خلیج کی صورتحال ایرانی وزیرِخارجہ پر سفری پابندیاں
ہمیں ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ خدا کرے یہ جنگ کسی طرح ٹل جائے۔
ہمارے حکم کی تعمیل کرو اور محفوظ ہو جاؤ ، فورًا اپنا رستہ 360 ڈگری تبدیل کر لو، ایرانی انقلابی گارڈز (Iranian Revolutionary Guards) نے یہ حکم برطانیہ کا یونین جیک لہراتے آئل ٹینکر یعنی تیل بردار جہاز اسٹینا امپیرو Stena Impero کو دیے۔
خلیج مین متعین رائل میرین کے فریگیٹ ایچ ایم ایس ماؤنٹ روز کے کپتان نے جب یہ حکم اپنے جنگی جہاز پر سنا تو برطانوی آئل ٹینکر کی مدد کے لیے ٹینکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی آئل ٹینکر آبنائے ہرمز کے بین الاقوامی پانیوں میں ہے اس لیے جہازرانی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہ تو اس کے راستے میں خلل ڈالا جا سکتا ہے، نہ روکا جا سکتا ہے، نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔Your passage must not be impaired,impeded, obstructed or hampered۔
برطانوی رائل میرین اس امید پر ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو سنا رہا تھے کہ شاید وہ اس کی موجودگی سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ جائیں حالانکہ فریگیٹ اس وقت اسٹینا امپیرو سے ساٹھ منٹ کی مسافت پر تھا اور اتنی دوری ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے لیے کسی خاص خطرے کا باعث نہیں بن سکتی تھی۔
ماؤنٹ روز نے اس کے بعد ایرانی پاسدارانِ انقلاب سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ کنفرم کریں کہ برطانوی آئل ٹینکر کو نہیں روکا جا رہا اور یہ کہ ایران عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایران کی طرف سے کہا گیا کہ آئل ٹینکر نے ایک ایرانی کشتی کو ٹکر ماری ہے اس لیے وہ سیکیورٹی خدشات کے مدِنظرآئل ٹینکر کا صرف معائنہ کرنے جا رہے ہیں اس کے بعد ایرانی انقلابی گارڈز نے برطانوی آئل ٹینکر کا کنٹرول حاصل کر کے اس کو اپنی بندرگاہ بندر عباس پہنچا دیا۔ اسٹینا امپیرو پر ایرانی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے چار جولائی کی صبح ایک ایرانی آئل ٹینکر گریس ونGrace-1 برطانوی عملداری والے علاقے جبرالٹر (جبل الطارق) سے گزر رہا تھا کہ تیس رکنی برطانوی میرین کے ایک دستے نے مقامی پورٹ اتھارٹی کی مدد سے ایرانی آئل ٹینکر پر یہ شبہ ظاہر کرتے ہوئے قبضہ کر لیا کہ یہ جہاز ایرانی تیل لے کر شام کی ایک بندر گاہ کی جانب گامزن تھا۔ یہ بھی کہا گیاکہ یورپی یونین نے ایک عرصے سے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف پابندیاں لگائی ہوئی ہیں اس لیے یہ ایرانی جہاز روک لیا گیا ہے۔ 4 جولائی 2019ء کی اس صبح کو جب ایرانی جہاز پر برطانوی قبضے کی خبر لندن فارن آفس میں موجود سفارت کاروں تک پہنچی تو ان کے اند سراسیمگی دوڑ گئی ۔
یورپی یونین نے اس کارروائی کو نہ تو سراہا اور نہ ہی مخالفت کی بلکہ برطانیہ پر زور دیا کہ وہ اس قضیے کو جلدی نبٹائے، اسپین کی حکومت کے ایک ترجمان نے البتہ ساری بات کا بھانڈہ یہ کہ کر پھوڑ دیا کہ حکومتِ برطانیہ نے یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر اٹھایا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس کوشش میں ہے کہ ایرانی تیل کی فروخت مکمل طور پر بند ہو جائے، ایرانی معیشت پوری طور پر تباہ ہو جائے ۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تا کہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے، عوام تنگ آ کر سڑکوں پر آ جائیں ، ایرانی حکومت کا تختہ الٹ جائے اور امریکا کی حامی حکومت آ جائے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا ایران سے کیا خطرہ محسوس کرتا ہے اور دونوں کے درمیان کیا جھگڑا ہے، ایران میں اسلامی انقلاب میں امریکی منفی کردار کی وجہ سے دونوں ملک ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے لیکن جھگڑے کی اصل وجہ اسرائیل ہے، اسرائیل کو خطے میں برتر قوت کے طور پر قائم رکھنا تمام مغربی دنیا، خاص کر امریکا کی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو ہے۔ ادھر ایران فوجی قوت میں اضافہ کرتا چلا گیا اور اس نے مڈل ایسٹ میں اپنے حامی گروپوں کے اندر وہ استعداد پیدا کر دی کہ وہ اسرائیل کو تنگ کر سکیں، یہ صورتحال اسرائیل کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اس لیے اسرائیل ایک آزاد، طاقتور ایران کو نہیں دیکھ سکتا مگر خود کوئی قدم اٹھانے کے بجائے امریکی ڈھال استعمال کرتا ہے۔
2015 میں امریکا، ایران، یورپی یونین، چین اور روس کے مابین نیوکلیر ڈیل ہوئی تو اس کا ساری دنیا نے خیر مقدم کیا لیکن اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس کی کھل کر نہ صرف مخالفت کی بلکہ اوباما کو سخت تنقید سے بھی نوازا۔ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اس ڈیل کو یک طرفہ منسوخ کر دیا۔ اب امریکا اس ڈیل پر از سرِ نو مذاکرات اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں کرنا چاہتا ہے لیکن جناب خامنہ ای نئے مذاکرات پر راضی نہیں، پابندیوں کی وجہ سے ایرانی تیل کی بر آمد تقریباً رک چکی ہے، ایرانی معیشت بے پناہ دباؤ میں ہے۔ امریکا نے ڈالر کی ترسیل کے لیے ضروری سافٹ کوڈ ایران سے واپس لے لیا ہے جس کی وجہ سے ایران نہ تو کوئی ادائیگی کر سکتا ہے نہ کسی ملک سے کچھ خرید سکتا ہے حتیٰ کہ ایرانی سفارت خانوں کو چلانا مشکل ہو رہا ہے۔
ا یرانی جہاز پر قبضے کو ایران نے کھلی کھلی بحری قزاقی قرار دیا اور عندیہ دیا کہ اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ برطانیہ نے اپنے جہاز پر قبضے کے بعد کہا کہ برطانیہ کا جواب بھرپور اور سوچا سمجھا ہو گا، جناب جرمی ہنٹ نے جبرالٹر کے وزیرِاعلی پیکارڈو کو لندن آنے کا کہا تا کہ صلاح مشورہ کیا جا سکے لیکن 18جولائی کی صبح ایران کو اس وقت بہت مایوسی ہوئی جب جبرالٹر کی عدالت نے ایرانی جہاز پر برطانوی قبضے کو ایک ماہ کی توسیع دے دی۔
اس فیصلے کے پانچ گھنٹے کے اندر ایران نے Tit for Tat کے اصول پر برطانوی آئل ٹینکر پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس پر صدر ٹرمپ نے تہران کو امریکا کے لیے خطرہ قرار دیا، ادھر ایران نے ایک تو امریکی ڈرون مار گرایا اور ساتھ ہی سترہ امریکی جاسوس گرفتار کر کے انھیں سزائیں بھی دے دیں۔ امریکا اب ایک ایسی میرین فورس قائم کرنا چاہتا ہے جو امریکی سربراہی میں خلیج میں قوت کی علامت ہو۔ برطانیہ نے بھی ایسی ہی فورس بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن ابھی تک اس فورس کا قیام سست روی کا شکار ہے۔ برطانیہ کے اندر جناب بورس جانسن کی نئی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ برطانیہ نے اپنا ایک نمایندہ مذاکرات کے لیے تہران بھیج دیا ہے لیکن آخری اطلاعات آنے تک یہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔
جیسے پہلے کہا گیا ہے اس سارے تناؤ کی وجہ اسرائیل اور اس کے وزیرِاعظم نیتن یاہو کی ایران مخالفت ہے جس کے لیے امریکا، عرب ممالک اور برطانیہ اسرائیل کی جنگ لڑ رہے ہیں،سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان تو یہاں تک کہ گئے ہیں کہ سعودی عرب کے تین دشمن ہیں، ایران ایران ایران ۔
امریکا کی جانب سے جناب جواد ظریف کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ابھی جناب خامنہ ای کے ساتھ جناب صدر حسن روحانی پر بھی پابندی لگنے جا رہی ہے، یہ طے ہے کہ کسی بھی غلط قدم سے یہ سارا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، بندر عباس پاکستان ایران سرحد سے بہت تھوڑے فاصلے پر ہے، پاکستان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سعودی عرب اور امریکا چاہیں گے کہ پاکستان ان کا اتحادی ہو، دوسری طرف ایران ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے، ہمیں ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ خدا کرے یہ جنگ کسی طرح ٹل جائے۔
خلیج مین متعین رائل میرین کے فریگیٹ ایچ ایم ایس ماؤنٹ روز کے کپتان نے جب یہ حکم اپنے جنگی جہاز پر سنا تو برطانوی آئل ٹینکر کی مدد کے لیے ٹینکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی آئل ٹینکر آبنائے ہرمز کے بین الاقوامی پانیوں میں ہے اس لیے جہازرانی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق نہ تو اس کے راستے میں خلل ڈالا جا سکتا ہے، نہ روکا جا سکتا ہے، نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔Your passage must not be impaired,impeded, obstructed or hampered۔
برطانوی رائل میرین اس امید پر ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو سنا رہا تھے کہ شاید وہ اس کی موجودگی سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ جائیں حالانکہ فریگیٹ اس وقت اسٹینا امپیرو سے ساٹھ منٹ کی مسافت پر تھا اور اتنی دوری ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے لیے کسی خاص خطرے کا باعث نہیں بن سکتی تھی۔
ماؤنٹ روز نے اس کے بعد ایرانی پاسدارانِ انقلاب سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ کنفرم کریں کہ برطانوی آئل ٹینکر کو نہیں روکا جا رہا اور یہ کہ ایران عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایران کی طرف سے کہا گیا کہ آئل ٹینکر نے ایک ایرانی کشتی کو ٹکر ماری ہے اس لیے وہ سیکیورٹی خدشات کے مدِنظرآئل ٹینکر کا صرف معائنہ کرنے جا رہے ہیں اس کے بعد ایرانی انقلابی گارڈز نے برطانوی آئل ٹینکر کا کنٹرول حاصل کر کے اس کو اپنی بندرگاہ بندر عباس پہنچا دیا۔ اسٹینا امپیرو پر ایرانی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے چار جولائی کی صبح ایک ایرانی آئل ٹینکر گریس ونGrace-1 برطانوی عملداری والے علاقے جبرالٹر (جبل الطارق) سے گزر رہا تھا کہ تیس رکنی برطانوی میرین کے ایک دستے نے مقامی پورٹ اتھارٹی کی مدد سے ایرانی آئل ٹینکر پر یہ شبہ ظاہر کرتے ہوئے قبضہ کر لیا کہ یہ جہاز ایرانی تیل لے کر شام کی ایک بندر گاہ کی جانب گامزن تھا۔ یہ بھی کہا گیاکہ یورپی یونین نے ایک عرصے سے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف پابندیاں لگائی ہوئی ہیں اس لیے یہ ایرانی جہاز روک لیا گیا ہے۔ 4 جولائی 2019ء کی اس صبح کو جب ایرانی جہاز پر برطانوی قبضے کی خبر لندن فارن آفس میں موجود سفارت کاروں تک پہنچی تو ان کے اند سراسیمگی دوڑ گئی ۔
یورپی یونین نے اس کارروائی کو نہ تو سراہا اور نہ ہی مخالفت کی بلکہ برطانیہ پر زور دیا کہ وہ اس قضیے کو جلدی نبٹائے، اسپین کی حکومت کے ایک ترجمان نے البتہ ساری بات کا بھانڈہ یہ کہ کر پھوڑ دیا کہ حکومتِ برطانیہ نے یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر اٹھایا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس کوشش میں ہے کہ ایرانی تیل کی فروخت مکمل طور پر بند ہو جائے، ایرانی معیشت پوری طور پر تباہ ہو جائے ۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تا کہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے، عوام تنگ آ کر سڑکوں پر آ جائیں ، ایرانی حکومت کا تختہ الٹ جائے اور امریکا کی حامی حکومت آ جائے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا ایران سے کیا خطرہ محسوس کرتا ہے اور دونوں کے درمیان کیا جھگڑا ہے، ایران میں اسلامی انقلاب میں امریکی منفی کردار کی وجہ سے دونوں ملک ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے لیکن جھگڑے کی اصل وجہ اسرائیل ہے، اسرائیل کو خطے میں برتر قوت کے طور پر قائم رکھنا تمام مغربی دنیا، خاص کر امریکا کی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو ہے۔ ادھر ایران فوجی قوت میں اضافہ کرتا چلا گیا اور اس نے مڈل ایسٹ میں اپنے حامی گروپوں کے اندر وہ استعداد پیدا کر دی کہ وہ اسرائیل کو تنگ کر سکیں، یہ صورتحال اسرائیل کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اس لیے اسرائیل ایک آزاد، طاقتور ایران کو نہیں دیکھ سکتا مگر خود کوئی قدم اٹھانے کے بجائے امریکی ڈھال استعمال کرتا ہے۔
2015 میں امریکا، ایران، یورپی یونین، چین اور روس کے مابین نیوکلیر ڈیل ہوئی تو اس کا ساری دنیا نے خیر مقدم کیا لیکن اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس کی کھل کر نہ صرف مخالفت کی بلکہ اوباما کو سخت تنقید سے بھی نوازا۔ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اس ڈیل کو یک طرفہ منسوخ کر دیا۔ اب امریکا اس ڈیل پر از سرِ نو مذاکرات اسرائیلی خواہشات کی روشنی میں کرنا چاہتا ہے لیکن جناب خامنہ ای نئے مذاکرات پر راضی نہیں، پابندیوں کی وجہ سے ایرانی تیل کی بر آمد تقریباً رک چکی ہے، ایرانی معیشت بے پناہ دباؤ میں ہے۔ امریکا نے ڈالر کی ترسیل کے لیے ضروری سافٹ کوڈ ایران سے واپس لے لیا ہے جس کی وجہ سے ایران نہ تو کوئی ادائیگی کر سکتا ہے نہ کسی ملک سے کچھ خرید سکتا ہے حتیٰ کہ ایرانی سفارت خانوں کو چلانا مشکل ہو رہا ہے۔
ا یرانی جہاز پر قبضے کو ایران نے کھلی کھلی بحری قزاقی قرار دیا اور عندیہ دیا کہ اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ برطانیہ نے اپنے جہاز پر قبضے کے بعد کہا کہ برطانیہ کا جواب بھرپور اور سوچا سمجھا ہو گا، جناب جرمی ہنٹ نے جبرالٹر کے وزیرِاعلی پیکارڈو کو لندن آنے کا کہا تا کہ صلاح مشورہ کیا جا سکے لیکن 18جولائی کی صبح ایران کو اس وقت بہت مایوسی ہوئی جب جبرالٹر کی عدالت نے ایرانی جہاز پر برطانوی قبضے کو ایک ماہ کی توسیع دے دی۔
اس فیصلے کے پانچ گھنٹے کے اندر ایران نے Tit for Tat کے اصول پر برطانوی آئل ٹینکر پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس پر صدر ٹرمپ نے تہران کو امریکا کے لیے خطرہ قرار دیا، ادھر ایران نے ایک تو امریکی ڈرون مار گرایا اور ساتھ ہی سترہ امریکی جاسوس گرفتار کر کے انھیں سزائیں بھی دے دیں۔ امریکا اب ایک ایسی میرین فورس قائم کرنا چاہتا ہے جو امریکی سربراہی میں خلیج میں قوت کی علامت ہو۔ برطانیہ نے بھی ایسی ہی فورس بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن ابھی تک اس فورس کا قیام سست روی کا شکار ہے۔ برطانیہ کے اندر جناب بورس جانسن کی نئی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ برطانیہ نے اپنا ایک نمایندہ مذاکرات کے لیے تہران بھیج دیا ہے لیکن آخری اطلاعات آنے تک یہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔
جیسے پہلے کہا گیا ہے اس سارے تناؤ کی وجہ اسرائیل اور اس کے وزیرِاعظم نیتن یاہو کی ایران مخالفت ہے جس کے لیے امریکا، عرب ممالک اور برطانیہ اسرائیل کی جنگ لڑ رہے ہیں،سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان تو یہاں تک کہ گئے ہیں کہ سعودی عرب کے تین دشمن ہیں، ایران ایران ایران ۔
امریکا کی جانب سے جناب جواد ظریف کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ابھی جناب خامنہ ای کے ساتھ جناب صدر حسن روحانی پر بھی پابندی لگنے جا رہی ہے، یہ طے ہے کہ کسی بھی غلط قدم سے یہ سارا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، بندر عباس پاکستان ایران سرحد سے بہت تھوڑے فاصلے پر ہے، پاکستان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سعودی عرب اور امریکا چاہیں گے کہ پاکستان ان کا اتحادی ہو، دوسری طرف ایران ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے، ہمیں ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ خدا کرے یہ جنگ کسی طرح ٹل جائے۔