ٹیکس کلچر سے ناآشنا قوم

کیا ہم حکمرانوں کےلیے بھی کوئی سروس کرائٹیریا ترتیب نہیں دے سکتے؟ کیا حکمرانوں کی مراعات کو محدود نہیں کیا جاسکتا؟

اگر ہم ٹیکس گزاروں کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے، تو کم از کم عزت ہی دے دیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی ایک لاپرواہ اور غیر ضروری طور پر سیاست میں مبتلا قوم ہے۔ ہمارا ہر مسئلہ، ہماری ہر ضرورت سیاست کی نذر ہوجاتی ہے۔ چاہے وہ کراچی ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ ہو یا ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ ہو۔ ہر چیز سیاست کی نذر ہوجاتی ہے۔ پاکستانی بطور قوم تو اپنا ہر مسئلہ وقت پر حل کرنے کی پوری کوشش کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس قوم نے اپنی قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے وہ فوری طور پر اسے سیاسی مسئلہ بنادیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی بنیاد پر ملک کے ٹوٹنے کی دھمکی بھی دے دیتے ہیں۔

ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر نام نہاد قائد پچھلی چند دہائیوں میں مختلف بڑی طاقتوں کے تنخواہ دار ایجنٹ بھی رہے ہیں۔ یہاں نام لینے کی ضرورت نہیں ہے، ہم سب ہی ان ناموں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کچھ قائدین کی ملازمت ختم ہوئی تو خیبرپختونخوا میں پاکستان سے علیحدگی کی آوازیں دم توڑ گئیں۔

جی ایم سید کی تحریک بھی ایک وقت میں اس ملک کی سلامتی کےلیے خطرہ محسوس ہوتی رہی ہے۔ لیکن جب غیر ملکی فنڈنگ ختم ہوئی تو یہ تحریک بھی اپنی موت آپ مرگئی۔ اس سے ایک بات تو صاف عیاں ہے کہ پاکستان میں بسنے والی کوئی بھی قومیت اس ملک کو توڑنا نہیں چاہتی۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کسی بھی قومی مسئلے پر ایک موقف اختیار نہیں کرپاتے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری قیادت کی نیت کی خرابی ہے۔ ہم نے اپنی قیادت ایسے لوگوں کو سونپ رکھی ہے، جو اپنے مفادات کے سوا کچھ دیکھ ہی نہیں پاتے۔ کچھ قائدین کو تعمیرات کا اتنا شوق ہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں، موٹروے بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اور موٹروے بھی اپنے گھر کے پاس سے بنانا شروع کرتے ہیں۔ شاید پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں موٹروے درمیان سے شروع ہوتی ہے، اور ابھی تک کسی ایک کنارے پر نہیں پہںچی۔ کچھ قائدین کا نظریہ اقتدار میں آکر صرف لوٹ مار اور اپنے وفادار ورکرز کو بغیر کسی میرٹ اور قابلیت کے مختلف سرکاری اداروں میں نوکری دینا ہوتا ہے۔ ان ہی قائدین کی کرم نوازیوں کی وجہ سے آج ہمارے کئی سرکاری ادارے بند ہوچکے ہیں، کچھ بند ہونے کے قریب ہیں۔

اب جو موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، وہ اس ملک کو سدھارنے کی کوشش بظاہر کرتی نظر آرہی ہے۔ لیکن جاں بہ لب مریض کا بڑا آپریشن کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

ستر سال کی عادتیں یک دم تو ختم نہیں ہوسکتیں۔ جہاں ٹیکس کلچر کا وجود ہی نہیں تھا، وہاں اتنی جلدی لوگ ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ ٹیکس نہ دینے کی بھی ایک معقول وجہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ٹیکس حکمرانوں کی عیاشیوں کےلیے دیں؟ ہمارے حکمرانوں کا جو وطیرہ رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ کسی بھی عرب حکمران سے کم تو ہمارا حکمران نظر آنا نہیں چاہتا ہے۔ جو اس ملک کی اقتصادی حالت ہے، اس کے پیش نظر مستقبل قریب میں کسی بھی ریلیف کی امید رکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ابھی تو صرف قرضوں کا سود ادا کرنے کےلیے قرضے لیے جارہے ہیں۔ قرض کی ادائیگی کب ہوگی؟ یہ الله کو معلوم ہے۔

اگر ہم ٹیکس گزاروں کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے، تو کم از کم عزت ہی دے دیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم کوئی ایسا طریقہ کار بنالیں جس کے تحت جو جتنا زیادہ ٹیکس دیتا ہے، معاشرے میں اس کو اتنا ہی اکرام بھی ملے۔ کوئی ایسا کارڈ متعارف کرایا جائے جس پر ٹیکس گزار کا دیا جانے والا ٹیکس واضح لکھا ہوا ہو۔ جس کی بنیاد پر اسے ہوائی اور ریلوے سفر کےلیے ٹکٹ حاصل کرنے میں فوقیت حاصل ہو، کسی بھی جگہ لائن بنائی ہو تو اسے بغیر لائن کے اپنا کام کروانے کی آسانی مل سکے۔ اگر کسی بھی وجہ سے کوئی ٹریفک چالان ہوسکتا ہو تو اسے کم از کم ایک یا دو بار صرف سرزنش پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر ٹیکس گزار کسی بھی وجہ سے کسی قانونی مسئلے میں پھنس جائے تو اسے زر ضمانت میں ریلیف مل سکے۔ اور بھی ایسی تجاویز دی جاسکتی ہیں۔


اگر ہم اپنا جی ڈی پی تیزی سے بڑھانا چاہتے ہیں تو اس کےلیے سب سے بہتر طریقہ زراعت پر توجه دینا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس کےلیے نہ کسی ٹیکنالوجی کے منتقلی کی ضرورت ہے، نہ ہی کسی تربیت کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے چھوٹے کاشتکاروں کو بلاسود قرضے دے کر اور رعایتی قیمت پر کھاد اور کیڑے مار دوائیں مہیا کرکے اپنے جی ڈی پی کو بڑھا سکتے ہیں۔ کارپوریٹ فارمنگ کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔

پانی کی کمی کا مسئلہ زیر زمین پانی کے ذخائر کی تلاش سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کےلیے پوری ٹیکنالوجی آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے پاس موجود ہے۔ زیر زمین پانی کو استمعال کرکے سعودی عرب بھی اپنی زراعت کو کہاں تک پہنچا چکا ہے۔ ان کی اکثر زرعی پانی کی ضرورت فوسل واٹر سے پوری کی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں بھی زیر زمین پانی کے ذخائر موجود ہیں، وہ زمین کارپوریٹ فارمنگ کےلیے لیز پر سرمایہ کاروں کو پیش کی جاسکتی ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کو ترقی دے کر اس ملک میں موجود نیم خواندہ نوجوانوں کو بھی روزگار حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ افرادی قوت بھی زیادہ استمعال ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔

فی زمانہ مہنگائی کم کرنے کے دو ہی طریقے دنیا میں موجود ہیں۔ یا تو آپ اشیا کی قیمتیں کم کردیں یا پھر عوام کی قوت خرید کو بڑھادیں۔ اشیا کی قیمتیں کم کرنا فری مارکیٹ اکانومی میں ممکن نہیں ہے۔ صرف عوام کی قوت خرید ہی بڑھائی جاسکتی ہے۔ جس کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے چار بیٹے بیروزگار ہیں، اسے جتنی مہنگائی محسوس ہو رہی ہے، اگر اس کے دو بیٹوں کو بھی روزگار مل جائے تو اسے زندگی آسان لگنے لگے گی۔ اور مہنگائی کم محسوس ہوگی۔

اگر ہمارے حکمران اپنے مفاد کےلیے اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کو کسی بھی پوچھ گچھ سے راتوں رات استثنیٰ دے سکتے ہیں، تو کیا کارپوریٹ فارمنگ کو بھی ایسا ہی کوئی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا؟ اس استثنیٰ کے نتیجے میں ہونے والی سرمایہ کاری کم از کم جی ڈی پی میں اضافے کا سبب تو بن جائے گی۔ ورنہ جس طرح ہمارا اسٹاک ایکسچینج بلیک منی کی لانڈری بنا ہوا ہے، اس کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ نیم خواندہ عوام کو تو اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والی تیزی کو اقتصادی ترقی بتایا جاسکتا ہے، لیکن جو لوگ اقتصادیات سے واقف ہیں اور معیشت کا علم رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ صرف جوا زوروں پر چل رہا ہے۔ ورنہ اس ملک کی جو اقتصادی حالت ہے، اس میں اسٹاک ایکسچینج کی تیزی سمجھ سے باہر ہے۔

کیا ہم حکمرانوں کےلیے بھی کوئی سروس کرائٹیریا ترتیب نہیں دے سکتے؟ کیا حکمرانوں کی مراعات کو بھی محدود نہیں کیا جاسکتا؟ اگر کسی ادارے کے سربراہ کےلیے مراعات کا پیکیج ہوسکتا ہے، تو حکمرانوں کےلیے کیوں نہیں؟ حکمران بھی تو اس ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔

جب حکمران کی تنخواہ مقرر ہوسکتی ہے تو اس کی گاڑی کا میک اور ماڈل بھی مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے گھر کی رقبہ بھی مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کے خاندان کے افراد کی دخل اندازی کو بھی محدود کیا جاسکتا ہے۔ اگر برطانیہ جیسی بڑی طاقت کا سربراہ تین کمروں کے مکان میں رہ سکتا ہے، تو ہمارا حکمران کیوں نہیں رہ سکتا؟ ورنہ تو جیسے ہی عمران خان حکومت سے جائے گا، وزیراعظم ہاؤس دوبارہ آباد ہوجائے گا۔ جتنی گاڑیاں موجودہ حکومت نے بیچی ہیں، اس سے زیادہ اور قیمتی گاڑیاں دوبارہ خرید لی جائیں گی۔ اور اس بار عوام کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story