سیاست میں اصول نہیں ہوتے
سیاست کی زیر و زبر سیکھنے والوں کا مکتب بھی ایک ہے اور نصاب بھی
سیاست آئین کے تابع ہے، اصول کی محتاج یا پھر شطر بے مہار؟ سیاست ماضی میں زندہ ہے یا پھر سیاست تاریخ سے سبق سیکھ کر آگے بڑھ چکی ہے؟ یہ تذبذب سیاست کو کوئی حتمی شکل تو نہیں دے سکا، ہاں البتہ سیاست پر بے اصولی کی چھاپ ضرور ہے۔
ایک سرسری نظر سیاسی گرد و نواح پر ڈالی جائے تو نتیجہ یہ ہے کہ سیاست کی زیر و زبر سیکھنے والوں کا مکتب بھی ایک ہے اور نصاب بھی۔ خان صاحب پر الزام ہے کہ نظام سیاست کو چلانے کےلیے بس ان کا چہرہ استعمال ہوا، وگرنہ ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور ہے۔ تاریخ کے ستر سال ہمیں بتاتے ہیں کم و بیش ہر وزیراعظم پر یہ الزام اسی شد و مد سے لگتا رہا ہے۔ منتخب وزائے اعظم اس سیٹ پر شوقیہ تو ایک آدھ بار بیٹھے، مگر گاڑی کو درست سمت میں چلانے کی نوبت نہیں آئی۔
پکی سیاہی سے لکھے گیا دوسرا بڑا تعارف جو سیاست کے کھاتے میں آیا ہے، وہ اداورں پر اثر انداز ہونے کا ہے۔ یہ الزام موجودہ حکومت پر بھی ہے۔ مولوی مشتاق کی عدالت سے ارشد ملک کی احتساب عدالت تک مجال ہے جو ان بے اصولیوں کو کسی نے تھوک سے بھی مٹانے کی کوشش کی ہو۔ میاں صاحب نے ایک عشرے تک زرداری صاحب کو عدالتوں میں گھسیٹے رکھا، آج یہ شوق خان صاحب میاں صاحب کو جیل میں رکھ کر ان کے نیچے سے پلنگ و میٹریس کھینچ کر اور ٹھنڈی ہوا سے محروم کرکے پورا کررہے ہیں۔
شہباز شریف پچھلے دنوں رانا ثنا اللہ سے ملاقات کےلیے جیل پہنچے۔ ذرائع بتاتے ہیں یہ ملاقات ایک کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد ممکن ہوسکی۔ انہوں نے ملاقات کا احوال کچھ یوں سنایا کہ رانا ثنا کو جہاں رکھا گیا ہے وہاں نہ سونے کو چارپائی ہے نہ پںکھا۔ اور نہ پینے کو پانی ہے۔ اب بھلا شہباز شریف کو کون یاد دلائے کہ جیل کی بی کلاس میں قیدیوں کو رکھنے کا مشکل ترین معیار انہی کے دور میں ہونے والی قانونی ترمیم میں طے ہوا۔ جس پر من و عن عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے احمد سید کاظمی، ق لیگ کے مونس الٰہی کو بی کلاس کے معیار پر پورا نہ اترنے پر سی یعنی کامن کلاس میں رکھا گیا۔ یہ سلسلہ چل سو چل کا ہے۔ موجودہ حکومت کی کئی ایسی ادائیں ہیں جو پچھلی حکومتوں سے برابر مشابہت رکھتی ہیں۔ پھر یقین سے کون کہے کہ سیاست کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خصوصی مشیر عرفان صدیقی کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ جمعے کی رات آٹھ بجے پولیس کی کئی گاڑیوں نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا اور انہیں گرفتار کرکے تھانہ رمنا منتقل کردیا۔ عرفان صدیقی کا جرم کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ مگر جس گھر کا معاملہ تھا، وہ گھر عرفان صدیقی کے اپنے نام پر نہیں بلکہ ان کے بیٹے کے نام پر ہے۔ 20 جولائی کو یہ گھر کرائے پر دیا گیا، کرایہ دار کے ساتھ ایگریمنٹ بھی عرفان صدیقی نے نہیں، ان کے بیٹے نے کیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ کرائے دار سے کوائف مانگے گئے تو وہ کوائف دینے میں ناکام رہا، جس کے بعد انہوں نے کرائے دار اور عرفان صدیقی کو گرفتار کرلیا۔ ہفتے کو انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
ایک ایسے شخص کو جس کی وجہ شہرت ہی درس و تدریس رہی، انہیں ناکردہ گناہ میں جیل بھیج دیا گیا، مگر اتوار کو چھٹی والے دن اسی مجسٹریٹ نے ضمانت پر رہا کردیا۔
بزرگ صحافی کی قابل ضمانت جرم میں تضحیک آمیز گرفتاری اور رہائی، دونوں قانون کے اصولوں کو لات مار کر ملی۔ چونکہ آدھی رات کو عدالتیں لگانے کا رواج پہلے سے موجود ہے، تو بھلا شرمندگی کیسی؟
مذہب کے نام پر سیاست ہو یا سیاست کے نام پر احتساب۔ اصول بہرحال گمشدہ رہے ہیں۔ مولانا صاحب منتخب حکومت کو نظریاتی شناخت اور مذہبی عقائد کےلیے خطرات قرار دیتے ہوئے چڑھائی کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ مطلب ایک بار پھر مذہبی کارڈ استعمال کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت میں بلوچستان کی حکومت کو رات و رات گھر بھیجنے کا عمل، نئے پاکستان میں سیاسی تقرریاں و تبادلے، اداروں میں مداخلت، اداروں کی سیاست میں مداخلت، چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا فیصلہ ہو یا بلاامتیاز احتساب میں ڈنڈی مارنے کا معاملہ، سیاست کی اس انوکھی طرز پر اصول قربان کیے گئے ہیں۔
نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والوں سے گزارش ہے دل کے بہلاوے کےلیے خواب دیکھتے رہیے۔ کیونکہ خواب دیکھنے پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایک سرسری نظر سیاسی گرد و نواح پر ڈالی جائے تو نتیجہ یہ ہے کہ سیاست کی زیر و زبر سیکھنے والوں کا مکتب بھی ایک ہے اور نصاب بھی۔ خان صاحب پر الزام ہے کہ نظام سیاست کو چلانے کےلیے بس ان کا چہرہ استعمال ہوا، وگرنہ ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور ہے۔ تاریخ کے ستر سال ہمیں بتاتے ہیں کم و بیش ہر وزیراعظم پر یہ الزام اسی شد و مد سے لگتا رہا ہے۔ منتخب وزائے اعظم اس سیٹ پر شوقیہ تو ایک آدھ بار بیٹھے، مگر گاڑی کو درست سمت میں چلانے کی نوبت نہیں آئی۔
پکی سیاہی سے لکھے گیا دوسرا بڑا تعارف جو سیاست کے کھاتے میں آیا ہے، وہ اداورں پر اثر انداز ہونے کا ہے۔ یہ الزام موجودہ حکومت پر بھی ہے۔ مولوی مشتاق کی عدالت سے ارشد ملک کی احتساب عدالت تک مجال ہے جو ان بے اصولیوں کو کسی نے تھوک سے بھی مٹانے کی کوشش کی ہو۔ میاں صاحب نے ایک عشرے تک زرداری صاحب کو عدالتوں میں گھسیٹے رکھا، آج یہ شوق خان صاحب میاں صاحب کو جیل میں رکھ کر ان کے نیچے سے پلنگ و میٹریس کھینچ کر اور ٹھنڈی ہوا سے محروم کرکے پورا کررہے ہیں۔
شہباز شریف پچھلے دنوں رانا ثنا اللہ سے ملاقات کےلیے جیل پہنچے۔ ذرائع بتاتے ہیں یہ ملاقات ایک کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد ممکن ہوسکی۔ انہوں نے ملاقات کا احوال کچھ یوں سنایا کہ رانا ثنا کو جہاں رکھا گیا ہے وہاں نہ سونے کو چارپائی ہے نہ پںکھا۔ اور نہ پینے کو پانی ہے۔ اب بھلا شہباز شریف کو کون یاد دلائے کہ جیل کی بی کلاس میں قیدیوں کو رکھنے کا مشکل ترین معیار انہی کے دور میں ہونے والی قانونی ترمیم میں طے ہوا۔ جس پر من و عن عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے احمد سید کاظمی، ق لیگ کے مونس الٰہی کو بی کلاس کے معیار پر پورا نہ اترنے پر سی یعنی کامن کلاس میں رکھا گیا۔ یہ سلسلہ چل سو چل کا ہے۔ موجودہ حکومت کی کئی ایسی ادائیں ہیں جو پچھلی حکومتوں سے برابر مشابہت رکھتی ہیں۔ پھر یقین سے کون کہے کہ سیاست کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خصوصی مشیر عرفان صدیقی کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ جمعے کی رات آٹھ بجے پولیس کی کئی گاڑیوں نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا اور انہیں گرفتار کرکے تھانہ رمنا منتقل کردیا۔ عرفان صدیقی کا جرم کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ مگر جس گھر کا معاملہ تھا، وہ گھر عرفان صدیقی کے اپنے نام پر نہیں بلکہ ان کے بیٹے کے نام پر ہے۔ 20 جولائی کو یہ گھر کرائے پر دیا گیا، کرایہ دار کے ساتھ ایگریمنٹ بھی عرفان صدیقی نے نہیں، ان کے بیٹے نے کیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ کرائے دار سے کوائف مانگے گئے تو وہ کوائف دینے میں ناکام رہا، جس کے بعد انہوں نے کرائے دار اور عرفان صدیقی کو گرفتار کرلیا۔ ہفتے کو انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
ایک ایسے شخص کو جس کی وجہ شہرت ہی درس و تدریس رہی، انہیں ناکردہ گناہ میں جیل بھیج دیا گیا، مگر اتوار کو چھٹی والے دن اسی مجسٹریٹ نے ضمانت پر رہا کردیا۔
بزرگ صحافی کی قابل ضمانت جرم میں تضحیک آمیز گرفتاری اور رہائی، دونوں قانون کے اصولوں کو لات مار کر ملی۔ چونکہ آدھی رات کو عدالتیں لگانے کا رواج پہلے سے موجود ہے، تو بھلا شرمندگی کیسی؟
مذہب کے نام پر سیاست ہو یا سیاست کے نام پر احتساب۔ اصول بہرحال گمشدہ رہے ہیں۔ مولانا صاحب منتخب حکومت کو نظریاتی شناخت اور مذہبی عقائد کےلیے خطرات قرار دیتے ہوئے چڑھائی کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ مطلب ایک بار پھر مذہبی کارڈ استعمال کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت میں بلوچستان کی حکومت کو رات و رات گھر بھیجنے کا عمل، نئے پاکستان میں سیاسی تقرریاں و تبادلے، اداروں میں مداخلت، اداروں کی سیاست میں مداخلت، چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا فیصلہ ہو یا بلاامتیاز احتساب میں ڈنڈی مارنے کا معاملہ، سیاست کی اس انوکھی طرز پر اصول قربان کیے گئے ہیں۔
نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والوں سے گزارش ہے دل کے بہلاوے کےلیے خواب دیکھتے رہیے۔ کیونکہ خواب دیکھنے پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔