برصغیر میں اسلحے کی جنون انگیز مسابقت
سپرپاوربننے کا ارمان بھارت کوکسی پل چین نہیں لینے دیتا اوروہ مہلک ہتھیاروں کی تیاری پراربوں روپے خرچ کررہا ہے...
NEW DELHI:
سپرپاوربننے کا ارمان بھارت کوکسی پل چین نہیں لینے دیتا اوروہ مہلک ہتھیاروں کی تیاری پراربوں روپے خرچ کررہا ہے اورخطے میں ہتھیاروں کی ایک ایسی دوڑکو جنم دے رہا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے سکتی ۔ برتری کی خواہش کے تحت بھارت نے زمین سے زمین تک مارکرنے والے ایٹمی صلاحیت کے حامل اگنی5میزائل کا ریاست اڑیسہ کے ساحلی علاقے ویلرآئس لینڈسے 5 ہزارکلو میٹرتک مارکرنے والے اس میزائل کاتجربہ کیاگیا۔
مہلک ہتھیاربنانا اوران کے تجربات کرنا کوئی قابل فخر اقدام اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا،کیونکہ بھارت ایک ارب سے زائد آبادی کا ملک ہے ،جہاں کروڑوں لوگ خط غربت سے انتہائی نیچے زندگی گزارنے پرمجبورہیں ، جس ملک میں غربت کا عفریت انسانوں کو نگل رہا ہو، وہ ملک اپنے عوام سے غافل ہوکر میزائل بنانے کی دوڑ میں شامل ہورہا ہے۔ خبر کی تفصیل کے مطابق یہ پہلاطویل فاصلے تک مارکرنے والامیزائل ہے جوپاکستان اورچین کے اندرتک اپنے اہداف کو نشانہ بنانے اور چین میں ایک ٹن نیوکلیئر وارہیڈکے ساتھ اپنے ہدف کونشانہ بناسکتا ہے۔
بھارت کے اس تجربے سے خطے میں ایٹمی میزائل بنانے کی دوڑ شروع ہونے کا واضح امکان موجود ہے، چین توایک مضبوط ملک ہے، بھارت ماضی میں چین سے جنگ لڑنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے،لہذا بھارت نے چین سے جنگ کو بھلا کر باہمی تعاون کے فروغ کے معاہدے کیے ہیں ۔ جب کہ بھارت کے پڑوسی ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا شامل ہیں ، وہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ایٹمی میزائلوں کی زد میں آنے کے خطرے سے دوچار ہوچکے ہیں ۔
لامحالہ پاکستان کو بھی اپنی دفاعی ضرورتوں کے مطابق ایک زرکثیر خرچ کرکے اس کا توڑ بھی ڈھونڈنا پڑے گا ۔ جس کا براہ راست اثر معاشی واقتصادی صورتحال پر پڑے گا ۔ غربت ، جہالت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بنیادی مسائل کے شکار خطے کے ڈیڑھ ارب سے بھی زائد انسان جنگی جنون اور اسلحے کے انبار جمع کرنے کی خواہش کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ، کاش بھارت کے حکام کو یہ انسانی پہلو سمجھ آجائے تو کیا ہی بات ہے ۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ براعظم ایشیا کے اس خطے میں بھارت کو کس سے خطرہ درپیش ہے ؟ کونسا ایسا ملک ہے جو اس کے مدمقابل کھڑا ہوسکتا ہے یا بھارت کو فتح کرسکتا ہے اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہوچکی ہیں، نتیجہ سوائے جانی،مالی اوراقتصادی نقصان کے کچھ نہیں نکلا،الٹا پاکستان جیسے چھوٹے ملک کو اپنے دفاع پر بجٹ کا ایک کثیر حصہ صرف کرنا پڑتا ہے ۔
بھارت ہو یا پاکستان یا خطے کے دوسرے مماک ان سب کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ ہتھیاروں کی دوڑ کا آخرکیا فائدہ ماسوائے تباہی وبربادی کے،یورپی ممالک اپنی نفرتیں اور عداوتیں اور آپس میں لڑی جانے والی جنگیں بھلا کر باہم شیروشکر ہوچکے ہیں،یورپی یونین کے ایک قابل تقلید پلیٹ فارم سے قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں،ایک ہم ہیں کہ نفرت کے الاؤ میں اپنے عوام کو جلا رہے ہیں ۔
آگ وباورد کا یہ کھیل عوام کے مصائب دکھوں،تکلیفوں میں بے پناہ اضافے کا سبب ہے،کیا ایٹم بم کروڑوں لوگ کھا سکتے ہیں،پی سکتے ہیں یہ انھیں چھت فراہم سکتا ہے ، ایٹمی جنگ میں توکوئی ذی روح زندہ ہی نہیں بچتا، ہیروشیما اورناگاساگی مقام عبرت اور تاریخ انسانیت کا نوحہ ہیں ۔سوچ وفکر کا مقام ہے کہ اسلحے کے انبار لگانے اور ہتھیاروں کی دوڑ کی تباہ کن سوچ کو ترک کر کے آیندہ آنی والی نسلوں کی بقاوسلامتی، غربت کے خاتمے اور نسل انسانی کی فلاح کے لیے مل جل کر سب کو مثبت انداز فکر اپنا کر کام کرنا ہوگا ۔
سپرپاوربننے کا ارمان بھارت کوکسی پل چین نہیں لینے دیتا اوروہ مہلک ہتھیاروں کی تیاری پراربوں روپے خرچ کررہا ہے اورخطے میں ہتھیاروں کی ایک ایسی دوڑکو جنم دے رہا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے سکتی ۔ برتری کی خواہش کے تحت بھارت نے زمین سے زمین تک مارکرنے والے ایٹمی صلاحیت کے حامل اگنی5میزائل کا ریاست اڑیسہ کے ساحلی علاقے ویلرآئس لینڈسے 5 ہزارکلو میٹرتک مارکرنے والے اس میزائل کاتجربہ کیاگیا۔
مہلک ہتھیاربنانا اوران کے تجربات کرنا کوئی قابل فخر اقدام اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا،کیونکہ بھارت ایک ارب سے زائد آبادی کا ملک ہے ،جہاں کروڑوں لوگ خط غربت سے انتہائی نیچے زندگی گزارنے پرمجبورہیں ، جس ملک میں غربت کا عفریت انسانوں کو نگل رہا ہو، وہ ملک اپنے عوام سے غافل ہوکر میزائل بنانے کی دوڑ میں شامل ہورہا ہے۔ خبر کی تفصیل کے مطابق یہ پہلاطویل فاصلے تک مارکرنے والامیزائل ہے جوپاکستان اورچین کے اندرتک اپنے اہداف کو نشانہ بنانے اور چین میں ایک ٹن نیوکلیئر وارہیڈکے ساتھ اپنے ہدف کونشانہ بناسکتا ہے۔
بھارت کے اس تجربے سے خطے میں ایٹمی میزائل بنانے کی دوڑ شروع ہونے کا واضح امکان موجود ہے، چین توایک مضبوط ملک ہے، بھارت ماضی میں چین سے جنگ لڑنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے،لہذا بھارت نے چین سے جنگ کو بھلا کر باہمی تعاون کے فروغ کے معاہدے کیے ہیں ۔ جب کہ بھارت کے پڑوسی ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا شامل ہیں ، وہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ایٹمی میزائلوں کی زد میں آنے کے خطرے سے دوچار ہوچکے ہیں ۔
لامحالہ پاکستان کو بھی اپنی دفاعی ضرورتوں کے مطابق ایک زرکثیر خرچ کرکے اس کا توڑ بھی ڈھونڈنا پڑے گا ۔ جس کا براہ راست اثر معاشی واقتصادی صورتحال پر پڑے گا ۔ غربت ، جہالت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بنیادی مسائل کے شکار خطے کے ڈیڑھ ارب سے بھی زائد انسان جنگی جنون اور اسلحے کے انبار جمع کرنے کی خواہش کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ، کاش بھارت کے حکام کو یہ انسانی پہلو سمجھ آجائے تو کیا ہی بات ہے ۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ براعظم ایشیا کے اس خطے میں بھارت کو کس سے خطرہ درپیش ہے ؟ کونسا ایسا ملک ہے جو اس کے مدمقابل کھڑا ہوسکتا ہے یا بھارت کو فتح کرسکتا ہے اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہوچکی ہیں، نتیجہ سوائے جانی،مالی اوراقتصادی نقصان کے کچھ نہیں نکلا،الٹا پاکستان جیسے چھوٹے ملک کو اپنے دفاع پر بجٹ کا ایک کثیر حصہ صرف کرنا پڑتا ہے ۔
بھارت ہو یا پاکستان یا خطے کے دوسرے مماک ان سب کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ ہتھیاروں کی دوڑ کا آخرکیا فائدہ ماسوائے تباہی وبربادی کے،یورپی ممالک اپنی نفرتیں اور عداوتیں اور آپس میں لڑی جانے والی جنگیں بھلا کر باہم شیروشکر ہوچکے ہیں،یورپی یونین کے ایک قابل تقلید پلیٹ فارم سے قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں،ایک ہم ہیں کہ نفرت کے الاؤ میں اپنے عوام کو جلا رہے ہیں ۔
آگ وباورد کا یہ کھیل عوام کے مصائب دکھوں،تکلیفوں میں بے پناہ اضافے کا سبب ہے،کیا ایٹم بم کروڑوں لوگ کھا سکتے ہیں،پی سکتے ہیں یہ انھیں چھت فراہم سکتا ہے ، ایٹمی جنگ میں توکوئی ذی روح زندہ ہی نہیں بچتا، ہیروشیما اورناگاساگی مقام عبرت اور تاریخ انسانیت کا نوحہ ہیں ۔سوچ وفکر کا مقام ہے کہ اسلحے کے انبار لگانے اور ہتھیاروں کی دوڑ کی تباہ کن سوچ کو ترک کر کے آیندہ آنی والی نسلوں کی بقاوسلامتی، غربت کے خاتمے اور نسل انسانی کی فلاح کے لیے مل جل کر سب کو مثبت انداز فکر اپنا کر کام کرنا ہوگا ۔