فاتح عمران خان
جس طرح والہانہ استقبال عمران خان کاوائٹ ہاؤس میں کیاگیااس استقبال نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کونئی زندگی بخشی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان امریکا کا دورہ مکمل کر کے واپس وطن پہنچ چکے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وزیر اعظم پاکستان امریکی انتظامیہ کے دل جیت کر پاکستان واپس لوٹے ہیں۔ پاکستان امریکا تعلقات ستر برسوں پر محیط ہیں ان میں اتار چڑھاؤ آتے رہے، کبھی امریکا میںکوئی ایسا حکمران آگیا جس کو پاکستان پسند تھا تو تعلقات کی نوعیت بہتر ہو گئی اور جس حکمران کو پاکستان پسند نہیں تھا اس کے دور میں تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں رہی جو کہ ایک پرانے تعلق کا خاصہ ہوتی ہے۔
امریکا کے موجودہ صدر بھی کچھ عرصہ قبل تک پاکستان سے شکوہ و شکایت ہی کرتے رہے لیکن جس طرح والہانہ استقبال عمران خان کا وائٹ ہاؤس میں کیا گیا ہے اس استقبال نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو نئی زندگی بخشی ہے، دونوں طرف سے دلوں میں اگر کوئی کدورتیں تھیں تو وہ دونوں سربراہوں کی بے تکلف ملاقات میں دور ہو گئی ہیں اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ امریکا اب پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے اور اس کی وجہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے جس کی ایک بار پھر امریکا کو ضرورت ہے اور اس نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ اگر امریکا نے اس خطے میں اگر کوئی مہم جوئی کرنا ہے تو وہ پاکستان کے تعاون اور معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
امریکی صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ اگر چاہئیں تو چند دنوں میں افغانستان کو فتح کر لیں لیکن اس میں انسانی جانوں کا بہت زیادہ نقصان ہو گا، اس کے جواب میں عمران خان کا یہ کہنا ہی کافی ہے کہ امریکی شائد افغانیوں کی تاریخ سے واقف نہیں یا وہ بھول چکے ہیں کہ سخت جان افغانوں نے کس طرح دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور اس جنگ میں امریکا افغانستان کا صف اول کا اتحادی تھا بلکہ یہ جنگ امریکیوں کے ایما پر افغانوں اور پاکستانیوں نے مل کر لڑی تھی جس کا تحفہ ہمیں دہشتگردی کی صورت میں ملا ہے ۔
امریکیوں کے افغان مجاہدین کے ساتھ مل کربلند کیے گئے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج آج بھی افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکراتی پھرتی ہے اور انھی پہاڑوں سے ٹکرا کر سوویت یونین اپنے انجام کو پہنچ گیا جب کہ امریکا بھی پچھلی دودہائیوں سے افغانستان کے مجاہدوں پراپنے خوفناک ترین ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود ان کو تسخیر کرنے سے قاصر ہے اور اب اس کو باعزت واپسی کے لیے محفوظ راستے کی ضرورت ہے جو کہ ظاہر ہے اسے پاکستان کے علاوہ کوئی اورفراہم نہیں کر سکتا۔
یہی وہ اصل حقیقت ہے جس کی وجہ سے امریکی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی تجدید کرنا چاہتے ہیں اور اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں ۔ امریکیوںکے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنا مطلب نکالنے کے بعد اپنے دوستوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں اور ہم خود اس کے گواہ ہیں جب سوویت افغان جنگ کے بعد امریکی افغانستان کو مجاہدین کے سپرد کر کے سات سمندر پار چلے گئے ۔ طالبان کا تحفہ ان امریکیوں کی ہی نشانی ہے جس کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنے کامیاب بلکہ فاتحانہ دورہ امریکا میں پاکستان کی اصل اور مکمل ترجمانی کرکے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے دل بھی جیت لیے ہیں اور اپنے دشمن بھارت کے گھر میں آگ بھی دہکا دی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کے کسی سربراہ کی ایک مدت کے بعد امریکیوں نے پذیرائی کی ہے اور عمران خان نے جس طرح عالمی میڈیا کے سامنے دلیری اور وضاحت سے پاکستان کا موقف پیش کیا ہے یہ ایک جرات مند مسلمان کی نشانی ہے جس نے امریکا میں بیٹھ کر اپنے ہمسائے چین کی تعریف بھی کی ہے افغانستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی کو رد بھی کیا ہے اور ایران کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ بات چیت کا مشورہ بھی دیا ہے۔
دنیا کی واحد سپر پاور کو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پرثالثی پر رضامندی کا بھی اظہار کیا ہے اور عافیہ صدیقی کے مسئلے پر بات چیت کی مشروط آمادگی بھی ظاہر کی ہے ۔عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک کے ساتھ طویل نشست میں جس تفصیل سے پاکستان کا موقف پیش کیا اور ان کے ذہنوں میں پاکستان کے متعلق موجود خدشات کا جس تحمل اور بردباری سے جواب دیا ہے ایسا رکھ رکھاؤ ایک مدت کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ ایک مدت کے بعد دنیا بھر میںاجاگرہوا ہے اور اس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے جنھوں نے عالمی طاقت کے سربراہ کے ساتھ بھارت اور پاکستان کے مابین اس اہم دیرینہ تنارع کو اٹھایا اور صدر ٹرمپ نے اس پرثالثی کی پیشکش کر دی جس کو دنیا بھر کی امن پسند طاقتوں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے اور کشمیر کے سرکردہ لیڈروں نے امریکا کو کہا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جب بھی کسی عالمی فورم پر کشمیر میں بھارت کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بات ہوتی ہے تو اس کے ردعمل میں بھارت میں آگ لگ جاتی ہے اور صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی خواہش کا بر ملاء اظہارکر کے بھارت میں آگ لگا دی ہے ۔
بھارتی پارلیمنٹ میں مودی کو جواب دینے کا کہا جارہا ہے اوربھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ پاکستان اور امریکا میں تناؤ ختم ہونے پر بھارتی میڈیا آگ بگولا ہے اور اپنے وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے کشمیر کے متعلق بیان کو جھوٹا قرار دینے کی زورشور سے کوشش جاری ہے۔جس کی وائٹ ہاؤس کی جانب سے تردید بھی کی جا چکی ہے ۔
یہ بات تو تسلیم کر لینی چاہیے کہ عمران خان ایک کامیاب دورے کے بعد پاکستان واپس پہنچے ہیں ان کی باڈی لینگوئج ہی اس بات کا اظہار تھی کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاورامریکا کے رعب و دبدبے سے متاثر ہوئے بغیر دلیری کے ساتھ پاکستانی موقف امریکیوں تک پہنچا آئے ہیں یہ پاکستان کی سفارتی محاذ پر بہت بڑی کامیابی ہے، پاکستانی حلقوں میں عمران خان کی پر اعتماد شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ امریکا کے اس پہلے دورے میں عمران خان پاکستانی عوام کے دلوں کو فتح کر کے واپس لوٹے ہیں۔
امریکا کے موجودہ صدر بھی کچھ عرصہ قبل تک پاکستان سے شکوہ و شکایت ہی کرتے رہے لیکن جس طرح والہانہ استقبال عمران خان کا وائٹ ہاؤس میں کیا گیا ہے اس استقبال نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو نئی زندگی بخشی ہے، دونوں طرف سے دلوں میں اگر کوئی کدورتیں تھیں تو وہ دونوں سربراہوں کی بے تکلف ملاقات میں دور ہو گئی ہیں اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ امریکا اب پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے اور اس کی وجہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے جس کی ایک بار پھر امریکا کو ضرورت ہے اور اس نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ اگر امریکا نے اس خطے میں اگر کوئی مہم جوئی کرنا ہے تو وہ پاکستان کے تعاون اور معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
امریکی صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ اگر چاہئیں تو چند دنوں میں افغانستان کو فتح کر لیں لیکن اس میں انسانی جانوں کا بہت زیادہ نقصان ہو گا، اس کے جواب میں عمران خان کا یہ کہنا ہی کافی ہے کہ امریکی شائد افغانیوں کی تاریخ سے واقف نہیں یا وہ بھول چکے ہیں کہ سخت جان افغانوں نے کس طرح دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور اس جنگ میں امریکا افغانستان کا صف اول کا اتحادی تھا بلکہ یہ جنگ امریکیوں کے ایما پر افغانوں اور پاکستانیوں نے مل کر لڑی تھی جس کا تحفہ ہمیں دہشتگردی کی صورت میں ملا ہے ۔
امریکیوں کے افغان مجاہدین کے ساتھ مل کربلند کیے گئے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج آج بھی افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکراتی پھرتی ہے اور انھی پہاڑوں سے ٹکرا کر سوویت یونین اپنے انجام کو پہنچ گیا جب کہ امریکا بھی پچھلی دودہائیوں سے افغانستان کے مجاہدوں پراپنے خوفناک ترین ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود ان کو تسخیر کرنے سے قاصر ہے اور اب اس کو باعزت واپسی کے لیے محفوظ راستے کی ضرورت ہے جو کہ ظاہر ہے اسے پاکستان کے علاوہ کوئی اورفراہم نہیں کر سکتا۔
یہی وہ اصل حقیقت ہے جس کی وجہ سے امریکی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی تجدید کرنا چاہتے ہیں اور اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں ۔ امریکیوںکے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنا مطلب نکالنے کے بعد اپنے دوستوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں اور ہم خود اس کے گواہ ہیں جب سوویت افغان جنگ کے بعد امریکی افغانستان کو مجاہدین کے سپرد کر کے سات سمندر پار چلے گئے ۔ طالبان کا تحفہ ان امریکیوں کی ہی نشانی ہے جس کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنے کامیاب بلکہ فاتحانہ دورہ امریکا میں پاکستان کی اصل اور مکمل ترجمانی کرکے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے دل بھی جیت لیے ہیں اور اپنے دشمن بھارت کے گھر میں آگ بھی دہکا دی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کے کسی سربراہ کی ایک مدت کے بعد امریکیوں نے پذیرائی کی ہے اور عمران خان نے جس طرح عالمی میڈیا کے سامنے دلیری اور وضاحت سے پاکستان کا موقف پیش کیا ہے یہ ایک جرات مند مسلمان کی نشانی ہے جس نے امریکا میں بیٹھ کر اپنے ہمسائے چین کی تعریف بھی کی ہے افغانستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی کو رد بھی کیا ہے اور ایران کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ بات چیت کا مشورہ بھی دیا ہے۔
دنیا کی واحد سپر پاور کو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پرثالثی پر رضامندی کا بھی اظہار کیا ہے اور عافیہ صدیقی کے مسئلے پر بات چیت کی مشروط آمادگی بھی ظاہر کی ہے ۔عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک کے ساتھ طویل نشست میں جس تفصیل سے پاکستان کا موقف پیش کیا اور ان کے ذہنوں میں پاکستان کے متعلق موجود خدشات کا جس تحمل اور بردباری سے جواب دیا ہے ایسا رکھ رکھاؤ ایک مدت کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ ایک مدت کے بعد دنیا بھر میںاجاگرہوا ہے اور اس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے جنھوں نے عالمی طاقت کے سربراہ کے ساتھ بھارت اور پاکستان کے مابین اس اہم دیرینہ تنارع کو اٹھایا اور صدر ٹرمپ نے اس پرثالثی کی پیشکش کر دی جس کو دنیا بھر کی امن پسند طاقتوں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے اور کشمیر کے سرکردہ لیڈروں نے امریکا کو کہا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جب بھی کسی عالمی فورم پر کشمیر میں بھارت کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بات ہوتی ہے تو اس کے ردعمل میں بھارت میں آگ لگ جاتی ہے اور صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی خواہش کا بر ملاء اظہارکر کے بھارت میں آگ لگا دی ہے ۔
بھارتی پارلیمنٹ میں مودی کو جواب دینے کا کہا جارہا ہے اوربھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ پاکستان اور امریکا میں تناؤ ختم ہونے پر بھارتی میڈیا آگ بگولا ہے اور اپنے وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے کشمیر کے متعلق بیان کو جھوٹا قرار دینے کی زورشور سے کوشش جاری ہے۔جس کی وائٹ ہاؤس کی جانب سے تردید بھی کی جا چکی ہے ۔
یہ بات تو تسلیم کر لینی چاہیے کہ عمران خان ایک کامیاب دورے کے بعد پاکستان واپس پہنچے ہیں ان کی باڈی لینگوئج ہی اس بات کا اظہار تھی کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاورامریکا کے رعب و دبدبے سے متاثر ہوئے بغیر دلیری کے ساتھ پاکستانی موقف امریکیوں تک پہنچا آئے ہیں یہ پاکستان کی سفارتی محاذ پر بہت بڑی کامیابی ہے، پاکستانی حلقوں میں عمران خان کی پر اعتماد شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ امریکا کے اس پہلے دورے میں عمران خان پاکستانی عوام کے دلوں کو فتح کر کے واپس لوٹے ہیں۔