شانتا کی یاد میں
ایک کمیونسٹ اہلیہ کی اپنے شوہرکے لیے رہائی کی مہم تاریخ کا سنہری باب ہے۔
بخاری کو رہا کیا جائے یا مجھے اور میرے بچوں کو بھی جیل میں رکھا جائے۔ نوجوان خاتون شانتا نے اس نعرے کے ساتھ اپنے شوہر جمال الدین بخاری کی رہائی کی مہم چلائی۔ قیام پاکستان کے بعد بخاری صاحب اور دیگر کمیونسٹوں کو سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتارکیا گیا تھا۔ شانتا کی جدوجہد کے نتیجے میں بخاری صاحب سال بعد رہا ہوئے۔
ایک کمیونسٹ اہلیہ کی اپنے شوہرکے لیے رہائی کی مہم تاریخ کا سنہری باب ہے۔ بخاری کا شمارکمیونسٹ تحریک کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ ان کا تعلق احمد آباد کے ایک سید خاندان سے تھا۔ جمال الدین بخاری 19 سال کی عمر میں ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ کابل، مزار شریف کے راستے تاشقند اور بخارا سے ہوتے ہوئے سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکوگئے تھے۔
جمال الدین بخاری 1920ء میں واپس آگئے۔ بخاری نے ایک عام سیلرکی حیثیت سے دنیا کے مختلف حصوں کا دورہ کیا اور اپنے مشاہدات کے ذریعے اپنی بصیرت میں گہرائی پیدا کی۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز برصغیر کی مختلف تحریکوں میں فعال شرکت سے کیا، انھوں نے خلافت تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ بخاری 1921ء میں مولانا محمد علی جوہرکی خواہش پرکراچی آئے اور مولانا دین محمد وفائی کے اخبارالوحید (سندھی) میں چھ سال تک ادارت کی۔
الوحید نے برطانوی تسلط کے خلاف مسلمانوں کو بیدارکرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انگریز حکومت نے کراچی سازش کیس کے تحت مولانا محمدعلی جوہر اور ان کے ساتھیوں سمیت جمال الدین بخاری کوگرفتارکیا، ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بخاری کو ڈیڑھ سال قید بامشقت اور 50 روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔ انھیں 1924ء میں کراچی جیل سے رہا کیا گیا۔
انھوں نے سیمنزکمپنی میں یونین کی بنیاد رکھی۔ وہ ویسٹرن ریلوے یونین کے ڈویژنل سیکریٹری رہے اور 1925ء میں کراچی سے اخبار آزادی کا اجراء کیا۔ بخاری نے 1927ء میں سندھ مزدور کسان پارٹی کو منظم کیا اور آل انڈیا مزدور کسان پارٹی کے کلکتہ کے اجلاس میں سندھ کی نمایندگی کی۔ انھوں نے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1929ء میں بمبئی میں جی ای پی ریلوے ہڑتال میں حصہ لیا۔
بخاری نے گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں ٹیکسٹائل مزدوروں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ احمد آباد میں بخاری کی ملاقات ایک محنتی نڈر لڑکی شانتا سے ہوئی۔ شانتا 29 اکتوبر 1922ء کو راجستھان کے ایک گاؤں بوتھا بونڈی میں پیدا ہوئی۔ شانتا کی والدہ بچپن میں انتقال کرگئی تھی۔ ان کی نانی ان کی پرورش کررہی تھی۔
شانتا کی خالہ ٹیکسٹائل ملز میں کام کرتی تھی۔ شانتا نے نانی پر بوجھ بننے کے بجائے محنت کا راستہ اختیارکیا اور اپنی خالہ کے ساتھ ٹیکسٹائل ملز میں ملازم ہوگئی۔ شانتا کے خالو جگن خان ، بخاری کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی میں فعال تھے۔ شانتا کمیونسٹ پارٹی کے حلقے میں شامل ہوگئی۔
انھیں کمیونسٹ مینی فسٹو میں استحصال کے خاتمے کے لیے جدوجہد کا راستہ نظر آگیا۔ مزدور تحریک میں کام کرتے ہوئے جمال الدین بخاری اپنی زندگی کے 45 سال گزار چکے تھے۔ ایک دن نوجوان شانتا نے براہِ راست بخاری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔گزشتہ صدی کی 40 ویں دہائی میں ہندوستان کی کسی لڑکی کا کسی نوجوان کو براہِ راست شادی کی پیشکش کرنا اپنی نوعیت کا نیا واقعہ تھا۔ جمال بخاری خواتین کے مردوں کے ساتھ برابری کے حقوق کے حامی تھے، بخاری نے شانتا کی پیشکش قبول کرلی۔ شانتا اور ان کی خالہ نے اسلام قبول کرلیا، یوں شادی میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ بخاری صاحب کا تعلق گجرات کے ایک جاگیردارانہ خاندان سے تھا جس کی اپنی روایات تھیں مگر شانتا جن کا اب نام زیب النساء تھا سے شادی پر ساری زندگی فخر کرتے رہے۔
جمال الدین بخاری شادی کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اور یہ جوڑا سابقہ بندر روڈ پر واقع کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں رہنے لگا۔ بندر روڈ پر لائٹ ہاؤس کے سامنے کمیونسٹ پارٹی کا یہ دفترکارکنوں کے لیے کمیون بن گیا۔ اس کمیون میں تمام کارکن ساتھ رہتے۔ ہر آدمی اپنے حصے کا کام کرتا۔کارکنوں میں مرد عورت، ذات، مذہب اور قومیت کی کوئی قید نہیں تھی۔ شانتا اس کمیون کی سب سے متحرک فرد تھی۔ شانتا کے اس کمیون کا حصہ بننے سے پہلے کارکن ملیاری کے ہوٹل کے کھانے کھانے پر مجبور تھے۔
اب شانتا نے باورچی خانہ کا نظام سنبھال لیا۔ شانتا نے محدود بجٹ میں اچھے اور مزیدار کھانے تیارکرنا شروع کیے۔ شانتا نے اپنے شوہرکے کپڑوں کا خیال رکھنا شروع کیا، یوں بخاری روزانہ دھلے اور استری ہوئے کپڑوں میں نظر آنے لگے۔ شانتا نے محض کمیون کا باورچی خانہ ہی نہیں سنبھالا بلکہ پارٹی کے اخبار اور پمفلٹ بھی تقسیم کرنے لگی۔ وہ دیگر کارکنوں کے ساتھ سڑکوں پر پارٹی کے اخبار اور دوسرا لٹریچر فروخت کرتی۔
مسلم شمیم نے اپنی کتاب لاڑکانہ کے چار درویش میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ وہ کارکنوں کے ساتھ سڑکوں پر اخبار فروخت کررہی تھی کہ اپنے گروہ سے پیچھے رہ گئی۔ پولیس والوں نے لڑکوں سے اخبارات چھین لیے۔ شانتا موقعے پر پہنچ گئی اور ان کا پولیس والوں سے زوردار مکالمہ ہوا اور پھر پولیس والوں سے اخبار واپس لے لیے اور ان کے افسرکو ایک اخبار خریدنا پڑگیا۔ اس دوران بخاری خاندان میں دو بچوں کا اضافہ ہوا۔
پاکستان امریکا کا اتحادی بن گیا۔ ملک سیکیورٹی اسٹیٹ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ حکومت نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی، پارٹی کا دفتر بند ہوگیا۔ بخاری سمیت سیکڑوں کارکن گرفتار کرلیے گئے۔ شانتا بخاری اپنے بچوں اور سوبھو گیان چندانی کی اہلیہ کے ساتھ آرام باغ کے قریب قاضی منشن کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ یہ شانتا اور ان کے خاندان کے لیے برا وقت تھا مگر شانتا نے حوصلہ نہیں ہارا اور پارٹی کے بچے ہوئے کارکنوں سے رابطہ میں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران ان کا رابطہ حسن ناصر کے ساتھ ہوا۔
پارٹی کمیون کی بچی ہوئی رقم 28 ہزار روپے نقد کمیونسٹ پارٹی کے دفتر پرنٹنگ پریس اور ایک فلیٹ کی چابیاں شانتا کے پاس موجود تھی۔ اس زمانے میں سندھی مسلم سوسائٹی آباد ہو رہی تھی اور پلاٹ فروخت ہورہے تھے۔کسی جاننے والے نے شانتا کو مشورہ دیا کہ اس سوسائٹی میں پلاٹ خرید لیں مگر شانتا کے دماغ میں بے ایمانی کا تصور نہیں تھا۔ بخاری کو کراچی سینٹرل جیل سے حیدرآباد منتقل کردیا گیا تھا۔ شانتا اپنے بچوں کے ساتھ ملاقات کے لیے حیدرآباد جیل گئی اور بخاری صاحب کو کمیون سے بچی ہوئی رقم کے بارے میں آگاہ کیا۔
بخاری صاحب نے کہا کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر ان سے یہ رقم لے لیں گے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ شانتا کو صدر کی ایک سڑک پر جانے کی ہدایت کی گئی۔ کہیں سے کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر نمودار ہوئے، ان کے ساتھ حسن ناصر بھی تھے۔ شانتا نے یہ امانت پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے حوالے کردی۔ شانتا نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے منظم مہم چلائی۔
ان کے اپنے اور بچوں کی گرفتاری کے مطالبے سے ہاشم رضا، اے ٹی نقوی وغیرہ پریشان ہوئے۔ قاضی فضل اور آغا غلام نبی پٹھان نے بخاری کی ضمانت کی کوشش کی۔ بخاری ڈھائی سال بعد جیل سے رہا ہوئے۔ انھیں کراچی بدر کردیا گیا۔ شانتا اور بخاری صاحب لاڑکانہ چلے گئے۔ انھیں قاضی فضل اﷲ نے اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ پھر بخاری صاحب نے ایک پریس قائم کیا، اخبارات شایع کیے۔ شانتا زندگی کے آخری دن تک بخاری کے ساتھ رہیں۔ شانتا نے ابتدائی عمر سے محنت اور جدوجہد کا راستہ سیکھا اور ساری زندگی محنت اور جدوجہد کو اپنی زندگی کا شعار بنایا۔ بخاری صاحب کا دروازہ سیاسی کارکنوں کے لیے کھلا رہا۔
بخاری صاحب کے ساتھ شانتا ہمیشہ کارکنوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب رہتی۔ شانتا کا انتقال 90 سال کی عمر میں ہوا۔ جمال الدین بخاری اور شانتا نے اپنی نوجوانی ہندوستان کی آزادی، استحصال سے پاک سماج کے قیام کے لیے وقف کی تھی۔ وہ زندگی کی آخری رمق تک اپنے آدرش کے اسیر رہے۔ جدوجہد کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھنے والوں کے لیے اس جوڑے کی زندگی مشعل راہ ہے۔
ایک کمیونسٹ اہلیہ کی اپنے شوہرکے لیے رہائی کی مہم تاریخ کا سنہری باب ہے۔ بخاری کا شمارکمیونسٹ تحریک کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ ان کا تعلق احمد آباد کے ایک سید خاندان سے تھا۔ جمال الدین بخاری 19 سال کی عمر میں ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ کابل، مزار شریف کے راستے تاشقند اور بخارا سے ہوتے ہوئے سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکوگئے تھے۔
جمال الدین بخاری 1920ء میں واپس آگئے۔ بخاری نے ایک عام سیلرکی حیثیت سے دنیا کے مختلف حصوں کا دورہ کیا اور اپنے مشاہدات کے ذریعے اپنی بصیرت میں گہرائی پیدا کی۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز برصغیر کی مختلف تحریکوں میں فعال شرکت سے کیا، انھوں نے خلافت تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ بخاری 1921ء میں مولانا محمد علی جوہرکی خواہش پرکراچی آئے اور مولانا دین محمد وفائی کے اخبارالوحید (سندھی) میں چھ سال تک ادارت کی۔
الوحید نے برطانوی تسلط کے خلاف مسلمانوں کو بیدارکرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انگریز حکومت نے کراچی سازش کیس کے تحت مولانا محمدعلی جوہر اور ان کے ساتھیوں سمیت جمال الدین بخاری کوگرفتارکیا، ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بخاری کو ڈیڑھ سال قید بامشقت اور 50 روپے جرمانے کی سزا دی گئی۔ انھیں 1924ء میں کراچی جیل سے رہا کیا گیا۔
انھوں نے سیمنزکمپنی میں یونین کی بنیاد رکھی۔ وہ ویسٹرن ریلوے یونین کے ڈویژنل سیکریٹری رہے اور 1925ء میں کراچی سے اخبار آزادی کا اجراء کیا۔ بخاری نے 1927ء میں سندھ مزدور کسان پارٹی کو منظم کیا اور آل انڈیا مزدور کسان پارٹی کے کلکتہ کے اجلاس میں سندھ کی نمایندگی کی۔ انھوں نے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1929ء میں بمبئی میں جی ای پی ریلوے ہڑتال میں حصہ لیا۔
بخاری نے گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں ٹیکسٹائل مزدوروں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ احمد آباد میں بخاری کی ملاقات ایک محنتی نڈر لڑکی شانتا سے ہوئی۔ شانتا 29 اکتوبر 1922ء کو راجستھان کے ایک گاؤں بوتھا بونڈی میں پیدا ہوئی۔ شانتا کی والدہ بچپن میں انتقال کرگئی تھی۔ ان کی نانی ان کی پرورش کررہی تھی۔
شانتا کی خالہ ٹیکسٹائل ملز میں کام کرتی تھی۔ شانتا نے نانی پر بوجھ بننے کے بجائے محنت کا راستہ اختیارکیا اور اپنی خالہ کے ساتھ ٹیکسٹائل ملز میں ملازم ہوگئی۔ شانتا کے خالو جگن خان ، بخاری کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی میں فعال تھے۔ شانتا کمیونسٹ پارٹی کے حلقے میں شامل ہوگئی۔
انھیں کمیونسٹ مینی فسٹو میں استحصال کے خاتمے کے لیے جدوجہد کا راستہ نظر آگیا۔ مزدور تحریک میں کام کرتے ہوئے جمال الدین بخاری اپنی زندگی کے 45 سال گزار چکے تھے۔ ایک دن نوجوان شانتا نے براہِ راست بخاری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔گزشتہ صدی کی 40 ویں دہائی میں ہندوستان کی کسی لڑکی کا کسی نوجوان کو براہِ راست شادی کی پیشکش کرنا اپنی نوعیت کا نیا واقعہ تھا۔ جمال بخاری خواتین کے مردوں کے ساتھ برابری کے حقوق کے حامی تھے، بخاری نے شانتا کی پیشکش قبول کرلی۔ شانتا اور ان کی خالہ نے اسلام قبول کرلیا، یوں شادی میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ بخاری صاحب کا تعلق گجرات کے ایک جاگیردارانہ خاندان سے تھا جس کی اپنی روایات تھیں مگر شانتا جن کا اب نام زیب النساء تھا سے شادی پر ساری زندگی فخر کرتے رہے۔
جمال الدین بخاری شادی کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اور یہ جوڑا سابقہ بندر روڈ پر واقع کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں رہنے لگا۔ بندر روڈ پر لائٹ ہاؤس کے سامنے کمیونسٹ پارٹی کا یہ دفترکارکنوں کے لیے کمیون بن گیا۔ اس کمیون میں تمام کارکن ساتھ رہتے۔ ہر آدمی اپنے حصے کا کام کرتا۔کارکنوں میں مرد عورت، ذات، مذہب اور قومیت کی کوئی قید نہیں تھی۔ شانتا اس کمیون کی سب سے متحرک فرد تھی۔ شانتا کے اس کمیون کا حصہ بننے سے پہلے کارکن ملیاری کے ہوٹل کے کھانے کھانے پر مجبور تھے۔
اب شانتا نے باورچی خانہ کا نظام سنبھال لیا۔ شانتا نے محدود بجٹ میں اچھے اور مزیدار کھانے تیارکرنا شروع کیے۔ شانتا نے اپنے شوہرکے کپڑوں کا خیال رکھنا شروع کیا، یوں بخاری روزانہ دھلے اور استری ہوئے کپڑوں میں نظر آنے لگے۔ شانتا نے محض کمیون کا باورچی خانہ ہی نہیں سنبھالا بلکہ پارٹی کے اخبار اور پمفلٹ بھی تقسیم کرنے لگی۔ وہ دیگر کارکنوں کے ساتھ سڑکوں پر پارٹی کے اخبار اور دوسرا لٹریچر فروخت کرتی۔
مسلم شمیم نے اپنی کتاب لاڑکانہ کے چار درویش میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ وہ کارکنوں کے ساتھ سڑکوں پر اخبار فروخت کررہی تھی کہ اپنے گروہ سے پیچھے رہ گئی۔ پولیس والوں نے لڑکوں سے اخبارات چھین لیے۔ شانتا موقعے پر پہنچ گئی اور ان کا پولیس والوں سے زوردار مکالمہ ہوا اور پھر پولیس والوں سے اخبار واپس لے لیے اور ان کے افسرکو ایک اخبار خریدنا پڑگیا۔ اس دوران بخاری خاندان میں دو بچوں کا اضافہ ہوا۔
پاکستان امریکا کا اتحادی بن گیا۔ ملک سیکیورٹی اسٹیٹ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ حکومت نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی، پارٹی کا دفتر بند ہوگیا۔ بخاری سمیت سیکڑوں کارکن گرفتار کرلیے گئے۔ شانتا بخاری اپنے بچوں اور سوبھو گیان چندانی کی اہلیہ کے ساتھ آرام باغ کے قریب قاضی منشن کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ یہ شانتا اور ان کے خاندان کے لیے برا وقت تھا مگر شانتا نے حوصلہ نہیں ہارا اور پارٹی کے بچے ہوئے کارکنوں سے رابطہ میں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران ان کا رابطہ حسن ناصر کے ساتھ ہوا۔
پارٹی کمیون کی بچی ہوئی رقم 28 ہزار روپے نقد کمیونسٹ پارٹی کے دفتر پرنٹنگ پریس اور ایک فلیٹ کی چابیاں شانتا کے پاس موجود تھی۔ اس زمانے میں سندھی مسلم سوسائٹی آباد ہو رہی تھی اور پلاٹ فروخت ہورہے تھے۔کسی جاننے والے نے شانتا کو مشورہ دیا کہ اس سوسائٹی میں پلاٹ خرید لیں مگر شانتا کے دماغ میں بے ایمانی کا تصور نہیں تھا۔ بخاری کو کراچی سینٹرل جیل سے حیدرآباد منتقل کردیا گیا تھا۔ شانتا اپنے بچوں کے ساتھ ملاقات کے لیے حیدرآباد جیل گئی اور بخاری صاحب کو کمیون سے بچی ہوئی رقم کے بارے میں آگاہ کیا۔
بخاری صاحب نے کہا کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر ان سے یہ رقم لے لیں گے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ شانتا کو صدر کی ایک سڑک پر جانے کی ہدایت کی گئی۔ کہیں سے کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر نمودار ہوئے، ان کے ساتھ حسن ناصر بھی تھے۔ شانتا نے یہ امانت پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے حوالے کردی۔ شانتا نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے منظم مہم چلائی۔
ان کے اپنے اور بچوں کی گرفتاری کے مطالبے سے ہاشم رضا، اے ٹی نقوی وغیرہ پریشان ہوئے۔ قاضی فضل اور آغا غلام نبی پٹھان نے بخاری کی ضمانت کی کوشش کی۔ بخاری ڈھائی سال بعد جیل سے رہا ہوئے۔ انھیں کراچی بدر کردیا گیا۔ شانتا اور بخاری صاحب لاڑکانہ چلے گئے۔ انھیں قاضی فضل اﷲ نے اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ پھر بخاری صاحب نے ایک پریس قائم کیا، اخبارات شایع کیے۔ شانتا زندگی کے آخری دن تک بخاری کے ساتھ رہیں۔ شانتا نے ابتدائی عمر سے محنت اور جدوجہد کا راستہ سیکھا اور ساری زندگی محنت اور جدوجہد کو اپنی زندگی کا شعار بنایا۔ بخاری صاحب کا دروازہ سیاسی کارکنوں کے لیے کھلا رہا۔
بخاری صاحب کے ساتھ شانتا ہمیشہ کارکنوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب رہتی۔ شانتا کا انتقال 90 سال کی عمر میں ہوا۔ جمال الدین بخاری اور شانتا نے اپنی نوجوانی ہندوستان کی آزادی، استحصال سے پاک سماج کے قیام کے لیے وقف کی تھی۔ وہ زندگی کی آخری رمق تک اپنے آدرش کے اسیر رہے۔ جدوجہد کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھنے والوں کے لیے اس جوڑے کی زندگی مشعل راہ ہے۔