کھلی تجوری رکھ کر چوری کا گلہ کیوں
کچھ باتیں اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی مانیں اور کچھ عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کی مان لیں
ہمیں اس حقیقت کو ماننے سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ ملک پاکستان میں زیادہ تر حکومتیں بنانے اور توڑنے میں اسٹبلشمنٹ نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے باعث وجود میں آئی ہے۔ لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس حقیقت کو ماننے میں شرم اور اس حقیقت کو ایشو بنا کر اچھالنے میں بڑائی کیسے ہے۔
اگر ہم پچھلے چالیس سال کی بات کریں تو اسٹبلشمنٹ نے پہلے نواز شریف پر تجربہ کیا، پھر بے نظیر کو موقع دیا، پھر مشرف خود آگئے، پھر پیپلز پارٹی کو لے آئے اور پھر نواز شریف پر شفقت کا ہاتھ رکھا گیا۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے مایوسی کے بعد اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو آزمانے کا جوا کھیلا۔ اسٹبلشمنٹ نے تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں مدد کی۔ ملکی حالات عمران خان کے سامنے رکھے اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کا یقین دلایا۔ کچھ باتیں اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی مانیں اور کچھ عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کی مان لیں۔ دونوں ہم آہنگی اور مشاورت کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔
امریکا کے حالیہ دورے میں جنرل قمر جاوید باجوہ، عمران خان سے کہیں دور ایک عام سپہ سالار کی حیثیت میں نظر آئے جبکہ عمران خان ہر جگہ قافلے کو لیڈ کرتے دکھائی دیے۔ باجوہ صاحب اکثر تصاویر میں خان صاحب کو دیکھ کر خوش ہوتے دکھائی دیے۔ یہ باڈی لینگویج پیغام دے رہی تھی کہ ہمارا لگایا گیا پودا پھل پھول رہا ہے۔ پاکستان اور پاک فوج کی عزت میں اضافہ کروا رہا ہے۔ پاک فوج کو بین الاقوامی برادری میں صفائیاں نہیں دینا پڑ رہی ہیں۔
اسٹبلشمنٹ کو ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ سیاسی حکمران کبھی فوج کا کیس نہیں لڑتے۔ بیرون ملک جب فوج پر تنقید ہوتی ہے تو یہ فوج کا دفاع کرنے کے بجائے خاموش رہتے ہیں یا فوج ہی کی برائیاں کرتے ہیں۔ مخالفین کو نکیل ڈالنے کے بجائے انھیں سپورٹ کرتے ہیں اور مخالفین کے پروپیگنڈا کو ملک میں اس طرح آکر پیش کرتے ہیں جیسے فوج ملک کی دشمن اور بیرونی طاقتیں پاکستان کی دوست ہیں۔ پیپلز پارٹی کا میموگیٹ اسکینڈل اور ن لیگ کی ڈان لیکس اس کے واضح ثبوت ہیں۔
اسٹبلشمنٹ کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے موجودہ سیٹ اپ میں ایک بھی ایسا وزیر یا مشیر نہیں ہے جو فوج کے خلاف استعمال ہوسکے۔ یہ واحد الیکشن ہے جس میں مبینہ طور پر انڈین لابی والے تمام سیاستدان الیکشن ہار گئے ہیں۔ اب جو بھی حکومت میں ہیں وہ اسٹبلشمنٹ کے حامی و ناصر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ سیٹ اپ کام کرگیا تو ملک کو ترقی کا پانچواں گیئر لگ جائے گا۔ اکانومی اپنی اصل جگہ پر گر کر سر اٹھائے گی۔ معاشی پالیسی مستقل ہوجائے گی۔ لوٹ مار کم ہوجائے گی۔ ہر ادارہ اپنا بوجھ خود اٹھانے لگے گا۔ پاکستان آہستہ آہستہ قرضوں کے بھنور سے نکل جائے گا۔ معاشی بحران ختم ہوجائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج قائم ہوگا۔ عمران خان پاکستان کےلیے لازم و ملزوم ہوجائیں گے اور پندرہ سال تک پاکستان تحریک انصاف کو کوئی ہلا نہیں سکے گا۔
اسٹبلشمنٹ کا اس انداز میں سوچنا فطری عمل ہے۔ اس سوچ پر تنقید کرنا یا اسے پاکستانی جمہوریت دشمنی قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر ن لیگ، پیپلز پارٹی میں جرأت ہے تو آئیں پوری دنیا کے سامنے ثبوت رکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اسٹبلشمنٹ کی پیداوار نہیں ہیں۔ دنیا کو بتائیں کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کو ڈیڈی کہہ کر نہیں پکارتے تھے۔ یہ بھی کہیں کہ بینظیر بھٹو فوجی آمر مشرف کے ساتھ ڈیل کرکے پاکستان نہیں آئی تھیں۔ یہ بھی اقرار کریں کہ یوسف رضا گیلانی بھری محفلوں میں یہ کہتے نہیں پھرتے تھے کہ ہمیں تو جنرل کیانی کے بوٹ پالش کرنے کا موقع چاہیے، جنرل صاحب صرف ایک مرتبہ اجازت دے دیں۔
ن لیگ عوام کو بتائے کہ کیا وہ اسٹبلشمنٹ کی پیداوار نہیں ہے؟ نواز شریف دل پر ہاتھ رکھ کر قوم کو بتائیں کہ جنرل ضیاالحق انھیں اپنا تیسرا بیٹا کہتے تھے یا نہیں؟ کیا نواز شریف بھرے جلسوں میں یہ اعلان نہیں کرتے تھے کہ میں جنرل ضیاالحق کا جانشین ہوں اور میں مرتے دم تک جنرل ضیا کا مشن آگے بڑھاؤں گا۔
سچ یہ ہے کہ تاریخ کے اوراق اس طرح کے سیکڑوں قصوں اور کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں اور کوئی بھی شخص ان واقعات کی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو تحریک انصاف پر اسٹبلشمنٹ کی سپورٹ لینے پر تنقید کیوں کی جارہی ہے؟ ن لیگ اور پیپلز پارٹی منافقت کیوں دکھا رہے ہیں۔
منافقت دکھانے کے بجائے یہ وقت ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی مشترکہ پریس کانفرنس میں سرعام اس حقیقت کا اقرار کریں کہ ہم اسٹبلشمنٹ کی مدد سے حکومتیں بناتے اور توڑتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے سیاسی نظام میں موجود خامیاں ہیں۔ فوج کی مداخلت جائز تھی اور جائز ہے، کیونکہ ہمارا سیاسی نظام دنیا کا کمزور ترین نظام ہے جو صرف کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار کو سپورٹ کرتا ہے اور اس کے بدلے ملک کو بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں دے پاتا۔ اسٹبلشمنٹ نے ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے، جو ان کا حق تھا کیونکہ بیچ چوراہے تجوری کھلی رکھنے والے کو چوری کا گلہ نہیں کرنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر ہم پچھلے چالیس سال کی بات کریں تو اسٹبلشمنٹ نے پہلے نواز شریف پر تجربہ کیا، پھر بے نظیر کو موقع دیا، پھر مشرف خود آگئے، پھر پیپلز پارٹی کو لے آئے اور پھر نواز شریف پر شفقت کا ہاتھ رکھا گیا۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے مایوسی کے بعد اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو آزمانے کا جوا کھیلا۔ اسٹبلشمنٹ نے تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں مدد کی۔ ملکی حالات عمران خان کے سامنے رکھے اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کا یقین دلایا۔ کچھ باتیں اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی مانیں اور کچھ عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کی مان لیں۔ دونوں ہم آہنگی اور مشاورت کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔
امریکا کے حالیہ دورے میں جنرل قمر جاوید باجوہ، عمران خان سے کہیں دور ایک عام سپہ سالار کی حیثیت میں نظر آئے جبکہ عمران خان ہر جگہ قافلے کو لیڈ کرتے دکھائی دیے۔ باجوہ صاحب اکثر تصاویر میں خان صاحب کو دیکھ کر خوش ہوتے دکھائی دیے۔ یہ باڈی لینگویج پیغام دے رہی تھی کہ ہمارا لگایا گیا پودا پھل پھول رہا ہے۔ پاکستان اور پاک فوج کی عزت میں اضافہ کروا رہا ہے۔ پاک فوج کو بین الاقوامی برادری میں صفائیاں نہیں دینا پڑ رہی ہیں۔
اسٹبلشمنٹ کو ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ سیاسی حکمران کبھی فوج کا کیس نہیں لڑتے۔ بیرون ملک جب فوج پر تنقید ہوتی ہے تو یہ فوج کا دفاع کرنے کے بجائے خاموش رہتے ہیں یا فوج ہی کی برائیاں کرتے ہیں۔ مخالفین کو نکیل ڈالنے کے بجائے انھیں سپورٹ کرتے ہیں اور مخالفین کے پروپیگنڈا کو ملک میں اس طرح آکر پیش کرتے ہیں جیسے فوج ملک کی دشمن اور بیرونی طاقتیں پاکستان کی دوست ہیں۔ پیپلز پارٹی کا میموگیٹ اسکینڈل اور ن لیگ کی ڈان لیکس اس کے واضح ثبوت ہیں۔
اسٹبلشمنٹ کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے موجودہ سیٹ اپ میں ایک بھی ایسا وزیر یا مشیر نہیں ہے جو فوج کے خلاف استعمال ہوسکے۔ یہ واحد الیکشن ہے جس میں مبینہ طور پر انڈین لابی والے تمام سیاستدان الیکشن ہار گئے ہیں۔ اب جو بھی حکومت میں ہیں وہ اسٹبلشمنٹ کے حامی و ناصر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ سیٹ اپ کام کرگیا تو ملک کو ترقی کا پانچواں گیئر لگ جائے گا۔ اکانومی اپنی اصل جگہ پر گر کر سر اٹھائے گی۔ معاشی پالیسی مستقل ہوجائے گی۔ لوٹ مار کم ہوجائے گی۔ ہر ادارہ اپنا بوجھ خود اٹھانے لگے گا۔ پاکستان آہستہ آہستہ قرضوں کے بھنور سے نکل جائے گا۔ معاشی بحران ختم ہوجائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج قائم ہوگا۔ عمران خان پاکستان کےلیے لازم و ملزوم ہوجائیں گے اور پندرہ سال تک پاکستان تحریک انصاف کو کوئی ہلا نہیں سکے گا۔
اسٹبلشمنٹ کا اس انداز میں سوچنا فطری عمل ہے۔ اس سوچ پر تنقید کرنا یا اسے پاکستانی جمہوریت دشمنی قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر ن لیگ، پیپلز پارٹی میں جرأت ہے تو آئیں پوری دنیا کے سامنے ثبوت رکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اسٹبلشمنٹ کی پیداوار نہیں ہیں۔ دنیا کو بتائیں کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کو ڈیڈی کہہ کر نہیں پکارتے تھے۔ یہ بھی کہیں کہ بینظیر بھٹو فوجی آمر مشرف کے ساتھ ڈیل کرکے پاکستان نہیں آئی تھیں۔ یہ بھی اقرار کریں کہ یوسف رضا گیلانی بھری محفلوں میں یہ کہتے نہیں پھرتے تھے کہ ہمیں تو جنرل کیانی کے بوٹ پالش کرنے کا موقع چاہیے، جنرل صاحب صرف ایک مرتبہ اجازت دے دیں۔
ن لیگ عوام کو بتائے کہ کیا وہ اسٹبلشمنٹ کی پیداوار نہیں ہے؟ نواز شریف دل پر ہاتھ رکھ کر قوم کو بتائیں کہ جنرل ضیاالحق انھیں اپنا تیسرا بیٹا کہتے تھے یا نہیں؟ کیا نواز شریف بھرے جلسوں میں یہ اعلان نہیں کرتے تھے کہ میں جنرل ضیاالحق کا جانشین ہوں اور میں مرتے دم تک جنرل ضیا کا مشن آگے بڑھاؤں گا۔
سچ یہ ہے کہ تاریخ کے اوراق اس طرح کے سیکڑوں قصوں اور کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں اور کوئی بھی شخص ان واقعات کی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو تحریک انصاف پر اسٹبلشمنٹ کی سپورٹ لینے پر تنقید کیوں کی جارہی ہے؟ ن لیگ اور پیپلز پارٹی منافقت کیوں دکھا رہے ہیں۔
منافقت دکھانے کے بجائے یہ وقت ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی مشترکہ پریس کانفرنس میں سرعام اس حقیقت کا اقرار کریں کہ ہم اسٹبلشمنٹ کی مدد سے حکومتیں بناتے اور توڑتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے سیاسی نظام میں موجود خامیاں ہیں۔ فوج کی مداخلت جائز تھی اور جائز ہے، کیونکہ ہمارا سیاسی نظام دنیا کا کمزور ترین نظام ہے جو صرف کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار کو سپورٹ کرتا ہے اور اس کے بدلے ملک کو بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں دے پاتا۔ اسٹبلشمنٹ نے ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے، جو ان کا حق تھا کیونکہ بیچ چوراہے تجوری کھلی رکھنے والے کو چوری کا گلہ نہیں کرنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔