انقلاب کیوں آتے ہیں
حکام نے یلدز سرائے سے سلطان عبدالحمید کی رخصتی کے بعد حرم سرا کے باقی ماندہ مکینوں کو بھی نکال باہر کیا
جب اسعد پاشا اور اس کے ساتھی روانہ ہوئے تو انھوں نے شہزادہ عبدالرحیم کے رونے کی آواز سنی جب کہ اس کا باپ ترکی کا معزول سلطان عبدالحمید دل شکستگی کی وجہ سے لب بستہ رہا۔ اس نے بتیس سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تھی۔ اس دوران صرف ابتدائی چند مہینوں کے علاوہ اس نے انتہائی جابرانہ حکومت کی تھی۔ اب وہ ایک نہایت بے بس بوڑھے آدمی کی طرح سے دردناک حال میں تھا اور ایک ٹوٹے پھوٹے محل میں رہنے کی اجازت مانگ رہا تھا، جہاں اس نے پہلے اپنے معزول بھائی کو قید رکھا تھا۔ اسمبلی نے فیصلہ دیا کہ عبدالحمید کو ملک بدر کر کے سیلو نیکا بھیج دیا جائے۔ صبح نو بجے حسن پاشا سلطان عبدالحمید کو اسمبلی کے فیصلے سے آگا ہ کر نے کے لیے یلدز سرائے آیا۔ وہ لکھتا ہے جب میں نے سلطان کو اس فیصلے سے آگا ہ کیا تو صدمے کی شدت سے اس کا حال برا ہو گیا۔ اس کی کنیزیں یہ دیکھ کر دوڑتی ہوئی آئیں۔ انھوں نے اسے پانی پلایا اور زار و قطار رونے لگیں۔ کافی دیر بعد اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے دلاسا دینے پر اس کی حالت قدرے بہتر ہوئی اور اس نے ساز و سامان گھوڑا گاڑیوں پر لادنے کا حکم دیا۔
اسی شام سلطان عبدالحمید اپنے گھرانے اور ملازموں سمیت سامان سے لدی گھوڑا گاڑیوں کے جلوس میں روانہ ہوئے۔ اسے سرگجیی اسٹیشن لے جایا گیا۔ یہاں وہ اس ریلوے کو چ میں سوار ہوئے جو بیس سال پہلے اورینٹل ریلوے کمپنی نے سلطان عبدالحمید کو پیش کی تھی۔ سلطان کے ساتھ اس کے دو بیٹے، دو بیٹیاں، تین بیویاں، چار کنیزیں، چار خواجہ سرا، سترہ خادم اور اس کی انگورا بلیاں تھیں۔ بیس گھنٹے کے سفر کے بعد وہ سیلو نیکا پہنچ گیا۔ یہاں انہیں ایک وسیع و عر یض اور آرام دہ محل میں قیام کر نا تھا۔ سلطان عبدالحمید اپنی رہائش گاہ سے مطمئن لگتا تھا اور یوں اس کی جلا وطنی کی زندگی کا آغاز ہوا۔ سلطان عبدالحمید کی معزولی کے بعد نئی حکومت نے اس کی باقیات کا صفایا کر دیا۔ میسیڈونیائی فوج نے چھ ہزار افراد کو گرفتار کر کے ان پر سلطان عبدالحمید سے پہلے والی حکومت کا تختہ الٹنے نیز عوام کے خلاف جرائم کے الزام میں فو جی عدالتوں میں مقدمے چلائے۔ سزا پانیوالوں میں سیاہ فام خواجہ سرائوں کا سر براہ جوہر آغا بھی شامل تھا جسے گلاتا پل پر بجلی کے کھمبے سے لٹکا کر پھانسی دی گئی۔ جوہر کے اثاثے ضبط کر لیے تھے جن میں باسفورس کے ساحل پر واقع ایک محل بھی تھا، جہاں سے اس کی ایک مصری کنیز بھی ملی، جو اپنے آقا کی موت کی خبر سن کر بہت افسردہ ہو گئی تھی۔
حکام نے یلدز سرائے سے سلطان عبدالحمید کی رخصتی کے بعد حرم سرا کے باقی ماندہ مکینوں کو بھی نکال باہر کیا۔ میکلا گ نے ا س منظر کا حال اس طرح بیان کیا ہے۔ تذلیل و تحقیر کا ایک اور نظارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سابق سلطان کے حرم کی عورتوں کا جلوس شہر کی گلیوں سے گزرتا ہوا یلدز سرائے سے توپ کاپی سرائے گیا۔ یہ بدقسمت عورتیں پندرہ سے پچاس سال کی عمروں کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انہیں اور ان کے ملازموں کو اکتیس گھوڑا گا ڑیوں میں لے جانا پڑا۔ ان میں سے کچھ کو استنبول میں پرانی حرم سرا لے جایا گیا مگر وہ محل اتنا شکستہ اور قابل مرمت تھا کہ ان عورتوں کو یلدز سرائے واپس لا نا پڑا۔ شاہی حرم کی بیشتر عورتیں سرکیشیا ئی بستیوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہیں مطلع کیا گیا کہ وہ سلطان عبدالحمید کے ملازم اپنے خاندان کے کسی بھی فرد کے گھر میں رہ سکتی ہیں۔ بعض عورتیں بے سہارا تھیں، حکومت نے ان کی دیکھ بھال کی ذمے داری قبول کر لی اور ان کی شادی تک یہ ذمے داری نبھا نے کا اعلان کیا۔
پارلیمنٹ نے مئی کے شروع میں سلطان عبدالحمید کے اثاثوں کے حساب لگانے کے لیے ایک کمیشن یلدز سرائے بھیجا۔ میکلاگ نے پارلیما نی کمیشن کو پیش آنیوالا ایک انوکھا واقعہ لکھا ہے۔ جب کمیشن کے افراد نماز پڑھ رہے تھے تو انہیں ''پادشا ہم چوک پاشا'' (بادشاہ زندہ باد) کے نعرے سنائی دیے جب غور کیا تو پتہ چلا کہ آوازیں ایک ایسے کمرے سے آ رہی ہیں جسے تھوڑی دیر پہلے انھوں نے خود مقفل کر کے سیل بند کیا تھا انھوں نے دوبارہ دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ تو سلطان کے پالتو طوطے تھے جنہیں یہ نعر ہ لگا نا سکھایا گیا تھا۔شاہ ولی اللہ کہتے ہیں ''انسانیت کے اجتماعی اخلاق اس وقت برباد ہو جاتے ہیں جب کسی جبر سے ان کو اقتصادی تنگی پر مجبور کر دیا جائے اس وقت وہ گدھوں اور بیلوں کی طرح صرف روٹی کمانے کے لیے کام کریں گے جب انسانیت پر ایسی مصیبت نازل ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ انسانیت کو ان سے نجات دلانے کے لیے کوئی راستہ ضرور الہام کرتا ہے یعنی ضروری ہے کہ قدرت الہیہ انقلاب کے سامان پیدا کر کے قوم کے سر سے اس نا جائز حکومت کا بوجھ اتار دے ۔''
کسی قوم کے ایک محدود طبقے کی غیر فطری اور ناجائز ترقی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں انسان ایک ایک روٹی کے لیے ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں اور چند ایک کے پاس دولت کے انبار کے انبار جمع ہو جاتے ہیں اس صورتحال میں قوم کو روگ لگ جاتا ہے افراد کی صلاحیتیں بے کار ہو جاتی ہیں، عیش پرستی عام طور پر پھیلنے لگتی ہے نفسانفسی کا یہ عالم ہو جاتا ہے کہ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا پیٹ بھرے اپنی خواہشات کو پورا کرے۔ خواہ دوسرا فاقوں کے مارے مرتا مر جائے ۔ معاشی تباہ حالی سے یہ بھی ہوتا ہے کہ خالی پیٹ کی فکر میں انسان کو کسی اور چیز کی سمجھ نہیں رہتی اس طرح انسانیت ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتی ہے اور ساتھ ساتھ جب کسی قوم کا پڑھا لکھا دانشور طبقہ اپنے فرض منصبی سے غفلت برتا ہے اور اس کی صلاحیتیں خراب کاموں میں صرف ہونے لگتی ہیں یعنی وہ حکمران طبقے کی خوشامد اور چاپلوسی کر کے ان سے زیادہ سے زیادہ اپنی ذات کے لیے فائد ے حاصل کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے تو انقلاب لازمی ہو جاتا ہے۔
اسی وجہ سے قیصر وکسر ی کا نظام جو دنیا پر حاوی تھا پاش پاش ہو گیا قیصر وکسر ی کے نظام کی تباہی اس لیے ہوئی کہ اس کی بنیاد لوٹ کھسو ٹ پر قائم تھی عجم اور روم کے شہنشا ہ اس قدر تعیش میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اگر ان کا کوئی درباری لاکھ روپے سے کم قیمت کی ٹوپی یا کمر بند پہنتا تو اسے کمتر سمجھا جاتا تھا کلیکہ دمنہ کے منصف ایرانی حکیم برزویہ نے اس وقت ایران کی جو حالت تھی اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے ''ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے صداقت سے ہاتھ اٹھا لیا ہے جو چیز مفید ہے وہ موجود نہیں ہے اور جو موجود ہے وہ مضر ہے جو چیز اچھی ہے وہ مرجھائی ہوئی ہے اور جو چیز بری ہے سرسبز ہے دروغ کو فروغ ہے اور نیکی بے رونق ہے علم پستی کے درجے میں ہے اور بے عقلی کا درجہ بلند ہے بدی کا بول بالا ہے اور شرافت نفسی پامال ہے۔
محبت متروک ہے اور نفرت مقبول ہے فیض وکرم کا دروازہ نیکوں پر بند ہے اور شریروں پر کھلا ہے حکام کا فرض صرف عیاشی کر نا اور قانون کو توڑنا ہے مظلوم اپنی ذلت پر قانع ہے اور ظالم کو اپنے ظلم پر فخر ہے حر ص اپنا منہ کھولے ہوئے ہے اور وہ نزدیک کی ہر چیز کو نگل رہی ہے تسلط لائقوں سے نالائقوں کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا مسرت کے نشے میں یہ کہہ رہی ہے کہ میں نے نیکی کو مقفل اور بد ی کو رہا کر دیا ہے'' اور یہ ہی حالت روم اور ترکی کے سلطانوں کی تھی ۔ روگ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اور آخر کا قیصر و کسر ی اور ترکی کے ظالم سلطان نیست و نا بود ہو گئے۔ جو ایران کی منظر کشی حکیم برزویہ نے کی تھی بالکل ویسی کی ویسی صورتحال سے آج پاکستان دو چار ہے روگ بڑھتا ہی جا رہا ہے بہتری کی امید کہیں سے نظر نہیں آ رہی ہے پوری قوم برائیو ں کی دلدل میں دھنسی جا رہی ہے۔ زوال کے جراثیم قوم کے سارے جسم میں اپنا کام کر چکے ہیں بے جان تمدن آخری سانسیں لے رہا ہے انسان کھوکھلے ہو چکے ہیں، وہ چلتے پھرتے جنازے بن گئے ہیں۔ منتظر ہیں کہ کب خدا اور اس کے مقرب فرشتوں کی آتش غضب بھڑکتی ہے اور کب ہمیں بھی دوسروں کی طرح نجات ملتی ہے۔ اور کب ہمارے ظالم، عیاش، عیار، لٹیرے اپنے انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔
اسی شام سلطان عبدالحمید اپنے گھرانے اور ملازموں سمیت سامان سے لدی گھوڑا گاڑیوں کے جلوس میں روانہ ہوئے۔ اسے سرگجیی اسٹیشن لے جایا گیا۔ یہاں وہ اس ریلوے کو چ میں سوار ہوئے جو بیس سال پہلے اورینٹل ریلوے کمپنی نے سلطان عبدالحمید کو پیش کی تھی۔ سلطان کے ساتھ اس کے دو بیٹے، دو بیٹیاں، تین بیویاں، چار کنیزیں، چار خواجہ سرا، سترہ خادم اور اس کی انگورا بلیاں تھیں۔ بیس گھنٹے کے سفر کے بعد وہ سیلو نیکا پہنچ گیا۔ یہاں انہیں ایک وسیع و عر یض اور آرام دہ محل میں قیام کر نا تھا۔ سلطان عبدالحمید اپنی رہائش گاہ سے مطمئن لگتا تھا اور یوں اس کی جلا وطنی کی زندگی کا آغاز ہوا۔ سلطان عبدالحمید کی معزولی کے بعد نئی حکومت نے اس کی باقیات کا صفایا کر دیا۔ میسیڈونیائی فوج نے چھ ہزار افراد کو گرفتار کر کے ان پر سلطان عبدالحمید سے پہلے والی حکومت کا تختہ الٹنے نیز عوام کے خلاف جرائم کے الزام میں فو جی عدالتوں میں مقدمے چلائے۔ سزا پانیوالوں میں سیاہ فام خواجہ سرائوں کا سر براہ جوہر آغا بھی شامل تھا جسے گلاتا پل پر بجلی کے کھمبے سے لٹکا کر پھانسی دی گئی۔ جوہر کے اثاثے ضبط کر لیے تھے جن میں باسفورس کے ساحل پر واقع ایک محل بھی تھا، جہاں سے اس کی ایک مصری کنیز بھی ملی، جو اپنے آقا کی موت کی خبر سن کر بہت افسردہ ہو گئی تھی۔
حکام نے یلدز سرائے سے سلطان عبدالحمید کی رخصتی کے بعد حرم سرا کے باقی ماندہ مکینوں کو بھی نکال باہر کیا۔ میکلا گ نے ا س منظر کا حال اس طرح بیان کیا ہے۔ تذلیل و تحقیر کا ایک اور نظارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سابق سلطان کے حرم کی عورتوں کا جلوس شہر کی گلیوں سے گزرتا ہوا یلدز سرائے سے توپ کاپی سرائے گیا۔ یہ بدقسمت عورتیں پندرہ سے پچاس سال کی عمروں کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انہیں اور ان کے ملازموں کو اکتیس گھوڑا گا ڑیوں میں لے جانا پڑا۔ ان میں سے کچھ کو استنبول میں پرانی حرم سرا لے جایا گیا مگر وہ محل اتنا شکستہ اور قابل مرمت تھا کہ ان عورتوں کو یلدز سرائے واپس لا نا پڑا۔ شاہی حرم کی بیشتر عورتیں سرکیشیا ئی بستیوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہیں مطلع کیا گیا کہ وہ سلطان عبدالحمید کے ملازم اپنے خاندان کے کسی بھی فرد کے گھر میں رہ سکتی ہیں۔ بعض عورتیں بے سہارا تھیں، حکومت نے ان کی دیکھ بھال کی ذمے داری قبول کر لی اور ان کی شادی تک یہ ذمے داری نبھا نے کا اعلان کیا۔
پارلیمنٹ نے مئی کے شروع میں سلطان عبدالحمید کے اثاثوں کے حساب لگانے کے لیے ایک کمیشن یلدز سرائے بھیجا۔ میکلاگ نے پارلیما نی کمیشن کو پیش آنیوالا ایک انوکھا واقعہ لکھا ہے۔ جب کمیشن کے افراد نماز پڑھ رہے تھے تو انہیں ''پادشا ہم چوک پاشا'' (بادشاہ زندہ باد) کے نعرے سنائی دیے جب غور کیا تو پتہ چلا کہ آوازیں ایک ایسے کمرے سے آ رہی ہیں جسے تھوڑی دیر پہلے انھوں نے خود مقفل کر کے سیل بند کیا تھا انھوں نے دوبارہ دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ تو سلطان کے پالتو طوطے تھے جنہیں یہ نعر ہ لگا نا سکھایا گیا تھا۔شاہ ولی اللہ کہتے ہیں ''انسانیت کے اجتماعی اخلاق اس وقت برباد ہو جاتے ہیں جب کسی جبر سے ان کو اقتصادی تنگی پر مجبور کر دیا جائے اس وقت وہ گدھوں اور بیلوں کی طرح صرف روٹی کمانے کے لیے کام کریں گے جب انسانیت پر ایسی مصیبت نازل ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ انسانیت کو ان سے نجات دلانے کے لیے کوئی راستہ ضرور الہام کرتا ہے یعنی ضروری ہے کہ قدرت الہیہ انقلاب کے سامان پیدا کر کے قوم کے سر سے اس نا جائز حکومت کا بوجھ اتار دے ۔''
کسی قوم کے ایک محدود طبقے کی غیر فطری اور ناجائز ترقی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں انسان ایک ایک روٹی کے لیے ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں اور چند ایک کے پاس دولت کے انبار کے انبار جمع ہو جاتے ہیں اس صورتحال میں قوم کو روگ لگ جاتا ہے افراد کی صلاحیتیں بے کار ہو جاتی ہیں، عیش پرستی عام طور پر پھیلنے لگتی ہے نفسانفسی کا یہ عالم ہو جاتا ہے کہ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا پیٹ بھرے اپنی خواہشات کو پورا کرے۔ خواہ دوسرا فاقوں کے مارے مرتا مر جائے ۔ معاشی تباہ حالی سے یہ بھی ہوتا ہے کہ خالی پیٹ کی فکر میں انسان کو کسی اور چیز کی سمجھ نہیں رہتی اس طرح انسانیت ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتی ہے اور ساتھ ساتھ جب کسی قوم کا پڑھا لکھا دانشور طبقہ اپنے فرض منصبی سے غفلت برتا ہے اور اس کی صلاحیتیں خراب کاموں میں صرف ہونے لگتی ہیں یعنی وہ حکمران طبقے کی خوشامد اور چاپلوسی کر کے ان سے زیادہ سے زیادہ اپنی ذات کے لیے فائد ے حاصل کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے تو انقلاب لازمی ہو جاتا ہے۔
اسی وجہ سے قیصر وکسر ی کا نظام جو دنیا پر حاوی تھا پاش پاش ہو گیا قیصر وکسر ی کے نظام کی تباہی اس لیے ہوئی کہ اس کی بنیاد لوٹ کھسو ٹ پر قائم تھی عجم اور روم کے شہنشا ہ اس قدر تعیش میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اگر ان کا کوئی درباری لاکھ روپے سے کم قیمت کی ٹوپی یا کمر بند پہنتا تو اسے کمتر سمجھا جاتا تھا کلیکہ دمنہ کے منصف ایرانی حکیم برزویہ نے اس وقت ایران کی جو حالت تھی اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے ''ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے صداقت سے ہاتھ اٹھا لیا ہے جو چیز مفید ہے وہ موجود نہیں ہے اور جو موجود ہے وہ مضر ہے جو چیز اچھی ہے وہ مرجھائی ہوئی ہے اور جو چیز بری ہے سرسبز ہے دروغ کو فروغ ہے اور نیکی بے رونق ہے علم پستی کے درجے میں ہے اور بے عقلی کا درجہ بلند ہے بدی کا بول بالا ہے اور شرافت نفسی پامال ہے۔
محبت متروک ہے اور نفرت مقبول ہے فیض وکرم کا دروازہ نیکوں پر بند ہے اور شریروں پر کھلا ہے حکام کا فرض صرف عیاشی کر نا اور قانون کو توڑنا ہے مظلوم اپنی ذلت پر قانع ہے اور ظالم کو اپنے ظلم پر فخر ہے حر ص اپنا منہ کھولے ہوئے ہے اور وہ نزدیک کی ہر چیز کو نگل رہی ہے تسلط لائقوں سے نالائقوں کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا مسرت کے نشے میں یہ کہہ رہی ہے کہ میں نے نیکی کو مقفل اور بد ی کو رہا کر دیا ہے'' اور یہ ہی حالت روم اور ترکی کے سلطانوں کی تھی ۔ روگ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اور آخر کا قیصر و کسر ی اور ترکی کے ظالم سلطان نیست و نا بود ہو گئے۔ جو ایران کی منظر کشی حکیم برزویہ نے کی تھی بالکل ویسی کی ویسی صورتحال سے آج پاکستان دو چار ہے روگ بڑھتا ہی جا رہا ہے بہتری کی امید کہیں سے نظر نہیں آ رہی ہے پوری قوم برائیو ں کی دلدل میں دھنسی جا رہی ہے۔ زوال کے جراثیم قوم کے سارے جسم میں اپنا کام کر چکے ہیں بے جان تمدن آخری سانسیں لے رہا ہے انسان کھوکھلے ہو چکے ہیں، وہ چلتے پھرتے جنازے بن گئے ہیں۔ منتظر ہیں کہ کب خدا اور اس کے مقرب فرشتوں کی آتش غضب بھڑکتی ہے اور کب ہمیں بھی دوسروں کی طرح نجات ملتی ہے۔ اور کب ہمارے ظالم، عیاش، عیار، لٹیرے اپنے انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔