پی آئی اے کی نجکاری

قومی ایئرلائن کی روشن تاریخ سے اسے خسارے میں ڈبودینے والے اندھیروں تک کی کہانی

حکومت نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ دنیا کی کئی فضائی کمپنیوں کو پیروں پر کھڑا کرنے والی ایئرلائن خود کیسے بیٹھ گئی؟ فوٹو : فائل

معاشی بدحالی کی شکار پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز کارپوریشن کا شمار ایک دہائی سال قبل تک پاکستان کے کماؤپوت اداروں میں ہو ا کرتا تھا، لیکن پھر بلندیوں میں محوپرواز یہ ادارہ تباہی کے اندھیروں میں گھر گیا۔

میڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق اقربا پروری، سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ انتظامی عہدوں پر نان ٹیکنیکل اور ضرورت سے زاید ملازمین کی بھرتیوں اور کرپشن جیسے عوامل نے اس منافع بخش ادارے کی جڑوں کو اس حد تک کھوکھلا کردیا ہے کہ اب اس کے لیے اپنے پیروإ پر کھڑا ہونا مشکل ہورہا ہے۔ چناں چہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت منعقدہ اجلاس میں کیے جانے والے اس فیصلے کے مطابق پی آئی اے کے 26 فیصد شیئرز کی شفاف طریقے سے نجکاری کی منظوری دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کی ہدایات کی روشنی میں، تمام متعلقہ ضابطوں کی پاس داری کرتے ہوئے اور مکمل شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شروع کیا جائے۔

حکومت کے اس فیصلے کی بنیاد جو صورت حال بنی اسے جاننے کے لیے ہمیں قومی فضائی کمپنی کے تباہی کے دہانے تک پہنچنے کے عوامل کا جائزہ لینا ہوگا۔

گذشتہ پانچ سال کا موازنہ کیا جائے تو ہر سال پی آئی اے کے خسارے میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر ایک دہائی پیچھے دیکھا جائے تو آخری بار 2004میں پی آئی اے نے بعد از ٹیکس تقریباً 2,307 ملین روپے منافع کمایا تھا، تاہم اگلے سال ہی پی آئی اے کو 4,412ملین روپے خسارے کا سامنا کرنا پڑا ۔ 2006میں پی آئی اے کا خسارہ تین گنا بڑھ کر 12,763ملین روپے ہوگیا۔2007 میں اس ادارے کے خسارے میں معمولی سا اضافہ ہوا، لیکن 2008 میں ایک بار پھر 2006کی نسبت مالی خسارہ تقریباً تین گنا بڑھ کر 36,139 ملین روپے ہوگیا۔

2009میں پی آئی اے کے مالی خسارے میں ڈرامائی طور پر تبدیلی آئی اور وہ کم ہوکر 5,822 ملین روپے پر آگیا۔ معاشی سال 2010،2011 اور 2012 میں پی آئی اے کا مالی خسارہ بالترتیب تقریباً 20,785 ملین،26,767ملین اور33,182ملین رہا، جب کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں ہی پی آئی اے کا خسارہ ٹیکس کی ادائیگی کے بعد 7,44,291,000 پر پہنچ چکا ہے، جو کہ گذشتہ سال اسی مدت میں 7,895,644,000 تھا۔

پی آئی اے کے ذیلی اداروں میں ''روزویلٹ ہوٹل نیویارک''،''پی آئی اے انویسٹمنٹ''، ''اسکائی رومز پرائیویٹ لمیٹڈ''،''منہال ان کارپوریٹڈ''، ''ڈیوٹی فری شاپس'' شامل ہیں۔

خلیجی ممالک کی بہت سی فضائی کمپنیاں جنہیں افرادی قوت اور تیکنیکی معاونت پی آئی اے نے فراہم کی تھی آج ان کا شمار دنیا کی کام یاب اور منافع بخش فضائی کمپنیوں لائن میں ہوتا ہے جس کی ایک روشن مثال ''ایمریٹس ایئر لائنز'' ہے۔ مارچ 1985میں ''ایمریٹس ایئر لائنز'' نے پی آئی اے سے دو جہاز لیز پر لے کر محض 10ملین ڈالر سے اپنا فضائی آپریشن شروع کیا تھا۔ اور آج اس کے فضائی بیڑے میں دو سو سے زاید جدید جہاز شامل ہیں، جب کہ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ایمریٹس کا چھٹا نمبر ہے۔ ایمریٹس کی ترقی میں اہم کردار پی آئی اے کے تیکنیکی ماہرین کا بھی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایشیا کی متعدد فضائی کمپنیوں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے والی قومی ایئر کی معاشی اور انتظامی حالت بہت دگر گوں ہوگئی ہے۔

قومی سطح پر تو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو بہت زیادہ مسابقت کا سامنا نہیں ہے، کیوں کہ پاکستان میں فی الوقت تین فضائی کمپنیاں ''ایئر بلیو''،''شاہین ایئر'' اور دو ماہ قبل ہی فضائی آپریشن شروع کرنے والی ''انڈس ایئر'' شامل ہیں۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر پی آئی اے کو سخت مقابلے کا سامنا ہے، جس کی اہم وجوہات میں پروازوں میں تاخیر، عملے کا غیر پیشہ ورانہ طرز عمل، اور جہازوں کی ناگفتہ بہ حالت بھی ہے۔ یاد رہے کہ مارچ 2007میں یورپی کمیشن کے ''ایئر سیفٹی ایڈمنسٹریٹر'' نے حفاظتی خدشات کی بنا پر پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں شامل تمام جہازوں پر پابندی عاید کردی تھی۔


تاہم بیڑے میں شامل 7 ''بوئنگ 777s'' اس پابندی سے مستثنیٰ تھے۔ یورپی یونین کی اس پابندی نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام بدنام کیا۔ پی آئی اے پر لگنے والی پابندی کے بعد اعلیٰ حکام نے اس وقت کے چیئرمین پی آئی اے طارق سعید کرمانی سے زبردستی استعفیٰ لے لیا تھا۔ آٹھ ماہ بعد یورپی یونین نے پی آئی اے پر لگائی جانے والی پابندی کو ختم کردیا، جس کے بعد مستقبل میں شرمندگی سے بچنے کے لیے پی آئی اے نے کویت کی لیزنگ کمپنی {{''ALAFCO'' سے سات ''ایئر بس A320-200'' لیزنگ پر لینے کا معاہدہ کیا، جس کے تحت مذکورہ کمپنی کو اگلے دو برس میں ان جہازوں کی ڈیلیوری کرنی تھی، لیکن جہازوں کی ڈیلیوری سے قبل ہی چند ''ناگزیر'' وجوہات کی بنا یہ معاہدہ منسوخ کردیا گیا تھا۔

قومی فضائی کمپنی کی نج کاری کا مشورہ دینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ دس سال میں پی آئی اے کو تقریباً 120بلین روپے سے زاید کا خسارہ ہوچکا ہے اور اس کی اہم وجوہات میں ''ایمپلائمنٹ ٹو ایئر کرافٹ ریشو'' اور پروازوں میں تاخیر شامل ہے۔ پروازوں میں تاخیر کی وجہ سے تقریباً 35 فی صد مسافر دوسری ایئرلائنز پر منتقل ہوگئے ہیں۔

دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں میں ''ایمپلائمنٹ ٹو ایئر کرافٹ ریشو'' کا کلیہ رائج ہے، جس کی بنا پر ہی کسی فضائی کمپنی کے منافع کا دارومدار ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں میں ایئر کرافٹ ریشو کی معیاری رینج 1:130سے1:170 تک ہوتی ہے، یعنی ایک جہاز کے لیے 130سے 170ملازمین ہونے چاہیے۔ لیکن سیاسی بنیادوں پر ہونے والی زاید بھرتیوں نے پی آئی اے میں اس شرح کو 1:527تک پہنچا دیا ہے۔ پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں شامل34جہازوں میں سے صرف 24 جہاز ہی آپریشنل ہیں، جس کی وجہ سے ایک جہاز کے لیے527ملازمین ہیں۔

چند ماہ قبل ''فنانشل ٹائمز '' میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سابق دور حکومت میں 2009کے بعد سے ریٹائر ہونے والے تقریباً ہر پائلٹ کو دوبارہ کنٹریکٹ پر ہائر کیا گیا، جب کہ گذشتہ پانچ برسوں میں پی آئی اے میں میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساڑھے تین ہزار ملازمین کی بھرتیا ں کی گئی، جن میں 250پائلٹ بھی شامل ہیں، جو پے رول پر ہونے کے باوجود تین سال سے آپریشنل ہونے کے منتظر ہیں۔ 2008میں نواز دور حکومت میں برطرف کیے گئے ہزاروں پی آئی اے ملازمین کو نوکریوں پر بحال کیا گیا اور پچھلے تمام سالوں کی تن خواہیں اور مراعات دی گئیں۔

اس مد میں قومی فضائی کمپنی کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کرنی پڑی۔ اس رپورٹ کے مطابق یونینوں، سیاسی پارٹیوں اور حکام بالا کے دباؤ پر پی آئی اے میں جعلی ڈگری کی بنیادوں پر بھرتے کیے جانے والے افراد کو بھی اب تک برطرف نہیں کیا گیا ہے۔ رواں سال ہی حکومت نے پی آئی اے ملازمین کے لیے 5بلین کے سیلر ی پیکیج کا اعلان کیا، جو تقریباً 30بلین روپے سالانہ خسارے میں چلنے والی ایئرلائنز کو مزید ڈبونے کے لیے کافی ہے، جب کہ حکومت پی آئی اے ملازمین کی یونین ''سی بی اے'' کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو قبول کرتے ہوئے گروپ ایک تا چار کی تن خواہوں میں 45 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی۔

اس وقت پی آئی اے میں ''بوئنگ 777'' اڑانے والے سینئر پائلٹ کو تن خواہ اور مراعات کی مد میں دس لاکھ روپے سے زاید ادا کیے جا رہے ہیں، جوکہ پاکستان میں ایک پی ایچ ڈی کو ملنے والی تن خواہ سے پانچ گنا زاید ہے۔

چند دن قبل ہی پی آئی اے نے دو منافع بخش روٹس ''فرینکفرٹ'' اور ''ایمسٹرڈیم'' میں اپنی پروازیں معطل کردی ہیں۔ پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز کارپوریشن کے 87 فی صد حصص حکومتِ پاکستان جب کہ 13فی صد حصص نجی شیر ہولڈرز کے پاس ہیں۔ 1990میں نوازشریف کے پہلے دور حکومت میں بھی مستقل خسارے میں چلنے والی ایئر لائنز کی نج کاری کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اور اس سلسلے میں ''کیٹرنگ یونٹ''،''گراؤنڈ ہینڈلنگ'' اور ''انجینئرنگ'' کے شعبہ جات کو آؤٹ سورس کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے تھے۔

تاہم قومی ایئرلائنز کی نج کاری کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ 2007میں ورلڈ بینک کی ایک ٹیم نے پی آئی اے کے ڈھانچے میں ازسر نو تبدیلیوں اور نج کاری کا مشورہ دینے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔ تاہم اس معاملے پر کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہوسکا، کیوں کہ حکومت کے پاس قومی فضائی کمپنی کی نج کاری کے لیے کئی منصوبے تھے اور ان کے حل کے لیے کوئی قابل قبول معاہدہ نہیں طے پاسکا ۔ 18فروری 2009میں پی آئی اے کا نام نج کاری کی فہرست سے نکال دیا گیا۔

پی آئی اے اس وقت ملک بھر میں 23 اور ایشیا، یورپ اور شمالی امریکا کے 28ممالک میں اپنی پروازیں آپریٹ کر رہی ہے۔
Load Next Story