سارے رنگ
آج بازار میں پابہ جولاں چلو، دست افشاں چلو، مست ورقصاں چلو
بھئی، وہ کیڑے کہاں چلے گئے۔۔۔؟
خانہ پُری
ر۔ط۔م
ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ذرایع اِبلاغ کی بہتات ہونے سے سچائی سامنے آرہی ہے یا سچائی کے برعکس غیرحقیقت پسندی، جھوٹ اور پروپیگنڈے کو راہ مل رہی ہے۔ بالخصوص 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) کے بے قابو ذریعے سے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہر ایراغیرا کچھ بھی کہنے اور دکھانے کا 'حق' حاصل کرچکا ہے۔ نتیجتاً ہم آئے روز بہت سی درست اور غلط ویڈیو دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں، ایسے ہی ایک ویڈیو گذشتہ دنوں سامنے آئی، جس میں 'جیل چورنگی' کراچی کے ایک بڑے اسٹور میں ایک شہری بیکری کی کچھ چیزیں لا کر دکھا رہا ہے کہ یہ دیکھیں اس میں کیڑے چل رہے ہیں، جس پر عملہ اس سے تاسف کا اظہار کرتا ہے اور معذرت چاہتا ہے، اس دوران وہ شہری بتاتا ہے کہ اس کے بچے نے نہ صرف یہ چیز کھالی ہے، بلکہ اس سے اُسے خون کی الٹی بھی ہوئی ہے۔ پھر وہ اشتعال میں آکر اسٹور میں رکھی ہوئی چیزیں پھینکنے لگتا ہے اور چلاتے ہوئے کہنے لگتا ہے کہ میں تمہارا بیڑہ غرق کر دوں گا، تم لوگ ہمارے بچوں کی جانوں سے کھیل رہے ہو، تم بھی کھائو یہ، میں رپورٹ بنا کر لا رہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ عملہ اس دوران 'سوری' کہتا رہتا ہے۔ اور ڈیڑھ منٹ کی یہ ویڈیو ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے کچھ وقت بعد تین منٹ کے دورانیے کی ایک دوسری ویڈیو منظر عام پر آجاتی ہے، جس میں پولیس حکام کی موجودگی میں ایک شخص خود کو 'سندھ فوڈ اتھارٹی' کا ذمہ دار بتاتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ ہمیں 'سوشل میڈیا' کے ذریعے یہ شکایت ملی تھی اور ہم موقع پر پہنچے، اور اب ہم آپ کو دکھا دیتے ہیں شکایت کنندہ اور انتظامیہ کا کیا موقف ہے۔' پھر پچھلی ویڈیو کے وہی برہم شہری مسکراتے ہوئے اپنے اُس غصے کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اصل میں بچے نے پیزا کھایا اور وہ حلق میں اٹکنے سے الٹیاں آنا شروع ہوگئیں اور بعد میں پتا چلا تھا کہ پیزے کے اندر جو کیچپ تھا وہ الٹی میں نکلا تھا۔۔۔ مجھے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے اور میں 'سندھ فوڈ اتھارٹی' کو سراہتا ہوں اور مجھے انتظامیہ سے کوئی شکایت نہیں ہے!' اس کے بعد انتظامیہ کا ایک فرد بھی اس 'غلط فہمی' کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے بھی ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، انہوں نے رات کو ہی ہم سے معذرت کرلی تھی وغیرہ۔ آخر میں وہ شہری اسٹور کی انتظامیہ کا شکرگزار ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت 'تعاون' کیا، اور یہ بچے کو دیکھنے بھی آئے، اور تحائف بھی دیے، بچہ بالکل ٹھیک ہے۔
پھر انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ ہم نے فروخت روک کر اپنا وہ سارا سامان چاہے صحیح تھا یا خراب، ختم کر دیا تھا۔ اسے 'سندھ فوڈ اتھارٹی' نے بھی چیک کیا، بچے کے والد کو بلا کر اسے کلیئریفائی کرنا پڑا۔' پھر وہ بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ 'سندھ فوڈ اتھارٹی' کام کر رہی ہے۔
دونوں ویڈیو دیکھنے کے بعد ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر وہ جو کھانے میں سے کیڑے نکلے تھے، اب وہ کہاں چلے گئے؟ حکام کی جانب سے اس خراب چیز پر کیا جرمانہ، ہرجانہ یا سزا کی گئی؟ مگر یہاں تو سرے سے ذمہ داری ہی قبول نہیں کی گئی، حکام کی کارروائی تو بہت دور کی بات ہے، الٹا شکایت کنندہ شہری سے ہی معذرت کروا لی گئی، جس نے کتنی آسانی سے بچے کی الٹیوں کو پیزا حلق میں اٹکنے کا شاخسانہ اور خون کی الٹی کو 'پیزے کا کیچپ' نکلنا کہہ کر بات ختم کر ڈالی۔۔۔! جانے پیزوں میں اتنی مقدار میں کیچپ کہاں ڈالا جاتا ہے۔ یا اگر پیزے پر ڈال کر بھی کھایا جاتا ہے، تو وہ اتنا زیادہ تھا کہ الٹی میں نکلا تو خون کا گمان ہوگیا۔۔۔؟ یہ امر بھی جواب طلب ہے کہ بچے کو خون کی الٹی جیسی سنگین کیفیت میں والد موصوف ڈاکٹر کے پاس جانے کے بہ جائے اسے لے کر اسٹور کیوں جا پہنچے؟ یا اگر سرے سے الٹی ہوئی ہی نہیں تھی تو انہیں دوسری ویڈیو میں اس جھوٹ کا اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ غالباً دوسری ویڈیو کسی دبائو کا نتیجہ ہے یا پھر کچھ لے دے کر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب صبح وشام عوام میں اس طرح کی مبہم اور غیر واضح چیزیں پھیلائی جائیں گی، تو پھر لازم ہو جاتا ہے کہ اس حوالے سے بنیادی سوالوں کے جواب بھی تلاش کیے جائیں۔۔۔!
۔۔۔
''میں تو اسی دن قتل ہوگیا تھا۔۔۔''
مرسلہ: سہیل اختر،گلشن معمار
عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ ''میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا'' اس کی حکایت یہ ہے کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید، ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بناتے کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔
ایک دن شیر نے ایک چال چلی، لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ اُسے بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ 'محفوظ' نظر آ رہی تھی۔ لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا، تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا۔ پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اب اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا۔۔۔ سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے 'بھائی چارے' کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا۔ وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے، میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس تمام ہو جاتا، تھوڑے دن گزرے کہ شیر نے اب لال بیل کو بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ... ''میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا۔۔۔!''
۔۔۔
تَرک محبت موت ہے۔۔۔!
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
خدائی مشیت کے سانچے میں ڈھل جانا اور اس کی پہچان ہے محبت۔ محبت فطری و بنیادی چیز ہے۔۔۔ نفرت انقطاع محبت کا نام ہے، جو کسی حادثہ و تصادم کا نتیجہ ہوتی ہے۔ محبت تمام نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام جذبات عالیہ کی خالق ہے، اسی سے آواز میں لوچ، بات میں شیرینی، چہرے پر حُسن، رفتار میں انکسار اور کردار میں وسعت آتی ہے، دوسری طرف غصہ، نفرت انتقام اور حسد دنیائے دل کو ویران اور چہرے کو بے نور اور خوف ناک بنا دیتے ہیں۔ حاسد اور سازشی کی رفتار تک نا ہم وار ہو جاتی ہے، وہ ہر طرف نفرت پھیلاتا ہے۔ اہل محبت، نفرت کا جواب محبت سے دیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں: ''دنیا سے بہترین سلوک کرو اور جواباً تم سے بہترین سلوک کیا جائے گا۔''
جن لوگوں کے دل میں اللہ بس جاتا ہے ان کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ ہر شخص سے محبت کرتے ہیں۔ خطا کاروں کی خطائیں بخشتے ہیں اور گالیوں کے جواب میں دعائیں دیتے ہیں۔ کسی مفکر کا قول ہے: ''نفرت سے نفرت ختم نہیں ہو سکتی، اس پر محبت سے غلبہ حاصل کرو، دنیا کو محبت کرنا سکھائو اور جنت اپنی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یہی وارد ہو جائے گی۔ ترک محبت موت ہے، جو شخص سب سے محبت کرتا ہے اس کی زندگی بھرپور اور کامل ہے اور اس کی زیبائی و توانائی میں سدا اضافہ ہوتا رہے گا۔''
محبت کا سب بڑا وصف انکسار ہے۔ دوسروں سے نفرت کرنے والے کرخت، مغرور، تند مزاج اور بدمزاج ہوتے ہیں اور اہل محبت بول میں میٹھے، چال میں دھیمے اور مزاج کے نرم ہوتے ہیں۔ اس میں قطعاً کوئی کلام نہیں کہ غرور حماقت ہے اور تواضع بہت بڑی دانش۔ کسی دانا کا قول ہے: ''اگر دانش حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکسار پیدا کرو اور اگر حاصل کر چکے تو زیادہ خاکسار بنو''
('مَن کی دنیا' از ڈاکٹر غلام جیلانی برق سے لیا گیا)
۔۔۔
یہ کرکٹ 'وِرکٹ' بھی ناں۔۔۔
امجد محمود چشتی، میاں چنوں
کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک بائولر عجیب انداز میں بھاگ کر ایک ایسے شخص کو گیند مارتا ہے، جو پہلے سے ہی رضائیوں، گدوں، دستانوں اور ہیلمٹ میں 'پھنسا' ہوا ہوتا ہے۔ عرف عام میں اِسے 'بلے باز' کہتے ہیں۔ ہمیں تو یہ اپنے لباس اور وضع قطع سے انتہائی مذہبی اور متقی نظر آتا ہے۔ یہ میدان میں اکیلا نہیں ہوتا، بلکہ بہت سے 'فیلڈرز' بھی ہوتے ہیں جو اس کے بلے سے 'پِٹ' کر سرپٹ دوڑتی ہوئی گیند کے تعاقب پر مامور ہوتے ہیں۔
اسی میدان میں سب سے کم گو اور ساکن شخصیت امپائر کی ہوتی ہے، جو آؤٹ ہونے والے ہر کھلاڑی پر انگلی اٹھانا نہیں بھولتا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ دائم کوئی یہاں نہیں رہا، واحد اللہ کی ذات ہی ہے جو باقی رہے گی، باقی سب فانی ہے۔ البتہ چوکوں، چھکوں پر اُس کے ہاتھوں کی حرکت خاصی مجذوبانہ ہوتی ہے۔ ہزاروں لوگ یہ سب کچھ کھلے آسمان تلے پانچ روز تک دیکھتے ہیں، جب کہ باقی لاکھوں افراد گھروں میں ٹی وی اسکرین کے سامنے یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔
پانچ دن والی بات دھیرے دھیرے لوگوں کو سمجھ میں آئی اور اسے کھینچ کھانچ کر ایک روز اور پھر اس سے بھی نصف کردیا گیا ہے۔ لوگوں میں کرکٹ کا جنون دیکھتے ہوئے ہمیں تو لگتا ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں کرکٹ کا حوالہ شامل کر دینا چاہیے، جیسا کہ ایک کرکٹ زدہ خیال ہے کہ جنت میں خوب صورت میدان اور معیاری 'پچز' ہوں گی۔ وہاں کا ایک رن 70 ہزار رنز کے برابر ہو گا۔ بائولر کی گیند کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی گھنٹا ہوگی۔ فیلڈر چوتھے آسمان تک کود کر کیچ پکڑ سکے گا۔ ہر کھلاڑی کا ذاتی پویلین ہوگا۔ شائقین میں لاکھوں حوریں بھی ہوں گی، جن میں خوش قسمتی سے بیویاں شامل نہیں ہوں گی۔ وہاں کوئی کھلاڑی ان فٹ نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی میچ فکس کر سکے گا۔ شکست کا نام و نشان تک نہ ہو گا اور کھلاڑیوں کے خلاف احتجاج بھی نہیں ہوں گے۔
۔۔۔
صدلفظی کتھا
پیمائش
رضوان طاہر مبین
''بارش بہت تیز ہے۔''
پیٹر نے کھڑکی کے شیشے سے دھندلاتا منظر دیکھ کر اندازہ لگایا۔
''ہاں واقعی بہت موسلا دھار۔۔۔''
جون نے کھڑکی کھول کر ہاتھ باہر نکال کر یقینی لہجے میں کہا۔
''بالکل، بہت زور دار برسات ہے آج۔''
ہیری نے صحن کے پکے فرش پر پڑتی ہوئی بوندیں دیکھ کر سب سے اتفاق کیا۔
''ہم اپنے ہاں بارش کی پیمائش اس طرح نہیں کرتے!''
ثمر بولا۔
''ظاہر ہے حتمی طور پر تو محکمہ موسمیات سے ہی پتا چلاتے ہوں گے۔''
پیٹر نے ٹکڑا لگایا۔
''نہیں، سڑکوں پر جمع ہونے والے پانی سے۔۔۔!''
ثمر نے جواب دیا۔
...
جیل میں جب فیض کے دانتمیں درد ہوا۔۔۔
رام لعل
1951ء میں راول پنڈی سازش کیس میں جب فیض جیل میں ڈال دیے گئے، تو ان کے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کے علاوہ سجاد ظہیر بھی تھے۔ ان دونوں کا ساتھ 1955ء تک رہا۔ یہیں سے فیض کی حقیقی مقبولیت کا آغاز ہوتا ہے، جو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر تھی۔ سجاد ظہیر نے جیل سے جو بے شمار خط اپنی بیوی رضیہ سجاد ظہیر کو لکھے ہیں ان میں فیض کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔ ان خطوں سے ساس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ فیض جب بھی کوئی نئی نظم لکھتے تھے تو جیل کے اندر اس خوشی میں ایک جشن منایا جاتا تھا۔ اس سے متعلق خبروں کے علاوہ ان کے نظمیں جیل سے باہر بھی کسی نہ کسی ذریعے سے یقیناً پہنچ جاتی تھیں، جنہیں پاکستان و بھارت کے ترقی پسند رسالے ایک تحفے کے طور پر چھاپ لیتے تھے۔ جیل کے باہر ان کی شہرت دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ان کے اولین مجموعۂ کلام 'نقشِ فریادی' کے پانچ ایڈیشن چھپ کر ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے۔ لاہور جیل میں قید کے دوران فیض کے ایک دانت میں شدید درد رہنے لگا تھا جس کے علاج کے لیے انہیں کڑے پہرے میں جیل کے باہر ایک ڈاکٹر کے کلینک لے جایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ وہاں لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست نہ کیا جا سکا، تو انہیں تانگے میں سوار کرا کے لے جایا گیا۔ ان کے دونوں طرف اور آگے بھی بندوق بردار سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس روز کا قصہ خود فیض کی زبانی سنیے:
''ہم لاہور کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ لاہور ہمارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ پھر لوگوں نے ہمیں پہچان لیا۔ بازار میں ہمارا تانگہ کھڑا تھا اور اس کے اردگرد یاران وفا کا ہجوم۔ ان میں نان بائیوں سے لے کر معروف صحافیوں تک سبھی شامل تھے۔ بالکل جلوس کی شکل بن گئی۔ میں نے زندگی میں ایسا دل کش جلوس نہیں دیکھا۔ اسی سے متاثر ہوکر یہ نظم لکھی؎
آج بازار میں پابہ جولاں چلو، دست افشاں چلو، مست ورقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو، راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
(تصنیف ''دریچوں میں رکھے چراغ'' ترتیب وپیش کش راشد اشرف، سے چُنا گیا)
خانہ پُری
ر۔ط۔م
ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ذرایع اِبلاغ کی بہتات ہونے سے سچائی سامنے آرہی ہے یا سچائی کے برعکس غیرحقیقت پسندی، جھوٹ اور پروپیگنڈے کو راہ مل رہی ہے۔ بالخصوص 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) کے بے قابو ذریعے سے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہر ایراغیرا کچھ بھی کہنے اور دکھانے کا 'حق' حاصل کرچکا ہے۔ نتیجتاً ہم آئے روز بہت سی درست اور غلط ویڈیو دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں، ایسے ہی ایک ویڈیو گذشتہ دنوں سامنے آئی، جس میں 'جیل چورنگی' کراچی کے ایک بڑے اسٹور میں ایک شہری بیکری کی کچھ چیزیں لا کر دکھا رہا ہے کہ یہ دیکھیں اس میں کیڑے چل رہے ہیں، جس پر عملہ اس سے تاسف کا اظہار کرتا ہے اور معذرت چاہتا ہے، اس دوران وہ شہری بتاتا ہے کہ اس کے بچے نے نہ صرف یہ چیز کھالی ہے، بلکہ اس سے اُسے خون کی الٹی بھی ہوئی ہے۔ پھر وہ اشتعال میں آکر اسٹور میں رکھی ہوئی چیزیں پھینکنے لگتا ہے اور چلاتے ہوئے کہنے لگتا ہے کہ میں تمہارا بیڑہ غرق کر دوں گا، تم لوگ ہمارے بچوں کی جانوں سے کھیل رہے ہو، تم بھی کھائو یہ، میں رپورٹ بنا کر لا رہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ عملہ اس دوران 'سوری' کہتا رہتا ہے۔ اور ڈیڑھ منٹ کی یہ ویڈیو ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے کچھ وقت بعد تین منٹ کے دورانیے کی ایک دوسری ویڈیو منظر عام پر آجاتی ہے، جس میں پولیس حکام کی موجودگی میں ایک شخص خود کو 'سندھ فوڈ اتھارٹی' کا ذمہ دار بتاتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ ہمیں 'سوشل میڈیا' کے ذریعے یہ شکایت ملی تھی اور ہم موقع پر پہنچے، اور اب ہم آپ کو دکھا دیتے ہیں شکایت کنندہ اور انتظامیہ کا کیا موقف ہے۔' پھر پچھلی ویڈیو کے وہی برہم شہری مسکراتے ہوئے اپنے اُس غصے کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اصل میں بچے نے پیزا کھایا اور وہ حلق میں اٹکنے سے الٹیاں آنا شروع ہوگئیں اور بعد میں پتا چلا تھا کہ پیزے کے اندر جو کیچپ تھا وہ الٹی میں نکلا تھا۔۔۔ مجھے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے اور میں 'سندھ فوڈ اتھارٹی' کو سراہتا ہوں اور مجھے انتظامیہ سے کوئی شکایت نہیں ہے!' اس کے بعد انتظامیہ کا ایک فرد بھی اس 'غلط فہمی' کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے بھی ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، انہوں نے رات کو ہی ہم سے معذرت کرلی تھی وغیرہ۔ آخر میں وہ شہری اسٹور کی انتظامیہ کا شکرگزار ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت 'تعاون' کیا، اور یہ بچے کو دیکھنے بھی آئے، اور تحائف بھی دیے، بچہ بالکل ٹھیک ہے۔
پھر انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ ہم نے فروخت روک کر اپنا وہ سارا سامان چاہے صحیح تھا یا خراب، ختم کر دیا تھا۔ اسے 'سندھ فوڈ اتھارٹی' نے بھی چیک کیا، بچے کے والد کو بلا کر اسے کلیئریفائی کرنا پڑا۔' پھر وہ بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ 'سندھ فوڈ اتھارٹی' کام کر رہی ہے۔
دونوں ویڈیو دیکھنے کے بعد ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر وہ جو کھانے میں سے کیڑے نکلے تھے، اب وہ کہاں چلے گئے؟ حکام کی جانب سے اس خراب چیز پر کیا جرمانہ، ہرجانہ یا سزا کی گئی؟ مگر یہاں تو سرے سے ذمہ داری ہی قبول نہیں کی گئی، حکام کی کارروائی تو بہت دور کی بات ہے، الٹا شکایت کنندہ شہری سے ہی معذرت کروا لی گئی، جس نے کتنی آسانی سے بچے کی الٹیوں کو پیزا حلق میں اٹکنے کا شاخسانہ اور خون کی الٹی کو 'پیزے کا کیچپ' نکلنا کہہ کر بات ختم کر ڈالی۔۔۔! جانے پیزوں میں اتنی مقدار میں کیچپ کہاں ڈالا جاتا ہے۔ یا اگر پیزے پر ڈال کر بھی کھایا جاتا ہے، تو وہ اتنا زیادہ تھا کہ الٹی میں نکلا تو خون کا گمان ہوگیا۔۔۔؟ یہ امر بھی جواب طلب ہے کہ بچے کو خون کی الٹی جیسی سنگین کیفیت میں والد موصوف ڈاکٹر کے پاس جانے کے بہ جائے اسے لے کر اسٹور کیوں جا پہنچے؟ یا اگر سرے سے الٹی ہوئی ہی نہیں تھی تو انہیں دوسری ویڈیو میں اس جھوٹ کا اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ غالباً دوسری ویڈیو کسی دبائو کا نتیجہ ہے یا پھر کچھ لے دے کر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب صبح وشام عوام میں اس طرح کی مبہم اور غیر واضح چیزیں پھیلائی جائیں گی، تو پھر لازم ہو جاتا ہے کہ اس حوالے سے بنیادی سوالوں کے جواب بھی تلاش کیے جائیں۔۔۔!
۔۔۔
''میں تو اسی دن قتل ہوگیا تھا۔۔۔''
مرسلہ: سہیل اختر،گلشن معمار
عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ ''میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا'' اس کی حکایت یہ ہے کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید، ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بناتے کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔
ایک دن شیر نے ایک چال چلی، لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ اُسے بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ 'محفوظ' نظر آ رہی تھی۔ لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا، تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا۔ پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اب اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا۔۔۔ سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے 'بھائی چارے' کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا۔ وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے، میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس تمام ہو جاتا، تھوڑے دن گزرے کہ شیر نے اب لال بیل کو بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ... ''میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا۔۔۔!''
۔۔۔
تَرک محبت موت ہے۔۔۔!
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
خدائی مشیت کے سانچے میں ڈھل جانا اور اس کی پہچان ہے محبت۔ محبت فطری و بنیادی چیز ہے۔۔۔ نفرت انقطاع محبت کا نام ہے، جو کسی حادثہ و تصادم کا نتیجہ ہوتی ہے۔ محبت تمام نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام جذبات عالیہ کی خالق ہے، اسی سے آواز میں لوچ، بات میں شیرینی، چہرے پر حُسن، رفتار میں انکسار اور کردار میں وسعت آتی ہے، دوسری طرف غصہ، نفرت انتقام اور حسد دنیائے دل کو ویران اور چہرے کو بے نور اور خوف ناک بنا دیتے ہیں۔ حاسد اور سازشی کی رفتار تک نا ہم وار ہو جاتی ہے، وہ ہر طرف نفرت پھیلاتا ہے۔ اہل محبت، نفرت کا جواب محبت سے دیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں: ''دنیا سے بہترین سلوک کرو اور جواباً تم سے بہترین سلوک کیا جائے گا۔''
جن لوگوں کے دل میں اللہ بس جاتا ہے ان کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ ہر شخص سے محبت کرتے ہیں۔ خطا کاروں کی خطائیں بخشتے ہیں اور گالیوں کے جواب میں دعائیں دیتے ہیں۔ کسی مفکر کا قول ہے: ''نفرت سے نفرت ختم نہیں ہو سکتی، اس پر محبت سے غلبہ حاصل کرو، دنیا کو محبت کرنا سکھائو اور جنت اپنی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یہی وارد ہو جائے گی۔ ترک محبت موت ہے، جو شخص سب سے محبت کرتا ہے اس کی زندگی بھرپور اور کامل ہے اور اس کی زیبائی و توانائی میں سدا اضافہ ہوتا رہے گا۔''
محبت کا سب بڑا وصف انکسار ہے۔ دوسروں سے نفرت کرنے والے کرخت، مغرور، تند مزاج اور بدمزاج ہوتے ہیں اور اہل محبت بول میں میٹھے، چال میں دھیمے اور مزاج کے نرم ہوتے ہیں۔ اس میں قطعاً کوئی کلام نہیں کہ غرور حماقت ہے اور تواضع بہت بڑی دانش۔ کسی دانا کا قول ہے: ''اگر دانش حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکسار پیدا کرو اور اگر حاصل کر چکے تو زیادہ خاکسار بنو''
('مَن کی دنیا' از ڈاکٹر غلام جیلانی برق سے لیا گیا)
۔۔۔
یہ کرکٹ 'وِرکٹ' بھی ناں۔۔۔
امجد محمود چشتی، میاں چنوں
کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک بائولر عجیب انداز میں بھاگ کر ایک ایسے شخص کو گیند مارتا ہے، جو پہلے سے ہی رضائیوں، گدوں، دستانوں اور ہیلمٹ میں 'پھنسا' ہوا ہوتا ہے۔ عرف عام میں اِسے 'بلے باز' کہتے ہیں۔ ہمیں تو یہ اپنے لباس اور وضع قطع سے انتہائی مذہبی اور متقی نظر آتا ہے۔ یہ میدان میں اکیلا نہیں ہوتا، بلکہ بہت سے 'فیلڈرز' بھی ہوتے ہیں جو اس کے بلے سے 'پِٹ' کر سرپٹ دوڑتی ہوئی گیند کے تعاقب پر مامور ہوتے ہیں۔
اسی میدان میں سب سے کم گو اور ساکن شخصیت امپائر کی ہوتی ہے، جو آؤٹ ہونے والے ہر کھلاڑی پر انگلی اٹھانا نہیں بھولتا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ دائم کوئی یہاں نہیں رہا، واحد اللہ کی ذات ہی ہے جو باقی رہے گی، باقی سب فانی ہے۔ البتہ چوکوں، چھکوں پر اُس کے ہاتھوں کی حرکت خاصی مجذوبانہ ہوتی ہے۔ ہزاروں لوگ یہ سب کچھ کھلے آسمان تلے پانچ روز تک دیکھتے ہیں، جب کہ باقی لاکھوں افراد گھروں میں ٹی وی اسکرین کے سامنے یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔
پانچ دن والی بات دھیرے دھیرے لوگوں کو سمجھ میں آئی اور اسے کھینچ کھانچ کر ایک روز اور پھر اس سے بھی نصف کردیا گیا ہے۔ لوگوں میں کرکٹ کا جنون دیکھتے ہوئے ہمیں تو لگتا ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں کرکٹ کا حوالہ شامل کر دینا چاہیے، جیسا کہ ایک کرکٹ زدہ خیال ہے کہ جنت میں خوب صورت میدان اور معیاری 'پچز' ہوں گی۔ وہاں کا ایک رن 70 ہزار رنز کے برابر ہو گا۔ بائولر کی گیند کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی گھنٹا ہوگی۔ فیلڈر چوتھے آسمان تک کود کر کیچ پکڑ سکے گا۔ ہر کھلاڑی کا ذاتی پویلین ہوگا۔ شائقین میں لاکھوں حوریں بھی ہوں گی، جن میں خوش قسمتی سے بیویاں شامل نہیں ہوں گی۔ وہاں کوئی کھلاڑی ان فٹ نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی میچ فکس کر سکے گا۔ شکست کا نام و نشان تک نہ ہو گا اور کھلاڑیوں کے خلاف احتجاج بھی نہیں ہوں گے۔
۔۔۔
صدلفظی کتھا
پیمائش
رضوان طاہر مبین
''بارش بہت تیز ہے۔''
پیٹر نے کھڑکی کے شیشے سے دھندلاتا منظر دیکھ کر اندازہ لگایا۔
''ہاں واقعی بہت موسلا دھار۔۔۔''
جون نے کھڑکی کھول کر ہاتھ باہر نکال کر یقینی لہجے میں کہا۔
''بالکل، بہت زور دار برسات ہے آج۔''
ہیری نے صحن کے پکے فرش پر پڑتی ہوئی بوندیں دیکھ کر سب سے اتفاق کیا۔
''ہم اپنے ہاں بارش کی پیمائش اس طرح نہیں کرتے!''
ثمر بولا۔
''ظاہر ہے حتمی طور پر تو محکمہ موسمیات سے ہی پتا چلاتے ہوں گے۔''
پیٹر نے ٹکڑا لگایا۔
''نہیں، سڑکوں پر جمع ہونے والے پانی سے۔۔۔!''
ثمر نے جواب دیا۔
...
جیل میں جب فیض کے دانتمیں درد ہوا۔۔۔
رام لعل
1951ء میں راول پنڈی سازش کیس میں جب فیض جیل میں ڈال دیے گئے، تو ان کے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کے علاوہ سجاد ظہیر بھی تھے۔ ان دونوں کا ساتھ 1955ء تک رہا۔ یہیں سے فیض کی حقیقی مقبولیت کا آغاز ہوتا ہے، جو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر تھی۔ سجاد ظہیر نے جیل سے جو بے شمار خط اپنی بیوی رضیہ سجاد ظہیر کو لکھے ہیں ان میں فیض کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔ ان خطوں سے ساس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ فیض جب بھی کوئی نئی نظم لکھتے تھے تو جیل کے اندر اس خوشی میں ایک جشن منایا جاتا تھا۔ اس سے متعلق خبروں کے علاوہ ان کے نظمیں جیل سے باہر بھی کسی نہ کسی ذریعے سے یقیناً پہنچ جاتی تھیں، جنہیں پاکستان و بھارت کے ترقی پسند رسالے ایک تحفے کے طور پر چھاپ لیتے تھے۔ جیل کے باہر ان کی شہرت دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ان کے اولین مجموعۂ کلام 'نقشِ فریادی' کے پانچ ایڈیشن چھپ کر ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے۔ لاہور جیل میں قید کے دوران فیض کے ایک دانت میں شدید درد رہنے لگا تھا جس کے علاج کے لیے انہیں کڑے پہرے میں جیل کے باہر ایک ڈاکٹر کے کلینک لے جایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ وہاں لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست نہ کیا جا سکا، تو انہیں تانگے میں سوار کرا کے لے جایا گیا۔ ان کے دونوں طرف اور آگے بھی بندوق بردار سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس روز کا قصہ خود فیض کی زبانی سنیے:
''ہم لاہور کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ لاہور ہمارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ پھر لوگوں نے ہمیں پہچان لیا۔ بازار میں ہمارا تانگہ کھڑا تھا اور اس کے اردگرد یاران وفا کا ہجوم۔ ان میں نان بائیوں سے لے کر معروف صحافیوں تک سبھی شامل تھے۔ بالکل جلوس کی شکل بن گئی۔ میں نے زندگی میں ایسا دل کش جلوس نہیں دیکھا۔ اسی سے متاثر ہوکر یہ نظم لکھی؎
آج بازار میں پابہ جولاں چلو، دست افشاں چلو، مست ورقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو، راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
(تصنیف ''دریچوں میں رکھے چراغ'' ترتیب وپیش کش راشد اشرف، سے چُنا گیا)