے کہ وہ اتنا فنڈ ضرور اکٹھا کر لیں گے۔ فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ جو کوئی بھی کسی بلاک یا فلور کی تعمیر کرائے گا وہ اس کے نام سے موسوم کر دیا جائے گا۔ یہ صدقہ جاریہ کی وہ قسم ہے جس سے نسل در نسل نوجوان ہنرمندی سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ کوشش یہ ہے کہ اگلے سال یعنی 2012ء سے تعلیمی سلسلہ شروع کر دیا جائے۔ اس کا فنی تعلیمی سلسلہ عالمی انسٹیٹیوٹ سے منسلک کر دیا جائے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے اور اہم منصوبے کی پاکستان میں ابھی وہ پذیرائی نہیں ہوئی جس کا وہ مستحق ہے مگر بیرونی دنیا میں اس کی خبریں پہنچ گئی ہیں۔
چنانچہ اس منصوبے کے روح رواں دائود شیخ کو آسٹریلیا میں ایشیا پیسیفک یوتھ کانفرنس میں عالمی تنظیم نے اس بنا پر شرکت کی دعوت دی اور دائود شیخ وہاں چند روزہ قیام اور غیر ملکی اداروں اور پاکستانی کمیونٹی کے تعاون کے وعدوں کے بعد واپس پاکستان آ گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے اختتام کے بعد وہ پاکستانی کمیونٹی سے ملنے کا خواہش مند تھا۔ اس کے لیے پاکستانی سفارت خانے کے بریگیڈیئر ظہیر احمد نے خصوصی شفقت کی اور ملبورن میں پاکستانی نوجوان جہانگیر احمد کو دائود شیخ کی رہائش و طعام کی ذمے داری ہی نہیں سونپی متعلقہ لوگوں سے ملانے کو بھی کہا جس کی وجہ سے دائود کو ملبورن میں آسٹریلیا کے سیاست دانوں' سوشل ورکرز' حکومتی اہلکاروں' پروفیسروں اور دانش وروں سے ملنے کا موقع ملا۔
ملبورن یونیورسٹی کا وزٹ بھی ممکن ہوا۔ دائود کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں مقیم ہر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مقامی تارکین وطن کے ہر فرد نے اسے پیار دیا اور آسٹریلیا میں رہائش اور تعلیم کی پیش کش بھی کی۔ ان کے اس روّیے کی وجہ دائود شیخ کی اپنے ملک کے نوجوانوں کو بے روزگاری سے نجات دلانے کی کوشش ہے۔ وہ نہ تو شاعر' ادیب یا صحافی ہے نہ ہی سیاست سے اس کا واسطہ ہے' آسٹریلیا میں اس کی پذیرائی محض اس کی سوشل ورک کرنے کی وجہ سے ہے۔ ہمارے لیے یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ دائود شیخ ایسے نوجوانوں کی خود اپنے ملک میں حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی' چوہدری محمد اقبال گجر سابق وزیر پنجاب جیسے مخیر اور ذمے دار افراد کے سوا عمومی طور سے اس اہم بڑے اور تاریخی منصوبے کا خیر مقدم نہیں کیا گیا۔
ابھی تو کام شروع ہوا ہے۔ اگر ہمارے ملک میں ذمے دار اور مخیر حضرات اس طرف توجہ دیں تو ایسے متعدد منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جن سے ملک میں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا اور صنعتی ترقی کی وجہ سے پاکستان خوشحال بھی ہو گا۔ نوجوان طالب علموں کی قیادت میں اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان میں جو پہلی مثالی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل یونیورسٹی پنجاب کے بڑے صنعتی زون گوجرانوالہ کھیالی بائی پاس پر قائم کی جا رہی ہے اس کی تکمیل ضروری ہے۔ یونیورسٹی کے نقشہ جات وغیرہ مکمل ہو چکے ہیں۔ اکتوبر میں تعمیر شروع ہو جائے گی۔ دائود شیخ اور اس کے باہمت ساتھی پاکستان کے مخیر حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے اپنی زکوٰۃ اور عطیات وغیرہ سے مدد کریں۔
ینگ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کا اکائونٹ نمبر 012003938-9' الائیڈ بینک لمیٹڈ' علامہ اقبال ٹائون لاہور' برانچ کوڈ 0688 ہے۔ رابطہ محمد دائود شیخ 0345-4266339۔
نوٹ: اس منصوبے کے حوالے سے ایک فیس بُک پیج بھی بنایاگیاہے جس کا ایڈریس ہے:
www.facebook.com/eradicateunemployment
منصوبے کا افتتاح اور عمارت کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ ایک اپیل اور ایک اظہار تشکر بھی ادا کرنا ہے۔ پہلے اپیل۔
اہل دانش توجہ فرمائیں!
بے مثال ادیب' دانشور' مصنف اور کالم نویس حمید اختر مرحوم کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت چکا ہے۔ ان کی برسی کے موقع پر ان سے متعلق ہر قسم کی تحریر' تصویر' تاریخ اور تخلیق پر مبنی ایک ضخیم نمبر شایع کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ قارئین میں سے کسی کے پاس بھی ان سے متعلق ایسی کوئی معلومات' یادداشت یا تحاریر ہوں تو وہ رابطہ کریں۔
علامہ عبدالستار عاصم رضویہ ٹرسٹ سنٹرل کمرشل مارکیٹ ماڈل ٹائون' لاہور
0333,0323-4393422
009242-35855537/36175173
ayaanmughal786@yahoo.com
آخر میں اظہار تشکر: اس معاملے میں تعاون فراہم کرنے پر ہم وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ضیاء کھوکھر صاحب کے بے حد شکر گزار ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن کے خالد ارشاد صوفی صاحب کا بھی شکریہ جنہوں نے نوجوان طالب علم شہزاد علی سے فون پر بات کر کے ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ہر ادارہ تباہ ہو رہا ہے۔ کہیں سے امید کی کوئی کرن پھوٹتی ہے' ابھی اس پہ اعتبار آنے لگتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ فریب نظر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کوئی نخلستان دکھائی دیتا ہے' زیادہ قریب ہونے پر وہی سراب نظر آتا ہے۔ ہم اچانک کسی کو ہیرو بناتے ہیں وہ زیرو بھی نہیں نکلتا۔ ہمارے جیسے ملکوں میں عمر کے ساتھ مایوسی کا بڑھنا شاید فطری ہے۔ ہر قوم کی امید اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان بھی ہماری امیدوں کا محور ہیں۔ دائود شیخ اور ان کے ساتھی ایسے ہی نوجوان ہیں جو قوم کا درد رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔ بزرگ صحافی حمید اختر مرحوم آخری عمر تک ان کی مدد کرتے رہے۔ انھی کا ایک کالم حاضر خدمت ہے جو گزشتہ برس اگست میں شایع ہوا تھا۔
''28اگست 2011
نجی شعبے میں ٹیکنیکل یونیورسٹی کا قیام
حیرت کی بات ہے کہ جو کام سرکاری اور بڑے نجی تعلیمی ادارے کے کرنے کا ہے وہ طلباء نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کچھ درد مند طلباء نے جب نوجوانوں کے مسائل' ان کی وجوہات اور حل پر غور کیا کہ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جائے تو انھیں شدت سے احساس ہوا کہ بے روزگاری صرف بابوئوں کے لیے ہے مگر صنعتوں میں ملازمتیں موجود ہیں' کمی ہنرمند نوجوان کی ہے۔ ان طلباء نے' جن کے روح رواں دائود شیخ ہیں' گزشتہ برس ینگ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر کے اس کے زیر انتظام جدید اور سستی فنی تعلیم کے لیے ملک میں اپنی طرز کی پہلی مثالی ٹیکنیکل اور ووکیشنل یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ بنایا۔
مقصد نوجوانوں کو ملکی صنعتوں سے جوڑنا ہے۔ یہ منصوبہ ظاہر ہے بہت بڑا ہے۔ اس کو وجود میں لانے کے لیے محب وطن مخیر افراد کی ضرورت تھی۔ خدا نے ان طلباء کی مدد کی اور پنجاب کے سابق وزیر تعلیم و صحت چوہدری محمد اقبال نے گوجرانوالہ کھیالی بائی پاس کے قریب زمین کا ایک قطعہ ٹرسٹ کے نام کر دیا۔ نجی ٹیکنیکل یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے ایسے ہی حدود اربعہ میں جگہ درکار تھی جہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا گوجرانوالہ' گجرات' وزیر آباد اور سیالکوٹ کی صنعتوں میں کھپائے جا سکیں جن سے نہ صرف پڑھے لکھے بابوئوں کی بے روزگاری ختم ہو گی بلکہ ملک کی صنعتی پیداوار میں اضافہ بھی ممکن ہو گا۔
ٹیکنیکل یونیورسٹی کا قیام کٹھن تجربہ ہے تاہم ٹرسٹ نے کام شروع کر دیا ہے۔ ایک ایکڑ اراضی پر نقشہ بنوایا گیا ہے۔ ٹو ڈی اور تھری ڈی تیار کرائیں پھر BOQ بنوایا' اس کی تعمیر پر بارہ کروڑ کی لاگت کا اندازہ ہے مگر ان باہمت نوجوانوں کو پوری توقع ہے کہ وہ اتنا فنڈ ضرور اکٹھا کر لیں گے۔ فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ جو کوئی بھی کسی بلاک یا فلور کی تعمیر کرائے گا وہ اس کے نام سے موسوم کر دیا جائے گا۔ یہ صدقہ جاریہ کی وہ قسم ہے جس سے نسل در نسل نوجوان ہنرمندی سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ کوشش یہ ہے کہ اگلے سال یعنی 2012ء سے تعلیمی سلسلہ شروع کر دیا جائے۔ اس کا فنی تعلیمی سلسلہ عالمی انسٹیٹیوٹ سے منسلک کر دیا جائے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے اور اہم منصوبے کی پاکستان میں ابھی وہ پذیرائی نہیں ہوئی جس کا وہ مستحق ہے مگر بیرونی دنیا میں اس کی خبریں پہنچ گئی ہیں۔
چنانچہ اس منصوبے کے روح رواں دائود شیخ کو آسٹریلیا میں ایشیا پیسیفک یوتھ کانفرنس میں عالمی تنظیم نے اس بنا پر شرکت کی دعوت دی اور دائود شیخ وہاں چند روزہ قیام اور غیر ملکی اداروں اور پاکستانی کمیونٹی کے تعاون کے وعدوں کے بعد واپس پاکستان آ گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے اختتام کے بعد وہ پاکستانی کمیونٹی سے ملنے کا خواہش مند تھا۔ اس کے لیے پاکستانی سفارت خانے کے بریگیڈیئر ظہیر احمد نے خصوصی شفقت کی اور ملبورن میں پاکستانی نوجوان جہانگیر احمد کو دائود شیخ کی رہائش و طعام کی ذمے داری ہی نہیں سونپی متعلقہ لوگوں سے ملانے کو بھی کہا جس کی وجہ سے دائود کو ملبورن میں آسٹریلیا کے سیاست دانوں' سوشل ورکرز' حکومتی اہلکاروں' پروفیسروں اور دانش وروں سے ملنے کا موقع ملا۔
ملبورن یونیورسٹی کا وزٹ بھی ممکن ہوا۔ دائود کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں مقیم ہر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مقامی تارکین وطن کے ہر فرد نے اسے پیار دیا اور آسٹریلیا میں رہائش اور تعلیم کی پیش کش بھی کی۔ ان کے اس روّیے کی وجہ دائود شیخ کی اپنے ملک کے نوجوانوں کو بے روزگاری سے نجات دلانے کی کوشش ہے۔ وہ نہ تو شاعر' ادیب یا صحافی ہے نہ ہی سیاست سے اس کا واسطہ ہے' آسٹریلیا میں اس کی پذیرائی محض اس کی سوشل ورک کرنے کی وجہ سے ہے۔ ہمارے لیے یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ دائود شیخ ایسے نوجوانوں کی خود اپنے ملک میں حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی' چوہدری محمد اقبال گجر سابق وزیر پنجاب جیسے مخیر اور ذمے دار افراد کے سوا عمومی طور سے اس اہم بڑے اور تاریخی منصوبے کا خیر مقدم نہیں کیا گیا۔
ابھی تو کام شروع ہوا ہے۔ اگر ہمارے ملک میں ذمے دار اور مخیر حضرات اس طرف توجہ دیں تو ایسے متعدد منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جن سے ملک میں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا اور صنعتی ترقی کی وجہ سے پاکستان خوشحال بھی ہو گا۔ نوجوان طالب علموں کی قیادت میں اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان میں جو پہلی مثالی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل یونیورسٹی پنجاب کے بڑے صنعتی زون گوجرانوالہ کھیالی بائی پاس پر قائم کی جا رہی ہے اس کی تکمیل ضروری ہے۔ یونیورسٹی کے نقشہ جات وغیرہ مکمل ہو چکے ہیں۔ اکتوبر میں تعمیر شروع ہو جائے گی۔ دائود شیخ اور اس کے باہمت ساتھی پاکستان کے مخیر حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے اپنی زکوٰۃ اور عطیات وغیرہ سے مدد کریں۔
ینگ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کا اکائونٹ نمبر 012003938-9' الائیڈ بینک لمیٹڈ' علامہ اقبال ٹائون لاہور' برانچ کوڈ 0688 ہے۔ رابطہ محمد دائود شیخ 0345-4266339۔
نوٹ: اس منصوبے کے حوالے سے ایک فیس بُک پیج بھی بنایاگیاہے جس کا ایڈریس ہے:
www.facebook.com/eradicateunemployment
منصوبے کا افتتاح اور عمارت کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ ایک اپیل اور ایک اظہار تشکر بھی ادا کرنا ہے۔ پہلے اپیل۔
اہل دانش توجہ فرمائیں!
بے مثال ادیب' دانشور' مصنف اور کالم نویس حمید اختر مرحوم کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت چکا ہے۔ ان کی برسی کے موقع پر ان سے متعلق ہر قسم کی تحریر' تصویر' تاریخ اور تخلیق پر مبنی ایک ضخیم نمبر شایع کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ قارئین میں سے کسی کے پاس بھی ان سے متعلق ایسی کوئی معلومات' یادداشت یا تحاریر ہوں تو وہ رابطہ کریں۔
علامہ عبدالستار عاصم رضویہ ٹرسٹ سنٹرل کمرشل مارکیٹ ماڈل ٹائون' لاہور
0333,0323-4393422
009242-35855537/36175173
ayaanmughal786@yahoo.com
آخر میں اظہار تشکر: اس معاملے میں تعاون فراہم کرنے پر ہم وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ضیاء کھوکھر صاحب کے بے حد شکر گزار ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن کے خالد ارشاد صوفی صاحب کا بھی شکریہ جنہوں نے نوجوان طالب علم شہزاد علی سے فون پر بات کر کے ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔