حسن ظن
ہمارے احباب کا خیال ہے کہ ہم’’سلیکٹیڈ‘‘حکومت کے لیے تھوڑا ’’حسن ظن‘‘ رکھیں۔
یاردوستوں کی رائے ہے کہ ہمارا روئے سخن ہمیشہ موجودہ ''سلیکٹیڈ'' حکومتی پالیسیوں پر تلخ یا تند و تیز ہوتاہے، ہمارے احباب کا خیال ہے کہ ہم''سلیکٹیڈ''حکومت کے لیے تھوڑا ''حسن ظن'' رکھیں اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ زدہ حکومت کی کارگزاریوں کو بھی مثبت انداز سے دیکھنے کا ہنر جانیں۔ان کے خیال میں ''حسن ظن'' رکھنے سے ہمیں موجودہ سلیکٹیڈ حکومت کے شاید کچھ مثبت کام بھی نظر آجائیں،ہمارے احباب کی بات کسی طور غیر معقول بھی نہیں لگتی،مگر ہمارے ہاں کی اردو کا چلن ''آنگن ٹیڑھا'' کی مانند دن بدن ترقی کے زینے طے کررہا ہے، سو ہمارے لیے 'حسن ظن' نوجوان نسل تک پہنچانا ایک سوہان روح بن چکا ہے۔
ہم ابھی تک اس مخمصے میں گرفتار ہیں کہ ہماری اردو سے نا بلد نسل کے لیے ہم ''حسن ظن'' کی شروعات 'ظ ' سے کریں یا 'ز' ۔ لہذا بہتر ہے کہ ہم اردو کی املا کے گورکھ دھندوں میں پڑے بغیر موجودہ سلیکٹیڈ کی چند کارگزاریوں پر نظر ڈال لیں۔
ہم ایک سال قبل قطعی نہیں جانتے تھے کہ تحریک انصاف کے 126دن والے دھرنے سے ہمارے کپتان لندن کے بی بی سی والی کی محبت میں ایک نئے رشتے سے جڑ جائیں گے اور نہ ہی ہم اس سے باخبر نہ تھے کہ الیکشن سے قبل ہمارے کپتان کی زندگی پھر کروٹ) U TURN ( لے گی اور وہ خانقاہوں پر ماتھا ٹیکتے ملیں گے، ہم تو بڑے خوش تھے کہ دھرنوں کے دوران راگ رنگ کی محافل سجانے والوں کے طفیل کم از کم موسیقی، لے، سر اور تال سے محروم کردی گئی قوم میں لطیف جذبے جاگیں گے اور ہر سو ساز راگ اور سر تال کے نغمے ہوں گے جس سے زندگی میں موسیقیت روح تک جا کر کم از کم مذہبی ٹھیکیداروں کی چودھراہٹ ختم کرنے کا تو سبب بنے گی، مگر اس دم ہمارے جذبات پہ اوس پڑ گئی جب ہمارے کپتان حجاب کے اسیر ہوئے اور مدینہ کی ریاست کے خواب کی تعمیر میں مکمل طور پر حکم کے پتے مانند ہو گئے، گو حجاب کی ہر صورت معاشرے میں عزت و تکریم کا سبب ہوتی ہے۔
لہذا ہم نے بھی چپ سادھ لی کہ حسن زن کی نجانے اور کونسی اقسام سے پالا پڑے۔ 'سو جان بچی تو لاکھوں پائے کے' مصداق ہم نے دم سادھے خانقاہی کرامات کے جوہر دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ اسی دوران ملک میں انتخابات کی گھن گرج ہوئی اور الیکشن کمیشن نے اپنے نظام کی خرابی کا عندیہ دے کر خانقاہوں پہ ماتھا ٹیکنے کی کرامات دکھانے کے لیے عوام کو نوید دی کی تحریک انصاف اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے،گو تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں، مگر حکومت کی باگ دوڑ ہر صورت جوڑ توڑ کرکے 'تحریک انصاف' ہی کو دلوانی ہے۔
خیر سے یہ مرحلہ بھی اپوزیشن پارٹی نے ''ٹیکنیکل دھاندلی'' کے الزام تحت متنازعہ کیا مگر خانقاہی کرامات نے آخر کار تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کے سہانے خواب کی آڑ میں ملک کے مقدر میں لکھ دی۔حکومت کے ابتدائی مرحلوں میں عوام سے کیے گئے بلند بانگ دعوؤں کی تکمیل کا سوال آیا تو ہمارے خانقاہی وزیراعظم نے تاریخی اصطلاح U TURN کی فلاسفی عوام کو سمجھائی کہ ''ہر وعدہ تکمیل کے لیے نہیں ہوتا اور بڑا لیڈر اپنے فیصلوں پرکسی بھی وقت U TURN لے سکتا ہے کہ یہی ایک عظیم لیڈر کی پہچان اور اعلی صلاحیت ہے''بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ہٹلر بیوقوف شخص تھا کہ جس نے جرمنی کی شکست کو قبول کر لیا مگر U TURNکا سہارا نہ لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہٹلر ایسا عظیم رہنما آج تک تاریخ میں راندہ درگاہ ہے، ہمارے ادب اور صحافت کے ساتھی سے جب گفتگو میں مذکورہ بات کا ذکر ہوا تو انھوں نے اپنے خاص پنجابی لہجے میں ہمیں سمجھایا کہ ''ایویں ئی بوگیاں مار دا اے، تسی سنجیدہ نہ لو اس نوں'' ہم بونگی مارنے پر بھونچکا سے صرف انھیں تکتے ہی رہے۔
ملکی عوام کو اس پورے عرصے میں تحریک انصاف کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج نے ''احتساب اور کرپشن'' کی ایسی ہوشربا داستانیں سنائیں کہ اب عوام ان پر بھی کان دھرنے پر تیار نظر نہیں آتے، بلکہ ہمارے خانقاہی کرامات کے صلے میں بننے والے وزیراعظم جب سعودی عرب، چین، ملائیشیا، دبئی، قطر، اور حتی کے امریکا گئے تو وہاں بھی بگڑتی ہوئی ملکی معاشی صورتحال کا ذمے دار ملک میں سابقہ حکمرانوں کی بد عنوانیوں کو ٹہرایا اور اس کی بالکل پرواہ نہ کی کہ عالمی دنیا میں بطور وزیراعظم ان کا امیج کیا بن رہا ہے، یا کون سے ملک کے سرمایہ دار ایک کرپٹ ملک میں سرمایہ لگائیں گے جہاں کے سربراہ کسی بھی وقت U TURN کا سہارا لے کر بیرونی سرمائے کو ضبط کر لیں، کہ دنیا عالمی عدالت سے ریکوڈک معاہدے پر جرمانے کی سزا کا فیصلہ دیکھ چکی تھی۔
ملکی عوام کو انصاف اور برابری کا درس دینے والے خانقاہی وزیراعظم اور ان کے رفقا نے پہلے احتساب کا ایسا نعرہ لگایا کہ عوام احتساب کو ایک ریاستی گالی کے سواکچھ نہ سمجھ پائی،جب عوام نے دیکھا کہ حکومتی صفوں میں بیٹھے بابر اعوان اور اطلاعات کی زن وزیر کے احتساب کے کیسز کو ''نیب'' نے صرف اس وجہ سے خارج یا دبا دیا کہ دونوں موصوف ریاست مدینہ کے متوقع والی کے نمک خوار بھونپو ہیں۔
اسی طرح حکومت میں وزیر با عصمت بنائے جانے والے علیم خان،پرویز خٹک پر متعدد بدعنوانی کے کیسسز ابھی موجود ہیں مگر ان کیسز کو چلانے کی رفتار کچھوے کی مانند کر دی گئی ہے جب کہ اپوزیشن اور خاص طور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ہر اس فرد کو نیب احتساب عدالتوں کے چکر لگوا رہی ہے،جس پر ذرا سا بھی شائبہ ہے،ریاست مدینہ میں انصاف کا بول بالا ایسا ہے کہ ابھی چند دنوں پہلے سابق وزیر اعظم کے مشیر اور صحافی عرفان صدیقی کو ایک بے سروپا الزام میں ''ہتھکڑی'' لگا کر رسوا کیا اور جیل یاترا کروائی،موصوف چونکہ درس و تدریس کے استاد بھی رہ چکے ہیں سو ریاست کے والی نے سبکی ہونے کے پیش نظر عدالت کے حکم پر لات مار کر عدالتی چھٹی والے روز عرفان صدیقی کو رہا کروا دیا،اسی طرح ریاست مدینہ کے جھوٹ کی پول کھولنے میں منہ کھولنے کی سزا نون لیگ کے رانا ثنا اللہ کو یہ دی گئی کہ ان پر منشیات اسمگلنگ کا کیس بنا دیا جس کا چالان عدالتی تاریخ پر مذکورہ محکمہ جب نہ دے سکا تو عدالتی جج نے قانوں کے تحت عدالتی کارروائی روک کر چالان کا تقاضا کیا،جس کے نتیجے میں مذکورہ جج کا تبادلہ وزارت قانون نے فوری کرنا مناسب سمجھا کہ کہیں حقائق منظر عام پر نہ آجائیں۔
ریاست مدینہ میں اظہار رائے کی صورتحال ہی عجیب و غریب بنا دی گئی ہے،ہر وہ اخبار یا چینل جو کہ سب کا نکتہ نظر دے رہا ہے یا تو وہ چینل بند کر دیا جاتا ہے یا پھر کیبل مافیا کے غلام مالکان سے کہہ کر اسے ایسے نمبر پر پھینک دیا جاتا ہے کہ عوام کی رسائی اس چینل پر آسانی سے نہ ہوسکے،دوسری جانب غیر منتخب اور میڈیا پر پابندیوں کی ذمے دار وزارت کی ''زن وزیر اطلاعات''ایسے طمطراق سے کراچی پریس کلب بلائی جاتی ہیں کہ چشم زدن میں وزیر موصوف تمام بیروزگار صحافیوں کی ادائیگیاں کر وادیں گی یا میڈیا کی آزادی کا اعلان تاریخی طور پر جمہوری روایات کے پریس کلب سے کریں گی۔۔مگر ڈھاک کے تین پات۔۔ کے مصداق انھوں نے کراچی پریس کلب کی جمہوری تاریخ کو بڑی شان سے لتاڑا اور صحافیوں کی رال ٹپکاتی تنظیموں سے رائے یا مشورہ تو درکنار انھیں بھنک بھی نہیں پڑنے دی کہ وہ اگلے روز صحافتی آزادی کا مزید گلاگھونٹنے کا منصوبہ ''میڈیا کورٹس'' کی شکل میں سب کے سامنے لائیں گی، شکر ہے صحافیوں کے سواد اعظم نے میڈیا کورٹس کو مسترد کردیا۔ ہمیں کراچی پریس کلب اور صحافتی تنظیموں سے ہمدردی ہے کہ وہ غیر سیاسی تربیت کی بنا بہت جلدی افراد پر اعتبار کر لیتے ہیں۔
ہم ابھی تک اس مخمصے میں گرفتار ہیں کہ ہماری اردو سے نا بلد نسل کے لیے ہم ''حسن ظن'' کی شروعات 'ظ ' سے کریں یا 'ز' ۔ لہذا بہتر ہے کہ ہم اردو کی املا کے گورکھ دھندوں میں پڑے بغیر موجودہ سلیکٹیڈ کی چند کارگزاریوں پر نظر ڈال لیں۔
ہم ایک سال قبل قطعی نہیں جانتے تھے کہ تحریک انصاف کے 126دن والے دھرنے سے ہمارے کپتان لندن کے بی بی سی والی کی محبت میں ایک نئے رشتے سے جڑ جائیں گے اور نہ ہی ہم اس سے باخبر نہ تھے کہ الیکشن سے قبل ہمارے کپتان کی زندگی پھر کروٹ) U TURN ( لے گی اور وہ خانقاہوں پر ماتھا ٹیکتے ملیں گے، ہم تو بڑے خوش تھے کہ دھرنوں کے دوران راگ رنگ کی محافل سجانے والوں کے طفیل کم از کم موسیقی، لے، سر اور تال سے محروم کردی گئی قوم میں لطیف جذبے جاگیں گے اور ہر سو ساز راگ اور سر تال کے نغمے ہوں گے جس سے زندگی میں موسیقیت روح تک جا کر کم از کم مذہبی ٹھیکیداروں کی چودھراہٹ ختم کرنے کا تو سبب بنے گی، مگر اس دم ہمارے جذبات پہ اوس پڑ گئی جب ہمارے کپتان حجاب کے اسیر ہوئے اور مدینہ کی ریاست کے خواب کی تعمیر میں مکمل طور پر حکم کے پتے مانند ہو گئے، گو حجاب کی ہر صورت معاشرے میں عزت و تکریم کا سبب ہوتی ہے۔
لہذا ہم نے بھی چپ سادھ لی کہ حسن زن کی نجانے اور کونسی اقسام سے پالا پڑے۔ 'سو جان بچی تو لاکھوں پائے کے' مصداق ہم نے دم سادھے خانقاہی کرامات کے جوہر دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ اسی دوران ملک میں انتخابات کی گھن گرج ہوئی اور الیکشن کمیشن نے اپنے نظام کی خرابی کا عندیہ دے کر خانقاہوں پہ ماتھا ٹیکنے کی کرامات دکھانے کے لیے عوام کو نوید دی کی تحریک انصاف اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے،گو تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں، مگر حکومت کی باگ دوڑ ہر صورت جوڑ توڑ کرکے 'تحریک انصاف' ہی کو دلوانی ہے۔
خیر سے یہ مرحلہ بھی اپوزیشن پارٹی نے ''ٹیکنیکل دھاندلی'' کے الزام تحت متنازعہ کیا مگر خانقاہی کرامات نے آخر کار تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کے سہانے خواب کی آڑ میں ملک کے مقدر میں لکھ دی۔حکومت کے ابتدائی مرحلوں میں عوام سے کیے گئے بلند بانگ دعوؤں کی تکمیل کا سوال آیا تو ہمارے خانقاہی وزیراعظم نے تاریخی اصطلاح U TURN کی فلاسفی عوام کو سمجھائی کہ ''ہر وعدہ تکمیل کے لیے نہیں ہوتا اور بڑا لیڈر اپنے فیصلوں پرکسی بھی وقت U TURN لے سکتا ہے کہ یہی ایک عظیم لیڈر کی پہچان اور اعلی صلاحیت ہے''بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ہٹلر بیوقوف شخص تھا کہ جس نے جرمنی کی شکست کو قبول کر لیا مگر U TURNکا سہارا نہ لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہٹلر ایسا عظیم رہنما آج تک تاریخ میں راندہ درگاہ ہے، ہمارے ادب اور صحافت کے ساتھی سے جب گفتگو میں مذکورہ بات کا ذکر ہوا تو انھوں نے اپنے خاص پنجابی لہجے میں ہمیں سمجھایا کہ ''ایویں ئی بوگیاں مار دا اے، تسی سنجیدہ نہ لو اس نوں'' ہم بونگی مارنے پر بھونچکا سے صرف انھیں تکتے ہی رہے۔
ملکی عوام کو اس پورے عرصے میں تحریک انصاف کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج نے ''احتساب اور کرپشن'' کی ایسی ہوشربا داستانیں سنائیں کہ اب عوام ان پر بھی کان دھرنے پر تیار نظر نہیں آتے، بلکہ ہمارے خانقاہی کرامات کے صلے میں بننے والے وزیراعظم جب سعودی عرب، چین، ملائیشیا، دبئی، قطر، اور حتی کے امریکا گئے تو وہاں بھی بگڑتی ہوئی ملکی معاشی صورتحال کا ذمے دار ملک میں سابقہ حکمرانوں کی بد عنوانیوں کو ٹہرایا اور اس کی بالکل پرواہ نہ کی کہ عالمی دنیا میں بطور وزیراعظم ان کا امیج کیا بن رہا ہے، یا کون سے ملک کے سرمایہ دار ایک کرپٹ ملک میں سرمایہ لگائیں گے جہاں کے سربراہ کسی بھی وقت U TURN کا سہارا لے کر بیرونی سرمائے کو ضبط کر لیں، کہ دنیا عالمی عدالت سے ریکوڈک معاہدے پر جرمانے کی سزا کا فیصلہ دیکھ چکی تھی۔
ملکی عوام کو انصاف اور برابری کا درس دینے والے خانقاہی وزیراعظم اور ان کے رفقا نے پہلے احتساب کا ایسا نعرہ لگایا کہ عوام احتساب کو ایک ریاستی گالی کے سواکچھ نہ سمجھ پائی،جب عوام نے دیکھا کہ حکومتی صفوں میں بیٹھے بابر اعوان اور اطلاعات کی زن وزیر کے احتساب کے کیسز کو ''نیب'' نے صرف اس وجہ سے خارج یا دبا دیا کہ دونوں موصوف ریاست مدینہ کے متوقع والی کے نمک خوار بھونپو ہیں۔
اسی طرح حکومت میں وزیر با عصمت بنائے جانے والے علیم خان،پرویز خٹک پر متعدد بدعنوانی کے کیسسز ابھی موجود ہیں مگر ان کیسز کو چلانے کی رفتار کچھوے کی مانند کر دی گئی ہے جب کہ اپوزیشن اور خاص طور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ہر اس فرد کو نیب احتساب عدالتوں کے چکر لگوا رہی ہے،جس پر ذرا سا بھی شائبہ ہے،ریاست مدینہ میں انصاف کا بول بالا ایسا ہے کہ ابھی چند دنوں پہلے سابق وزیر اعظم کے مشیر اور صحافی عرفان صدیقی کو ایک بے سروپا الزام میں ''ہتھکڑی'' لگا کر رسوا کیا اور جیل یاترا کروائی،موصوف چونکہ درس و تدریس کے استاد بھی رہ چکے ہیں سو ریاست کے والی نے سبکی ہونے کے پیش نظر عدالت کے حکم پر لات مار کر عدالتی چھٹی والے روز عرفان صدیقی کو رہا کروا دیا،اسی طرح ریاست مدینہ کے جھوٹ کی پول کھولنے میں منہ کھولنے کی سزا نون لیگ کے رانا ثنا اللہ کو یہ دی گئی کہ ان پر منشیات اسمگلنگ کا کیس بنا دیا جس کا چالان عدالتی تاریخ پر مذکورہ محکمہ جب نہ دے سکا تو عدالتی جج نے قانوں کے تحت عدالتی کارروائی روک کر چالان کا تقاضا کیا،جس کے نتیجے میں مذکورہ جج کا تبادلہ وزارت قانون نے فوری کرنا مناسب سمجھا کہ کہیں حقائق منظر عام پر نہ آجائیں۔
ریاست مدینہ میں اظہار رائے کی صورتحال ہی عجیب و غریب بنا دی گئی ہے،ہر وہ اخبار یا چینل جو کہ سب کا نکتہ نظر دے رہا ہے یا تو وہ چینل بند کر دیا جاتا ہے یا پھر کیبل مافیا کے غلام مالکان سے کہہ کر اسے ایسے نمبر پر پھینک دیا جاتا ہے کہ عوام کی رسائی اس چینل پر آسانی سے نہ ہوسکے،دوسری جانب غیر منتخب اور میڈیا پر پابندیوں کی ذمے دار وزارت کی ''زن وزیر اطلاعات''ایسے طمطراق سے کراچی پریس کلب بلائی جاتی ہیں کہ چشم زدن میں وزیر موصوف تمام بیروزگار صحافیوں کی ادائیگیاں کر وادیں گی یا میڈیا کی آزادی کا اعلان تاریخی طور پر جمہوری روایات کے پریس کلب سے کریں گی۔۔مگر ڈھاک کے تین پات۔۔ کے مصداق انھوں نے کراچی پریس کلب کی جمہوری تاریخ کو بڑی شان سے لتاڑا اور صحافیوں کی رال ٹپکاتی تنظیموں سے رائے یا مشورہ تو درکنار انھیں بھنک بھی نہیں پڑنے دی کہ وہ اگلے روز صحافتی آزادی کا مزید گلاگھونٹنے کا منصوبہ ''میڈیا کورٹس'' کی شکل میں سب کے سامنے لائیں گی، شکر ہے صحافیوں کے سواد اعظم نے میڈیا کورٹس کو مسترد کردیا۔ ہمیں کراچی پریس کلب اور صحافتی تنظیموں سے ہمدردی ہے کہ وہ غیر سیاسی تربیت کی بنا بہت جلدی افراد پر اعتبار کر لیتے ہیں۔