پاکستان ناقابل حکومت سے قابل حکومت ملک تک

چوری شدہ موبائل فونز اور گاڑیوں کے پارٹس سے لے کر افغان ٹرانزٹ کے اسمگل شدہ مال تک یہ سب کچھ بیچنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

moazzamhai@hotmail.com

تاجر ہڑتالوں پہ ہیں۔ یہ لاکھوں کروڑوں کما کر ہزاروں کا ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں۔ یہ گاہکوں سے وصول کردہ سیلز ٹیکس کو بھی اپنے منافع کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنے اصولی موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں۔

چوری شدہ موبائل فونز اور گاڑیوں کے پارٹس سے لے کر افغان ٹرانزٹ کے اسمگل شدہ مال تک یہ سب کچھ بیچنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ دن چڑھے اپنی دکانیں کھولتے ہیں جب خدا کی مخلوق کو رزق کی تلاش میں نکلے کئی گھنٹے ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے مخالف ہیں۔ یہ ریاست کے قابو سے باہر تاجر ناقابل حکومت پاکستان کی نمایاں ترین نشانیوں میں سے ہیں۔ ادھر مختلف شہروں میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالیں سارا سال وقفے وقفے سے جاری رہتی ہیں۔

ایک طرف مریض علاج کے بنا مر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز تالیاں پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ اب چاہے کوئی صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت یہ پہلے ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف ''سخت ایکشن'' کی دھمکی دیتی ہے، پھر مذاکرات کرتی ہے پھر ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات مان لیتی ہے۔ کچھ دن بعد ینگ ڈاکٹرز نئے مطالبات لیے پھر ہڑتال پہ بیٹھے تالیاں پیٹ رہے ہوتے ہیں اور پھر مریض علاج کے بنا جان دے رہے ہوتے ہیں۔ ادھر آئے دن ٹی وی پہ وکلا کبھی عدالتوں میں ججوں پہ دست درازی کرتے، کبھی سائلین اور کبھی پولیس والوں کی پٹائی کرتے نظر آتے ہیں۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں سے مجرم ضمانت منسوخ ہونے پہ ٹی وی چینلز کے کیمروں اور پولیس کے سامنے فرار ہو جاتے ہیں اور قانون اور انصاف کا نظام اظہار برہمی کرتا رہ جاتا ہے۔ 5 دن قید کی سزا پانے والے عام آدمی 6 سال جیل میں پڑے سڑتے رہتے ہیں، بے گناہ ہونے کے باوجود پھانسی پہ چڑھا دیے جاتے ہیں اور یہ نظام انصاف بعد میں کہہ دیتا ہے کہ اوہ ! سوری غلطی ہو گئی۔ یہی نظام انصاف اس ملک کے اربوں کھربوں لوٹنے والے بڑے بڑے عادی میگا لٹیروں اور مجرموں کو کسی نہ کسی طرح ریلیف دینے کے لیے قانون کے باریک سے باریک نکتے پہ بھی غور کرتا ہے۔

ہزاروں بے گناہ عام آدمی اس ملک کی جیلوں میں ایئرکنڈیشنر، ٹی وی، فریج اور علاج کی معمولی سہولتوں سے بھی محروم پڑے سڑ رہے ہیں جب کہ اس ملک کا نظام انصاف اور میڈیا اس فکر میں ہلکان رہتا ہے کہ کہیں اس ملک کو لوٹنے اور تباہ کرنے والے بڑے بڑے مجرموں سے ایئرکنڈیشنر، ٹی وی، فریج اور وی وی آئی پی علاج کی سہولتیں جیل میں واپس نہ لے لی جائیں۔ مجموعی حال یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو بیس پچیس آدمی اکٹھے کر سکتا ہے وہ پورے ملک میں کوئی بھی شاہراہ، ہائی وے یہاں تک کہ مین ریلوے لائن تک جب تک چاہے بند کروا سکتا ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف نہ سخت ایکشن لیا جاسکتا ہے اور نہ انھیں جیلوں میں ڈالا جاسکتا ہے کیونکہ میڈیا اور جرائم پیشہ اور کرپٹ سیاسی مافیائیں شور مچا دیں گے کہ فسادیوں کو ان کے انسانوں پہ راستے بند کرنے کے ''جمہوری حق'' سے محروم کردیا گیا یعنی ایسے فسادیوں کے راستے بند کرنے سے اذیت اٹھانے والے ہزاروں لاکھوں شہریوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں۔


پورے ملک میں کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت ایک بھی مارکیٹ میں دکانداروں سے جلدی دکانیں نہ کھلوا سکتی ہے نہ شام کو جلدی بند کروا سکتی ہے، پورے ملک کے ایک شہر میں بھی پلاسٹک کی تھیلیوں پہ پابندی پہ عمل نہیں کروا سکتی، ایک بھی دودھ والے کو ملاوٹ کے بغیر دودھ بیچنے پہ مجبور نہیں کرسکتی، بجلی اور گیس چوری نہیں رکوا سکتی، کے الیکٹرک اور موبائل فون کمپنیوں کو صارفین کو لوٹنے اور مبینہ طور پر کئی کئی سو ارب روپوں کا ٹیکس چوری کرنے سے نہیں روک سکتی۔

پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل مل پہ پوری دنیا میں چند سو ارب روپوں کی بھیک مانگنے والے ملک کے ہر سال کئی کئی سو ارب روپے لگ کر ضایع ہوجاتے ہیں مگر نہ ہی ان سفید ہاتھیوں کی نجکاری کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان میں سیاسی اور لسانی تعصب کی بنیادوں پہ بھرتی کیے گئے ہزاروں کرپٹ اور نااہل لوگوں کو نکالا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اپنی اپنی سیاسی مافیاؤں کے ساتھ احتجاج پہ اتر آئیں گے اور حکومت اپنے گھٹنوں پہ آجائے گی۔ ہر گروہ، ہر طبقے نے اپنی مافیا بنالی ہے۔ ہر طرف مافیاؤں کا راج ہے۔ ریاست کی رٹ مذاکرات تک محدود ہے۔ یہ ملک پچھلے چند عشروں سے گزر کر اب حقیقتاً ناقابل حکومت ہوچکا ہے۔

اس ملک کے ایک ناقابل حکومت ملک بننے کا پراسس 1970کی دہائی سے شروع ہوا۔ 1972سے 1977 تک کے دور حکومت میں ایک طرف قوم میں نظم و ضبط اور ڈسپلن ختم کیا گیا تو دوسری طرف صنعتوں، بینکوں وغیرہ کو قومیا کر جنوبی کوریا، ملائیشیا اور سنگاپور سے کہیں آگے ترقی کرنے والے ملک کی معیشت تباہ کی گئی تاکہ یہاں سدا وڈیرہ راج قائم رہے، تیسری طرف ان قومیائے گئے اداروں میں لسانی اور سیاسی تعصب کی میرٹ پہ ہزاروں کرپٹ اور نااہل لوگ لگا کر معاشرے میں بڑے پیمانے پہ کرپشن کا آغاز کیا گیا تو چوتھی طرف تعلیمی اداروں کو بھی قومیا کر ملک میں تعلیم کا بیڑہ غرق کیا گیا تاکہ یہ معاشرہ جاگیردارانہ اور قبائلی معاشرہ ہی رہے۔

1977سے 1988کے دور حکومت میں نہ صرف بڑے پیمانے پہ کرپشن کی کھلی چھٹی دی گئی بلکہ اس معاشرے پہ ناقابل تلافی ظلم یہ کیا گیا کہ اسلام کے ایسے خود ساختہ ماڈل کو فروغ دیا گیا کہ جس میں آپ جتنی چاہے کرپشن کریں، ظلم کریں، قتل کریں اور کروائیں، قبضہ گیری، بے ایمانی، دھوکہ دہی، ناانصافی، بدمعاشی جو چاہیں کریں بس پھر عمرہ کر لیں، حج کرلیں، فلاں فلاں عبادت، زیارت کرلیں، مذہبی تقاریب منعقد کرالیں، ظاہری مذہبی علامتیں جسم اور لباس پہ سجالیں اور آپ کے سارے گناہ معاف، تمام ظلم زیادتیاں معاف، سارا حرام مال حلال۔ حالانکہ ہمارا دین مبین ہمیں صاف صاف بتاتا ہے کہ رتی برابر حقوق العباد کی بھی معافی نہیں جب تک وہ تمام لوگ جن سے زیادتیاں کی گئیں، جن کا کسی طرح بھی حق مارا گیا وہ بنا کسی دباؤ کے دل سے نہ معاف کردیں اور ہمارے دین افضل میں ایسی کوئی عبادت کوئی نیکی نہیں جس سے حرام مال حلال ہوجائے۔

اسی دور میں ملک میں افغان مہاجرین، منشیات اور اسلحہ پھیلا دیا گیا۔ اور اسی دور سے ہمارے ریاستی اداروں نے اپنے اعلیٰ ترین افسروں کے ذاتی و مالی مفادات کے لیے اس ملک کے مفادات سے طرح طرح کے گیم کھیلنے شروع کیے۔

کبھی ایک کرپٹ جرائم پیشہ سیاسی مافیا سے ڈیل کی کبھی دوسری کرپٹ جرائم پیشہ سیاسی مافیا کو این آر او دیا۔ ملک لٹتا رہا برباد ہوتا رہا یہ گیم کھیلتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ گیم ایسے ہی چلتے رہیں گے مگر ان کی ڈیل اور این آر او یافتہ سیاسی مافیاؤں نے ملک کے خزانے پہ ایسی جھاڑو پھیری کہ گیم کھیلنے والے ان ریاستی اداروں کے اپنے بجٹ خطرے میں پڑ گئے اور یہ مجبور ہوئے کہ کرپٹ جرائم پیشہ سیاسی مافیاؤں کی سرپرستی سے کچھ پرہیز کریں۔ تاہم یہ کافی نہیں، تمام سیاسی اداروں اور نظام انصاف کو اپنے فرسودہ روایتی طریقوں کو چھوڑ کر ملک کو قابل حکومت بنانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ مگر اس ملک میں جب تک ایک بھی مافیا موجود ہے یہ ملک ناقابل حکومت رہے گا۔
Load Next Story