بارشوں سے نقصانات بچاؤ کا میکنزم کہاں ہے
ہمیں جنگی بنیادوں پر حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ شدید بارشوں کے بعد سیلابوں کا خطرہ سر پر منڈلارہا ہے۔
مون سون کی جاری مسلسل بارشیں پنجاب اور خیبر پختون خوا کے علاقوں میں بھاری جانی ومالی نقصان کا سبب بن رہی ہیں۔ عوام امدادی سرگرمیوں کے منتظر ہیں ، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں بے یارومددگارچھوڑ دیا گیا ہے، جس بڑے پیمانے پر تباہی ہورہی ہے،اس کی روک تھام کے لیے ناکافی انتظامات نے حکومتی دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔کوئی پلاننگ نہیں کی گئی ہے، صرف انتظامیہ کبوترکی طرح خطرے کے وقت آنکھیں بند کر لیتی ہے۔
اسلام آباد ، راولپنڈی اور لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر شہروں میں طوفانی بارش سے نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا اور آٹھ افراد جان کی بازی ہارگئے۔ محکمہ موسمیات نے فلڈ الرٹ ایڈوائزی جاری کردی ہے۔
خیبرپختون خوا کے چھوٹے بڑے شہروں ، قصبوں اور دیہات میں بھی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ پشاور، پارا چنار، بونیر، واڑی، شانگلہ، سوات، مینگورہ پاراچنار،کرم اور سوات میں بارانی ندی نالوں میں طغیانی سے کچے مکانات گرگئے اور آمدورفت کے راستے بند ہوگئے، مختلف واقعات میں 22 افراد زخمی ہو گئے۔ لاہور جیسے جدید شہر میں صورتحال خاصی ابتر رہی ، سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی رہیں۔
لیسکوکے 180 فیڈر ٹرپ کرگئے جس سے بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی۔سیالکوٹ، ڈسکہ،گوجرانوالہ ،چیچہ وطنی، کوٹ رادھاکشن، واربرٹن، کالاشاہ کاکو، شیخوپورہ، مریدکے، فاروق آباد، نارنگ منڈی، فیروزوالہ، شاہدرہ، جلالپورجٹاں میں بھی گرج چمک کے ساتھ تیز بارش ہوئی۔ راولپنڈی، اسلام آباد میں دریائے سواں اور نالہ لئی میں طغیانی سے متعدد نشیبی علاقے زیرآب آگئے، نشیبی علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہوگیا ، ایک گھرکے تہہ خانے میں 9 افراد سو رہے تھے جس میں 7کو زندہ نکال لیا گیا۔
دوسری جانب ملک کے بالائی حصوں میں بڑے پیمانے پر سیلاب آسکتے ہیں، سیلابوں کا سلسلہ دریائے کابل اور اس سے ملحقہ ندی نالوں سے شروع ہوگا، منگلا کے مقام پر بڑے سیلابی ریلے کی پیش گوئی کی گئی ہے، دریا چناب، دریا سندھ، تربیلا کے مقام پر بھی شدید سیلاب آسکتے ہیں۔
کراچی میں بھی سیاہ بادلوں نے ڈیرے ڈال لیے۔کئی علاقوں میں تیز ہوائیں چلنے لگیں اور بوندا باندی سے موسم خوشگوار ہوگیا۔ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں کچرے سے بھرے 550 برساتی نالے ہیں اور ایک بارش سے شہر ڈوبنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔بیشتر برساتی نالوں پر عمارتیں قائم ہیں۔
دریائے سندھ میں راجن پورکے مقام پر پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔کچے کے علاقوں میں پانی داخل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں آرہی ہیں، جس لندن اور پیرس میں خوف برفباری ہوتی تھی وہاں اب درجہ حرارت بیالیس درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔
پاکستان میں ساری صورتحال کو جاننے کے بعد اس بات کا دکھ شدید تر ہوجاتا ہے کہ حکومت کے تمام اداروں میں فرائض سے غفلت برتنے کی عادت پختہ ہوچلی ہے،کیونکہ ان کی کوئی باز پرس نہیں ہوتی ہے لہذا عوام صرف مرنے کے لیے رہ گئے ہیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ مر رہے ہیں اورحکومت اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی ہیں۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ شدید بارشوں کے بعد سیلابوں کا خطرہ سر پر منڈلارہا ہے۔ عوام اور حکومت مل کر ہی ان خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
اسلام آباد ، راولپنڈی اور لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر شہروں میں طوفانی بارش سے نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا اور آٹھ افراد جان کی بازی ہارگئے۔ محکمہ موسمیات نے فلڈ الرٹ ایڈوائزی جاری کردی ہے۔
خیبرپختون خوا کے چھوٹے بڑے شہروں ، قصبوں اور دیہات میں بھی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ پشاور، پارا چنار، بونیر، واڑی، شانگلہ، سوات، مینگورہ پاراچنار،کرم اور سوات میں بارانی ندی نالوں میں طغیانی سے کچے مکانات گرگئے اور آمدورفت کے راستے بند ہوگئے، مختلف واقعات میں 22 افراد زخمی ہو گئے۔ لاہور جیسے جدید شہر میں صورتحال خاصی ابتر رہی ، سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی رہیں۔
لیسکوکے 180 فیڈر ٹرپ کرگئے جس سے بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی۔سیالکوٹ، ڈسکہ،گوجرانوالہ ،چیچہ وطنی، کوٹ رادھاکشن، واربرٹن، کالاشاہ کاکو، شیخوپورہ، مریدکے، فاروق آباد، نارنگ منڈی، فیروزوالہ، شاہدرہ، جلالپورجٹاں میں بھی گرج چمک کے ساتھ تیز بارش ہوئی۔ راولپنڈی، اسلام آباد میں دریائے سواں اور نالہ لئی میں طغیانی سے متعدد نشیبی علاقے زیرآب آگئے، نشیبی علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہوگیا ، ایک گھرکے تہہ خانے میں 9 افراد سو رہے تھے جس میں 7کو زندہ نکال لیا گیا۔
دوسری جانب ملک کے بالائی حصوں میں بڑے پیمانے پر سیلاب آسکتے ہیں، سیلابوں کا سلسلہ دریائے کابل اور اس سے ملحقہ ندی نالوں سے شروع ہوگا، منگلا کے مقام پر بڑے سیلابی ریلے کی پیش گوئی کی گئی ہے، دریا چناب، دریا سندھ، تربیلا کے مقام پر بھی شدید سیلاب آسکتے ہیں۔
کراچی میں بھی سیاہ بادلوں نے ڈیرے ڈال لیے۔کئی علاقوں میں تیز ہوائیں چلنے لگیں اور بوندا باندی سے موسم خوشگوار ہوگیا۔ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں کچرے سے بھرے 550 برساتی نالے ہیں اور ایک بارش سے شہر ڈوبنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔بیشتر برساتی نالوں پر عمارتیں قائم ہیں۔
دریائے سندھ میں راجن پورکے مقام پر پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔کچے کے علاقوں میں پانی داخل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں آرہی ہیں، جس لندن اور پیرس میں خوف برفباری ہوتی تھی وہاں اب درجہ حرارت بیالیس درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔
پاکستان میں ساری صورتحال کو جاننے کے بعد اس بات کا دکھ شدید تر ہوجاتا ہے کہ حکومت کے تمام اداروں میں فرائض سے غفلت برتنے کی عادت پختہ ہوچلی ہے،کیونکہ ان کی کوئی باز پرس نہیں ہوتی ہے لہذا عوام صرف مرنے کے لیے رہ گئے ہیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ مر رہے ہیں اورحکومت اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی ہیں۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ شدید بارشوں کے بعد سیلابوں کا خطرہ سر پر منڈلارہا ہے۔ عوام اور حکومت مل کر ہی ان خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔