ذکرِ لیاری
غالب نے کلکتے میں جانے ایسا کیا دیکھا تھا کہ جس کے ذکر پہ اُس کے سینے پہ تیر چل جاتے تھے اور بڑی عاشقانہ ’ہائے ہائے۔۔۔
KARACHI:
غالب نے کلکتے میں جانے ایسا کیا دیکھا تھا کہ جس کے ذکر پہ اُس کے سینے پہ تیر چل جاتے تھے اور بڑی عاشقانہ 'ہائے ہائے' نکل جاتی تھی، ایسا ہی کچھ عالم کراچی کی ایک 'جھونپڑ پٹی' لیاری کے عشاق کا بھی ہے۔ لیاری کا ذکر ہو تو اس کے واقفانِ حال آہ و فغاں کیے بنا نہیں رہ پاتے، عین اُس عاشق کی طرح جس کی محبوبہ کی عزت شہر کے غنڈوں نے اُس کی آنکھوں کے سامنے تار تار کی ہو۔
تنگ و تاریک مکانوں، سیلن ، کچرے اور بدبو سے بھری گلیوں، جرائم کی آماج گاہ بنے لیاری سے کوئی اپنے والہانہ عشق کا تذکرہ کرے تو اُس کی ذہنی حالت پہ شک کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، لیکن وہ جو فیض صاحب نے اپنے ناصحین کو دعوت دی تھی کہ 'وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے، تم ذرا اک نظر میرا محبوبِ نظر تو دیکھو' ...یا انگریزی مقولہ'ویگاس میں کیا ہوتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے ویگاس میں ہونا ضروری ہے'، کہ مصداق لیاری کو جاننے کے لیے لیاری میں ہونا ضروری ہے، اس کے عشق میں مبتلا ہونے کے لیے اس کے وجود کا حصہ بننا ضروری ہے۔ عشق کے تقاضے کچھ ایسے سہل تو نہیں صاحب!
لیاری کی تصویر اپنے مکینوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اس کا اصل تعارف تو اس کے مستقل باسی وہ افتادگانِ خاک ہیں،خاک سے محبت جنھیں ان کے جینز میں ودیعت ہو کے ملی ہے۔ یہ عمومی فطرت ہے کہ گھر میں آگ لگ جائے تو آپ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلتے ہیں، وہ گھر جو آپ کی جائے امان ہوتا ہے، ذرا سی آگ کی تپش آپ کو اُس کے وجود سے لاتعلق کر دیتی ہے، دُور لا پھینکتی ہے۔ جس محلے میں ڈکیتی کی مستقل وارداتیں ہونے لگیں،برسوں سے اُس محلے کے مکین اُسے چھوڑنے لگتے ہیں، شہر بے امنی کی لپیٹ میں آجائیں تو اس کے مستقل باسی اپنا بوریا بستر سمیٹنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ اگر اولاد ناخلف ہو جائے تو اُسے جنم دینے والے والدین بھی اُس سے لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں، عاق کر دیتے ہیں۔لیکن یہ لیاری ہے، اور لیاری کے مکین ہیں کہ پورا لیاری جل جائے تو بھی یہ اسے سینے سے لگائے رکھتے ہیں، اس پہ گولیاں برستی رہیں تو بھی اس کی تنگ و تاریک گلیوں میں بچوں کے کھیلنے کی رونق مانند نہیں پڑتی، اس کی تپش سے پورا ملک سلگ اٹھتا ہے، لیکن اس کے مکین اس ساری آگ کو یوں دامن میں سمیٹ لیتے ہیں جیسے کوئی ماں اپنے پاگل بچے کی دیوانہ وار حرکتوں کو اپنے آنچل میں سمیٹ لے کہ دنیا کہیں اسے دیوانہ سمجھ کر اٹھا کر نہ لے جائے۔
جپسیوں میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے سندھ کے ایک ہندوستانی زمیندار اور لکھاری خورشید قائم خانی نے گھنگھریالے بالوں اور سیاہ رنگت والے ان دیوانوں کا شجرہ ڈھونڈ نکالا، جو قدیم عہد سے افریقہ کے ساحلوں سے لائے گئے، جو آج بھی سندھ میں وڈیروں کی غلامی کرتے ہیں، 'شیدی' (سیاہ رنگت) کہلاتے ہیں، جو آج کے لیاری کے وارث ہیں، بلوچ کہلاتے ہیں۔ اور بلوچ کب غلامی قبول کرتا ہے...انسان کب غلامی قبول کرتا ہے...غلامی بلوچ فطرت کے مخالف ہے، انسانی فطرت کے مخالف ہے۔افریقہ کے ساحل سے نکل کر مائی کلاچی کے ساحل کو آباد کر نے والے، لیاری کو بسانے والے یہ دیوانے آج بھی اپنی شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔
قبائلی تفاخر والے بلوچستان میں کوئی خود کو 'بلوچ' کہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے ، 'کون سے بلوچ؟' یعنی کس قبیلے کا بلوچ...لیکن اگر آپ کہہ دیں کہ 'لیاری کا بلوچ' تو آپ سے قبیلہ نہیں پوچھا جاتا...یہ قبائلی شناخت سے ماورا لوگ ہیں۔ انھوں نے تو جس شناخت کو اپنایا، جس تشخص نے انھیں اپنایا، انھیں غلامی سے نکال کر انسان ہونے کی شناخت دی، یہ تو بس اسی کے ہو کر رہ گئے۔ یوں گویا لیاری ایک طرح سے قبائلی بلوچستان سے ایک قدم آگے ہیں(حالانکہ کئی معاملات میں وہ بلوچستان سے کئی قدم آگے ہے!)۔لیکن آج کے جدید میٹرو پولیٹن سے کاسمو پولیٹن بنتے کراچی میں ، مائی کلاچی کی یہ قدیم آبادی صدیوں بعد بھی اپنے تشخص کے بحران میں مبتلا ہے...قائم خانی نے شاید ان کے اسی المیے کے پیش نظر ان کی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب کو 'بھٹکتی نسلیں' کا نام دیا تھا!
جدید عہد میں یہ لیاری بلوچوں کا سیاسی و علمی مرکز رہا ہے۔ یوسف عزیز مگسی نے بلوچستان کا پہلا اخبار نکالناہو تو مرکز لیاری...محمد حسین عنقا بلوچستان بدر ہوں تو ٹھکانہ لیاری...غوث بخش بزنجو نے عملی سیاست میں آنا ہو تو حلقہ انتخاب لیاری...انور اقبال نے پہلی بلوچی فلم بنانی ہو تو مقام لیاری...پہلی بلوچ طلبہ تنظیم کا مرکزلیاری...پھرلالہ لال بخش رند کی کارکنی ہو کہ بزنجو صاحب کی قیادت، لیاری سب کی آنکھوں کا تارہ، سبھی کا جادہِ منزل رہا۔ لیاری وہ سنگِ میل ہے،جو منزل کی جانب درست رہنمائی کرتا ہے۔لیکن ذرا اس سے اغماض برتا جائے تو یہی سنگِ میل اُلٹ بھی ہو سکتا ہے!
کتابوں میں لکھا ہے اور عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ ابھی چار دہائیاں پہلے سن ستر تک لیاری میں گینگ وار نام کی مخلوق ناپید تھی۔ حتیٰ کہ سن اَسی کے عشرے کے ابتدائی برسوں تک یہاں کی سڑکوں پہ لیوا ہوتا تھا، یہ کراچی کی سب سے پر امن بستی تھی۔ ذرا محمد خالد اختر کا ناول'چاکیواڑہ میں وصال'پڑھ کر دیکھئے، اُس عہد کے لیاری سے عشق نہ ہوجائے تو پیسے واپس۔پھر جب پورے ملک کو ایک آنکھ والے ،اپنے نام کے عین برعکس تاریکی کے دلدادہ ضیا نامی شخص کی نظر لگ گئی ،تو یہ بستی بھی انھی تاریکیوں کی لپیٹ میں آئی۔
اس کے کئی عشاق چن چن کر اس کی نیم تاریک راہوں میں مارے گئے، اس کے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں، دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے۔ قتل گاہوں سے جن کا عَلم لے کر عشاق کا کوئی قافلہ تک نہ نکلا، اور یوں خاک نشینوں کا خون رزقِ خاک ہوا، نہ مدعی نہ منصف، حساب پاک ہوا۔
اس کے کھیل کے میدان بارود کا ڈھیر بنا دیے گئے ، اس کے جواں چوڑے سینوں والے تنومند جواں لہو میں نہلا دیے گئے۔ بزنجو کی سربراہی والا لیاری چوروں، بھتہ خوروں اور لٹیروں کے سپرد ہوا، لال بخش رند کی کارکنی کا سفر ہاتھ میں پستول لہراتے اور مغلظات بکتے خالی الذہن نوجوان کے ہاتھ لگا۔صبا دشتیادی کی روشن کی ہوئی علم کی مشعل پہ جہالت کا پردہ تان دیا گیا۔ راہزن گھر کے چوکیدار مقرر ہوئے۔ ایک ایک کر کے سبھی ہم عصر ساتھی کھو دینے والے نورمحمد شیخ جیسے ادبی کارکن گوشہ نشین ہو گئے۔ نہ وہ لیاری رہا، نہ وہ لیاری نواز...
ٹی وی اسکرینوں اور اخبار کی سرخیوں میں جرائم کی آماج گاہ بنے لیاری کا لیکن اب ایک اور چہرہ بھی ابھررہا ہے، جو کمرشل میڈیا کے کیمروں کی نظروں میں نہیں سما پاتا ۔ ایک روشن مستقبل کا چہرہ، نئی نسل کی امیدوں کا چہروں ۔ ایک حسین اور دل آویز چہرہ۔یہ چہرہ ہے لیاری کے اسٹریٹ اسکولز سے لے کر اب 'امن ' جیسے موضوع پر شارٹ فلمیں بنانے والی لیاری کی نئی نسل کا چہرہ۔یہ لیاری کو آباد کرنے والی قدیم نسل کا تسلسل ہیں، جن کے ہاتھ میں ہر قسم کے تشدد کا جواب قلم اور کیمرہ ہے۔
ابھی چند برس پہلے تک جب رات کوایک طرف لیاری گولیوں سے گونج رہا ہوتا تھا، تو دوسری طرف دن بھر دفتروں میں مشقت کر کے اپنے گھر کا چولہا جلانے والے یہ نوجوان رات کو انھی گلیوں میں مفت اسٹریٹ اسکولز چلا رہے ہوتے تھے، جہاں محلے کے بچوں کو یہ مفت تعلیم دیتے۔ انھی اسٹریٹ اسکولز کے تسلسل میں مواچھ گوٹھ میں اب ڈریم فاؤنڈیشن کے اسکول کی بلند و بالا پختہ عمارت بند چکی ہے، خدا جانے وہ اب اپنے گلی کوچوں کے کتنے خواب سنبھال پاتی ہے!!۔ اور انھی اسٹریٹ اسکولز سے نکلی ہوئی ایک نسل اب جرائم زدہ لیاری کا چہرہ اپنے کیمرے سے صاف کر رہی ہے۔
ایک نئے لیاری کا چہرہ دکھا رہی ہے۔ جرائم کو پالنے والے یوں بھی حسن کے ، علم کے ازلی دشمن ہیں۔ یہ حسیں چہروں پہ تیزاب پھینکنے والوں میں سے ہیں، یہ علم کے دلدادہ دماغ میں گولیاں اتارنے والوں میں سے ہیں۔ یہ علم کے متلاشی وجود کو مسخ کرنے والوں میں سے ہیں، یہ ہر حسیں خواب دیکھنے والے کے دشمن ہیں۔ ان کے شر سے بچنے کی ضرورت ہے۔ لیاری کی نئی نسل کا تخلیقی ہنر ، لیاری کے دشمنوں کو یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ جب تک لیاری کے عشاق کی نسل باقی ہے، لیاری کی رونقیں باقی رہیں گی۔ یہ زندہ دل لوگ جلتے ہوئے لیاری سے بھی جشن کا سماں پیدا کر لیں گے۔ لیاری کے بچے اپنی بوڑھی ماں کا آنچل تار تار نہ ہونے دیں گے۔
غالب نے کلکتے میں جانے ایسا کیا دیکھا تھا کہ جس کے ذکر پہ اُس کے سینے پہ تیر چل جاتے تھے اور بڑی عاشقانہ 'ہائے ہائے' نکل جاتی تھی، ایسا ہی کچھ عالم کراچی کی ایک 'جھونپڑ پٹی' لیاری کے عشاق کا بھی ہے۔ لیاری کا ذکر ہو تو اس کے واقفانِ حال آہ و فغاں کیے بنا نہیں رہ پاتے، عین اُس عاشق کی طرح جس کی محبوبہ کی عزت شہر کے غنڈوں نے اُس کی آنکھوں کے سامنے تار تار کی ہو۔
تنگ و تاریک مکانوں، سیلن ، کچرے اور بدبو سے بھری گلیوں، جرائم کی آماج گاہ بنے لیاری سے کوئی اپنے والہانہ عشق کا تذکرہ کرے تو اُس کی ذہنی حالت پہ شک کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، لیکن وہ جو فیض صاحب نے اپنے ناصحین کو دعوت دی تھی کہ 'وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے، تم ذرا اک نظر میرا محبوبِ نظر تو دیکھو' ...یا انگریزی مقولہ'ویگاس میں کیا ہوتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے ویگاس میں ہونا ضروری ہے'، کہ مصداق لیاری کو جاننے کے لیے لیاری میں ہونا ضروری ہے، اس کے عشق میں مبتلا ہونے کے لیے اس کے وجود کا حصہ بننا ضروری ہے۔ عشق کے تقاضے کچھ ایسے سہل تو نہیں صاحب!
لیاری کی تصویر اپنے مکینوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اس کا اصل تعارف تو اس کے مستقل باسی وہ افتادگانِ خاک ہیں،خاک سے محبت جنھیں ان کے جینز میں ودیعت ہو کے ملی ہے۔ یہ عمومی فطرت ہے کہ گھر میں آگ لگ جائے تو آپ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلتے ہیں، وہ گھر جو آپ کی جائے امان ہوتا ہے، ذرا سی آگ کی تپش آپ کو اُس کے وجود سے لاتعلق کر دیتی ہے، دُور لا پھینکتی ہے۔ جس محلے میں ڈکیتی کی مستقل وارداتیں ہونے لگیں،برسوں سے اُس محلے کے مکین اُسے چھوڑنے لگتے ہیں، شہر بے امنی کی لپیٹ میں آجائیں تو اس کے مستقل باسی اپنا بوریا بستر سمیٹنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ اگر اولاد ناخلف ہو جائے تو اُسے جنم دینے والے والدین بھی اُس سے لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں، عاق کر دیتے ہیں۔لیکن یہ لیاری ہے، اور لیاری کے مکین ہیں کہ پورا لیاری جل جائے تو بھی یہ اسے سینے سے لگائے رکھتے ہیں، اس پہ گولیاں برستی رہیں تو بھی اس کی تنگ و تاریک گلیوں میں بچوں کے کھیلنے کی رونق مانند نہیں پڑتی، اس کی تپش سے پورا ملک سلگ اٹھتا ہے، لیکن اس کے مکین اس ساری آگ کو یوں دامن میں سمیٹ لیتے ہیں جیسے کوئی ماں اپنے پاگل بچے کی دیوانہ وار حرکتوں کو اپنے آنچل میں سمیٹ لے کہ دنیا کہیں اسے دیوانہ سمجھ کر اٹھا کر نہ لے جائے۔
جپسیوں میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے سندھ کے ایک ہندوستانی زمیندار اور لکھاری خورشید قائم خانی نے گھنگھریالے بالوں اور سیاہ رنگت والے ان دیوانوں کا شجرہ ڈھونڈ نکالا، جو قدیم عہد سے افریقہ کے ساحلوں سے لائے گئے، جو آج بھی سندھ میں وڈیروں کی غلامی کرتے ہیں، 'شیدی' (سیاہ رنگت) کہلاتے ہیں، جو آج کے لیاری کے وارث ہیں، بلوچ کہلاتے ہیں۔ اور بلوچ کب غلامی قبول کرتا ہے...انسان کب غلامی قبول کرتا ہے...غلامی بلوچ فطرت کے مخالف ہے، انسانی فطرت کے مخالف ہے۔افریقہ کے ساحل سے نکل کر مائی کلاچی کے ساحل کو آباد کر نے والے، لیاری کو بسانے والے یہ دیوانے آج بھی اپنی شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔
قبائلی تفاخر والے بلوچستان میں کوئی خود کو 'بلوچ' کہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے ، 'کون سے بلوچ؟' یعنی کس قبیلے کا بلوچ...لیکن اگر آپ کہہ دیں کہ 'لیاری کا بلوچ' تو آپ سے قبیلہ نہیں پوچھا جاتا...یہ قبائلی شناخت سے ماورا لوگ ہیں۔ انھوں نے تو جس شناخت کو اپنایا، جس تشخص نے انھیں اپنایا، انھیں غلامی سے نکال کر انسان ہونے کی شناخت دی، یہ تو بس اسی کے ہو کر رہ گئے۔ یوں گویا لیاری ایک طرح سے قبائلی بلوچستان سے ایک قدم آگے ہیں(حالانکہ کئی معاملات میں وہ بلوچستان سے کئی قدم آگے ہے!)۔لیکن آج کے جدید میٹرو پولیٹن سے کاسمو پولیٹن بنتے کراچی میں ، مائی کلاچی کی یہ قدیم آبادی صدیوں بعد بھی اپنے تشخص کے بحران میں مبتلا ہے...قائم خانی نے شاید ان کے اسی المیے کے پیش نظر ان کی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب کو 'بھٹکتی نسلیں' کا نام دیا تھا!
جدید عہد میں یہ لیاری بلوچوں کا سیاسی و علمی مرکز رہا ہے۔ یوسف عزیز مگسی نے بلوچستان کا پہلا اخبار نکالناہو تو مرکز لیاری...محمد حسین عنقا بلوچستان بدر ہوں تو ٹھکانہ لیاری...غوث بخش بزنجو نے عملی سیاست میں آنا ہو تو حلقہ انتخاب لیاری...انور اقبال نے پہلی بلوچی فلم بنانی ہو تو مقام لیاری...پہلی بلوچ طلبہ تنظیم کا مرکزلیاری...پھرلالہ لال بخش رند کی کارکنی ہو کہ بزنجو صاحب کی قیادت، لیاری سب کی آنکھوں کا تارہ، سبھی کا جادہِ منزل رہا۔ لیاری وہ سنگِ میل ہے،جو منزل کی جانب درست رہنمائی کرتا ہے۔لیکن ذرا اس سے اغماض برتا جائے تو یہی سنگِ میل اُلٹ بھی ہو سکتا ہے!
کتابوں میں لکھا ہے اور عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ ابھی چار دہائیاں پہلے سن ستر تک لیاری میں گینگ وار نام کی مخلوق ناپید تھی۔ حتیٰ کہ سن اَسی کے عشرے کے ابتدائی برسوں تک یہاں کی سڑکوں پہ لیوا ہوتا تھا، یہ کراچی کی سب سے پر امن بستی تھی۔ ذرا محمد خالد اختر کا ناول'چاکیواڑہ میں وصال'پڑھ کر دیکھئے، اُس عہد کے لیاری سے عشق نہ ہوجائے تو پیسے واپس۔پھر جب پورے ملک کو ایک آنکھ والے ،اپنے نام کے عین برعکس تاریکی کے دلدادہ ضیا نامی شخص کی نظر لگ گئی ،تو یہ بستی بھی انھی تاریکیوں کی لپیٹ میں آئی۔
اس کے کئی عشاق چن چن کر اس کی نیم تاریک راہوں میں مارے گئے، اس کے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں، دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے۔ قتل گاہوں سے جن کا عَلم لے کر عشاق کا کوئی قافلہ تک نہ نکلا، اور یوں خاک نشینوں کا خون رزقِ خاک ہوا، نہ مدعی نہ منصف، حساب پاک ہوا۔
اس کے کھیل کے میدان بارود کا ڈھیر بنا دیے گئے ، اس کے جواں چوڑے سینوں والے تنومند جواں لہو میں نہلا دیے گئے۔ بزنجو کی سربراہی والا لیاری چوروں، بھتہ خوروں اور لٹیروں کے سپرد ہوا، لال بخش رند کی کارکنی کا سفر ہاتھ میں پستول لہراتے اور مغلظات بکتے خالی الذہن نوجوان کے ہاتھ لگا۔صبا دشتیادی کی روشن کی ہوئی علم کی مشعل پہ جہالت کا پردہ تان دیا گیا۔ راہزن گھر کے چوکیدار مقرر ہوئے۔ ایک ایک کر کے سبھی ہم عصر ساتھی کھو دینے والے نورمحمد شیخ جیسے ادبی کارکن گوشہ نشین ہو گئے۔ نہ وہ لیاری رہا، نہ وہ لیاری نواز...
ٹی وی اسکرینوں اور اخبار کی سرخیوں میں جرائم کی آماج گاہ بنے لیاری کا لیکن اب ایک اور چہرہ بھی ابھررہا ہے، جو کمرشل میڈیا کے کیمروں کی نظروں میں نہیں سما پاتا ۔ ایک روشن مستقبل کا چہرہ، نئی نسل کی امیدوں کا چہروں ۔ ایک حسین اور دل آویز چہرہ۔یہ چہرہ ہے لیاری کے اسٹریٹ اسکولز سے لے کر اب 'امن ' جیسے موضوع پر شارٹ فلمیں بنانے والی لیاری کی نئی نسل کا چہرہ۔یہ لیاری کو آباد کرنے والی قدیم نسل کا تسلسل ہیں، جن کے ہاتھ میں ہر قسم کے تشدد کا جواب قلم اور کیمرہ ہے۔
ابھی چند برس پہلے تک جب رات کوایک طرف لیاری گولیوں سے گونج رہا ہوتا تھا، تو دوسری طرف دن بھر دفتروں میں مشقت کر کے اپنے گھر کا چولہا جلانے والے یہ نوجوان رات کو انھی گلیوں میں مفت اسٹریٹ اسکولز چلا رہے ہوتے تھے، جہاں محلے کے بچوں کو یہ مفت تعلیم دیتے۔ انھی اسٹریٹ اسکولز کے تسلسل میں مواچھ گوٹھ میں اب ڈریم فاؤنڈیشن کے اسکول کی بلند و بالا پختہ عمارت بند چکی ہے، خدا جانے وہ اب اپنے گلی کوچوں کے کتنے خواب سنبھال پاتی ہے!!۔ اور انھی اسٹریٹ اسکولز سے نکلی ہوئی ایک نسل اب جرائم زدہ لیاری کا چہرہ اپنے کیمرے سے صاف کر رہی ہے۔
ایک نئے لیاری کا چہرہ دکھا رہی ہے۔ جرائم کو پالنے والے یوں بھی حسن کے ، علم کے ازلی دشمن ہیں۔ یہ حسیں چہروں پہ تیزاب پھینکنے والوں میں سے ہیں، یہ علم کے دلدادہ دماغ میں گولیاں اتارنے والوں میں سے ہیں۔ یہ علم کے متلاشی وجود کو مسخ کرنے والوں میں سے ہیں، یہ ہر حسیں خواب دیکھنے والے کے دشمن ہیں۔ ان کے شر سے بچنے کی ضرورت ہے۔ لیاری کی نئی نسل کا تخلیقی ہنر ، لیاری کے دشمنوں کو یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ جب تک لیاری کے عشاق کی نسل باقی ہے، لیاری کی رونقیں باقی رہیں گی۔ یہ زندہ دل لوگ جلتے ہوئے لیاری سے بھی جشن کا سماں پیدا کر لیں گے۔ لیاری کے بچے اپنی بوڑھی ماں کا آنچل تار تار نہ ہونے دیں گے۔