غیرت کے نام پر 9 افراد موت کے گھاٹ اُتار دیئے
مقتولین میں قاتل کی بیوی، دو بیٹے اور سسرالی رشتہ دار شامل ہیں
رسم و رواج کی خلاف ورزی تو کبھی غیرت کے نام پر قتل ہمارے معاشرے کا وہ بھیانک چہرہ ہے، جس سے آج بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ شعور و آگاہی، تعلیم اور گناہوں کے پردے چاک کرتے میڈیا کے باوجود ہمیں آج بھی ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ایسے واقعات سننے کو مل ہی جاتے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل کو فخر محسوس کیا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں ملتان میں پیش آیا، جہاں نہ صرف 9 افراد کو گولیاں مار دی گئیں بلکہ گھر کو بھی آگ لگا دی گئی۔ مقتولین میں بچے بھی شامل تھے جو اپنے ہی باپ کے ہاتھوں مارے گئے۔ قاتل اور مقتولین ایک ہی خاندان کے افراد تھے، جن میں ماں بیٹیاں، نواسہ، نواسی جیسے قریبی رشتے شامل تھے۔ کئی گھر اجاڑنے کی کی وجہ ایک ویڈیو بنی جو پاکستان سے سعودی عرب ایک شخص کو بھجوائی گئی تھی۔
30 جون کو سعودیہ پلٹ اجمل سمرا اپنے والد ظفر اور بھائی اشمل، بہن فرحت اور بھابھی انیلہ کے ہمراہ حسن آباد گیٹ نمبر 1 کے گلی نمبر 10 میں اپنے سسرال آیا، جہاں اس نے اپنی بیوی، ساس، سالیوں اور اپنے دو بچوں سمیت 8 افراد کو قتل کر دیا جبکہ تین افراد کو شدید زخمی کر دیا، جنہیں نشتر ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن ان میں سے بھی 11 سالہ لڑکا نشتر ہسپتال میں چل بسا۔ واقعہ کے فوراً بعد اس وقت کے سی پی او ملتان عمران محمود ایس ایس پی آپریشنز کاشف اسلم اور دیگر پولیس حکام موقع پر پہنچ گئے۔
ریسکیو1122 کے ذریعے آگ لگانے والے کمرے پر کولنگ کا عمل مکمل کر کے کمرے سے نعشیں نکالی گئیں، جن میں سے پانچ نعشیں مکمل طور پر جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔ اس دل دہلا دینے والے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز نے آر پی او اور سی پی او سے رپورٹ طلب کرلی جبکہ سی پی او عمران محمود کو واقعہ کے چند گھنٹوں بعد تبدیل کر دیا گیا۔
پولیس تھانہ نیو ملتان نے واقعہ کا مقدمہ ملزم اجمل کے سالے کی مدعیت میں درج کر لیا جس میں مدعی نے موقف اختیار کیا کہ وقوعہ کے روز اس کا والد ظفر ہمشیرگان صائمہ زوجہ شہزاد،عاصمہ زوجہ اسلم،کرن زوجہ محمد اجمل،روما زوجہ ندیم،نائمہ دختر شہزاد،بھانجی مائرہ دختر اجمل، بھانجا عادل ولد اجمل ،بھانجا صائم حسن ولد ندیم اسلام ،بھانجا حافظ ارسلان ولد شہزاد موجود تھے۔ اس کی والدہ تسنیم بی بی کی نازک طبیعت کی وجہ سے تمام اہل خانہ قرآن خوانی کر رہے تھے، اس دوران محمد اجمل اس کا بھائی محمد اشمل اور والد محمد ظفر گھر داخل ہوئے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سے یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ علی رضا کے مطابق اجمل کو اس کی بہن کے کردار پر شک تھا جس پر محمد اجمل نے بھائی اشمل اور والد ظفر کے ساتھ مل کر قتل کا منصوبہ بنایا۔
اطلاعات کے مطابق 9 افراد کے قتل کی وجہ غیر اخلاقی ویڈیو تھی جو کرن کے شوہر کو سعودی عرب بھجوائی گئی تھی،اس بات کا انکشاف پولیس تفتیش میں سامنے آیا ہے۔یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملزم اجمل گزشتہ ایک ماہ سے سعودی عرب سے واپس آکر قتل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ مبینہ طور پر ملزم اجمل کو ویڈیوز بھجوانے والا کرن کا ایک پرانا دوست ہے، جس کو کرن نے چھوڑ دیا تھا اور اس نے بدلہ لینے کے لیے ویڈیوز اجمل کو بھجوائی تھی ،یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اجمل اور کرن چچا زاد ہیں اور اجمل نے کرن سے شادی اس نوعیت کی سرگرمیوں سے دور رہنے کے حلف پر کی تھی۔
شادی کے کچھ عرصہ بعد کرن نے اپنے تمام سسرالیوں کو گھر سے نکلوا دیا تھا جس کے غم میں اجمل کی ماں دم توڑ گئی تھی۔ اجمل، اس کے والد اور بھائی کو اس بات کا بھی شدید رنج تھا۔ ویڈیو سامنے آنے پر وہ مشتعل ہو گئیاور یہی ویڈیو اس واقعہ کا مین سبب بنی ،پولیس نے اس واقعے میں ملوث دیگر ملزمان مرکزی ملزم اجمل کے بھائی اشمل بہن فرحت اور بھابھی انیلہ کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ مظلوم خاندان کو کب انصاف ملتا ہے؟
ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں ملتان میں پیش آیا، جہاں نہ صرف 9 افراد کو گولیاں مار دی گئیں بلکہ گھر کو بھی آگ لگا دی گئی۔ مقتولین میں بچے بھی شامل تھے جو اپنے ہی باپ کے ہاتھوں مارے گئے۔ قاتل اور مقتولین ایک ہی خاندان کے افراد تھے، جن میں ماں بیٹیاں، نواسہ، نواسی جیسے قریبی رشتے شامل تھے۔ کئی گھر اجاڑنے کی کی وجہ ایک ویڈیو بنی جو پاکستان سے سعودی عرب ایک شخص کو بھجوائی گئی تھی۔
30 جون کو سعودیہ پلٹ اجمل سمرا اپنے والد ظفر اور بھائی اشمل، بہن فرحت اور بھابھی انیلہ کے ہمراہ حسن آباد گیٹ نمبر 1 کے گلی نمبر 10 میں اپنے سسرال آیا، جہاں اس نے اپنی بیوی، ساس، سالیوں اور اپنے دو بچوں سمیت 8 افراد کو قتل کر دیا جبکہ تین افراد کو شدید زخمی کر دیا، جنہیں نشتر ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن ان میں سے بھی 11 سالہ لڑکا نشتر ہسپتال میں چل بسا۔ واقعہ کے فوراً بعد اس وقت کے سی پی او ملتان عمران محمود ایس ایس پی آپریشنز کاشف اسلم اور دیگر پولیس حکام موقع پر پہنچ گئے۔
ریسکیو1122 کے ذریعے آگ لگانے والے کمرے پر کولنگ کا عمل مکمل کر کے کمرے سے نعشیں نکالی گئیں، جن میں سے پانچ نعشیں مکمل طور پر جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔ اس دل دہلا دینے والے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز نے آر پی او اور سی پی او سے رپورٹ طلب کرلی جبکہ سی پی او عمران محمود کو واقعہ کے چند گھنٹوں بعد تبدیل کر دیا گیا۔
پولیس تھانہ نیو ملتان نے واقعہ کا مقدمہ ملزم اجمل کے سالے کی مدعیت میں درج کر لیا جس میں مدعی نے موقف اختیار کیا کہ وقوعہ کے روز اس کا والد ظفر ہمشیرگان صائمہ زوجہ شہزاد،عاصمہ زوجہ اسلم،کرن زوجہ محمد اجمل،روما زوجہ ندیم،نائمہ دختر شہزاد،بھانجی مائرہ دختر اجمل، بھانجا عادل ولد اجمل ،بھانجا صائم حسن ولد ندیم اسلام ،بھانجا حافظ ارسلان ولد شہزاد موجود تھے۔ اس کی والدہ تسنیم بی بی کی نازک طبیعت کی وجہ سے تمام اہل خانہ قرآن خوانی کر رہے تھے، اس دوران محمد اجمل اس کا بھائی محمد اشمل اور والد محمد ظفر گھر داخل ہوئے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سے یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ علی رضا کے مطابق اجمل کو اس کی بہن کے کردار پر شک تھا جس پر محمد اجمل نے بھائی اشمل اور والد ظفر کے ساتھ مل کر قتل کا منصوبہ بنایا۔
اطلاعات کے مطابق 9 افراد کے قتل کی وجہ غیر اخلاقی ویڈیو تھی جو کرن کے شوہر کو سعودی عرب بھجوائی گئی تھی،اس بات کا انکشاف پولیس تفتیش میں سامنے آیا ہے۔یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملزم اجمل گزشتہ ایک ماہ سے سعودی عرب سے واپس آکر قتل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ مبینہ طور پر ملزم اجمل کو ویڈیوز بھجوانے والا کرن کا ایک پرانا دوست ہے، جس کو کرن نے چھوڑ دیا تھا اور اس نے بدلہ لینے کے لیے ویڈیوز اجمل کو بھجوائی تھی ،یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اجمل اور کرن چچا زاد ہیں اور اجمل نے کرن سے شادی اس نوعیت کی سرگرمیوں سے دور رہنے کے حلف پر کی تھی۔
شادی کے کچھ عرصہ بعد کرن نے اپنے تمام سسرالیوں کو گھر سے نکلوا دیا تھا جس کے غم میں اجمل کی ماں دم توڑ گئی تھی۔ اجمل، اس کے والد اور بھائی کو اس بات کا بھی شدید رنج تھا۔ ویڈیو سامنے آنے پر وہ مشتعل ہو گئیاور یہی ویڈیو اس واقعہ کا مین سبب بنی ،پولیس نے اس واقعے میں ملوث دیگر ملزمان مرکزی ملزم اجمل کے بھائی اشمل بہن فرحت اور بھابھی انیلہ کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ مظلوم خاندان کو کب انصاف ملتا ہے؟