سولر پینلز کی کارکردگی بڑھانے میں ڈرامائی پیش رفت
سلیکون سے بنے روایتی سولر سیلز کی مجموعی کارکردگی کی حد متعین ہے۔
برقی توانائی کے حصول کے لیے سولر پینلز کا استعمال دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ دھوپ سے بجلی کشید کرنے کا یہ آلہ تیسری دنیا کے پس ماندہ ترین دیہات میں بھی نظر آتا ہے۔ یوں روایتی ذرائع برقی توانائی کا یہ بہترین متبادل ثابت ہورہا ہے۔
سولر سیلز اگرچہ وسیع پیمانے پر استعمال ہورہے ہیں، اس کے باجود حصول توانائی کے لیے دنیا کا زیادہ انحصار اب بھی رکازی ایندھن (فوسل فیول) پر ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب بھی ہر لمحہ بڑھتی جارہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے اس کے پیش نظر مستقبل میں موجودہ روایتی اور غیرروایتی ذرائع سے اسے پورا کرنا مشکل ہوجا ئے گا۔ چناں چہ نئے ذرائع توانائی کھوجنے کے ساتھ ساتھ موجودہ ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ اس ضمن میں سائنس دانوں نے اہم کام یابی حاصل کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس کے ذریعے سولر سیلز کی کارکردگی ڈرامائی طور پر بڑھائی جاسکے گی۔
سلیکون سے بنے روایتی سولر سیلز کی مجموعی کارکردگی کی حد متعین ہے۔ اصولی طور پر ایک فوٹان کو سلیکون سے ٹکرانے کے بعد ایک ہی الیکٹران خارج کرنا چاہیے اگرچہ یہ فوٹان الیکٹران کے اخراج کے لیے درکار توانائی سے دگنی توانائی ہی کا حامل کیوں نہ ہو۔ تاہم اب سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس میں بہت زیادہ توانائی کے حامل فوٹان جب سلیکون سے ٹکراتے ہیں تو ایک کے بجائے دو الیکٹرانوں کا اخراج ہوتا ہے۔ اس دریافت نے دگنی کارکردگی کی حامل، زیادہ طاقت ور سولر پاور ڈیوائسز کی راہ ہموار کردی ہے۔
نظری طور پر روایتی سلیکون پاور سیلز خود پر پڑنے والی شمسی توانائی کی زیادہ سے زیادہ 29.1 فی صد مقدار کو برقی توانائی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور دیگر اداروں کے محققین برسوں کی تحقیق کے بعد اس حد کو بڑھانے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔
اس تحقیق سے وابستہ الیکٹریکل انجنیئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر مارک بالڈو کے مطابق ایک فوٹان سے دو الیکٹرانوں کے اخراج کی کلید مادوں کی اس جماعت میں پوشیدہ ہے جن میں برانگیختہ حالت ( excited states ) پائی جاتی ہے۔ یہ مادّے ایکسائٹون ( excitons) کہلاتے ہیں۔ ایکسائٹون میں توانائی کے پیکٹ یعنی فوٹان اسی طرح حرکت کرتے ہیں جیسے برقی سرکٹ میں الیکٹران۔ انھیں توانائی کی ایک قسم سے دوسری میں تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکتا اور توڑا اور یکجا بھی کیا جاسکتا ہے۔
دوران تحقیق سائنس دانوں نے singlet exciton fission نامی طریق عمل سے کام لیتے ہوئے شمسی شعاعوں کے فوٹانوں کو توانائی کے دو علیحدہ اور آزادانہ طور پر متحرک پیکٹوں میں تقسیم کردیا۔ پہلے مادّہ فوٹان جذب کرکے ایک ایکسائٹون تشکیل دیتا ہے جو فوراً ہی انشقاق کے ذریعے دو برانگیختہ حالتوں میں آ جاتا ہے، ہر حالت کی توانائی اصل حالت کا نصف ہوتی ہے۔
بعدازاں سائنس داں دونوں فوٹانوں کو سلیکون میں یکجا کرنے میں کام یاب ہوگئے جو ایکسائٹون مادّہ نہیں ہے۔ محققین نے یہ کام یابی سلیکون کی بیرونی سطح پر ہافنیئم اوکسی نائٹرائڈ کی پرت چڑھاکر حاصل کی۔ پروفیسر بالڈو کے مطابق نئے پروسیس کے ذریعے نظری طور پر ایک سولر سیل کی کارکردگی 29.1 فی صد سے بڑھ کر 35 فیصد ہوجائے گی۔
سولر سیلز اگرچہ وسیع پیمانے پر استعمال ہورہے ہیں، اس کے باجود حصول توانائی کے لیے دنیا کا زیادہ انحصار اب بھی رکازی ایندھن (فوسل فیول) پر ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب بھی ہر لمحہ بڑھتی جارہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے اس کے پیش نظر مستقبل میں موجودہ روایتی اور غیرروایتی ذرائع سے اسے پورا کرنا مشکل ہوجا ئے گا۔ چناں چہ نئے ذرائع توانائی کھوجنے کے ساتھ ساتھ موجودہ ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ اس ضمن میں سائنس دانوں نے اہم کام یابی حاصل کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس کے ذریعے سولر سیلز کی کارکردگی ڈرامائی طور پر بڑھائی جاسکے گی۔
سلیکون سے بنے روایتی سولر سیلز کی مجموعی کارکردگی کی حد متعین ہے۔ اصولی طور پر ایک فوٹان کو سلیکون سے ٹکرانے کے بعد ایک ہی الیکٹران خارج کرنا چاہیے اگرچہ یہ فوٹان الیکٹران کے اخراج کے لیے درکار توانائی سے دگنی توانائی ہی کا حامل کیوں نہ ہو۔ تاہم اب سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس میں بہت زیادہ توانائی کے حامل فوٹان جب سلیکون سے ٹکراتے ہیں تو ایک کے بجائے دو الیکٹرانوں کا اخراج ہوتا ہے۔ اس دریافت نے دگنی کارکردگی کی حامل، زیادہ طاقت ور سولر پاور ڈیوائسز کی راہ ہموار کردی ہے۔
نظری طور پر روایتی سلیکون پاور سیلز خود پر پڑنے والی شمسی توانائی کی زیادہ سے زیادہ 29.1 فی صد مقدار کو برقی توانائی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور دیگر اداروں کے محققین برسوں کی تحقیق کے بعد اس حد کو بڑھانے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔
اس تحقیق سے وابستہ الیکٹریکل انجنیئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر مارک بالڈو کے مطابق ایک فوٹان سے دو الیکٹرانوں کے اخراج کی کلید مادوں کی اس جماعت میں پوشیدہ ہے جن میں برانگیختہ حالت ( excited states ) پائی جاتی ہے۔ یہ مادّے ایکسائٹون ( excitons) کہلاتے ہیں۔ ایکسائٹون میں توانائی کے پیکٹ یعنی فوٹان اسی طرح حرکت کرتے ہیں جیسے برقی سرکٹ میں الیکٹران۔ انھیں توانائی کی ایک قسم سے دوسری میں تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکتا اور توڑا اور یکجا بھی کیا جاسکتا ہے۔
دوران تحقیق سائنس دانوں نے singlet exciton fission نامی طریق عمل سے کام لیتے ہوئے شمسی شعاعوں کے فوٹانوں کو توانائی کے دو علیحدہ اور آزادانہ طور پر متحرک پیکٹوں میں تقسیم کردیا۔ پہلے مادّہ فوٹان جذب کرکے ایک ایکسائٹون تشکیل دیتا ہے جو فوراً ہی انشقاق کے ذریعے دو برانگیختہ حالتوں میں آ جاتا ہے، ہر حالت کی توانائی اصل حالت کا نصف ہوتی ہے۔
بعدازاں سائنس داں دونوں فوٹانوں کو سلیکون میں یکجا کرنے میں کام یاب ہوگئے جو ایکسائٹون مادّہ نہیں ہے۔ محققین نے یہ کام یابی سلیکون کی بیرونی سطح پر ہافنیئم اوکسی نائٹرائڈ کی پرت چڑھاکر حاصل کی۔ پروفیسر بالڈو کے مطابق نئے پروسیس کے ذریعے نظری طور پر ایک سولر سیل کی کارکردگی 29.1 فی صد سے بڑھ کر 35 فیصد ہوجائے گی۔