سرتاج عزیز‘ ملا عمر اور امن مذاکرات
امن مذاکر ات کا ڈرامہ ختم ہوا، اب طبل جنگ بج رہا ہے۔ پاکستانی طالبان سے امن مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئے۔
امن مذاکر ات کا ڈرامہ ختم ہوا، اب طبل جنگ بج رہا ہے۔ پاکستانی طالبان سے امن مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئے۔ میجر جنرل ثناء اللہ اپنے ساتھیوں سمیت شہید کر دیے گئے، عاقبت نااندیش طالبان نے اس سانحے کی ذمے داری قبول کر کے امن کا آخری موقع بھی ضایع کر دیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس سانحے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا عزم ظاہر کر کے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اس معاملے پر ملک کا ایک طبقہ خوشی سے بغلیں بجا رہا ہے۔
ادھر معاملہ فہمی کا عالم یہ ہے کہ ہم ملا عمر سے براہ راست مذاکرات کرنے کے بجائے مقامی طالبان سے الجھے ہوئے ہیں جس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہے ہیں۔ پاکستان میں امن کی کنجی ملا عمر کے پاس ہے جس تک ہماری رسائی محترم ومعتبر سرتاج عزیز کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔ ہم سیدھا اور آسان راستہ اپنانے کے بجائے پیچیدہ اور دشوار گزار پگڈنڈیوں پر چلنا چاہتے ہیں، ہمیں کون دانا وبینا عقل مند کہے گا۔
میجر جنرل ثناء اللہ اور ان کے ساتھیوں پر بارودی سرنگ سے کیا جانے والا حملہ مولوی فضل اللہ گروپ نے کرایا ہے جو ان مذکرات میں شامل نہیں تھا۔ وہ منصوبہ بندی سے کیے جانے والے اس حملے کے ذریعے اپنی طاقت کا کامیاب مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ پاکستان میں برسرپیکار مقامی طالبان دھڑوں سے بامعنی مذکرات شاید اب ممکن نہیں کہ پاکستانی طالبا ن کے سربراہ حکیم اللہ محسود سے براہ راست مذکرات کے بعد بھی جنگ بندی کی ضمانت دینے والا کوئی نہیں ہو گا جب کہ طالبان کے مختلف درجنوں دھڑوں سے الگ الگ مذکرات عملی طور پر ممکن نہیں ہیں۔ گزشتہ ہفتے طالبان سے گہرا تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے حکیم اللہ محسود سے مذکرات کی تجویز پیش کی تھی۔ جس کا جواب ملا فضل اللہ کے دھڑے نے ایک میجر جنرل، ایک کرنل کو شہید کر کے دے دیا ہے۔ ایک دہائی میں یہ تیسرے میجر جنرل ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ کے دوران شہید ہوئے ہیں۔ ریڈیو ملا کے نام سے شہرت پانے والے فضل اللہ افغان حکو مت کے مہمان ہیں اورکرزئی حکومت کی سرپرستی میں پاکستانی علاقوں میں'کارجہاد' میں مصروف ہیں۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ ابھی جنگ بندی نہیں ہوئی، مذکرات کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس لیے ہم حملے کرتے رہیں گے۔ ترجمان نے حکومت پاکستان کے بااختیار اور مذاکرات کے لیے مخلص ہونے پر بھی شک ظاہر کیا ہے۔ اب مذاکرات کو طالبان قیدیوں کی یک طرفہ رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اگر حکومت قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلاتی ہے اور ہمارے قیدیوں کو رہا کر تی ہے تو ہم اس کو بااختیار اور مخلص سمجھیں گے، مذکرات کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے اس پر طالبان کے تما م گروپ اور رہنما متفق ہیں، اس سے پہلے حکومت نے ہمیں دھوکے دیے ہیں۔ ہم مزید دھوکے نہیں کھانا چاہتے۔ پاکستان طالبان کے پیشگی مطالبات کا واضح مطلب تو یہ ہے کہ ''نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی'' مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے قیام امن کا خواب شرمند تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔
اس خطے میں امن کی کنجی صر ف ملا عمر کے ہاتھ میں ہے، بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات صرف ملا عمر یا ان کے نا مزد کردہ نمایندوں سے ہی ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکی قطر میں طالبان کا رابطہ دفتر کھلوا کر ملا عمر سے باضابطہ اور براہ راست امن مذکرات کر سکتے ہیں تو ہم کیوں طالبان کے مختلف گروہوں، دھڑوں اور گروپو ں سے مذکرات میں الجھے ہوئے ہیں۔
مدتیں بیت چکیں لیکن طالبان کمانڈر جلال الدین حقانی سے آخری ملاقات کی تمام تر تفصیلات اس کالم نگار کے ذہن میں بالکل تازہ ہیں جس میں انھوں نے شرعی بیعت کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ تمام مقامی، غیرمقامی طالبان اور عرب مجاہدین نے ملا محمد عمر کے دست حق پرست پر بیعت کر رکھی ہے۔ جس میں القاعدہ کی ساری قیادت، اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہر ی بھی شامل ہیں ورنہ ہمارے مقامی ماہرین امور طالبان وافغانستان تاثر دیتے رہے کہ شاید تمام طالبان اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت ہیں۔گھنٹوں طویل اس گفتگومیں جو وفاقی دارالحکومت کے متعدد معروف اخبار نویسوں کی موجودی میں ہوئی تھی جناب حقانی نے گل بدین حکمت یار سے شرعی بیعت پر ہونے والے اختلافات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا تھا جس کی تفصیلات چوپال میں محفوظ کر دی گئی ہیں۔
ملا محمد عمر سے براہ راست مذاکرات کا قابل اعتماد ذریعہ وزیراعظم نواز شریف کے قومی سلامتی کے مشیر جناب سرتاج عزیز ہیں۔ شاید بہت کم ماہرین افغانستان کو علم ہو گا کہ ماضی میں سرتاج عزیز ملا عمر سے رابطے میں رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے سرتاج عزیز فون پر ملا عمر سے گفتگو اور پچیدہ سفارتی مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ ویسے بھی حضرت کاکا خیل رحم کارکے روحانی سلسلے کا گوہر آبدار ہونے کی وجہ سے ڈیورنڈلائن کے آرپار پشتون ان کا بڑا ادب ولحاظ کرتے ہیں، وہ مرحوم قاضی حسین احمد تھے یا جناب سرتاج عزیز کاکا خیل کی نسبت سے یہ پشتونوں کے لیے بڑے متحرم ہیں۔ اس لیے حکومت پاکستان کو جناب سرتاج عزیز کی موجودگی میں ملا عمر سے رابطے کے لیے سہارے ڈھونڈے اور واسطے تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ملا حسن روحانی اور ملا عبدالغنی بردار بھی تو ہماری دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ ملا عمر واحد شخصیت ہیں جو پاکستانی طالبان کو پسپا ہونے یا ہتھیا ر رکھنے کا حکم دے سکتے ہیں ۔
امن کی کنجی ملا عمر کے ہاتھ میں ہے۔جس تک رسائی جناب سرتاج عزیز کر سکتے ہیں۔ ہم نجانے کیوںسیدھا اور آسان راستہ چھوڑ کر امن کی تلاش میں دشوار گزار اور پچیدہ پگڈنڈیوں پر بھٹکناچاہتے ہیں۔
ادھر معاملہ فہمی کا عالم یہ ہے کہ ہم ملا عمر سے براہ راست مذاکرات کرنے کے بجائے مقامی طالبان سے الجھے ہوئے ہیں جس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہے ہیں۔ پاکستان میں امن کی کنجی ملا عمر کے پاس ہے جس تک ہماری رسائی محترم ومعتبر سرتاج عزیز کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔ ہم سیدھا اور آسان راستہ اپنانے کے بجائے پیچیدہ اور دشوار گزار پگڈنڈیوں پر چلنا چاہتے ہیں، ہمیں کون دانا وبینا عقل مند کہے گا۔
میجر جنرل ثناء اللہ اور ان کے ساتھیوں پر بارودی سرنگ سے کیا جانے والا حملہ مولوی فضل اللہ گروپ نے کرایا ہے جو ان مذکرات میں شامل نہیں تھا۔ وہ منصوبہ بندی سے کیے جانے والے اس حملے کے ذریعے اپنی طاقت کا کامیاب مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ پاکستان میں برسرپیکار مقامی طالبان دھڑوں سے بامعنی مذکرات شاید اب ممکن نہیں کہ پاکستانی طالبا ن کے سربراہ حکیم اللہ محسود سے براہ راست مذکرات کے بعد بھی جنگ بندی کی ضمانت دینے والا کوئی نہیں ہو گا جب کہ طالبان کے مختلف درجنوں دھڑوں سے الگ الگ مذکرات عملی طور پر ممکن نہیں ہیں۔ گزشتہ ہفتے طالبان سے گہرا تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے حکیم اللہ محسود سے مذکرات کی تجویز پیش کی تھی۔ جس کا جواب ملا فضل اللہ کے دھڑے نے ایک میجر جنرل، ایک کرنل کو شہید کر کے دے دیا ہے۔ ایک دہائی میں یہ تیسرے میجر جنرل ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ کے دوران شہید ہوئے ہیں۔ ریڈیو ملا کے نام سے شہرت پانے والے فضل اللہ افغان حکو مت کے مہمان ہیں اورکرزئی حکومت کی سرپرستی میں پاکستانی علاقوں میں'کارجہاد' میں مصروف ہیں۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ ابھی جنگ بندی نہیں ہوئی، مذکرات کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس لیے ہم حملے کرتے رہیں گے۔ ترجمان نے حکومت پاکستان کے بااختیار اور مذاکرات کے لیے مخلص ہونے پر بھی شک ظاہر کیا ہے۔ اب مذاکرات کو طالبان قیدیوں کی یک طرفہ رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اگر حکومت قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلاتی ہے اور ہمارے قیدیوں کو رہا کر تی ہے تو ہم اس کو بااختیار اور مخلص سمجھیں گے، مذکرات کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے اس پر طالبان کے تما م گروپ اور رہنما متفق ہیں، اس سے پہلے حکومت نے ہمیں دھوکے دیے ہیں۔ ہم مزید دھوکے نہیں کھانا چاہتے۔ پاکستان طالبان کے پیشگی مطالبات کا واضح مطلب تو یہ ہے کہ ''نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی'' مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے قیام امن کا خواب شرمند تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔
اس خطے میں امن کی کنجی صر ف ملا عمر کے ہاتھ میں ہے، بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات صرف ملا عمر یا ان کے نا مزد کردہ نمایندوں سے ہی ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکی قطر میں طالبان کا رابطہ دفتر کھلوا کر ملا عمر سے باضابطہ اور براہ راست امن مذکرات کر سکتے ہیں تو ہم کیوں طالبان کے مختلف گروہوں، دھڑوں اور گروپو ں سے مذکرات میں الجھے ہوئے ہیں۔
مدتیں بیت چکیں لیکن طالبان کمانڈر جلال الدین حقانی سے آخری ملاقات کی تمام تر تفصیلات اس کالم نگار کے ذہن میں بالکل تازہ ہیں جس میں انھوں نے شرعی بیعت کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ تمام مقامی، غیرمقامی طالبان اور عرب مجاہدین نے ملا محمد عمر کے دست حق پرست پر بیعت کر رکھی ہے۔ جس میں القاعدہ کی ساری قیادت، اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہر ی بھی شامل ہیں ورنہ ہمارے مقامی ماہرین امور طالبان وافغانستان تاثر دیتے رہے کہ شاید تمام طالبان اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت ہیں۔گھنٹوں طویل اس گفتگومیں جو وفاقی دارالحکومت کے متعدد معروف اخبار نویسوں کی موجودی میں ہوئی تھی جناب حقانی نے گل بدین حکمت یار سے شرعی بیعت پر ہونے والے اختلافات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا تھا جس کی تفصیلات چوپال میں محفوظ کر دی گئی ہیں۔
ملا محمد عمر سے براہ راست مذاکرات کا قابل اعتماد ذریعہ وزیراعظم نواز شریف کے قومی سلامتی کے مشیر جناب سرتاج عزیز ہیں۔ شاید بہت کم ماہرین افغانستان کو علم ہو گا کہ ماضی میں سرتاج عزیز ملا عمر سے رابطے میں رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے سرتاج عزیز فون پر ملا عمر سے گفتگو اور پچیدہ سفارتی مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ ویسے بھی حضرت کاکا خیل رحم کارکے روحانی سلسلے کا گوہر آبدار ہونے کی وجہ سے ڈیورنڈلائن کے آرپار پشتون ان کا بڑا ادب ولحاظ کرتے ہیں، وہ مرحوم قاضی حسین احمد تھے یا جناب سرتاج عزیز کاکا خیل کی نسبت سے یہ پشتونوں کے لیے بڑے متحرم ہیں۔ اس لیے حکومت پاکستان کو جناب سرتاج عزیز کی موجودگی میں ملا عمر سے رابطے کے لیے سہارے ڈھونڈے اور واسطے تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ملا حسن روحانی اور ملا عبدالغنی بردار بھی تو ہماری دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ ملا عمر واحد شخصیت ہیں جو پاکستانی طالبان کو پسپا ہونے یا ہتھیا ر رکھنے کا حکم دے سکتے ہیں ۔
امن کی کنجی ملا عمر کے ہاتھ میں ہے۔جس تک رسائی جناب سرتاج عزیز کر سکتے ہیں۔ ہم نجانے کیوںسیدھا اور آسان راستہ چھوڑ کر امن کی تلاش میں دشوار گزار اور پچیدہ پگڈنڈیوں پر بھٹکناچاہتے ہیں۔