نیا ٹیکس نظام کیسے کامیاب ہو گا
کیا اس نظام میں کاروباری پیچیدگیاں موجود ہیں؟
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی معیشت کودستاویزی شکل دی جا رہی ہے، ٹیکس کے نظام کو جدید ممالک کی طرز پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بہر حال اس نظام کی اشد ضرورت تھی کہ دورَ جدید میں ہر چیز کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے، اس سسٹمِ نے ریاستوں کے معا ملات بہت آسان بنا دیئے ہیں۔
جیسے ہی ٹیکس نظام کو جدید پیمانے پر استوار کرنے کا آغاز کیا گیا تو پورے ملک میں بے چینی اور اضطراب کی فضا پیدا ہوگئی، حالا نکہ اس سسٹمِ میں قطعاً کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ خوف و ہراس پیدا ہو، دراصل لوگ ایف بی آر کے افسران اور اہلکاروں کی چیرہ دسیتوں اور بلیک میلنگ سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان افسران کے شکنجے میں جو بھی آیا وہ بّری طرح پھنس گیا، ایف بی آر کے یہ اہلکار ایسے حالات بنا دیتے ہیں کہ باہمی تعاون کے بغیر چارہ نہیں رہتا تھا ۔
بائیس کروڑ کی آ بادی میں صرف بیس لاکھ افراد ٹیکس گزار تھے، صرف آٹھ لاکھ کاروباری افراد ٹیکس ادا کرتے تھے، اس کی اصل وجہ ایف بی آر کے اہلکار وں کی بد دیانتی تھی، ٹیکس ادا کرنے والوں کو بہت ہی تنگ کیا جاتا تھا۔ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ٹیکس کا ہدف ان آٹھ لاکھ کاروباری حضرات سے وصول کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، اور یہ ایک انتہائی زیادتی کی بات تھی۔ موجودہ حکومت کو اس بات کا شِدت سے احساس تھا اور ان کی اوّلین کوشش تھی کہ ٹیکس نیٹ ورک وسیع تر کیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے تمام وسائل بُروئے کار لائے گئے۔ ہر فرد کے تمام مالی معاملات کو آ پس میں مربوط کیا گیا پہلے تو کوئی بھی چیز مربوط نہیں تھی، اب ہر فرد کے کوائف مخصوص ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
جیسے ہی کوئی ایف بی آر میں رجسٹر ہونا چاہتا ہے، وہ فرد کا ریکارڈ دیکھ کر خود ہی قریبی عزیزوں کے نام بتاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان عزیزوں سے ان کی فون پر بات کروائی جائے، جب یہ دونوں عزیز موبائل کال پر اپنا تعارف کرواتے ہیں اور اپنا تعلق یا رشتہ بتاتے ہیں تو تصدیق کے بعد اُس شخص کے موبائل پر اس کی تفصیلات دیدی جاتی ہیں۔ ان تفصیلات میں اُس فرد کے کُنبے کی تفصیلموجود ہوتی ہے اس کی جائیداد، گاڑیوں، بینِ الاقوامی سفر اور ایسی تمام تفصیلات موجود ہوتی ہیں، یہ نظام دنیا کے بیشتر جدید ممالک میں موجود ہے۔
غیر متوازن جدید معیشت
اب پاکستان میں بھی اس کی شروعات ہو چکی ہے، پاکستان کی کرپشن زدہ معیشت کو دستاویزی شکل دینا اشد ضروری تھا۔ دستاویزی شکل میں نہ ہونے کی وجہ سے پوری معیشت غیر متوازن ہے۔
1 ) جائیدادوں کی سٹے بازی اپنے عروج پر تھی، جائیدادوں پر ہر سال کھربوں روپے کی سٹے بازی ہوتی تھی۔ چند سالوں میں سٹے بازی کی وجہ سے جائیدادوںکی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا، سرمایہ کاروں کے علاوہ عام افراد کو بھی اس کاروبارکا زیادہ مزا آیا،گھر بیٹھے ہی منافع حاصل ہونے لگا تو اکثریت نے اپنی فیکٹری، کارخانے اور دکانیں بیچ کر رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں پیسہ لگا دیا، کھربوں روپے غیر پیداواری یونٹ یعنی جائیداد میں کھپا دئیے گئے، اگر معیشت کو ضرورت سے زیادہ غیر پیداواری یونٹوں میں'' ڈمپ'' کر دیا جائے تو اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں عروج کے بے شمار نقصانات سامنے آئے۔
1 ) پہلا نقصان ، کراچی کے علاوہ پورے ملک فلیٹس سسٹِم کلچر پیدا نہ ہو سکا، شہروں کے پھیلاؤ میں بے پناہ اضافہ ہوا، زرعی زمینوں کا خاتمہ ہوتا گیا، شہروں کے آس پاس کی زرعی زمینوں کو ختم کر کے لاتعداد ہاؤسنگ اسکیمیں بنا دی گئی ہیں۔ پاکستان جیسے غریب اور قرض دار ملک میں زرعی زمینیں ختم کرکے شہروں کا پھیلاؤ ایک انتہائی ناعاقبت اندیشی کا مظہر ہے، اِن ہاؤسنگ سکیموں کی آڑ میں ایک ایسا لینڈ مافیا پیدا ہوا کہ جس نے ہمارے سماجی و معاشرتی نظام کی جڑیں تک ہلادیں ۔ یہ لینڈ مافیا ڈائرکٹ اور اِن ڈائرکٹ سیاسی میدان میں بھی کُود پڑا، نظریاتی سیاست کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ۔
2 ) دوسرا نقصان یہ ہوا کہ نئی ہاؤسنگ اسکیمیں دور دراز واقع ہونے کی وجہ سے آمدورفت کی مَد میں ایندھن کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ، پٹرول اور دوسرے ایندھن کی امپورٹ بڑھ گئی ۔
3 ) تیسرا نقصان یہ ہوا کہ سبزیاں دور دراز کے علاقوں سے لانے کی وجہ سے بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں، طبقاتی تفریق میں اضافہ ہوا، رشتہ دار اور دوست احباب ایک دوسرے سے دُور ہوگئے کہ اب اِتنا لمبا سفر کرکے دوسروں کو مِلنا دشوار ہوگیا ہے۔ ہمارے روایتی سماجی ڈھابچے کو کافی زَد پہنچی، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو عروج مِلنے سے بے شمار مضمرات پیدا ہوئے مگر اس کا سب سے بڑا نقصان انڈسٹری اور کاروبار کی تباہی کی شکل میں نِکلا اور ریاست ٹیکس کے علاوہ محصولات کی بڑی رقم سے محروم ہوگئی، کسی زمانے میں رئیل اسٹیٹ میں ایک روز میں کروڑوں اور بعض اوقات اربوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا مگر حکومت کو برائے نام ٹیکس مِلتا تھا۔
انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا کہ کوئی بھی سرمایہ کار جائیدادوںکے منافع بخش کاروبا ر چھوڑ کر کاروبار میں سر کھپانا نہیں چاہتا تھا، پھر اس کام میں سٹے بازی اپنے عروج پر پہنچ گئی، حتیٰ کہ گوادر کی زمین پر بھی کھربوں روپے کی سٹے بازی ہوتی رہی ہے۔ وہاں جتنی تیزی سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی تیزی سے کمی واقع ہوتی ہے سٹے باز اربوں روپے نکال کر لے جاتے ہیں، آخر میں زمینیں خریدنے والوںکی تمام رقم ''بلاک ''(جامد) ہو جاتی ہے۔ جائیدادوں کے کاروبار میں عروج کی وجہ سے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کو بہت زیادہ زَد پہنچی ہے، حالیہ بجٹ میں اس کے مضمرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک کنال یا اس سے بڑا گھر رکھنے والوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا اشد ضروری تھا،کہ ایک کنال کا گھر رکھنے والوں کے اخراجات اب لاکھوں روپے میں ہوتے ہیں، اب انھیں ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جا رہا ہے۔
بڑی گاڑیوں پر ٹیکس
بڑی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی بے تحاشا امپورٹ کے بھی بے پناہ نقصانات سامنے آئے ۔
1 ) زرمبادلہ خرچ ہوا۔
2 )بڑی گاڑیوں فیول بہت کھاتی ہیں۔
3 ) طبقاتی تفریق میں اضافہ ہوا کہ بڑی گاڑی رکھنا شان علامت سمجھی جاتی ہے جس کی وجہ سے رشوت اور حرام کمائی میں بھی اضافہ ہو اور بہت بڑی رقم جھوٹی شان و شوکت میں دفن ہوجاتی ہے ۔
دو لاکھ روپے سالانہ تعلیمی فیسادا کرنے والوں پر ٹیکس
ہمارے موجودہ نظام تعلیم نے بھی ہمارے معاشرتی اور سماجی ڈھانچے کو بہت زیادہ زَد پہنچائی ہے، میں بہت سالوں سے نظام تعلیم کا عمیق نظروں سے جائزہ لے رہا ہوں، موجودہ نظام تعلیم کے مضمرات کی ایک لمبی تفصیل میرے سامنے ہے، مگر بچوں کو مہنگے سکولوں میں تعلیم دلوانے کا مقصد معاشرے میں اپنی '' ناک اونچا'' رکھنا ہے۔ مہنگے سکولوں میںتعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعلیمی قابلیت اور ''آئی کیو لیول''بہت ہی کم ہے، ایک خاص ماحول میں پرورش پانے والے بچے جب مہنگے ترین سکولوں میں جاتے ہیں تو وہ کچھ ایسی اُلّجھنوں، ذہنی کشمکش اور احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جو اِن میں خود اعتمادی بھی ختم کرتی ہے اور صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا نہیں ہونے دیتی، اِن اسکولوں میں دولت کی بے پناہ نمائش ونمود کی جاتی ہے۔
والدین اپنے بچوں کو احساس کمتری سے بچانے کیلئے جائز و ناجائز دولت کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سستے اور مہنگے سکولوں نے عوام میں خلیج مزید وسیع کی ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم نے طبقاتی تفریق میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ طالبعلموں کی ذہنی صلاحیتیں فروغ پانے کی بجائے محدود ہوتی جا رہی ہیں فکروسوچ کی ترقی کے سُوتے خشک ہو جاتے ہیں، اِن سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا اشد ضروری تھا ۔
سامان ِ تعیشات پر ٹیکس
ایک طرف پوری قوم کو اس بات کا علِم ہے کہ ہمارا تجارتی خسارہ موجودہ وقت میں تقریباً 30 کھرب روپے سالانہ ہے، یعنی ہماری امپورٹ، ہماری ایکسپورٹ کے مقابلے میں خاصی کم ہے پھر بھی ایک خاص طبقے کیلئے اربوں ڈالر کا سامان ِ تعیشات امپورٹ کیا جا رہا ہے، ایسی امپورٹڈ آئٹمز پر پابندی لگائی جاتی تو بہتر تھا وگرنہ اس کا ٹیکس مزید بڑھا دیا جائے۔ موجودہ معاشی و اقتصادی بحران میں ایسے فیصلے کرنا بہت ضروری ہیں، سامان تعیشات میں پھیلاؤ کی وجہ سے بھی رشوت، حرام کمائی اور طبقاتی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ فضول خرچی کرنے والے شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کر کے انھیں عوام کے فلاحی منصوبوں اور ضروریات زندگی کیلئے خرچ کرنا اشد ضروری ہے۔
معیشت کو دستاویزی شکل میںلانا کیوں ضروری ہے؟
معیشت کو دستاویزی شکل میںبہت پہلے لانا چاہیے تھا، اس کام میں دیرکی وجہ سے منی لانڈرنگ، بیرونی فنڈنگ، اسمگلنگ، منشیات فروشی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، بھتہ، غنڈہ گردی، جائیدادوں پر قبضے، رشوت، ناجائز فروشی اور دوسرے غلط کاموں میں بہت اضافہ ہوا، ہر ملک میں معیشت کو دستاویزات میں لانا اس لئے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ایک خاص طبقہ عوام کا استحصال تو نہیں کر رہا ؟ مختلف ہتھکنڈوں سے غریب عوا م کی دولت تو نہیں ہتھیائی جا رہی؟ کوئی فرد ملک دشمی میں تو ملوث نہیں ہے؟ جس ریاست میں معیشت کو بے مہار چھوڑ دیا جاتا ہے ، اس ریاست میں اکانومی کا یہی حال ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے۔ اور اس کا سارا اثر صرف غریب اور مظلوم عوام پر پڑتا ہے۔ اس وقت عام افراد بھی اضطراب میں ضرور مبتلا ہیں کہ ناخواندہ لوگ کیسے اپنے گوشوار ے پُر کریں یا جائز ٹیکس ادا کریں مگر اس کا آخر کار فائدہ انہی کو پہنچے گا، ملک کی کرپشن زدہ غیر متوازن معیشت ہموار راستے پر گامزن ہو جائے گی۔
کیا یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بنایا ہو ا ہے؟
تمام سیاسی پارٹیاں اور بعض تاجر وں نے واویلا مچایا ہوا ہے کہ یہ بجٹ '' آئی ایم ایف '' نے بنایا ہے اگر واقعی اس بات میں حقیقت ہے تو پھر انھوں نے یہ بجٹ بہت اچھا بنایا ہے کہ پاکستا ن کو مزید دلدل میں دھنسنے سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے مگر یہ بات طے ہے کہ یہ وزیراعظم عمران خان اور اہم اداروں کے سربراہان کا ویژن ہے، سیاسی پارٹیوں کا واویلا اس وجہ سے ہے کہ ان پارٹیوں میں شامل سیاستدانوں اور دوسرے افراد نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی دولت اور جائیدادوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، انھوں نے یہ دولت کیسے کمائی یا کہاں سے حاصل کی اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کرپشن کے علاوہ بھی کئی ایسے ذرائع ہو سکتے ہیں کہ جس کا ریاست کو نقصان ہوا ہو، ملکی سیاست پر چھائے ہوئے افراد اور حکومت میں شامل افراد کے ایک ایک پیسے کا حساب ہونا چاہیے کہ ملک کی قسمت ان کے ہاتھ میں ہے، اب یہ لوگ ٹیکس نیٹ ورک میں آنے سے گھبرا رہے ہیں۔ بعض تاجروں نے بھی مختلف ہتھکنڈوں سے بے پناہ دولت کمائی ہے یہ لوگ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جعلی مصنوعات اور اس قسم کے کاموں میں ملوث رہ کر بے پناہ مال بنا چکے ہیں، اب وہ بھی اپنی دولت کا حساب دینے سے گریزاں ہیں، اگر اس بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ معاشی بحران میں اِن سخت اور غیر مقبول فیصلوں کے علاوہ دوسرا راستہ بھی نظر نہیں آتا ۔
مگر ٹیکس کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالناچاہیے تھا
اس بجٹ میں جہاں معیشت کو متوازن اور ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہاں چینی، گھی، سیمنٹ اور یوریا پر بھاری ٹیکس عائد کرکے عوام پر بھی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی تلے دبی اور کچلی ہوئی ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ عام ضروریات زندگی پر بھی اثر پڑا ہے، کم از کم اِ ن اشیاء پر ٹیکسِز کو فی الفور ختم کیا جائے ۔ موجودہ بجٹ کا سب سے زیادہ گھریلو خواتین پر اثر پڑا ہے کیونکہ مہنگائی اور یوٹیلٹی بِلز بڑھنے سے ان کا گھریلو بجٹ بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔ تحریک انصاف کا واضح نعرہ تھا کہ '' لوٹی ہوئی دولت وصول کر کے کچلے ہو ئے طبقات میں تقسیم کی جائے گی'' یہاں تو پتہ نہیں ہم سب پر مزید کس چیز کابوجھ ڈا ل دیا گیا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ
جہاں تک گیس کی قیمت میں اضافے کا تعلق ہے تو یہ اقدام ٹھیک لگتا ہے، گرمیوں میں اوسطاً دو تین سو ماہانہ بِل آتا ہے۔ سارا دن سارا مہینہ گیس استعمال کرنے سے صرف دوتین سو کا بِل بہت کم تھا، اس سے لوگ سردیوں میں بھی گیس ہیٹر کا استعمال کم کریں گے، یہ اضافہ ٹھیک ہی لگتا ہے مگر بجلی کے بِلوں میں پانچ سو یونٹ تک کا اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک گھر میں اے سی نہ بھی چلے اور صرف ایک ائیر کولر چلایا جائے اور تین پنکھے چلائے جائیں، استری، مائیکرووِیوواُون، واشنگ مشین، پانی والی موٹر اور انرجی سیور استعمال کئے جائیں تو تقریباً پانچ سو یونٹ تک استعمال ہو ہی جاتے ہیں ۔ یہ لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی بجلی کا استعمال ہے، زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے افراد کیلئے بجلی مہنگی کرنی چاہیے۔
ائر کنڈیشنڈ کے استعمال کے رجحان میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اب تمام نئی عمارتیں '' ائیر ٹائٹ '' بنائی جا رہی ہیں یعنی ہَوادار بنانے کی بجائے مکمل بند عمارتیں بنائی جا رہی ہیں جہاں اے سی کا استعمال اشد ضروری ہوتا ہے وگرنہ پانچ منٹ بیٹھنا دشوار ہوتا ہے، بروقت اے سی چلا کر کمروں کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے، اگر بجلی چلی جائے تو کمرے خاصی دیر تک ٹھنڈے رہتے ہیں اور محض پنکھوں سے بھی گزارا ہو جاتا ہے۔اس سال گرمیوں میں 23000 میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کی جا رہی ہے، بہر حال اس بجلی کی پیدا وار کیلئے فرنس آئل اور دوسرا درآمدی فیول استعمال ہو رہا ہے جس سے زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اسی حساب سے رقم وصول کر رہی ہیں ۔ بجلی کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین سے بجلی کا ریٹ زیادہ ہی وصول کرنا چاہیے۔
اگر کسی کمپنی کا ایک پارٹنر بھی ڈیفالٹر ہو تو؟
اس بجٹ میںایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی کمپنی کا ایک پارٹنر بھی ڈیفالٹر ہو تو دوسرے پارٹنر سے اس کی طرف واجب الادا رقم وصول کی جائے گی چنانچہ اب اشد ضروری ہے کہ اِن معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے کہ اس کے پارٹنرکی طرف کوئی رقم واجب الادا تو نہیں ہے۔
یہاں ٹیکس ادا کرنے سے عوام کو کیا مِلے گا ؟
جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا کہنا ہے، کہ باہر کے ممالک میں جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے وہ عوام پرہی لگایا جاتا ہے، اس میںکوئی شک نہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں 49 فیصد ٹیکس ہی وصول کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 35 فیصد رکھی گئی ہے جبکہ لوگ صرف عموماًپانچ، چھ فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر قابل ذکر سوال یہ ہے کہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ تجارتی خسارہ اور سوُد کی ادائیگی پر تقریباً پچاس کھرب روپے کی رقم خرچ ہوتی ہے، تارکین وطن سے آنے والی رقومات کے علاوہ عوام سے وصول کردہ ٹیکسزِ سے یہ رقم پوری کی جائے گی، اب عوام کو ٹیکس دینے سے کیا حاصل ہوگا، وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ کہ ٹیکسِز کی رقم عوام پر خرچ کی جائے گی کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ موجودہ حکومت یہ بھی بتادے کہ حاصل ہونے والا ٹیکس قرضوں کی ادائیگی یا تجارتی خسار ے میں استعمال نہیں کیا جائے گا تو عوام بڑھ چڑھ کر ٹیکس نیٹ ورک میں خود آجائے گی۔
اس وقت عوام کی اپنی خواہش ہے کہ حکومت جائز ٹیکس لیکر ہمیں تعلیم، علاج معالجہ، ضروریات زندگی اور سہولیات زندگی فراہم کرے ۔ اگر ان کا پیسہ سابقہ حکومتوں کے غلط اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر ہی خرچ کرنا ہے تو عوام کو خون پیسنے کی کمائی ٹیکس کی شکل میں ادا کرنے سے کیا حاصل وصول ہوگا۔ باہرکے ممالک میں لوگ ٹیکس خوشی سے دیتے ہیں کہ ان کا پیسہ ان پر بہتر اور منظم طریقے سے خرچ ہوگا وہاں ٹیکس کی رقم سے ترقیاتی کام کروائے جاتے ہیں، عوام کا معیار زندگی بلند کیا جاتا ہے۔
بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے، باہر کے ممالک میں حکومت افراد کی مکمل ذمہ داری لیتی ہے اُن ممالک میں امیر لوگ غریب افراد کو پالتے ہیں یہاں غریب لوگ امیروں کو پال رہے ہیں، امیروں کے باہر علاج کیلئے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، ان کی سیاحت کیلئے ٹیکس دیتے ہیں ، غریبوں کا ٹیکس امیروں کی لگژری زندگی کیلئے خرچ کیا جاتا ہے۔ موجودہ ٹیکس اصلاحات کو کامیاب بنانے کیلئے عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ آپ کا پیسہ آپ پر اور بلکہ مستحق افراد پر بھی خرچ ہوگا ۔ بڑ ھ چڑھ کر خیرات دینے والی یہ قوم ٹیکس بھی بڑھ چڑھ کر دے گی۔
ٹیکس کلیکٹر ہی نا تجربے کار ہیں
ٹیکس اُمور کے ماہر پروفیسر یحییٰ رشید کا کہنا ہے کہ کسی بھی ریاست کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کیلئے ٹیکس نظام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں میںاس کام کے ایکسپرٹ لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سی ایس ایس کرنے والے افرا کو 17 ویں گریڈ میں لگایا جاتا ہے یہ افسران ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ نچلے گریڈوں میں سفارشی افرادکو بھرتی کیا جاتا ہے۔ ٹیکس نظام کی کامیابی کیلئے شرط ہے کہ متعلقہ فیلڈ کے ٹیکنوکریٹس کو ان اداروں میں بھرتی کیا جائے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام کو اس نظام میں شامل کرنے کیلئے آگاہی اور راہنمائی دی جائے۔ لوگوں کو فضول قسم کے معاملات میں نہ اُلجھایا جائے اور نہ خوف و ہراس پیدا کیا جائے۔ بالکل سید ھا سادہ طریقہ وضع کردیا جائے کہ آپ اس طریقے سے خود ہی ٹیکس جمع کروا دیں ۔
بجٹ 2019-2020 کے متعلق رائے
منیجنگ ڈائریکٹر فیئر انٹر پرائزر رانا محمد یار خان نے کہا ہے کہ بجٹ 2019-2020 میں بہت اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کا نفاذ 1 جولائی2019 سے ہوگیا ہے۔ اس بجٹ کی سمجھ بوجھ کیلئے معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کے لئے پروگرام تشکیل دینے بہت ضروری ہے، جن میں تعلیم یافتہ، تنخواہ دار، کاروباری، کم تعلیم یافتہ یا اَن پڑھ مرد و عورتیں ہیں جو چھوٹے یا بڑے کاروبار سے آمدن حاصل کر رہے ہیں، اگرچہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا عکس ہے لیکن اس کا نفاذ پاکستان کی عوام پر اگر نرمی کے ساتھ نہ کیا گیا تو ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔میری نظر میں یہ بجٹ ملک کی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنے اور پچھلی کرپٹ حکومتوں کے مظالم میں پسی ہوئی قوم کو آسانی دینے کے لئے نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ یُوں لگتا ہے جیسے کسی تجارتی ادارے کو نقصان سے نکال کر منافع کی طرف لے کر آنا ہو ۔
اس بجٹ کے تمام معاشی پہلو ؤںمیں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، جن میں سرکاری اداروں کی فروخت سے ریونیو حاصل کرنا شامل ہے جو کہ پچھلے بجٹ میں صفر تھا ۔
میں اس بجٹ کے چند پہلوؤں پر اپنی رائے کا اظہار کروں گا۔
(1 مینو فیکچر، ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز کے بِل پر نام اور شناختی کا رڈ کا نمبر درج کرنا جس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کو ختم کیا جائے یا اس کا طریقہ کار محفوظ بنایا جائے۔
(2 لائسنس کے حصول کی فیسوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، چھوٹے درجے کے سرمایہ کار جو نیا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں اُن کی حوصلہ شکنی کرے گا ، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
(3 پارٹنر شپ کمپنی میں کسی ایک پارٹنر کی اس کمپنی یا کسی بھی اور بزنس میں ڈیفالٹر ہونے کی صورت میں دوسرے کسی بھی پارٹنر سے وصولی بالکل ناجائز ہے۔ اس سے کاروبار پر بہت بُرے اثرات ہونگے۔
(4 ایکسپوٹر ز کیلئے SRO115 کو بالکل ختم نہیں کرنا چاہیے جس سے عام ایکسپوٹرز خاص طور پر چھوٹے کاروبار ی حضرات کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔
(5 امپورٹس کے حجم کو کنٹرول کرنے کے لئے اس بجٹ کی شِق کو کموڈیٹیزکے لحاظ سے نا فذ ہونا چاہیے۔
(6 فریش گریجویٹ کو نوکریاں دینے پر 5 فیصد ٹیکس کی چھوٹ دینے کیلئے یہ احتیاط کرنے ضرورت ہے کہ واقعی یہ نوکریاں دی گئی ہیں یا محض کاغذوں میں ہی اندراج ہے ۔
ہمارے ملک پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا اور ایک خود مختار ریاست بنانا بہت ضروری ہے لیکن اس کیلئے، ایسی پالیسیز نہیں ہونی چاہیے جس سے عوام متنفر ہو ۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ساتھ عوام کی سہولیات کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے، اچھی خوراک، تعلیم ، صحت اور رہائش بنیادی ضروریات زندگی ہیں جن پر ہر شہری کا حق ہے جس کو یقینی بنانا چاہیے۔
آف شور کمپنیوں کا اصل فائدہ
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 600 سے زائد پاکستانیوں کی بیرونِ ممالک آف شور کمپنیاں ( سمندر پار کمپنی) ہیں ۔ بیرون ممالک میں قائم ان آف شور کمپنیوں سے منی لانڈرنگ سمیت اور بھی کئی قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ ایک ہی فرد یا ایک ہی پارٹی کی پاکستان میں بھی کمپنی ہو اور اس کی بیرونِ ملک بھی آف شور کمپنی ہو تو پاکستان میں موجود کمپنی دوسرے ملک میں موجود اپنی ہی آف شور کمپنی کو درآمدات کیلئے آڈر دیتی ہے اور مطلوبہ سامان کے عوض زرمبادلہ ( بین الاقوامی کرنسی) کی شکل میں رقم بجھوا دیتی ہے یہ زرمبادلہ پاکستانی شہری کے غیر ملکی اکاونٹ میں چلا جاتا ہے، وہاں سے وہ کنٹینر پر ردی کاغذ یا ایسی ہی اشیاء بجھوا دیتے ہیں۔
جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جبکہ زرمبادلہ مہنگی مشینری یا مہنگی مصنوعات کیلئے بجھوایا جاتا ہے، زرمبادلہ ان کے غیر ملکی اکاونٹ میں جمع ہوتا ہے اور امپورٹ کردہ سامان میں مہنگی مصنوعات کی بجائے خالی کنٹینر یا کباڑخانہ آتا ہے۔ ملکی کمپنی یہ سامان وصول کر کے '' اوکے'' کردیتی ہے کہ ان کا مطلوبہ سامان آگیا ہے، اس طریقے سے پاکستان سے ہر سال اربوں ڈالر باہر کے ممالک میں بجھوائے جاتے رہے ہیں۔ ''سمندر پار کمپنی '' سے اور بھی اس قسم کے کئی فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ جن پاکستانیوں کی بیرون ممالک ''آف شور کمپنیاں '' ہیں، ان تمام افراد کو شامل تفشیش کیا جائے اور اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ ان آف شور کمپنیوں سے کیا کیا فوائد حاصل کئے گئے ہیں۔ آف شور کمپنی کا معاملہ اتنا آسان اور سیدھا نہیں ہوتا جتنا بتایا جاتا ہے۔
بے نامی جائیدادیں اور اکاونٹس
بے نامی جائیدادوں اور اکاونٹس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ افراد کسی بھی وجہ سے اپنے نام پر یہ جائیدادیں خریدنے کی بجائے اپنے ایسے ملازموں، عزیزوں یا دوستوں کے نام خریدتے ہیں کہ جن کی سکت ہی نہیں ہوتی، یعنی ان کی آمدن یا کاروبار ہی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ 2 مرلے کا پلاٹ بھی خرید سکیں۔ اسی طرح بعض بنکوں میں بھاری رقوم بھی ایسے ہی افراد کے نام پر جمع کروا دی جاتی ہیں کہ جن کے کوئی بھی ذرائع آمدنی ہی نہیں ہوتے، ایسے شخص کو کہ یہ جائیدادیںخریدنے یا بنکوں میں اتنی بھاری رقوم جمع کروانے کا کوئی بھی ذریعہ آمدن نہ رکھتا ہو، اور صاف ظاہر ہو کہ کسی دوسرے فرد نے اس کا نام استعمال کیا ہے، ایسی جائیدادوں اور اکاونٹس کو '' بے نامی '' کہا جاتا ہے، عموماً اس فرد کو بھی علِم ہوتا ہے کہ اس کے نام پر یہ جائیداد خریدی گئی یا اس کے اکاونٹ میں بھاری رقم جمع کروائی گئی ہے مگر خاموشی کے سوا اس کے پاس کچھ اور چارہ نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تمام متعلقہ اداروں کے پاس '' بے نامی '' جائیدادیں اور اکاونٹس کے مکمل کوائف اور معلومات موجود ہیں، اِن جائیدادوں اور اکاونٹس کو فی الفور ضبط کرنا اشد ضروری ہے۔
دستاویزی شکل نہ ہونے کی وجہ سے معاشی عدم توازن پیدا ہوا
مختلف اداروں اور کرپٹ عناصر کی مل بھگت کی وجہ سے ملکی سرمایہ چند ہاتھوں میں منتقل ہوتا گیا، اور انتہا سے زیادہ معاشی عدم توازن پیدا ہوا، بعض اہل بصیرت نے اس خطرے کو کافی عرصہ پہلے بھانپ لیا تھا اور انھوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کاسدباب کیا جائے کہ ریاست چند ہاتھوں میں مفلوج ہوتی جا رہی ہے، چند افراد کے ہاتھ میں معیشت چلی جائے تو وہ ہر شعبے پر قابض ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ عوام کی سوچ پر بھی قابض ہو جاتے ہیں ۔ جن ہاتھوں میں دولت کا بڑا حصہ منتقل ہوا انھوں نے اس دولت سے دوسرے ریاستی و قومی وسائل بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے ۔ اس وقت پاکستانی سرکاری معیشت کا پھیلاؤ 44 ٹریلین ہے جبکہ بلیک منی کے پھیلاؤ کا اندازہ 20 ٹریلین سے 50 ٹریلین کے درمیان لگایا گیا ہے۔ اگر بلیک منی کا حجم بھی 40 یا 45 ٹریلین ہو تو قومی، معاشی اور سماجی ناہمواری کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ اگر ملکی معیشت دستاویزات میں آجائے تو ٹیکسوں کا سارا بوجھ اس طبقے پر ڈالا جا سکتا ہے کہ جہنوں نے چند سالوں میںملک کی ساری دولت کو '' چوسُ'' لیا ہے۔
جیسے ہی ٹیکس نظام کو جدید پیمانے پر استوار کرنے کا آغاز کیا گیا تو پورے ملک میں بے چینی اور اضطراب کی فضا پیدا ہوگئی، حالا نکہ اس سسٹمِ میں قطعاً کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ خوف و ہراس پیدا ہو، دراصل لوگ ایف بی آر کے افسران اور اہلکاروں کی چیرہ دسیتوں اور بلیک میلنگ سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان افسران کے شکنجے میں جو بھی آیا وہ بّری طرح پھنس گیا، ایف بی آر کے یہ اہلکار ایسے حالات بنا دیتے ہیں کہ باہمی تعاون کے بغیر چارہ نہیں رہتا تھا ۔
بائیس کروڑ کی آ بادی میں صرف بیس لاکھ افراد ٹیکس گزار تھے، صرف آٹھ لاکھ کاروباری افراد ٹیکس ادا کرتے تھے، اس کی اصل وجہ ایف بی آر کے اہلکار وں کی بد دیانتی تھی، ٹیکس ادا کرنے والوں کو بہت ہی تنگ کیا جاتا تھا۔ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ٹیکس کا ہدف ان آٹھ لاکھ کاروباری حضرات سے وصول کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، اور یہ ایک انتہائی زیادتی کی بات تھی۔ موجودہ حکومت کو اس بات کا شِدت سے احساس تھا اور ان کی اوّلین کوشش تھی کہ ٹیکس نیٹ ورک وسیع تر کیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے تمام وسائل بُروئے کار لائے گئے۔ ہر فرد کے تمام مالی معاملات کو آ پس میں مربوط کیا گیا پہلے تو کوئی بھی چیز مربوط نہیں تھی، اب ہر فرد کے کوائف مخصوص ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
جیسے ہی کوئی ایف بی آر میں رجسٹر ہونا چاہتا ہے، وہ فرد کا ریکارڈ دیکھ کر خود ہی قریبی عزیزوں کے نام بتاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان عزیزوں سے ان کی فون پر بات کروائی جائے، جب یہ دونوں عزیز موبائل کال پر اپنا تعارف کرواتے ہیں اور اپنا تعلق یا رشتہ بتاتے ہیں تو تصدیق کے بعد اُس شخص کے موبائل پر اس کی تفصیلات دیدی جاتی ہیں۔ ان تفصیلات میں اُس فرد کے کُنبے کی تفصیلموجود ہوتی ہے اس کی جائیداد، گاڑیوں، بینِ الاقوامی سفر اور ایسی تمام تفصیلات موجود ہوتی ہیں، یہ نظام دنیا کے بیشتر جدید ممالک میں موجود ہے۔
غیر متوازن جدید معیشت
اب پاکستان میں بھی اس کی شروعات ہو چکی ہے، پاکستان کی کرپشن زدہ معیشت کو دستاویزی شکل دینا اشد ضروری تھا۔ دستاویزی شکل میں نہ ہونے کی وجہ سے پوری معیشت غیر متوازن ہے۔
1 ) جائیدادوں کی سٹے بازی اپنے عروج پر تھی، جائیدادوں پر ہر سال کھربوں روپے کی سٹے بازی ہوتی تھی۔ چند سالوں میں سٹے بازی کی وجہ سے جائیدادوںکی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا، سرمایہ کاروں کے علاوہ عام افراد کو بھی اس کاروبارکا زیادہ مزا آیا،گھر بیٹھے ہی منافع حاصل ہونے لگا تو اکثریت نے اپنی فیکٹری، کارخانے اور دکانیں بیچ کر رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں پیسہ لگا دیا، کھربوں روپے غیر پیداواری یونٹ یعنی جائیداد میں کھپا دئیے گئے، اگر معیشت کو ضرورت سے زیادہ غیر پیداواری یونٹوں میں'' ڈمپ'' کر دیا جائے تو اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں عروج کے بے شمار نقصانات سامنے آئے۔
1 ) پہلا نقصان ، کراچی کے علاوہ پورے ملک فلیٹس سسٹِم کلچر پیدا نہ ہو سکا، شہروں کے پھیلاؤ میں بے پناہ اضافہ ہوا، زرعی زمینوں کا خاتمہ ہوتا گیا، شہروں کے آس پاس کی زرعی زمینوں کو ختم کر کے لاتعداد ہاؤسنگ اسکیمیں بنا دی گئی ہیں۔ پاکستان جیسے غریب اور قرض دار ملک میں زرعی زمینیں ختم کرکے شہروں کا پھیلاؤ ایک انتہائی ناعاقبت اندیشی کا مظہر ہے، اِن ہاؤسنگ سکیموں کی آڑ میں ایک ایسا لینڈ مافیا پیدا ہوا کہ جس نے ہمارے سماجی و معاشرتی نظام کی جڑیں تک ہلادیں ۔ یہ لینڈ مافیا ڈائرکٹ اور اِن ڈائرکٹ سیاسی میدان میں بھی کُود پڑا، نظریاتی سیاست کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ۔
2 ) دوسرا نقصان یہ ہوا کہ نئی ہاؤسنگ اسکیمیں دور دراز واقع ہونے کی وجہ سے آمدورفت کی مَد میں ایندھن کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ، پٹرول اور دوسرے ایندھن کی امپورٹ بڑھ گئی ۔
3 ) تیسرا نقصان یہ ہوا کہ سبزیاں دور دراز کے علاقوں سے لانے کی وجہ سے بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں، طبقاتی تفریق میں اضافہ ہوا، رشتہ دار اور دوست احباب ایک دوسرے سے دُور ہوگئے کہ اب اِتنا لمبا سفر کرکے دوسروں کو مِلنا دشوار ہوگیا ہے۔ ہمارے روایتی سماجی ڈھابچے کو کافی زَد پہنچی، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو عروج مِلنے سے بے شمار مضمرات پیدا ہوئے مگر اس کا سب سے بڑا نقصان انڈسٹری اور کاروبار کی تباہی کی شکل میں نِکلا اور ریاست ٹیکس کے علاوہ محصولات کی بڑی رقم سے محروم ہوگئی، کسی زمانے میں رئیل اسٹیٹ میں ایک روز میں کروڑوں اور بعض اوقات اربوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا مگر حکومت کو برائے نام ٹیکس مِلتا تھا۔
انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا کہ کوئی بھی سرمایہ کار جائیدادوںکے منافع بخش کاروبا ر چھوڑ کر کاروبار میں سر کھپانا نہیں چاہتا تھا، پھر اس کام میں سٹے بازی اپنے عروج پر پہنچ گئی، حتیٰ کہ گوادر کی زمین پر بھی کھربوں روپے کی سٹے بازی ہوتی رہی ہے۔ وہاں جتنی تیزی سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی تیزی سے کمی واقع ہوتی ہے سٹے باز اربوں روپے نکال کر لے جاتے ہیں، آخر میں زمینیں خریدنے والوںکی تمام رقم ''بلاک ''(جامد) ہو جاتی ہے۔ جائیدادوں کے کاروبار میں عروج کی وجہ سے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کو بہت زیادہ زَد پہنچی ہے، حالیہ بجٹ میں اس کے مضمرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک کنال یا اس سے بڑا گھر رکھنے والوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا اشد ضروری تھا،کہ ایک کنال کا گھر رکھنے والوں کے اخراجات اب لاکھوں روپے میں ہوتے ہیں، اب انھیں ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جا رہا ہے۔
بڑی گاڑیوں پر ٹیکس
بڑی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی بے تحاشا امپورٹ کے بھی بے پناہ نقصانات سامنے آئے ۔
1 ) زرمبادلہ خرچ ہوا۔
2 )بڑی گاڑیوں فیول بہت کھاتی ہیں۔
3 ) طبقاتی تفریق میں اضافہ ہوا کہ بڑی گاڑی رکھنا شان علامت سمجھی جاتی ہے جس کی وجہ سے رشوت اور حرام کمائی میں بھی اضافہ ہو اور بہت بڑی رقم جھوٹی شان و شوکت میں دفن ہوجاتی ہے ۔
دو لاکھ روپے سالانہ تعلیمی فیسادا کرنے والوں پر ٹیکس
ہمارے موجودہ نظام تعلیم نے بھی ہمارے معاشرتی اور سماجی ڈھانچے کو بہت زیادہ زَد پہنچائی ہے، میں بہت سالوں سے نظام تعلیم کا عمیق نظروں سے جائزہ لے رہا ہوں، موجودہ نظام تعلیم کے مضمرات کی ایک لمبی تفصیل میرے سامنے ہے، مگر بچوں کو مہنگے سکولوں میں تعلیم دلوانے کا مقصد معاشرے میں اپنی '' ناک اونچا'' رکھنا ہے۔ مہنگے سکولوں میںتعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعلیمی قابلیت اور ''آئی کیو لیول''بہت ہی کم ہے، ایک خاص ماحول میں پرورش پانے والے بچے جب مہنگے ترین سکولوں میں جاتے ہیں تو وہ کچھ ایسی اُلّجھنوں، ذہنی کشمکش اور احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جو اِن میں خود اعتمادی بھی ختم کرتی ہے اور صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا نہیں ہونے دیتی، اِن اسکولوں میں دولت کی بے پناہ نمائش ونمود کی جاتی ہے۔
والدین اپنے بچوں کو احساس کمتری سے بچانے کیلئے جائز و ناجائز دولت کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سستے اور مہنگے سکولوں نے عوام میں خلیج مزید وسیع کی ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم نے طبقاتی تفریق میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ طالبعلموں کی ذہنی صلاحیتیں فروغ پانے کی بجائے محدود ہوتی جا رہی ہیں فکروسوچ کی ترقی کے سُوتے خشک ہو جاتے ہیں، اِن سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا اشد ضروری تھا ۔
سامان ِ تعیشات پر ٹیکس
ایک طرف پوری قوم کو اس بات کا علِم ہے کہ ہمارا تجارتی خسارہ موجودہ وقت میں تقریباً 30 کھرب روپے سالانہ ہے، یعنی ہماری امپورٹ، ہماری ایکسپورٹ کے مقابلے میں خاصی کم ہے پھر بھی ایک خاص طبقے کیلئے اربوں ڈالر کا سامان ِ تعیشات امپورٹ کیا جا رہا ہے، ایسی امپورٹڈ آئٹمز پر پابندی لگائی جاتی تو بہتر تھا وگرنہ اس کا ٹیکس مزید بڑھا دیا جائے۔ موجودہ معاشی و اقتصادی بحران میں ایسے فیصلے کرنا بہت ضروری ہیں، سامان تعیشات میں پھیلاؤ کی وجہ سے بھی رشوت، حرام کمائی اور طبقاتی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ فضول خرچی کرنے والے شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کر کے انھیں عوام کے فلاحی منصوبوں اور ضروریات زندگی کیلئے خرچ کرنا اشد ضروری ہے۔
معیشت کو دستاویزی شکل میںلانا کیوں ضروری ہے؟
معیشت کو دستاویزی شکل میںبہت پہلے لانا چاہیے تھا، اس کام میں دیرکی وجہ سے منی لانڈرنگ، بیرونی فنڈنگ، اسمگلنگ، منشیات فروشی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، بھتہ، غنڈہ گردی، جائیدادوں پر قبضے، رشوت، ناجائز فروشی اور دوسرے غلط کاموں میں بہت اضافہ ہوا، ہر ملک میں معیشت کو دستاویزات میں لانا اس لئے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ایک خاص طبقہ عوام کا استحصال تو نہیں کر رہا ؟ مختلف ہتھکنڈوں سے غریب عوا م کی دولت تو نہیں ہتھیائی جا رہی؟ کوئی فرد ملک دشمی میں تو ملوث نہیں ہے؟ جس ریاست میں معیشت کو بے مہار چھوڑ دیا جاتا ہے ، اس ریاست میں اکانومی کا یہی حال ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے۔ اور اس کا سارا اثر صرف غریب اور مظلوم عوام پر پڑتا ہے۔ اس وقت عام افراد بھی اضطراب میں ضرور مبتلا ہیں کہ ناخواندہ لوگ کیسے اپنے گوشوار ے پُر کریں یا جائز ٹیکس ادا کریں مگر اس کا آخر کار فائدہ انہی کو پہنچے گا، ملک کی کرپشن زدہ غیر متوازن معیشت ہموار راستے پر گامزن ہو جائے گی۔
کیا یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بنایا ہو ا ہے؟
تمام سیاسی پارٹیاں اور بعض تاجر وں نے واویلا مچایا ہوا ہے کہ یہ بجٹ '' آئی ایم ایف '' نے بنایا ہے اگر واقعی اس بات میں حقیقت ہے تو پھر انھوں نے یہ بجٹ بہت اچھا بنایا ہے کہ پاکستا ن کو مزید دلدل میں دھنسنے سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے مگر یہ بات طے ہے کہ یہ وزیراعظم عمران خان اور اہم اداروں کے سربراہان کا ویژن ہے، سیاسی پارٹیوں کا واویلا اس وجہ سے ہے کہ ان پارٹیوں میں شامل سیاستدانوں اور دوسرے افراد نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی دولت اور جائیدادوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، انھوں نے یہ دولت کیسے کمائی یا کہاں سے حاصل کی اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کرپشن کے علاوہ بھی کئی ایسے ذرائع ہو سکتے ہیں کہ جس کا ریاست کو نقصان ہوا ہو، ملکی سیاست پر چھائے ہوئے افراد اور حکومت میں شامل افراد کے ایک ایک پیسے کا حساب ہونا چاہیے کہ ملک کی قسمت ان کے ہاتھ میں ہے، اب یہ لوگ ٹیکس نیٹ ورک میں آنے سے گھبرا رہے ہیں۔ بعض تاجروں نے بھی مختلف ہتھکنڈوں سے بے پناہ دولت کمائی ہے یہ لوگ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جعلی مصنوعات اور اس قسم کے کاموں میں ملوث رہ کر بے پناہ مال بنا چکے ہیں، اب وہ بھی اپنی دولت کا حساب دینے سے گریزاں ہیں، اگر اس بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ معاشی بحران میں اِن سخت اور غیر مقبول فیصلوں کے علاوہ دوسرا راستہ بھی نظر نہیں آتا ۔
مگر ٹیکس کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالناچاہیے تھا
اس بجٹ میں جہاں معیشت کو متوازن اور ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہاں چینی، گھی، سیمنٹ اور یوریا پر بھاری ٹیکس عائد کرکے عوام پر بھی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی تلے دبی اور کچلی ہوئی ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ عام ضروریات زندگی پر بھی اثر پڑا ہے، کم از کم اِ ن اشیاء پر ٹیکسِز کو فی الفور ختم کیا جائے ۔ موجودہ بجٹ کا سب سے زیادہ گھریلو خواتین پر اثر پڑا ہے کیونکہ مہنگائی اور یوٹیلٹی بِلز بڑھنے سے ان کا گھریلو بجٹ بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔ تحریک انصاف کا واضح نعرہ تھا کہ '' لوٹی ہوئی دولت وصول کر کے کچلے ہو ئے طبقات میں تقسیم کی جائے گی'' یہاں تو پتہ نہیں ہم سب پر مزید کس چیز کابوجھ ڈا ل دیا گیا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ
جہاں تک گیس کی قیمت میں اضافے کا تعلق ہے تو یہ اقدام ٹھیک لگتا ہے، گرمیوں میں اوسطاً دو تین سو ماہانہ بِل آتا ہے۔ سارا دن سارا مہینہ گیس استعمال کرنے سے صرف دوتین سو کا بِل بہت کم تھا، اس سے لوگ سردیوں میں بھی گیس ہیٹر کا استعمال کم کریں گے، یہ اضافہ ٹھیک ہی لگتا ہے مگر بجلی کے بِلوں میں پانچ سو یونٹ تک کا اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک گھر میں اے سی نہ بھی چلے اور صرف ایک ائیر کولر چلایا جائے اور تین پنکھے چلائے جائیں، استری، مائیکرووِیوواُون، واشنگ مشین، پانی والی موٹر اور انرجی سیور استعمال کئے جائیں تو تقریباً پانچ سو یونٹ تک استعمال ہو ہی جاتے ہیں ۔ یہ لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی بجلی کا استعمال ہے، زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے افراد کیلئے بجلی مہنگی کرنی چاہیے۔
ائر کنڈیشنڈ کے استعمال کے رجحان میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اب تمام نئی عمارتیں '' ائیر ٹائٹ '' بنائی جا رہی ہیں یعنی ہَوادار بنانے کی بجائے مکمل بند عمارتیں بنائی جا رہی ہیں جہاں اے سی کا استعمال اشد ضروری ہوتا ہے وگرنہ پانچ منٹ بیٹھنا دشوار ہوتا ہے، بروقت اے سی چلا کر کمروں کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے، اگر بجلی چلی جائے تو کمرے خاصی دیر تک ٹھنڈے رہتے ہیں اور محض پنکھوں سے بھی گزارا ہو جاتا ہے۔اس سال گرمیوں میں 23000 میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کی جا رہی ہے، بہر حال اس بجلی کی پیدا وار کیلئے فرنس آئل اور دوسرا درآمدی فیول استعمال ہو رہا ہے جس سے زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اسی حساب سے رقم وصول کر رہی ہیں ۔ بجلی کے بے جا استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین سے بجلی کا ریٹ زیادہ ہی وصول کرنا چاہیے۔
اگر کسی کمپنی کا ایک پارٹنر بھی ڈیفالٹر ہو تو؟
اس بجٹ میںایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی کمپنی کا ایک پارٹنر بھی ڈیفالٹر ہو تو دوسرے پارٹنر سے اس کی طرف واجب الادا رقم وصول کی جائے گی چنانچہ اب اشد ضروری ہے کہ اِن معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے کہ اس کے پارٹنرکی طرف کوئی رقم واجب الادا تو نہیں ہے۔
یہاں ٹیکس ادا کرنے سے عوام کو کیا مِلے گا ؟
جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا کہنا ہے، کہ باہر کے ممالک میں جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے وہ عوام پرہی لگایا جاتا ہے، اس میںکوئی شک نہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں 49 فیصد ٹیکس ہی وصول کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 35 فیصد رکھی گئی ہے جبکہ لوگ صرف عموماًپانچ، چھ فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر قابل ذکر سوال یہ ہے کہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ تجارتی خسارہ اور سوُد کی ادائیگی پر تقریباً پچاس کھرب روپے کی رقم خرچ ہوتی ہے، تارکین وطن سے آنے والی رقومات کے علاوہ عوام سے وصول کردہ ٹیکسزِ سے یہ رقم پوری کی جائے گی، اب عوام کو ٹیکس دینے سے کیا حاصل ہوگا، وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ کہ ٹیکسِز کی رقم عوام پر خرچ کی جائے گی کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ موجودہ حکومت یہ بھی بتادے کہ حاصل ہونے والا ٹیکس قرضوں کی ادائیگی یا تجارتی خسار ے میں استعمال نہیں کیا جائے گا تو عوام بڑھ چڑھ کر ٹیکس نیٹ ورک میں خود آجائے گی۔
اس وقت عوام کی اپنی خواہش ہے کہ حکومت جائز ٹیکس لیکر ہمیں تعلیم، علاج معالجہ، ضروریات زندگی اور سہولیات زندگی فراہم کرے ۔ اگر ان کا پیسہ سابقہ حکومتوں کے غلط اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر ہی خرچ کرنا ہے تو عوام کو خون پیسنے کی کمائی ٹیکس کی شکل میں ادا کرنے سے کیا حاصل وصول ہوگا۔ باہرکے ممالک میں لوگ ٹیکس خوشی سے دیتے ہیں کہ ان کا پیسہ ان پر بہتر اور منظم طریقے سے خرچ ہوگا وہاں ٹیکس کی رقم سے ترقیاتی کام کروائے جاتے ہیں، عوام کا معیار زندگی بلند کیا جاتا ہے۔
بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے، باہر کے ممالک میں حکومت افراد کی مکمل ذمہ داری لیتی ہے اُن ممالک میں امیر لوگ غریب افراد کو پالتے ہیں یہاں غریب لوگ امیروں کو پال رہے ہیں، امیروں کے باہر علاج کیلئے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، ان کی سیاحت کیلئے ٹیکس دیتے ہیں ، غریبوں کا ٹیکس امیروں کی لگژری زندگی کیلئے خرچ کیا جاتا ہے۔ موجودہ ٹیکس اصلاحات کو کامیاب بنانے کیلئے عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ آپ کا پیسہ آپ پر اور بلکہ مستحق افراد پر بھی خرچ ہوگا ۔ بڑ ھ چڑھ کر خیرات دینے والی یہ قوم ٹیکس بھی بڑھ چڑھ کر دے گی۔
ٹیکس کلیکٹر ہی نا تجربے کار ہیں
ٹیکس اُمور کے ماہر پروفیسر یحییٰ رشید کا کہنا ہے کہ کسی بھی ریاست کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کیلئے ٹیکس نظام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں میںاس کام کے ایکسپرٹ لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سی ایس ایس کرنے والے افرا کو 17 ویں گریڈ میں لگایا جاتا ہے یہ افسران ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ نچلے گریڈوں میں سفارشی افرادکو بھرتی کیا جاتا ہے۔ ٹیکس نظام کی کامیابی کیلئے شرط ہے کہ متعلقہ فیلڈ کے ٹیکنوکریٹس کو ان اداروں میں بھرتی کیا جائے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام کو اس نظام میں شامل کرنے کیلئے آگاہی اور راہنمائی دی جائے۔ لوگوں کو فضول قسم کے معاملات میں نہ اُلجھایا جائے اور نہ خوف و ہراس پیدا کیا جائے۔ بالکل سید ھا سادہ طریقہ وضع کردیا جائے کہ آپ اس طریقے سے خود ہی ٹیکس جمع کروا دیں ۔
بجٹ 2019-2020 کے متعلق رائے
منیجنگ ڈائریکٹر فیئر انٹر پرائزر رانا محمد یار خان نے کہا ہے کہ بجٹ 2019-2020 میں بہت اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کا نفاذ 1 جولائی2019 سے ہوگیا ہے۔ اس بجٹ کی سمجھ بوجھ کیلئے معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کے لئے پروگرام تشکیل دینے بہت ضروری ہے، جن میں تعلیم یافتہ، تنخواہ دار، کاروباری، کم تعلیم یافتہ یا اَن پڑھ مرد و عورتیں ہیں جو چھوٹے یا بڑے کاروبار سے آمدن حاصل کر رہے ہیں، اگرچہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا عکس ہے لیکن اس کا نفاذ پاکستان کی عوام پر اگر نرمی کے ساتھ نہ کیا گیا تو ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔میری نظر میں یہ بجٹ ملک کی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنے اور پچھلی کرپٹ حکومتوں کے مظالم میں پسی ہوئی قوم کو آسانی دینے کے لئے نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ یُوں لگتا ہے جیسے کسی تجارتی ادارے کو نقصان سے نکال کر منافع کی طرف لے کر آنا ہو ۔
اس بجٹ کے تمام معاشی پہلو ؤںمیں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، جن میں سرکاری اداروں کی فروخت سے ریونیو حاصل کرنا شامل ہے جو کہ پچھلے بجٹ میں صفر تھا ۔
میں اس بجٹ کے چند پہلوؤں پر اپنی رائے کا اظہار کروں گا۔
(1 مینو فیکچر، ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز کے بِل پر نام اور شناختی کا رڈ کا نمبر درج کرنا جس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کو ختم کیا جائے یا اس کا طریقہ کار محفوظ بنایا جائے۔
(2 لائسنس کے حصول کی فیسوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، چھوٹے درجے کے سرمایہ کار جو نیا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں اُن کی حوصلہ شکنی کرے گا ، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
(3 پارٹنر شپ کمپنی میں کسی ایک پارٹنر کی اس کمپنی یا کسی بھی اور بزنس میں ڈیفالٹر ہونے کی صورت میں دوسرے کسی بھی پارٹنر سے وصولی بالکل ناجائز ہے۔ اس سے کاروبار پر بہت بُرے اثرات ہونگے۔
(4 ایکسپوٹر ز کیلئے SRO115 کو بالکل ختم نہیں کرنا چاہیے جس سے عام ایکسپوٹرز خاص طور پر چھوٹے کاروبار ی حضرات کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔
(5 امپورٹس کے حجم کو کنٹرول کرنے کے لئے اس بجٹ کی شِق کو کموڈیٹیزکے لحاظ سے نا فذ ہونا چاہیے۔
(6 فریش گریجویٹ کو نوکریاں دینے پر 5 فیصد ٹیکس کی چھوٹ دینے کیلئے یہ احتیاط کرنے ضرورت ہے کہ واقعی یہ نوکریاں دی گئی ہیں یا محض کاغذوں میں ہی اندراج ہے ۔
ہمارے ملک پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا اور ایک خود مختار ریاست بنانا بہت ضروری ہے لیکن اس کیلئے، ایسی پالیسیز نہیں ہونی چاہیے جس سے عوام متنفر ہو ۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ساتھ عوام کی سہولیات کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے، اچھی خوراک، تعلیم ، صحت اور رہائش بنیادی ضروریات زندگی ہیں جن پر ہر شہری کا حق ہے جس کو یقینی بنانا چاہیے۔
آف شور کمپنیوں کا اصل فائدہ
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 600 سے زائد پاکستانیوں کی بیرونِ ممالک آف شور کمپنیاں ( سمندر پار کمپنی) ہیں ۔ بیرون ممالک میں قائم ان آف شور کمپنیوں سے منی لانڈرنگ سمیت اور بھی کئی قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ ایک ہی فرد یا ایک ہی پارٹی کی پاکستان میں بھی کمپنی ہو اور اس کی بیرونِ ملک بھی آف شور کمپنی ہو تو پاکستان میں موجود کمپنی دوسرے ملک میں موجود اپنی ہی آف شور کمپنی کو درآمدات کیلئے آڈر دیتی ہے اور مطلوبہ سامان کے عوض زرمبادلہ ( بین الاقوامی کرنسی) کی شکل میں رقم بجھوا دیتی ہے یہ زرمبادلہ پاکستانی شہری کے غیر ملکی اکاونٹ میں چلا جاتا ہے، وہاں سے وہ کنٹینر پر ردی کاغذ یا ایسی ہی اشیاء بجھوا دیتے ہیں۔
جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جبکہ زرمبادلہ مہنگی مشینری یا مہنگی مصنوعات کیلئے بجھوایا جاتا ہے، زرمبادلہ ان کے غیر ملکی اکاونٹ میں جمع ہوتا ہے اور امپورٹ کردہ سامان میں مہنگی مصنوعات کی بجائے خالی کنٹینر یا کباڑخانہ آتا ہے۔ ملکی کمپنی یہ سامان وصول کر کے '' اوکے'' کردیتی ہے کہ ان کا مطلوبہ سامان آگیا ہے، اس طریقے سے پاکستان سے ہر سال اربوں ڈالر باہر کے ممالک میں بجھوائے جاتے رہے ہیں۔ ''سمندر پار کمپنی '' سے اور بھی اس قسم کے کئی فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ جن پاکستانیوں کی بیرون ممالک ''آف شور کمپنیاں '' ہیں، ان تمام افراد کو شامل تفشیش کیا جائے اور اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ ان آف شور کمپنیوں سے کیا کیا فوائد حاصل کئے گئے ہیں۔ آف شور کمپنی کا معاملہ اتنا آسان اور سیدھا نہیں ہوتا جتنا بتایا جاتا ہے۔
بے نامی جائیدادیں اور اکاونٹس
بے نامی جائیدادوں اور اکاونٹس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ افراد کسی بھی وجہ سے اپنے نام پر یہ جائیدادیں خریدنے کی بجائے اپنے ایسے ملازموں، عزیزوں یا دوستوں کے نام خریدتے ہیں کہ جن کی سکت ہی نہیں ہوتی، یعنی ان کی آمدن یا کاروبار ہی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ 2 مرلے کا پلاٹ بھی خرید سکیں۔ اسی طرح بعض بنکوں میں بھاری رقوم بھی ایسے ہی افراد کے نام پر جمع کروا دی جاتی ہیں کہ جن کے کوئی بھی ذرائع آمدنی ہی نہیں ہوتے، ایسے شخص کو کہ یہ جائیدادیںخریدنے یا بنکوں میں اتنی بھاری رقوم جمع کروانے کا کوئی بھی ذریعہ آمدن نہ رکھتا ہو، اور صاف ظاہر ہو کہ کسی دوسرے فرد نے اس کا نام استعمال کیا ہے، ایسی جائیدادوں اور اکاونٹس کو '' بے نامی '' کہا جاتا ہے، عموماً اس فرد کو بھی علِم ہوتا ہے کہ اس کے نام پر یہ جائیداد خریدی گئی یا اس کے اکاونٹ میں بھاری رقم جمع کروائی گئی ہے مگر خاموشی کے سوا اس کے پاس کچھ اور چارہ نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تمام متعلقہ اداروں کے پاس '' بے نامی '' جائیدادیں اور اکاونٹس کے مکمل کوائف اور معلومات موجود ہیں، اِن جائیدادوں اور اکاونٹس کو فی الفور ضبط کرنا اشد ضروری ہے۔
دستاویزی شکل نہ ہونے کی وجہ سے معاشی عدم توازن پیدا ہوا
مختلف اداروں اور کرپٹ عناصر کی مل بھگت کی وجہ سے ملکی سرمایہ چند ہاتھوں میں منتقل ہوتا گیا، اور انتہا سے زیادہ معاشی عدم توازن پیدا ہوا، بعض اہل بصیرت نے اس خطرے کو کافی عرصہ پہلے بھانپ لیا تھا اور انھوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کاسدباب کیا جائے کہ ریاست چند ہاتھوں میں مفلوج ہوتی جا رہی ہے، چند افراد کے ہاتھ میں معیشت چلی جائے تو وہ ہر شعبے پر قابض ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ عوام کی سوچ پر بھی قابض ہو جاتے ہیں ۔ جن ہاتھوں میں دولت کا بڑا حصہ منتقل ہوا انھوں نے اس دولت سے دوسرے ریاستی و قومی وسائل بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے ۔ اس وقت پاکستانی سرکاری معیشت کا پھیلاؤ 44 ٹریلین ہے جبکہ بلیک منی کے پھیلاؤ کا اندازہ 20 ٹریلین سے 50 ٹریلین کے درمیان لگایا گیا ہے۔ اگر بلیک منی کا حجم بھی 40 یا 45 ٹریلین ہو تو قومی، معاشی اور سماجی ناہمواری کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ اگر ملکی معیشت دستاویزات میں آجائے تو ٹیکسوں کا سارا بوجھ اس طبقے پر ڈالا جا سکتا ہے کہ جہنوں نے چند سالوں میںملک کی ساری دولت کو '' چوسُ'' لیا ہے۔