قلبِِ مُطہّر

اسلام دنیا سے کنارہ کش رہنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ ہی دنیا کوچھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکلنے کی تعلیم دیتا ہے۔

اسلام دنیا سے کنارہ کش رہنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ ہی دنیا کوچھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکلنے کی تعلیم دیتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہمارے جسم میں خون کی گردش کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دل کی ایسی مشین رکھ دی ہے کہ اگر حرکت قلب جاری ہو تو انسان کو زندہ سمجھا جاتا ہے اور جب اس کی حرکت بند ہو جائے تو وہ انسان مردہ کہلاتا ہے۔ ایک تو یہ دل ہے جس سے جسم کی زندگی اور موت کا تعلق ہے، دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں انسان کے باطن یعنی اس کے اندر کی حقیقت کا تعلق بھی دل ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم : '' آگاہ رہو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ درست رہے تو تمام بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔'' (بخاری و مسلم)

جب حق کو دیکھنے کے باوجود لوگوں نے اسے تسلیم نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج میں فرمایا، مفہوم : '' بلاشبہ ان لوگوں کی آنکھیں نہیں لیکن ان کے دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں۔''

جس طرح ہماری روز مرہ کی زندگی میں آنکھوں سے دیکھنے کے لیے دو روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک آنکھ کی روشنی اور دوسری باہر کی روشنی' اگر نابینا ہو تو دن کی چمکتی دھوپ میں بھی نہیں دیکھ سکتا اور اگر آنکھیں تو صحیح سلامت ہوں لیکن باہر گہری تاریکی ہو تو بھی دیکھ نہیں سکے گا، بالکل اسی طرح انسان کے لیے معاشرے میں صحیح سوچ رکھنے' صحیح عمل کرنے اور درست زندگی گزارنے کے لیے بھی دو روشنیوں کی ضرورت ہے۔

ایک دل کی روشنی اور دوسری اسلامی تعلیمات کی روشنی۔ اگر ان میں سے ایک بھی روشنی نہ رہے تو یہ انسان زندگی میں گم راہی کے سوا کچھ بھی نہ پا سکے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے ساتھ دل کو بھی درست، روشنی سے منور اور مطہّر رکھنا ہوگا، جب ہی یہ انسان دنیا کی زندگی اور آخرت کی دائمی زندگی میں کام یابی کی دولت سے سرفراز ہوگا۔

دل کوکن چیزوں سے پاک وصاف رکھا جائے؟ اس بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں اور رسول کریمؐ نے اپنے ارشادات میں خوب واضح فرما دیا۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب اربعین میں دل کی ان بیماریوں کا ایک جگہ مفصّل تذکرہ کیا اور پھر سب سے پہلے دل کی بیماری یہ بتائی کہ دل کو حرص و لالچ سے پاک رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ حرص و لالچ دل میں آجائے تو پھر انسان کو دو چیزوں کی طلب بہت زیادہ ہو جاتی ہے، ایک مال اور دوسرا مرتبہ، جسے حبّ جاہ کا نام دیا۔ جب یہ دو باتیں انسان کے دل کے اندر آجائیں تو پھر تکبّر، ریاکاری، حسد، کینہ اور عداوت جیسی آفتیں دل میں جمع ہو جائیں گی جو دین و دنیا تباہ کرنے والی ہیں۔ اس لیے دل کو ان تمام بیماریوں سے پاک کرنا لازمی ہے۔


دل میں تکبّر پیدا ہوا تو پھر دوسروں کے بارے میں دل میں حقارت آجائے گی اور اسی وقت انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ شخص بن جاتا ہے۔ دل میں ریاکاری، دکھلاوا آگیا تو رسول کریمؐ نے اسے چھوٹا شرک قرار دیا۔ حسد پیدا ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ لہٰذا جب دل سے ان تمام بیماریوں کو صاف کرلیا جائے تو اس کے ساتھ ان خوبیوں سے دل کو آراستہ اور منور کیا جائے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے دی۔ چناں چہ آپؐ نے فرمایا کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے پھر جب وہ توبہ کرتا ہے تو داغ دھل کر دل صاف ہو جاتا ہے، اور اگر گناہ کرتا رہے اور توبہ نہ کرے تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔

اب ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گناہ تو بار بار انسان کرتا رہتا ہے تو پھر بار بار توبہ کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے، جب انسان سے گناہ ہونا ہی ہے تو پھر توبہ کا کیا فائدہ ؟ جب بھی ذہن میں یہ خیال آئے تو سوچیے تو سہی انسان نئے اور صاف ستھرے کپڑے آج پہنے پھر جب میلے ہوجائیں گے تو انہی کپڑوں کو دھلوا کر پہن لیں گے پھر میلے ہوں گے تو پھر دھلوالیں گے تو جب ان کپڑوں نے میلا ہونا ہی ہے تو پھر بار بار دھلوانے کی کیا ضرورت ہے۔

جب بالکل خراب ہو جائیں تو ضایع کر دیا جائے حالاں کہ کوئی سمجھ دار انسان ایسا نہیں کرتا۔ اسی طرح انسان کا دل اگر اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے میلا ہو جائے تو اسے بھی بار بار صاف کر لیا جائے ورنہ یہ دل بھی اگر اس قدر میلا ہوگیا تو پورے انسانی نظام کی خرابی کا سبب بن جائے گا۔ اور توبہ کی توفیق جب ہوتی ہے جب دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر موجود ہو۔ پھر اس دل کے اندر صبر کی دولت ہو، جس سے وہ دل پر آنے والی مصیبتوں کو بہ خوشی جھیل سکے اور جب نعمتوں سے زندگی آرام سے گزرنے لگے تو یہ انسان اب دل کے اندر شُکر جیسی نعمت پیدا کرے' جب بھلائی کرنے لگے تو دل کے اندر خلوص کو خوب اچھی طرح سنبھال کر رکھے کہ کہیں ریا کاری نہ آجائے، کہیں حقارت اور دل آزاری نہ آجائے اور جتنی نعمتیں ملیں ان پر قناعت ہو' مزید نعمتوں کے لیے اللہ پر توکّل رکھتے ہوئے دن رات کوشش و محنت میں لگا رہے' لیکن دل میں دنیا کی محبّت اور حرص جگہ نہ بنا سکیں۔

اسلام دنیا سے کنارہ کش رہنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ ہی دنیا کوچھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکلنے کی تعلیم دیتا ہے' انسان اور دنیا میں کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں بڑی خوب صورت مثال دی: دنیا اور انسان کا تعلق اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کشتی اور پانی کا تعلق' کشتی بغیر پانی کے بالکل بے کار ہے اس کی صلاحیت پانی کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتی۔

اسی طرح انسان کی صلاحیتیں بھی بغیر دنیا کے بے کار ہیں، البتہ ایک احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ پانی کشتی کے اندر نہ داخل ہونے پائے بس یہ کشتی پانی کے اوپر چلتی رہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منزل تک پہنچ جائے، لیکن اگر وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوگیا تو یہ کشتی ڈوب جائے گی، اسی طرح انسان دنیا اور اس کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا رہے لیکن اس دنیا کو اپنے دل کے اندر نہ آنے دے اگر یہ دل کے اندر آگئی تو پھر فلاح و کام یابی کی منزل تک پہنچنا انسان کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔
Load Next Story