’’سلیقہ ‘‘
بدقسمتی سے اب ’’کامیابی‘‘ کی بنیاد ہی بدسلیقگی بنتی جا رہی ہے۔
اٹھارہویں صدی میں جب ا بھی آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے معاملات اپنے ابتدائی دور میں تھے دو دانشوروں کے حوالے سے ایک بات کا بہت چرچا ہوا جو کچھ یوں تھی کہ دونوں فکری اور نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے تھے ا ور سرِ عام ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر بھی چلاتے رہتے تھے مگر جب اُن میں سے ایک پر حاکم اداروں کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد کرنے کی خبر ملی تو دوسرے کا بیان کچھ یوں تھا۔ ''اگرچہ مجھے اُس کے خیالات سے شدید اختلاف ہے لیکن جس دن کسی نے اُن پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو سب سے پہلے میں اُس کی حمائت میں کھڑا ہوں گا'' ۔
تمیز شرافت، باہمی احترام اور سلیقہ مندی وہ اوصاف ہیں جنھیں اگر بنیادی شرطِ انسانیت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مخالفین پر تنقید اور ہلکی پھلکی جملے بازی سیاست کی تاریخ کا حصہ یقینا رہے ہیں اور ان کا اپنا مقام اور لطف بھی ہے اگر اسے اخلاقیات سے کبھی اس قدر دُور نہیں کیا گیا تھا جتنا ہم آج کل دیکھتے ہیں۔ اور افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ہی ایک جیسے ننگے ہیں۔ گالی بے شک کسی گالی کے جواب ہی میں کیوں نہ دی جائے مگر وہ رہتی پھر بھی گالی ہی ہے۔
شیخ سعدی کی ایک حکائت ہے کہ اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب ناجائز توڑ لے تو اُس کے ساتھی اور درباری سارا باغ اُجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہماری سیاست میں بھی ہو رہا ہے کہ کسی پارٹی کا کوئی لیڈر مخالف پارٹی کے لیڈر کے بارے میں کسی حوالے سے کوئی ناشائستہ بات کہتا ہے تو اُس کے ہم خیال اور ماننے والے نہ صرف اخلاق کی ہر حد کو پار کر جاتے ہیں بلکہ اُس کے اور اس کے خاندان کے بارے میں ایسے ایسے تضحیک آمیز اور اکثر صورتوں میں بے بنیاد الزامات کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں کہ اصل بات کہیں بیچ میں ہی رہ جاتی ہے۔ کہ دونوں پارٹیاں ایسے معاملات پر جھگڑا شروع کر دیتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
اور یوں ایک ایسی بلیم گیم شروع ہو جاتی ہے جس میں سوائے بدتمیزی کے کچھ بھی نہیں بچتا۔ پرانے وقتوں میں بھی مختلف معاملات پر لوگ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے مگر اخلاقیات کے کچھ اصول ایسے تھے جن کا ہر کوئی لحاظ رکھتا تھا۔ اُسی زمانے کا ایک قصہ ہے کہ کسی شہر میں دو مختلف تہذیبی عقائد کے حامل پیر صاحب رہتے تھے اور اکثر ایک دوسرے کو رگیدا بھی کرتے تھے۔
ایک دن ایک پیر صاحب کے مرید نے بھی اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مخالف بزرگ کے بارے میں کچھ بہت گھٹیا باتیں شروع کر دیں۔ پیر صاحب نے اُسے دو چار جوتے رسید کیے اور کہا ، بکواس بند کرو۔ اس پر مرید بولا کہ حضور آپ بھی تو اُن کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ اس پر پیر صاحب نے جو جواب دیا وہ اپنی جگہ پر عمدہ اور بے مثال ہے۔ انھوں نے کہا ''کم بخت میں تو اُس کا مقام جانتا ہوں، سو میرے اختلاف کی ایک سطح ہے۔ ُاور تو اُس کی جوتیوں میں بیٹھنے کے لائق بھی نہیں، تجھے کیسے اُس پر تنقید کی جرات ہوئی''۔
اگرچہ ہمارے پرانے سیاستدانوں کی پرورش بھی کوئی بہت اچھے ا ور آزادانہ ماحول میں نہیں ہوئی تھی مگر اس کے باوجود اُن میں رواداری، تحمل اور ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے کی روش خاصی مضبوط اور پائیدار تھی اور وہ اس بات کا ٰخیال بھی رکھتے تھے کہ اُن کے متوالے اور جیالے بھی اخلاقی حدود کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کریں مگر گزشتہ چالیس برس سے اور بالخصوص سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد سے یہ صورتِ حال تکلیف دہ اور بعض صورتوں میں ناقابلِ برداشت حد تک بدل گئی ہے۔
ہمارے کم و بیش سب لیڈرانِ کرام جس آسانی اور فراوانی سے اپنے مخالفین، اُن کی ذاتی زندگیوں اور خاندانی رشتوں بالخصوص خواتین کے بارے میں جس طرح کی زبان کا استعمال کرتے ہیں وہ یقینا کسی مہذب قوم کے شایانِ شان نہیں اور پھر ہماری قوم تو وہ ہے جسے تاکید سے یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ جو بات تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے کیوں کرتے ہو۔ سو ہوتا یوں ہے کہ کوئی لیڈر کسی رُو میں کوئی بات کر جاتا ہے مگر اس سے پہلے کہ اُس کو اپنی غلطی یا لہجے کی غیر ضروری تلخی کا احساس ہو اُس کے حامی سوشل میڈیا پر اس بات کو اتنا اچھالتے ہیں کہ خود اس کے لیے اس کو واپس لینا ناممکن ہو جاتا ہے۔
جب کہ دوسری طرف کے لیڈر اور اُن کے پیروکار بھی ڈنکے کی چوٹ پر ہر بات کا جواب دینے کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں اور وہی باتیں جو سلیقے سے کہی جانے پر آسانی سے برداشت ہو سکتی تھیں، ایک ایسی فردِ جرم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں جس میں کم از کم سزا، سزائے موت ٹھہرتی ہے۔ میرؔ صاحب کا ایک شعر ہے۔
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
لیکن بدقسمتی سے اب ''کامیابی'' کی بنیاد ہی بدسلیقگی بنتی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کو ہر لحاظ سے بے عزت کرنے کی روش اس قدر عام ہو گئی ہے کہ ایسا کرنے والے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ اس سے متعلقہ لوگوں کی کم اور ہمارے ملک اور معاشرے کی زیادہ جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
مثال کے طور پر عمران خان کے سیاسی مخالفین کو یقینا یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اُس کے حالیہ دورہ امریکا کے بارے میں اپنے تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کریں مگر اس کے لیے اگر وہ کسی امریکی اخبار میں شائع شدہ عمران خان کے کارٹون پر واہ واہ کریں گے تو انھیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس تضحیک کا اصل نشانہ عمران خان نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ انھیں عمران خان کی زبان، طرز عمل اور پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر جہاں معاملہ ملک کی عزت کا ہو وہاں سب کو سلیقے سے کام لینا چاہیے اور اس سب میں ''ہم سب '' یکساں طور پر شامل ہیں۔
تمیز شرافت، باہمی احترام اور سلیقہ مندی وہ اوصاف ہیں جنھیں اگر بنیادی شرطِ انسانیت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مخالفین پر تنقید اور ہلکی پھلکی جملے بازی سیاست کی تاریخ کا حصہ یقینا رہے ہیں اور ان کا اپنا مقام اور لطف بھی ہے اگر اسے اخلاقیات سے کبھی اس قدر دُور نہیں کیا گیا تھا جتنا ہم آج کل دیکھتے ہیں۔ اور افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ہی ایک جیسے ننگے ہیں۔ گالی بے شک کسی گالی کے جواب ہی میں کیوں نہ دی جائے مگر وہ رہتی پھر بھی گالی ہی ہے۔
شیخ سعدی کی ایک حکائت ہے کہ اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب ناجائز توڑ لے تو اُس کے ساتھی اور درباری سارا باغ اُجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہماری سیاست میں بھی ہو رہا ہے کہ کسی پارٹی کا کوئی لیڈر مخالف پارٹی کے لیڈر کے بارے میں کسی حوالے سے کوئی ناشائستہ بات کہتا ہے تو اُس کے ہم خیال اور ماننے والے نہ صرف اخلاق کی ہر حد کو پار کر جاتے ہیں بلکہ اُس کے اور اس کے خاندان کے بارے میں ایسے ایسے تضحیک آمیز اور اکثر صورتوں میں بے بنیاد الزامات کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں کہ اصل بات کہیں بیچ میں ہی رہ جاتی ہے۔ کہ دونوں پارٹیاں ایسے معاملات پر جھگڑا شروع کر دیتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
اور یوں ایک ایسی بلیم گیم شروع ہو جاتی ہے جس میں سوائے بدتمیزی کے کچھ بھی نہیں بچتا۔ پرانے وقتوں میں بھی مختلف معاملات پر لوگ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے مگر اخلاقیات کے کچھ اصول ایسے تھے جن کا ہر کوئی لحاظ رکھتا تھا۔ اُسی زمانے کا ایک قصہ ہے کہ کسی شہر میں دو مختلف تہذیبی عقائد کے حامل پیر صاحب رہتے تھے اور اکثر ایک دوسرے کو رگیدا بھی کرتے تھے۔
ایک دن ایک پیر صاحب کے مرید نے بھی اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مخالف بزرگ کے بارے میں کچھ بہت گھٹیا باتیں شروع کر دیں۔ پیر صاحب نے اُسے دو چار جوتے رسید کیے اور کہا ، بکواس بند کرو۔ اس پر مرید بولا کہ حضور آپ بھی تو اُن کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ اس پر پیر صاحب نے جو جواب دیا وہ اپنی جگہ پر عمدہ اور بے مثال ہے۔ انھوں نے کہا ''کم بخت میں تو اُس کا مقام جانتا ہوں، سو میرے اختلاف کی ایک سطح ہے۔ ُاور تو اُس کی جوتیوں میں بیٹھنے کے لائق بھی نہیں، تجھے کیسے اُس پر تنقید کی جرات ہوئی''۔
اگرچہ ہمارے پرانے سیاستدانوں کی پرورش بھی کوئی بہت اچھے ا ور آزادانہ ماحول میں نہیں ہوئی تھی مگر اس کے باوجود اُن میں رواداری، تحمل اور ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے کی روش خاصی مضبوط اور پائیدار تھی اور وہ اس بات کا ٰخیال بھی رکھتے تھے کہ اُن کے متوالے اور جیالے بھی اخلاقی حدود کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کریں مگر گزشتہ چالیس برس سے اور بالخصوص سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد سے یہ صورتِ حال تکلیف دہ اور بعض صورتوں میں ناقابلِ برداشت حد تک بدل گئی ہے۔
ہمارے کم و بیش سب لیڈرانِ کرام جس آسانی اور فراوانی سے اپنے مخالفین، اُن کی ذاتی زندگیوں اور خاندانی رشتوں بالخصوص خواتین کے بارے میں جس طرح کی زبان کا استعمال کرتے ہیں وہ یقینا کسی مہذب قوم کے شایانِ شان نہیں اور پھر ہماری قوم تو وہ ہے جسے تاکید سے یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ جو بات تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے کیوں کرتے ہو۔ سو ہوتا یوں ہے کہ کوئی لیڈر کسی رُو میں کوئی بات کر جاتا ہے مگر اس سے پہلے کہ اُس کو اپنی غلطی یا لہجے کی غیر ضروری تلخی کا احساس ہو اُس کے حامی سوشل میڈیا پر اس بات کو اتنا اچھالتے ہیں کہ خود اس کے لیے اس کو واپس لینا ناممکن ہو جاتا ہے۔
جب کہ دوسری طرف کے لیڈر اور اُن کے پیروکار بھی ڈنکے کی چوٹ پر ہر بات کا جواب دینے کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں اور وہی باتیں جو سلیقے سے کہی جانے پر آسانی سے برداشت ہو سکتی تھیں، ایک ایسی فردِ جرم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں جس میں کم از کم سزا، سزائے موت ٹھہرتی ہے۔ میرؔ صاحب کا ایک شعر ہے۔
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
لیکن بدقسمتی سے اب ''کامیابی'' کی بنیاد ہی بدسلیقگی بنتی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کو ہر لحاظ سے بے عزت کرنے کی روش اس قدر عام ہو گئی ہے کہ ایسا کرنے والے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ اس سے متعلقہ لوگوں کی کم اور ہمارے ملک اور معاشرے کی زیادہ جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
مثال کے طور پر عمران خان کے سیاسی مخالفین کو یقینا یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اُس کے حالیہ دورہ امریکا کے بارے میں اپنے تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کریں مگر اس کے لیے اگر وہ کسی امریکی اخبار میں شائع شدہ عمران خان کے کارٹون پر واہ واہ کریں گے تو انھیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس تضحیک کا اصل نشانہ عمران خان نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ انھیں عمران خان کی زبان، طرز عمل اور پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر جہاں معاملہ ملک کی عزت کا ہو وہاں سب کو سلیقے سے کام لینا چاہیے اور اس سب میں ''ہم سب '' یکساں طور پر شامل ہیں۔