ہمایوں کا مقبرہ
خوب صورت عمارت جسے یونیسکو کا ثقافتی ورثہ قرار دے دے گیا
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں واقع مغل بادشاہ نصیرالدین ہمایوں کا تاریخی مقبرہ عالمی شہرت کی حامل وہ تاریخی عمارت ہے جو انڈیا میں یونیسکو کی کلچرل ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کی نگرانی میں مسلسل ترقی کے مراحل طے کررہی ہے، اور یہ نئی دہلی میں بستی حضرت نظام الدین اولیاء کے مشرقی حصے میں ایک پر فضا مقام پر واقع ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں اور ہسٹری کے شوقین حضرات کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
ہمایوں کا مقبرہ ایک وسیع و عریض تاریخی اور شاہی مقبرہ ہے اور یہ بلاشبہہ مغل طرزتعمیر کا انوکھا اور حسین شاہ کار ہے جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے سیاح بے اختیار اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور تفصیل سے اس کی سیر کرتے اور اس کے بارے میں معلومات جمع کرتے ہیں۔جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے یہ مقبرہ مغل شہنشاہ ہمایوں کی آخری آرام گاہ ہے۔
واضح رہے کہ مقبرہ ہمایوں 1570 میں تعمیر کیا گیا تھا، اس کی بہت زبردست ثقافتی اہمیت ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ برصغیر میں پہلا مقبرہ تھا جو ایک وسیع و عریض اور سرسبز باغ میں تعمیر کیا گیا، ورنہ اس سے پہلے مقبرے تو تعمیر کیے جاتے تھے، مگر ان کے اطراف ایسے باغات نہیں لگائے جاتے تھے جیسے اس مقبرے کے اردگرد لگائے گئے اور اس کو حسین و دیدہ زیب بنایا گیا۔
یہ اس خطے کا وہ عظیم الشان مقبرہ ہے جو متعدد مغلئی عمارتوں کی طرز تعمیر سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا اور اس میں بنیادی طور پر تاج محل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس مقبرے کی تعمیر کے کام کا آغاز شہنشاہ ہمایوں کے بیٹے اکبراعظم نے 1569ء میں کرایا تھا۔یہ مقبرہ مسلم اور مغل طرزتعمیر کی ایک انوکھی اور کلاسیکی مثال ہے۔ اس مقبرے کے بعض اہم پہلو بعد کی متعدد تعمیرات میں بھی دکھائی دیتے ہیں، مثال کے طور پر تاج محل میں بھی اس مقبرے کی تعمیر کی جھلک بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور اسی کی وجہ سے مقبرے میں اصل تعمیراتی حسن پیدا ہوا ہے۔
ہمایوں کے مقبرے کا تعمیراتی ڈھانچا بہت شان دار بھی ہے اور بہت زیادہ بیش قیمت بھی۔ اس کی تمام جزئیات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر عہد کے تعمیراتی ماہرین کے لیے حیرت کا باعث بھی ہیں۔ اس
مقبرے کی تمام کھڑکیوں پر پتھریلی جالیاں لگی ہوئی ہیں جنہیں بڑی مہارت کے ساتھ تراشا گیا ہے اور یہ علم ہندسہ geometricکے اصول پر بنائی گئی ہیں، یعنی ان میں کہیں درمیان میں کاٹا پیٹا نہیں گیا ہے اور یہ ایک واحد اور ثابت پتھر سے تراشی گئی ہیں۔ ہمایوں کے مقبرے کے اطراف ایک چار باغ بھی ہے یعنی چار حصوں پر مشتمل ایک خوب صورت باغ جو اہل فارس کے مخصوص انداز پر بنایا گیا ہے۔
مقبرہ ہمایوں کسی چھوٹی موٹی جگہ پر نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ اس عظیم مقبرے کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے چھوٹے مقابر بھی تعمیر کیے گئے ہیں جن میں مغل بادشاہ ہمایوں کے امراء اور ملازمین ابدی نیند سورہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغل شہنشاہ ہمایوں کی پہلی بیوی نے ہمایوں کے مقبرے کی تعمیر کے کام کا آغاز 1565 میں کرادیا تھا اور 1572 میں اس کی تعمیر کا کام اختتام کو پہنچا تو ایک زبردست شاہ کار وجود میں آیا۔اس وقت ہمایوں کے مقبرے کی دیکھ بھال اور نگہ داشت آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کا ادارہ کررہا ہے اور وہی اس کی مرمت اور نگرانی کرتا ہے۔
٭مقبرے کی کچھ اور باتیں:
جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا ہے، ہمایوں کے مقبرے کی تعمیر کا کام شہنشاہ کی پہلی بیوی نے شروع کرایا تھا، مگر تاریخ میں اس کام کے آغاز کے بارے میں شہنشاہ اکبر کا نام لیا جاتا ہے جو ہمایوں کا جانشین تھا، لیکن اس مقبرے کے ڈیزائن کے بارے میں تاریخی کتب میں فارس کے ڈیزائنر میرک مرزا غیاث کا نام لکھا ہے کہ اسی نے اس مقبرے کا انوکھا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ اس شاہی مقبرے کو نہ صرف یونیسکو سائٹ تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ یہ برصغیر انڈیا میں تعمیر ہونے والا پہلا garden-tomb تھا۔
ہمایوں کا مقبرہ نئی دہلی کے پرانے قلعے کے قریب ہی واقع ہے۔ واضح رہے کہ اس شہر کی داغ بیل بھی خود ہمایوں نے 1533 میں ڈالی تھی۔ ہمایوں کے مقبرے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انڈیا کا وہ پہلا تعمیراتی ڈھانچا ہے جس کی تعمیر میں اتنے بڑے پیمانے پر لال پتھر red sandstone استعمال کیا گیا ہے۔ 1993 میں اس مقبرے کو یونیسکو کی سائٹ قرار دیا گیا تھا، اس کے بعد سے اس عظیم تاریخی عمارت کی بحالی اور تزئین و آرائش کے لیے بہت وسیع پیمانے پر کام کیے گئے، تاکہ ماضی کے اس عظیم ورثے کو اس کی اصل شکل و صورت میں قائم رکھا جائے۔ فی الوقت اس کی سائٹ پر بحالی، مرمت اور تزئین و آرائش کا سارا کام مکمل ہوچکا ہے اور عمارت سیاحوں کی آمدو رفت کے لیے کھول دی گئی ہے۔
ہمایوں کے مقبرے کی بنیادی عمارت ہمایوں کے مقبرے کی یونیسکو سائٹ کا حصہ ہے۔ اس میں دیگر چھوٹی چھوٹی عمارات بھی واقع ہیں جو کسی بھی ثقافتی سائٹ کا حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ تاریخی عمارات مقبرہ ہمایوں سے پہلے کی تاریخ بھی بیان کرتی ہیں۔ ہمایوں کے مقبرے کا یہ پورا کا پورا کمپلیکس یونیسکو کی پراپرٹی سمجھا جاتا ہے، تاہم اس میں صرف شہنشاہ ہمایوں کی ہی آخری آرام گاہ واقع نہیں ہے، بلکہ اس میں شاہی خاندان کے دیگر افراد بھی ابدی نیند سورہے ہیں جن میں بیگا بیگم (شہنشاہ ہمایوں کی بیوی) ہمایوں کا پڑپوتا، شاہ جہاں کا بیٹا، شہنشاہ جہاں دار شاہ، شہنشاہ رفیع الدرجات، شہنشاہ عالم گیر ثانی، شہنشاہ فرخ سیر اور دیگر افراد شامل ہیں۔
ہمایوں کے مقبرے کی تعمیر اس لیے بھی خصوصی اہمیت رکھتی ہے، کیوں کہ یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں سابق مغل بادشاہوں اور حکم رانوں کی قبریں بھی واقع ہیں۔اسے مغل فن تعمیر میں ایک بریک تھرو بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں واقع چار باغ کو ایرانی گارڈن اسٹائل کا اہم پہلو بھی سمجھا جاتا ہے جو اہل فارس کی عظیم روایت ہوا کرتی تھی۔ تاہم چوں کہ ان دونوں عمارات کی تعمیر سے پہلے انڈیا میں ایسی طرز تعمیر دکھائی نہیں دی، اس لیے انہیں مغل فن تعمیر میں ایک نئی اور انوکھی روایت سمجھا گیا۔
٭مختصر اور جامع نکات:
دہلی میں واقع ہمایوں کا مقبرہ ان عظیم شاہی مقبروں میں شامل ہے جن کی وجہ سے بعد میں مغلیہ طرز تعمیر کو ایک نئی جہت اور ایک نئی شان ملی۔ ان میں سے پہلا شاہی مقبرہ ، ہمایوں کا مقبرہ ہے اور دوسرا تاج محل ہے۔ ان دونوں شاہی عمارات نے مغل فن تعمیر کو ایک نیا اسلوب دیا اور ان کی وجہ سے پوری دنیا میں مغل طرز تعمیر متعارف ہوئی۔ہمایوں کا مقبرہ ایک27.04 ہیکٹر کے کمپلیکس کے اندر واقع ہے۔ یہاں قائم دیگر عمارتیں یہ ہیں نیلا گنبد، عیسیٰ خان، بو حلیمہ، افسر والا، بابر کا مقبرہ اور ایک وہ عمارت عرب سرائے شامل ہے جہاں ہمایوں کے مقبرے میں کام کرنے والے مزدور اور ہنرمند ٹھہرائے جاتے تھے۔ اس مقبرے کی تعمیر کے لیے ایرانی اور ہندوستانی ہنرمندوں نے دن رات کام کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک ایسا بے مثال اور شان دار گارڈن ٹومب بن کر تیار ہوگیا تھا جس کی نظیر اس سے پہلے اسلامی دنیا میں نہیں ملتی تھی۔
ہمایوں کا مقبرہ چار باغ والے سمتی مقبرے کی پہلی انوکھی مثال ہے جس میں جنت میں بہنے والی نہروں کی عکاسی کی گئی ہے، درمیان میں ان نہروں کو تالابوں کے ذریعے آپس میں منسلک بھی کیا گیا ہے۔ اس باغ میں جنوب کی سمت سے بلند دروازوں کے راستے داخل ہوا جاتا ہے اور عمارت کی مشرقی اور شمالی دیواروں کے ساتھ ساتھ کھلی جگہیں بھی ہیں جن میں بھی تقریبات سجائی جاتی ہیں۔ یہ شاہی مقبرہ بہ ذات خود ایک وسیع و عریض ٹیرس یا چبوترے پر کھڑا ہے اور اس کے سبھی کونوں پر بلند چھتریاں اور کنگورے بھی واقع ہیں جن میں لال پتھر کے ساتھ ساتھ گرے پتھر اور ماربل یعنی سنگ مرمر بھی شامل ہے۔ اس کی مین عمارت کا بڑا اور ڈبل گنبد 42.5 میٹر بلند ہے جس پر چھتریاں بھی بنی ہوئی ہیں، درمیانی گنبد چمک دار ٹائلز سے مزین ہیں۔ ہر سائیڈ کا درمیانہ حصہ بڑی اور مخروطی محرابوں سے سجایا گیا ہے اور ان کے ساتھ بہت سی چھوٹی محرابیں بھی بنائی گئی ہیں۔
مقبرے کا اندرونی حصہ ایک ہشت پہلو چیمبر پر مشتمل ہے اور اندرونی گیلریاں آپس میں راہ داریوں کے ذریعے منسلک ہیں۔ یہی ہشت پہلو پلان دوسری منزل پر پھر دہرایا گیا ہے، اس کے ڈھانچے پر پتھر سے آرائش کی گئی اور ریڈ سینڈ اسٹون کے ساتھ ساتھ سفید اور سیاہ سنگ مرمر بھی لگائے گئے ہیں۔ہمایوں کے اس باغ والے مقبرے کو ''مغلوں کی اجتماعی خواب گاہ''کا نام بھی دیا گیا ہے، کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں مغلیہ شاہی خاندان کے کم وہ بیش 150 سے بھی زیادہ افراد ابدی نیند سورہے ہیں۔
ہمایوں کا مقبرہ ایک ایسی بے مثال اور شان دار جگہ واقع ہے جہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر چودھویں صدی کے عظیم صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی خانقاہ اور آخری آرام گاہ واقع ہے۔ چوں کہ عظیم صوفی بزرگوں کے قریب دفن ہونا بہت بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی، س لیے یہ جگہ اس اعتبار سے بہت تنگ اور گنجلک ہوچکی ہے، کیوں کہ اس مقام پر دنیا سے جانے والے بے شمار لوگ ابدی نیند سورہے ہیں۔واضح رہے کہ ہمایوں کا مقبرہ اور اس کے اطراف میں تعمیر کیے گئے تعمیراتی ڈھانچے ایسے ہیں جو آج بھی اپنی اصل شکل و صورت میں برقرار ہیں۔
ان کی مرمت اور تزئین و آرائش کے کام تو ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان میں نہ تو کبھی ترمیم کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی ہوئی ہے، اگر ضرورتاً کچھ تھوڑی بہت تبدیلی کی بھی گئی تو بہت معمولی یا برائے نام جس سے اس کے اصل اور بنیادی ڈھانچے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ تبدیلی بہت اعلیٰ کوالٹی کے کام اور انداز سے کی گئی ہے۔ ایسی ترمیم و ردوبدل کے کام میں بھی روایتی مٹیریل استعمال کیا گیا ہے جیسے چونا، قدیم انداز کا روایتی مسالا، عمارتوں کی تعمیر و مرمت کے آلات و اوزار اور قدیم طریقے ہی اس کے لیے اختیار کیے گئے ہیں۔
٭دیگر ضروریات:
مغل چار باغ اور ہمایوں کے مقبرے میں سب سے اہم ضرورت وہاں کے لیے بہتا ہوا پانی ہے جس کے لیے زیر زمین مناسب اور ضروری terracotta pipes بھی درکار تھے، فوارے بھی، پانی کی کھلی نہروں کی بھی ضرورت تھی اور سرسبزوشاداب لانز کی بھی۔ اس مقبرے میں سرخ پتھر اور سفید و سیاہ سنگ مرمر پر جو بھی ریکارڈ درج کیا گیا ہے یا اسے کندہ کیا گیا ہے، وہ سب خالص ریسرچ کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور وہ کافی تحقیق کے بعد، دستاویزی ریسرچ، اور دیگر ریکارڈز کی تیاری کے لیے مکمل کام اور تعاون آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے کیا ہے۔ اس میں ہر کام میں دیگر تعاون آغاخان ٹرسٹ فار کلچر (AKTC) کی ملٹی ڈسپلنری ٹیم نے کیا ہے اور اس اہم تاریخی مقبرے کی بحالی کے کام کرائے ہیں اور بالخصوص اس مقبرے میں پانی کے مناسب انتظامات بھی کیے ہیں۔
٭اعلیٰ ہنرمندی:
ایسے بحالی کے کاموں کے لیے اعلیٰ ہنرمندی کی فراہمی بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے دور جدید کے مٹیریلز کو ہٹاکر ان کی جگہ دوسرا مٹیریل لگانا ممکن ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بحالی کے کام میں ہر طرح کی مدد اور تعاون کے لیے متعدد ڈائریکٹرز بھی اس پراجیکٹ میں شامل ہیں اور ریجنل یا علاقائی ڈائریکٹرز بھی اور متعدد سپرنٹنڈنٹ آرکیالوجسٹ بھی موجود ہیں۔ ان کی نگرانی میں Aga Khan Trust for Cultureکے زیراہتمام ریگولر بنیادوں پر مقبرہ ہمایوں کی مرمت اور بحالی کا کام مسلسل جاری ہے۔ چوں کہ یہ عوامی مقامات ہیں، اس لیے ان کی حفاظت کے لیے بھی سیکیوریٹی کا انتظام بے حد ضروری ہے۔ ہمایوں کے مقبرے کی نگرانی اور حفاظت کے لیے یہاں سیکیورٹی کی اضافی قوت درکار ہوگی، کیوں کہ یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔
ہمایوں کا مقبرہ ایک وسیع و عریض تاریخی اور شاہی مقبرہ ہے اور یہ بلاشبہہ مغل طرزتعمیر کا انوکھا اور حسین شاہ کار ہے جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے سیاح بے اختیار اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور تفصیل سے اس کی سیر کرتے اور اس کے بارے میں معلومات جمع کرتے ہیں۔جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے یہ مقبرہ مغل شہنشاہ ہمایوں کی آخری آرام گاہ ہے۔
واضح رہے کہ مقبرہ ہمایوں 1570 میں تعمیر کیا گیا تھا، اس کی بہت زبردست ثقافتی اہمیت ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ برصغیر میں پہلا مقبرہ تھا جو ایک وسیع و عریض اور سرسبز باغ میں تعمیر کیا گیا، ورنہ اس سے پہلے مقبرے تو تعمیر کیے جاتے تھے، مگر ان کے اطراف ایسے باغات نہیں لگائے جاتے تھے جیسے اس مقبرے کے اردگرد لگائے گئے اور اس کو حسین و دیدہ زیب بنایا گیا۔
یہ اس خطے کا وہ عظیم الشان مقبرہ ہے جو متعدد مغلئی عمارتوں کی طرز تعمیر سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا اور اس میں بنیادی طور پر تاج محل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس مقبرے کی تعمیر کے کام کا آغاز شہنشاہ ہمایوں کے بیٹے اکبراعظم نے 1569ء میں کرایا تھا۔یہ مقبرہ مسلم اور مغل طرزتعمیر کی ایک انوکھی اور کلاسیکی مثال ہے۔ اس مقبرے کے بعض اہم پہلو بعد کی متعدد تعمیرات میں بھی دکھائی دیتے ہیں، مثال کے طور پر تاج محل میں بھی اس مقبرے کی تعمیر کی جھلک بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور اسی کی وجہ سے مقبرے میں اصل تعمیراتی حسن پیدا ہوا ہے۔
ہمایوں کے مقبرے کا تعمیراتی ڈھانچا بہت شان دار بھی ہے اور بہت زیادہ بیش قیمت بھی۔ اس کی تمام جزئیات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر عہد کے تعمیراتی ماہرین کے لیے حیرت کا باعث بھی ہیں۔ اس
مقبرے کی تمام کھڑکیوں پر پتھریلی جالیاں لگی ہوئی ہیں جنہیں بڑی مہارت کے ساتھ تراشا گیا ہے اور یہ علم ہندسہ geometricکے اصول پر بنائی گئی ہیں، یعنی ان میں کہیں درمیان میں کاٹا پیٹا نہیں گیا ہے اور یہ ایک واحد اور ثابت پتھر سے تراشی گئی ہیں۔ ہمایوں کے مقبرے کے اطراف ایک چار باغ بھی ہے یعنی چار حصوں پر مشتمل ایک خوب صورت باغ جو اہل فارس کے مخصوص انداز پر بنایا گیا ہے۔
مقبرہ ہمایوں کسی چھوٹی موٹی جگہ پر نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ اس عظیم مقبرے کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے چھوٹے مقابر بھی تعمیر کیے گئے ہیں جن میں مغل بادشاہ ہمایوں کے امراء اور ملازمین ابدی نیند سورہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغل شہنشاہ ہمایوں کی پہلی بیوی نے ہمایوں کے مقبرے کی تعمیر کے کام کا آغاز 1565 میں کرادیا تھا اور 1572 میں اس کی تعمیر کا کام اختتام کو پہنچا تو ایک زبردست شاہ کار وجود میں آیا۔اس وقت ہمایوں کے مقبرے کی دیکھ بھال اور نگہ داشت آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کا ادارہ کررہا ہے اور وہی اس کی مرمت اور نگرانی کرتا ہے۔
٭مقبرے کی کچھ اور باتیں:
جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا ہے، ہمایوں کے مقبرے کی تعمیر کا کام شہنشاہ کی پہلی بیوی نے شروع کرایا تھا، مگر تاریخ میں اس کام کے آغاز کے بارے میں شہنشاہ اکبر کا نام لیا جاتا ہے جو ہمایوں کا جانشین تھا، لیکن اس مقبرے کے ڈیزائن کے بارے میں تاریخی کتب میں فارس کے ڈیزائنر میرک مرزا غیاث کا نام لکھا ہے کہ اسی نے اس مقبرے کا انوکھا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ اس شاہی مقبرے کو نہ صرف یونیسکو سائٹ تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ یہ برصغیر انڈیا میں تعمیر ہونے والا پہلا garden-tomb تھا۔
ہمایوں کا مقبرہ نئی دہلی کے پرانے قلعے کے قریب ہی واقع ہے۔ واضح رہے کہ اس شہر کی داغ بیل بھی خود ہمایوں نے 1533 میں ڈالی تھی۔ ہمایوں کے مقبرے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انڈیا کا وہ پہلا تعمیراتی ڈھانچا ہے جس کی تعمیر میں اتنے بڑے پیمانے پر لال پتھر red sandstone استعمال کیا گیا ہے۔ 1993 میں اس مقبرے کو یونیسکو کی سائٹ قرار دیا گیا تھا، اس کے بعد سے اس عظیم تاریخی عمارت کی بحالی اور تزئین و آرائش کے لیے بہت وسیع پیمانے پر کام کیے گئے، تاکہ ماضی کے اس عظیم ورثے کو اس کی اصل شکل و صورت میں قائم رکھا جائے۔ فی الوقت اس کی سائٹ پر بحالی، مرمت اور تزئین و آرائش کا سارا کام مکمل ہوچکا ہے اور عمارت سیاحوں کی آمدو رفت کے لیے کھول دی گئی ہے۔
ہمایوں کے مقبرے کی بنیادی عمارت ہمایوں کے مقبرے کی یونیسکو سائٹ کا حصہ ہے۔ اس میں دیگر چھوٹی چھوٹی عمارات بھی واقع ہیں جو کسی بھی ثقافتی سائٹ کا حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ تاریخی عمارات مقبرہ ہمایوں سے پہلے کی تاریخ بھی بیان کرتی ہیں۔ ہمایوں کے مقبرے کا یہ پورا کا پورا کمپلیکس یونیسکو کی پراپرٹی سمجھا جاتا ہے، تاہم اس میں صرف شہنشاہ ہمایوں کی ہی آخری آرام گاہ واقع نہیں ہے، بلکہ اس میں شاہی خاندان کے دیگر افراد بھی ابدی نیند سورہے ہیں جن میں بیگا بیگم (شہنشاہ ہمایوں کی بیوی) ہمایوں کا پڑپوتا، شاہ جہاں کا بیٹا، شہنشاہ جہاں دار شاہ، شہنشاہ رفیع الدرجات، شہنشاہ عالم گیر ثانی، شہنشاہ فرخ سیر اور دیگر افراد شامل ہیں۔
ہمایوں کے مقبرے کی تعمیر اس لیے بھی خصوصی اہمیت رکھتی ہے، کیوں کہ یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں سابق مغل بادشاہوں اور حکم رانوں کی قبریں بھی واقع ہیں۔اسے مغل فن تعمیر میں ایک بریک تھرو بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں واقع چار باغ کو ایرانی گارڈن اسٹائل کا اہم پہلو بھی سمجھا جاتا ہے جو اہل فارس کی عظیم روایت ہوا کرتی تھی۔ تاہم چوں کہ ان دونوں عمارات کی تعمیر سے پہلے انڈیا میں ایسی طرز تعمیر دکھائی نہیں دی، اس لیے انہیں مغل فن تعمیر میں ایک نئی اور انوکھی روایت سمجھا گیا۔
٭مختصر اور جامع نکات:
دہلی میں واقع ہمایوں کا مقبرہ ان عظیم شاہی مقبروں میں شامل ہے جن کی وجہ سے بعد میں مغلیہ طرز تعمیر کو ایک نئی جہت اور ایک نئی شان ملی۔ ان میں سے پہلا شاہی مقبرہ ، ہمایوں کا مقبرہ ہے اور دوسرا تاج محل ہے۔ ان دونوں شاہی عمارات نے مغل فن تعمیر کو ایک نیا اسلوب دیا اور ان کی وجہ سے پوری دنیا میں مغل طرز تعمیر متعارف ہوئی۔ہمایوں کا مقبرہ ایک27.04 ہیکٹر کے کمپلیکس کے اندر واقع ہے۔ یہاں قائم دیگر عمارتیں یہ ہیں نیلا گنبد، عیسیٰ خان، بو حلیمہ، افسر والا، بابر کا مقبرہ اور ایک وہ عمارت عرب سرائے شامل ہے جہاں ہمایوں کے مقبرے میں کام کرنے والے مزدور اور ہنرمند ٹھہرائے جاتے تھے۔ اس مقبرے کی تعمیر کے لیے ایرانی اور ہندوستانی ہنرمندوں نے دن رات کام کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک ایسا بے مثال اور شان دار گارڈن ٹومب بن کر تیار ہوگیا تھا جس کی نظیر اس سے پہلے اسلامی دنیا میں نہیں ملتی تھی۔
ہمایوں کا مقبرہ چار باغ والے سمتی مقبرے کی پہلی انوکھی مثال ہے جس میں جنت میں بہنے والی نہروں کی عکاسی کی گئی ہے، درمیان میں ان نہروں کو تالابوں کے ذریعے آپس میں منسلک بھی کیا گیا ہے۔ اس باغ میں جنوب کی سمت سے بلند دروازوں کے راستے داخل ہوا جاتا ہے اور عمارت کی مشرقی اور شمالی دیواروں کے ساتھ ساتھ کھلی جگہیں بھی ہیں جن میں بھی تقریبات سجائی جاتی ہیں۔ یہ شاہی مقبرہ بہ ذات خود ایک وسیع و عریض ٹیرس یا چبوترے پر کھڑا ہے اور اس کے سبھی کونوں پر بلند چھتریاں اور کنگورے بھی واقع ہیں جن میں لال پتھر کے ساتھ ساتھ گرے پتھر اور ماربل یعنی سنگ مرمر بھی شامل ہے۔ اس کی مین عمارت کا بڑا اور ڈبل گنبد 42.5 میٹر بلند ہے جس پر چھتریاں بھی بنی ہوئی ہیں، درمیانی گنبد چمک دار ٹائلز سے مزین ہیں۔ ہر سائیڈ کا درمیانہ حصہ بڑی اور مخروطی محرابوں سے سجایا گیا ہے اور ان کے ساتھ بہت سی چھوٹی محرابیں بھی بنائی گئی ہیں۔
مقبرے کا اندرونی حصہ ایک ہشت پہلو چیمبر پر مشتمل ہے اور اندرونی گیلریاں آپس میں راہ داریوں کے ذریعے منسلک ہیں۔ یہی ہشت پہلو پلان دوسری منزل پر پھر دہرایا گیا ہے، اس کے ڈھانچے پر پتھر سے آرائش کی گئی اور ریڈ سینڈ اسٹون کے ساتھ ساتھ سفید اور سیاہ سنگ مرمر بھی لگائے گئے ہیں۔ہمایوں کے اس باغ والے مقبرے کو ''مغلوں کی اجتماعی خواب گاہ''کا نام بھی دیا گیا ہے، کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں مغلیہ شاہی خاندان کے کم وہ بیش 150 سے بھی زیادہ افراد ابدی نیند سورہے ہیں۔
ہمایوں کا مقبرہ ایک ایسی بے مثال اور شان دار جگہ واقع ہے جہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر چودھویں صدی کے عظیم صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی خانقاہ اور آخری آرام گاہ واقع ہے۔ چوں کہ عظیم صوفی بزرگوں کے قریب دفن ہونا بہت بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی، س لیے یہ جگہ اس اعتبار سے بہت تنگ اور گنجلک ہوچکی ہے، کیوں کہ اس مقام پر دنیا سے جانے والے بے شمار لوگ ابدی نیند سورہے ہیں۔واضح رہے کہ ہمایوں کا مقبرہ اور اس کے اطراف میں تعمیر کیے گئے تعمیراتی ڈھانچے ایسے ہیں جو آج بھی اپنی اصل شکل و صورت میں برقرار ہیں۔
ان کی مرمت اور تزئین و آرائش کے کام تو ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان میں نہ تو کبھی ترمیم کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی ہوئی ہے، اگر ضرورتاً کچھ تھوڑی بہت تبدیلی کی بھی گئی تو بہت معمولی یا برائے نام جس سے اس کے اصل اور بنیادی ڈھانچے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ تبدیلی بہت اعلیٰ کوالٹی کے کام اور انداز سے کی گئی ہے۔ ایسی ترمیم و ردوبدل کے کام میں بھی روایتی مٹیریل استعمال کیا گیا ہے جیسے چونا، قدیم انداز کا روایتی مسالا، عمارتوں کی تعمیر و مرمت کے آلات و اوزار اور قدیم طریقے ہی اس کے لیے اختیار کیے گئے ہیں۔
٭دیگر ضروریات:
مغل چار باغ اور ہمایوں کے مقبرے میں سب سے اہم ضرورت وہاں کے لیے بہتا ہوا پانی ہے جس کے لیے زیر زمین مناسب اور ضروری terracotta pipes بھی درکار تھے، فوارے بھی، پانی کی کھلی نہروں کی بھی ضرورت تھی اور سرسبزوشاداب لانز کی بھی۔ اس مقبرے میں سرخ پتھر اور سفید و سیاہ سنگ مرمر پر جو بھی ریکارڈ درج کیا گیا ہے یا اسے کندہ کیا گیا ہے، وہ سب خالص ریسرچ کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور وہ کافی تحقیق کے بعد، دستاویزی ریسرچ، اور دیگر ریکارڈز کی تیاری کے لیے مکمل کام اور تعاون آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے کیا ہے۔ اس میں ہر کام میں دیگر تعاون آغاخان ٹرسٹ فار کلچر (AKTC) کی ملٹی ڈسپلنری ٹیم نے کیا ہے اور اس اہم تاریخی مقبرے کی بحالی کے کام کرائے ہیں اور بالخصوص اس مقبرے میں پانی کے مناسب انتظامات بھی کیے ہیں۔
٭اعلیٰ ہنرمندی:
ایسے بحالی کے کاموں کے لیے اعلیٰ ہنرمندی کی فراہمی بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے دور جدید کے مٹیریلز کو ہٹاکر ان کی جگہ دوسرا مٹیریل لگانا ممکن ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بحالی کے کام میں ہر طرح کی مدد اور تعاون کے لیے متعدد ڈائریکٹرز بھی اس پراجیکٹ میں شامل ہیں اور ریجنل یا علاقائی ڈائریکٹرز بھی اور متعدد سپرنٹنڈنٹ آرکیالوجسٹ بھی موجود ہیں۔ ان کی نگرانی میں Aga Khan Trust for Cultureکے زیراہتمام ریگولر بنیادوں پر مقبرہ ہمایوں کی مرمت اور بحالی کا کام مسلسل جاری ہے۔ چوں کہ یہ عوامی مقامات ہیں، اس لیے ان کی حفاظت کے لیے بھی سیکیوریٹی کا انتظام بے حد ضروری ہے۔ ہمایوں کے مقبرے کی نگرانی اور حفاظت کے لیے یہاں سیکیورٹی کی اضافی قوت درکار ہوگی، کیوں کہ یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔