بلوچ ہمارا فخر ہیں
بلوچ ہمارا فخر ہیں۔ بلوچستان پاکستان کی ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے
''احمد خلیل البلوشی''، شاہ صاحب کے ساتھ رپورٹ کو حتمی شکل دیتے ہوئے یہ نام سنا تو میرے ذہن میں نام چپک کر رہ گیا۔ اس کا مطلب ہے احمد بھائی پاکستانی ہیں؟ کیونکہ گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی نشریاتی ادرے کی رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے معلوم ہوا تھا کہ بلوچستان کے وہ باشندے جنہوں نے اومان کی شہریت لی ہے، ان کو وہاں البلوشی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ہفتہ واری چھٹی کے بعد دوپہر کے کھانے پر میری اتفاقیہ طور پر احمد سے ملاقات ہوگئی۔ ''آپ بھی بنیادی طور پر پاکستانی ہیں؟'' میں نے بغیر کسی تمہید کے سوال کیا۔ پہلے وہ حیران ہوا، پھر بولا ''میرے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے''۔
''آپ کو بھی کبھی پاکستان جانے کا اتفاق ہوا؟'' میرا سوال سن کر اس کے چہرےپر تلخی آگئی۔
''جی ہاں! میں گزشتہ دنوں پاکستان گیا تھا اور وہاں پر میرے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا گیا۔ ایک چیک پوسٹ پر ہمیں روکا گیا۔ میرے ساتھ جو مسافر تھے، انہیں جانے دیا گیا مگر مجھ سے انتہائی سختی سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ میرا قصور کیا تھا؟ مجھے کیوں روک کر یہ سلوک کیا گیا؟ صرف مجھے ہی کیوں روکا گیا، باقی بندوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ کیوں آخر کیوں؟''
چند لمحوں کےلیے تو میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس پہلے کہ وہ پھٹ پڑتا اور بلوچستان کا مقدمہ شروع کرتا کہ ہم بلوچوں کے ساتھ کب تک یہ سلوک ہوتا رہے گا، کب تک ہماری حب الوطنی مشکوک رہے گی، کب تک ہم پر شک کیا جاتا رہے گا، بلوچ آخر کب تک زیر عتاب رہیں گے، بلوچستان کی محرومیاں آخر کب ختم ہوں گی؟ میرے اندر کا صحافی جاگ اٹھا۔
''احمد بھائی آپ کے ساتھ جو سلوک ہوا مجھے اس پر افسوس ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا جان بوجھ کر نہیں ہوا ہوگا، پاکستان میں رہنے والے عام شہری اکثر و بیشر اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہوگی کہ سیکیورٹی چیک پوسٹ پر مامور اہلکار نے ''شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار'' بننے کی کوشش کی ہوگی۔ ایسے لوگ ہر محکمے کے اندر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کارکردگی دکھانے کے چکر میں ایسے کام کرجاتے ہیں جو ان کےلیے اور ان کے ادارے کےلیے بدنامی کا ذریعہ بن جاتے ہیں''۔
اس تحریر کے ذریعے میں تمام بلوچوں اور ان لوگوں سے، جن کے ساتھ کبھی کسی سیکیورٹی ادارے نے برا سلوک کیا ہو، میری عاجزانہ التماس ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ (مندرجہ بالاواقعے سے ملتا جلتا) پیش آجائے تو براہِ کرم اس کو بنیاد بناکر آرمی چیف، ڈجی آئی آیس آئی، یا پھر فوج کے متعلق سوشل میڈیا پر نازیبا کلمات کے اظہار کی مہم نہ شروع کی جائے، نہ ہی اپنا یہ ذہن بنایا جائے کہ فوج بری ہے اور ہر واقعے میں فوج کا ہاتھ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم جسے درست سمجھ رہے ہیں، وہی درست ہو۔ حقائق اس کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔
اور آخری بات! بلوچ ہمارا فخر ہیں۔ بلوچستان پاکستان کی ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ ''بلوچستان ہمارا اٹوٹ انگ ہے''۔ اگر کوئی سیکیورٹی اہلکار کسی بلوچ کے ساتھ برا سلوک کردے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلوچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، بلوچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، فوج بلوچوں کے خلاف ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب صرف پاکستان کی خاطر پاکستان، افواج پاکستان اور بلوچستان کے خلاف ہر قسم کے پروپیگنڈے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ میں ملتمس ہوں آرمی چیف اور تمام افسران سے، جو سیکیورٹی چیک پوسٹس اور ایسے تمام مقامات جہاں پر سیکیورٹی اہلکاروں کا عوام الناس سے واسطہ پڑتا ہو، کی تعیناتی کے ذمے دار ہیں، خدارا ایسے مقامات پر پڑھے لکھے اور سمجھدار افراد کو متعین کیا جائے، تاکہ سیکیورٹی اداروں کا مثبت تاثر قائم ہوسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہفتہ واری چھٹی کے بعد دوپہر کے کھانے پر میری اتفاقیہ طور پر احمد سے ملاقات ہوگئی۔ ''آپ بھی بنیادی طور پر پاکستانی ہیں؟'' میں نے بغیر کسی تمہید کے سوال کیا۔ پہلے وہ حیران ہوا، پھر بولا ''میرے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے''۔
''آپ کو بھی کبھی پاکستان جانے کا اتفاق ہوا؟'' میرا سوال سن کر اس کے چہرےپر تلخی آگئی۔
''جی ہاں! میں گزشتہ دنوں پاکستان گیا تھا اور وہاں پر میرے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا گیا۔ ایک چیک پوسٹ پر ہمیں روکا گیا۔ میرے ساتھ جو مسافر تھے، انہیں جانے دیا گیا مگر مجھ سے انتہائی سختی سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ میرا قصور کیا تھا؟ مجھے کیوں روک کر یہ سلوک کیا گیا؟ صرف مجھے ہی کیوں روکا گیا، باقی بندوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ کیوں آخر کیوں؟''
چند لمحوں کےلیے تو میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس پہلے کہ وہ پھٹ پڑتا اور بلوچستان کا مقدمہ شروع کرتا کہ ہم بلوچوں کے ساتھ کب تک یہ سلوک ہوتا رہے گا، کب تک ہماری حب الوطنی مشکوک رہے گی، کب تک ہم پر شک کیا جاتا رہے گا، بلوچ آخر کب تک زیر عتاب رہیں گے، بلوچستان کی محرومیاں آخر کب ختم ہوں گی؟ میرے اندر کا صحافی جاگ اٹھا۔
''احمد بھائی آپ کے ساتھ جو سلوک ہوا مجھے اس پر افسوس ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا جان بوجھ کر نہیں ہوا ہوگا، پاکستان میں رہنے والے عام شہری اکثر و بیشر اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہوگی کہ سیکیورٹی چیک پوسٹ پر مامور اہلکار نے ''شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار'' بننے کی کوشش کی ہوگی۔ ایسے لوگ ہر محکمے کے اندر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کارکردگی دکھانے کے چکر میں ایسے کام کرجاتے ہیں جو ان کےلیے اور ان کے ادارے کےلیے بدنامی کا ذریعہ بن جاتے ہیں''۔
اس تحریر کے ذریعے میں تمام بلوچوں اور ان لوگوں سے، جن کے ساتھ کبھی کسی سیکیورٹی ادارے نے برا سلوک کیا ہو، میری عاجزانہ التماس ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ (مندرجہ بالاواقعے سے ملتا جلتا) پیش آجائے تو براہِ کرم اس کو بنیاد بناکر آرمی چیف، ڈجی آئی آیس آئی، یا پھر فوج کے متعلق سوشل میڈیا پر نازیبا کلمات کے اظہار کی مہم نہ شروع کی جائے، نہ ہی اپنا یہ ذہن بنایا جائے کہ فوج بری ہے اور ہر واقعے میں فوج کا ہاتھ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم جسے درست سمجھ رہے ہیں، وہی درست ہو۔ حقائق اس کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔
اور آخری بات! بلوچ ہمارا فخر ہیں۔ بلوچستان پاکستان کی ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ ''بلوچستان ہمارا اٹوٹ انگ ہے''۔ اگر کوئی سیکیورٹی اہلکار کسی بلوچ کے ساتھ برا سلوک کردے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلوچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، بلوچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، فوج بلوچوں کے خلاف ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب صرف پاکستان کی خاطر پاکستان، افواج پاکستان اور بلوچستان کے خلاف ہر قسم کے پروپیگنڈے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ میں ملتمس ہوں آرمی چیف اور تمام افسران سے، جو سیکیورٹی چیک پوسٹس اور ایسے تمام مقامات جہاں پر سیکیورٹی اہلکاروں کا عوام الناس سے واسطہ پڑتا ہو، کی تعیناتی کے ذمے دار ہیں، خدارا ایسے مقامات پر پڑھے لکھے اور سمجھدار افراد کو متعین کیا جائے، تاکہ سیکیورٹی اداروں کا مثبت تاثر قائم ہوسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔