بلوچستان میں سیاسی بحران بڑھ رہاہے
بلوچستان کی مخلوط حکومت کابینہ کی تشکیل کے جھنجھٹ سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکی۔...
KARACHI:
بلوچستان کی مخلوط حکومت کابینہ کی تشکیل کے جھنجھٹ سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکی۔
اب تومعاملہ ایک دردِ سر بن گیا ہے۔ آئے روز اس حوالے سے تاریخیں دی جارہی ہیں۔وزیرعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کافی عرصہ سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیرعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور میر حاصل بزنجو پوری کوشش کررہے ہیں کہ بلوچستان کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے مری میں جو معاہدہ طے پایا تھا اس پر عمل کرتے ہوئے کابینہ تشکیل دی جائے۔ وہ نواز لیگ کی مرکزی قیادت سے بھی رابطوں میں ہیں تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کابینہ کی تشکیل کیلئے کون سا فارمولا طے پایا تھا۔
نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ مری میں یہ طے پایا تھا کہ چودہ رکنی کابینہ میں چھ (ن) لیگ اور چار، چار نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کے ارکان کو نمائندگی دی جائے گی جبکہ پانچ مشیر لئے جائیں گے جن میں سے دو پشتونخوامیپ ، دو نواز لیگ اور ایک نیشنل پارٹی سے لیا جائے گا۔ اس کے برعکس نواز لیگ کی صوبائی قیادت کا یہ کہنا ہے کہ مری میں آٹھ اور تین، تین کا فارمولا طے پایا تھا اور تین مشیر نواز لیگ اور ایک، ایک مشیر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کو دیئے جانے کی بات ہوئی تھی۔
نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے کابینہ کیلئے اپنے ارکان کے نام فائنل کرلئے ہیں جبکہ (ن) لیگ کی طرف سے ابھی تک کوئی نام نہیں آیا۔جوں جوں کابینہ کی تشکیل میں تاخیر ہورہی ہے، توں توں نواز لیگ کے اراکین کی جانب سے تند و تیز بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہر معاملے میں وزیرعلیٰ نظرانداز کررہے ہیں۔
گزشتہ روز اسلام آباد سے اس خبر پر مسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے سخت ردعمل ظاہر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر نواب ثناء اﷲ زہری کی پارٹی قیادت سے اختلافات کے باعث سو دن گزرنے کے باوجود کابینہ تشکیل نہیں دی جاسکی جبکہ وزیرعلیٰ نے نواب ثناء اﷲ زہری کی جانب سے کابینہ کیلئے تجویز کردہ ناموں پر اپنے تحفظات ظاہر کئے ہیں، جس پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے یہ نام مسترد کردیئے، انہوں نے پارٹی کی صوبائی قیادت کو کابینہ کے معاملات سے الگ کردیا ہے۔ اس پر نواب ثناء اﷲ زہری پارٹی کے اس فیصلے سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے مشورے شروع کردیئے۔
نواز لیگ کے ترجمان نے اس خبر کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نواب ثناء اﷲ زہری نے وزیراعظم کو کابینہ کیلئے (ن) لیگ کے اراکین کی کوئی فہرست نہیں بھجوائی ۔جب اُنہوں نے یہ نام ہی نہیں بھجوائے تو پھر وزیراعلیٰ کے تحفظات، وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نام مسترد کئے جانے، نواب ثناء اﷲ زہری کی پارٹی قیادت سے ناراضگی اور وزیراعظم کی جانب سے صوبائی قیادت کو کابینہ کے معاملات سے الگ کرنے کی باتیں کیسے درست ہوسکتی ہیں؟ نواز لیگ کے ترجمان نے واضح کیا کہ پارٹی کے اندر کوئی اختلاف نہیں، پارٹی کے تمام اراکین متحد اور پارٹی فیصلوں کی پاسداری کررہے ہیں۔
پارٹی ترجمان نے یہ بھی بتایاکہ پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے دوروزہ اجلاس میں نواب ثناء اﷲ زہری کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کابینہ کی تشکیل، محکموں کی تقسیم اور دیگر اُمور پر اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرے گی۔ اسی طرح یہ کمیٹی(ن) لیگ کے اراکین اسمبلی کے تحفظات اور اعتراضات سے اتحادی جماعتوں کوبھی آگاہ کرے گی۔ ترجمان نے کہا کہ نواز شریف اور نواب زہری کے درمیان عرصہ دراز سے ذاتی تعلقات ہیں اور دونوں رہنما ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ اور نیشنل پارٹی کے مابین جو سیاسی رسہ کشی اور اختلافات ہیں وہ اب آہستہ آہستہ اُبھرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب یہ سیاسی رسہ کشی میڈیا میں بھی باقاعدگی سے جگہ پا رہی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد دونوں اتحادی سیاسی جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوجائیں گی۔درون خانہ نیشنل پارٹی مسلم لیگ کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے،اس کا ذکر نیشنل پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اپنی نجی محافل میں بھی کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) نے اس حوالے سے بیان دیا جس میں اُنہوں نے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو (جن کا مسلم لیگ (ق) سے تعلق ہے) کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو جمعیت ان کی مکمل حمایت کرے گی۔
اب تک یہ اتحاد نواز لیگ کی مرکزی قیادت کے سہارے پر ہی چل رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں،ان کے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت سے مضبوط روابط ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں نواب ثناء اﷲ زہری کی سربراہی میں قائم ہونے والی پانچ رکنی کمیٹی بھی اسلام آباد پہنچ گئی ہیں جہاں یہ کمیٹی (ن) لیگ کے اراکین اسمبلی کے وزیراعلیٰ کے حوالے سے شکایات اور100 دن کی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے اپنے تحفظات سے مرکزی قیات کو آگاہ کرے گی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ن لیگ کی پارلیمانی کمیٹی پارٹی قیادت کو اپنے موقف پر کس حد تک قائل کرتی ہے ، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں بخوبی ہوجائے گا۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق اگر مذکورہ کمیٹی مرکزی قیادت کواپنے تحفظات اور شکایات پرقائل کرلیتی ہے توبلوچستان میں مستقبل قریب میںسیاسی تبدیلی ناگزیر ہوگی۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت کابینہ کی تشکیل کے جھنجھٹ سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکی۔
اب تومعاملہ ایک دردِ سر بن گیا ہے۔ آئے روز اس حوالے سے تاریخیں دی جارہی ہیں۔وزیرعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کافی عرصہ سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیرعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور میر حاصل بزنجو پوری کوشش کررہے ہیں کہ بلوچستان کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے مری میں جو معاہدہ طے پایا تھا اس پر عمل کرتے ہوئے کابینہ تشکیل دی جائے۔ وہ نواز لیگ کی مرکزی قیادت سے بھی رابطوں میں ہیں تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کابینہ کی تشکیل کیلئے کون سا فارمولا طے پایا تھا۔
نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ مری میں یہ طے پایا تھا کہ چودہ رکنی کابینہ میں چھ (ن) لیگ اور چار، چار نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کے ارکان کو نمائندگی دی جائے گی جبکہ پانچ مشیر لئے جائیں گے جن میں سے دو پشتونخوامیپ ، دو نواز لیگ اور ایک نیشنل پارٹی سے لیا جائے گا۔ اس کے برعکس نواز لیگ کی صوبائی قیادت کا یہ کہنا ہے کہ مری میں آٹھ اور تین، تین کا فارمولا طے پایا تھا اور تین مشیر نواز لیگ اور ایک، ایک مشیر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کو دیئے جانے کی بات ہوئی تھی۔
نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے کابینہ کیلئے اپنے ارکان کے نام فائنل کرلئے ہیں جبکہ (ن) لیگ کی طرف سے ابھی تک کوئی نام نہیں آیا۔جوں جوں کابینہ کی تشکیل میں تاخیر ہورہی ہے، توں توں نواز لیگ کے اراکین کی جانب سے تند و تیز بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہر معاملے میں وزیرعلیٰ نظرانداز کررہے ہیں۔
گزشتہ روز اسلام آباد سے اس خبر پر مسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے سخت ردعمل ظاہر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر نواب ثناء اﷲ زہری کی پارٹی قیادت سے اختلافات کے باعث سو دن گزرنے کے باوجود کابینہ تشکیل نہیں دی جاسکی جبکہ وزیرعلیٰ نے نواب ثناء اﷲ زہری کی جانب سے کابینہ کیلئے تجویز کردہ ناموں پر اپنے تحفظات ظاہر کئے ہیں، جس پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے یہ نام مسترد کردیئے، انہوں نے پارٹی کی صوبائی قیادت کو کابینہ کے معاملات سے الگ کردیا ہے۔ اس پر نواب ثناء اﷲ زہری پارٹی کے اس فیصلے سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے مشورے شروع کردیئے۔
نواز لیگ کے ترجمان نے اس خبر کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نواب ثناء اﷲ زہری نے وزیراعظم کو کابینہ کیلئے (ن) لیگ کے اراکین کی کوئی فہرست نہیں بھجوائی ۔جب اُنہوں نے یہ نام ہی نہیں بھجوائے تو پھر وزیراعلیٰ کے تحفظات، وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نام مسترد کئے جانے، نواب ثناء اﷲ زہری کی پارٹی قیادت سے ناراضگی اور وزیراعظم کی جانب سے صوبائی قیادت کو کابینہ کے معاملات سے الگ کرنے کی باتیں کیسے درست ہوسکتی ہیں؟ نواز لیگ کے ترجمان نے واضح کیا کہ پارٹی کے اندر کوئی اختلاف نہیں، پارٹی کے تمام اراکین متحد اور پارٹی فیصلوں کی پاسداری کررہے ہیں۔
پارٹی ترجمان نے یہ بھی بتایاکہ پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے دوروزہ اجلاس میں نواب ثناء اﷲ زہری کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کابینہ کی تشکیل، محکموں کی تقسیم اور دیگر اُمور پر اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرے گی۔ اسی طرح یہ کمیٹی(ن) لیگ کے اراکین اسمبلی کے تحفظات اور اعتراضات سے اتحادی جماعتوں کوبھی آگاہ کرے گی۔ ترجمان نے کہا کہ نواز شریف اور نواب زہری کے درمیان عرصہ دراز سے ذاتی تعلقات ہیں اور دونوں رہنما ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ اور نیشنل پارٹی کے مابین جو سیاسی رسہ کشی اور اختلافات ہیں وہ اب آہستہ آہستہ اُبھرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب یہ سیاسی رسہ کشی میڈیا میں بھی باقاعدگی سے جگہ پا رہی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد دونوں اتحادی سیاسی جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوجائیں گی۔درون خانہ نیشنل پارٹی مسلم لیگ کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے،اس کا ذکر نیشنل پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اپنی نجی محافل میں بھی کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) نے اس حوالے سے بیان دیا جس میں اُنہوں نے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو (جن کا مسلم لیگ (ق) سے تعلق ہے) کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو جمعیت ان کی مکمل حمایت کرے گی۔
اب تک یہ اتحاد نواز لیگ کی مرکزی قیادت کے سہارے پر ہی چل رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں،ان کے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت سے مضبوط روابط ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں نواب ثناء اﷲ زہری کی سربراہی میں قائم ہونے والی پانچ رکنی کمیٹی بھی اسلام آباد پہنچ گئی ہیں جہاں یہ کمیٹی (ن) لیگ کے اراکین اسمبلی کے وزیراعلیٰ کے حوالے سے شکایات اور100 دن کی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے اپنے تحفظات سے مرکزی قیات کو آگاہ کرے گی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ن لیگ کی پارلیمانی کمیٹی پارٹی قیادت کو اپنے موقف پر کس حد تک قائل کرتی ہے ، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں بخوبی ہوجائے گا۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق اگر مذکورہ کمیٹی مرکزی قیادت کواپنے تحفظات اور شکایات پرقائل کرلیتی ہے توبلوچستان میں مستقبل قریب میںسیاسی تبدیلی ناگزیر ہوگی۔