علمی پیچیدگیاں
طبیعات دانوں کی برادری چار قوتوں ہی کو بنیادی سمجھ لینے سے انکاری ہے۔
طبیعات دانوں کو اس بات سے نفرت ہے کہ خواہ مخواہ علمی پیچیدگیاں پھیلائی جائیں وہ ایک فلسفیانہ رجحان رکھتے ہیں کہ کائنات کی ایک ایسی تشریح ممکن ہونی چاہیے جو کم سے کم اور سادہ سے سادہ اصولوں کی مدد سے اس کائنات کو بیان کرسکے۔ سادگی اور اختصارکے ساتھ اس بیان میں ایسی جامعیت بھی ہوکہ کائنات کے دامن میں موجود ہر وجود اور عمل اس کا حصہ ہو۔
طبیعات دانوں کا فلسفانہ رجحان قابل فہم ہے۔ جوں جوں وقت نے آگے قدم بڑھایا ہے ہمیں نظر آنے والی پیچیدگیاں کم ہوتی گئی ہیں۔آج ہم جانتے ہیں کہ بارش کے قطروں کا زمین پر گرنا بلاسٹک میزائل کا نشانے پر لگنا اور ہیلی کے دم دار ستارے کی حرکت، ایک ہی اصول کے تحت ہونے والے عوامل ہیں اور وہ ہے کشش ثقل کا اصول اس طرح طبعی طور پر پائی جانے والی بے شمار اشیا بنیادی لحاظ سے ایسے کیمیائی اجزا کا مجموعہ ہیں جو ایک عدد سو سے بمشکل ہی زائد ہیں۔
طبیعات دانوں کے فلسفیانہ رجحان کی وجہ سے طبیعات میں ''وحدانیت'' اہم ترین نظریہ بن گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس نظریے کی مدد سے طبیعات دان جاننا چاہتے ہیں کہ کائنات کس شے سے بنی ہے اور اس کا نظام کیونکر چل رہا ہے وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اسے چار قوتیں چلا رہی ہیں۔
وہ چور قوتیں جنھیں طبیعات دان کائنات کی اصل قوتیں نہیں مانتے۔ایک حقیقت کی طرح تسلیم شدہ ہیں۔ ثقلی قوت سیاروں، ستاروں اورکہکشاؤں کو تھامے ہوئے ہے۔ برق مقناطیسی قوت نے ایٹموں کو اس مضبوطی سے جکڑ رکھا ہے کہ ساخت میں بہت سا خلا ہونے کے باوجود اشیا ٹھوس نظر آتی ہیں۔ طاقتور نیوکلیائی قوت،ایٹمی نیوکلیس کو اکٹھا رکھتی ہے اورکمزور نیوکلیائی قوت کم کمیت کے بنیادی ذرات کا انتظام سنبھالتی ہے۔
طبیعات دانوں کی برادری چار قوتوں ہی کو بنیادی سمجھ لینے سے انکاری ہے۔اس کے بجائے وہ ایک قوت کو بنیاد سمجھتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ چاروں قوتیں بنیادی طور پر ایک ہیں۔ ان کے اس خیال کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں اس لیے کہ پانی، برف اور بھاپ تین روپ ہیں جن کی ماہیت ایک ہی ہے۔
چن نینگ یانگ جنھوں نے 1957 میں کمزور نیوکلیائی قوت پر تحقیق کے صلے میں نوبل انعام حاصل کیا۔ کہتے ہیں کہ''آئن اسٹائن کے خیال میں نظریہ وحدانیت ہی طبیعات کا مرکزی نقطہ ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے تو میں کہوں گا طبیعات میں اس وقت جو بھی کام ہو رہا ہے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اسی حوالے سے جاری ہے۔''
آئن اسٹائن کو نظریہ وحدانیت سے کس قدر دلچسپی تھی، اس کا اظہار ان کوششوں سے ہوتا ہے جو اس نے عمرکے آخری سالوں میں جاری رکھیں۔اس کی کوششیں ناکام پر ناکام ہوتی ہیں۔ پھر ایک دن وہ اس حسرت کو ساتھ لیے چل بسا کہ کاش وہ نظریہ وحدانیت کو ثابت کرسکتا۔
آئن اسٹائن کی ناکامیاں جہاں ختم ہوتی ہیں وہیں سے اگلی نسل کے طبیعات دانوں کی کامیابیاں شروع ہوتی ہیں۔ 1960 کی دہائی میں پہلی بار ان ناکامیوں کوکامیابیوں میں بدلا گیا اور یہ کام کرنے والے عبدالسلام شیلڈن گلاشو اور اسٹیون وین برگ۔ ان طبیعات دانوں نے ایسی نئی مساواتیں پیش کیں جنھوں نے برق مقناطیسی قوت اورکمزور نیوکلیائی قوت کو ایک ''کمزور برقی قوت'' کے دو پہلو ثابت کردیا۔ اسی کامیابی نے انھیں 1979 کے نوبل انعام کا حق دار بنایا۔اگلے مرحلے پر یہ پیش گوئی کی گئی کہ ابھی تک بہت سے ذرات دریافت کرنا باقی ہے۔ ذرات کی دریافت کا امکان روشن ہونے کی دیر تھی کہ ان ذرات کا گویا ''شکار'' شروع ہوگیا۔ ہر طرف طبیعات دان اپنے ہتھیار لیے ان کی تلاشی میں نکل کھڑے ہوئے۔
نئے ذرات کی دریافت کا بہترین طریقہ تو وہ ہے جس میں پہلے سے دریافت شدہ ذرات کو آپس میں ٹکرا دیا جاتا ہے۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے کا مشاہدہ نئے ذرات کو سامنے لے آتا ہے۔ بہرحال ''کمزور برقی ذرات'' دریافت کرنے میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ان ذرات کی کمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ذرات جو ڈبلیو پازیٹو، ڈبلیو نگیٹیو اور زیڈ کہلاتے ہیں۔ پروٹون کے مقابلے میں کئی سوگنا بھاری ہوتے ہیں۔ چنانچہ برگ اور ان کے ساتھیوں کا نظریہ سامنے آنے کے باوجود بھی کوئی ایسی ایٹم شکن مشین (Acceleration) لمبے عرصے تک بنائی جاسکے جس میں ایسے ایٹمی تصادم ہوسکیں کہ اس قدر زیادہ کمیت کے ٹکڑے پیدا ہوں۔
بالآخر یہ بات 1983 میں ممکن ہوگئی۔ اسے ممکن بنانے والی مشین ذراتی طبیعات کے یورپی مرکز ''سرن'' میں قائم ''پروٹون'' اینٹی پروٹون کولائڈر تھی۔اس ایٹم شکن میں ہونے والے ذراتی ٹکراؤ سے ڈبلیو پازیٹیو، ڈبلیو نگیٹیو اور زیڈ ذرات پیدا ہوئے اور یوں ثابت ہوگیا کہ چار قوتوں میں کم ازکم دو قوتیں تو بہت زیادہ توانائی کی حالت میں ایک ہوجاتی ہیں۔ اس ثبوت کو حاصل کرنے والے اٹلی کے سائنس دان کارلوروبیا کو بھی نوبل انعام ملا۔ 1983 کی اس کامیابی کے بعد طبیعات دانوں نے اپنی کوششوں کو اور تیزکردیا۔ اور کوشش کرنے لگے پہلے ثابت ہونے والی قوتوں کے ساتھ تیسری قوت کو بھی ملادیا جائے۔
یہ قوت ''طاقتور نیوکلیائی قوت ہے'' موجودہ وقت تک اس سلسلے میں کئی ایک نظریے سامنے آچکے ہیں، لیکن ان سب کے تجرباتی ثبوت بہم پہنچانا جان جوکھوں کا کام ہے۔
تین قوتوں کو ایک ثابت کرنے کا مرحلہ اس وقت ناممکنات کے قریب ہے۔ اس لیے اگر یہ ثابت کرنا ہے تو پھر اور بھی زیادہ طاقتور ایٹم شکن درکار ہوں گے طاقتور ایٹم شکن درکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام بہت زیادہ توانائی کے درجے پر ہی ہوسکتا ہے۔ یہ کام کس قدر مشکلات رکھتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے ثبوت کے لیے ان ذراتی ریزوں کو حاصل کرنا ہوگا جو بذات خود بگ بینگ کے موقع پر پیدا ہوئے تھے جس کے دوران بہت زیادہ توانائی بروئے کار آتی ہے۔
جدید طبیعات دانوں کی ترامیم کے بعد اب نظریہ وحدانیت کا بیان کچھ یوں چلا ہے کہ:
''ممکن ہے کہ کائنات میں سات العباد موجود ہوں۔ لیکن یہ تمام العباد ایک ایٹم سے بھی چھوٹی پیمائش پر ظاہر ہوتے ہوں گے۔ ان العباد کے باہم مل جانے ہی سے وہ ساختیں بنتی ہوں جنھیں ہم بنیادی ذرات کہتے ہیں اور بنیادی ذرات کے باہمی تعاملات سے چار قدرتی قوتوں کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔''
مادے کی بنیادی اینٹ کیا ہے؟
ہمارے اردگرد کی دنیاکس چیز سے بنتی ہے؟ ہمارے آبا و اجداد نے جب اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا تو آگ، ہوا، مٹی اور پانی کے علاوہ جواب نہ بن پڑسکا۔ علم کے اضافے نے عناصر اربعہ کو ایٹم سے بدل دیا۔ ایٹم نہ نظر آنے والا ذرہ تھا جوکوشش کے باوجود نہیں ٹوٹ سکتا تھا اور خیال تھا کہ ایسے ہی ایٹم سے دنیا بنی ہوگی جب کوشش ہوئی تو ایٹم ٹوٹ گیا۔ الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون میں کائنات اب بھی ایک سادہ جگہ تھی جہاں الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون مل کر ایٹم بناتے تھے اور ایٹم کائنات۔کاش واقعی کائنات اتنی آسان اور سادہ ہوتی۔ نئے اور جدید تحقیقی '' اوزار '' سے ایٹم اور ٹوٹا۔ ڈھیروں زیر جوہر (سب ایٹامک) ذرات دریافت ہونے لگے۔ میزون، بیرون، نیوٹرینو وغیرہ وغیرہ۔ ان میں بنیادی ذرات کون سے ہیں اور دنیا کن سے بنتی ہے؟
ایٹم تو ٹوٹا ہی تھا، نیوٹرون اور پروٹون بھی ٹوٹ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ ذرات مزید چھوٹے ذرات سے جنھیں ''کوارک'' کہتے ہیں مل کر بنے ہیں۔ کوارک بھی دو قسم کے نہیں بلکہ آٹھ مختلف اقسام کے ہیں اور ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا ہیں سائنسدان اب کہہ رہے ہیں کہ زیر کوارک ذرات کا بھی وجود ہے جنھیں ''رائی شون'' کا نام دیا گیا ہے لیکن بنیادی ذرات کون سے ہیں دنیاکس چیز سے بنی ہے؟جدید انسانی علم کو ان سوالات کے جوابات کا علم نہیں۔
طبیعات دانوں کا فلسفانہ رجحان قابل فہم ہے۔ جوں جوں وقت نے آگے قدم بڑھایا ہے ہمیں نظر آنے والی پیچیدگیاں کم ہوتی گئی ہیں۔آج ہم جانتے ہیں کہ بارش کے قطروں کا زمین پر گرنا بلاسٹک میزائل کا نشانے پر لگنا اور ہیلی کے دم دار ستارے کی حرکت، ایک ہی اصول کے تحت ہونے والے عوامل ہیں اور وہ ہے کشش ثقل کا اصول اس طرح طبعی طور پر پائی جانے والی بے شمار اشیا بنیادی لحاظ سے ایسے کیمیائی اجزا کا مجموعہ ہیں جو ایک عدد سو سے بمشکل ہی زائد ہیں۔
طبیعات دانوں کے فلسفیانہ رجحان کی وجہ سے طبیعات میں ''وحدانیت'' اہم ترین نظریہ بن گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس نظریے کی مدد سے طبیعات دان جاننا چاہتے ہیں کہ کائنات کس شے سے بنی ہے اور اس کا نظام کیونکر چل رہا ہے وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اسے چار قوتیں چلا رہی ہیں۔
وہ چور قوتیں جنھیں طبیعات دان کائنات کی اصل قوتیں نہیں مانتے۔ایک حقیقت کی طرح تسلیم شدہ ہیں۔ ثقلی قوت سیاروں، ستاروں اورکہکشاؤں کو تھامے ہوئے ہے۔ برق مقناطیسی قوت نے ایٹموں کو اس مضبوطی سے جکڑ رکھا ہے کہ ساخت میں بہت سا خلا ہونے کے باوجود اشیا ٹھوس نظر آتی ہیں۔ طاقتور نیوکلیائی قوت،ایٹمی نیوکلیس کو اکٹھا رکھتی ہے اورکمزور نیوکلیائی قوت کم کمیت کے بنیادی ذرات کا انتظام سنبھالتی ہے۔
طبیعات دانوں کی برادری چار قوتوں ہی کو بنیادی سمجھ لینے سے انکاری ہے۔اس کے بجائے وہ ایک قوت کو بنیاد سمجھتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ چاروں قوتیں بنیادی طور پر ایک ہیں۔ ان کے اس خیال کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں اس لیے کہ پانی، برف اور بھاپ تین روپ ہیں جن کی ماہیت ایک ہی ہے۔
چن نینگ یانگ جنھوں نے 1957 میں کمزور نیوکلیائی قوت پر تحقیق کے صلے میں نوبل انعام حاصل کیا۔ کہتے ہیں کہ''آئن اسٹائن کے خیال میں نظریہ وحدانیت ہی طبیعات کا مرکزی نقطہ ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے تو میں کہوں گا طبیعات میں اس وقت جو بھی کام ہو رہا ہے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اسی حوالے سے جاری ہے۔''
آئن اسٹائن کو نظریہ وحدانیت سے کس قدر دلچسپی تھی، اس کا اظہار ان کوششوں سے ہوتا ہے جو اس نے عمرکے آخری سالوں میں جاری رکھیں۔اس کی کوششیں ناکام پر ناکام ہوتی ہیں۔ پھر ایک دن وہ اس حسرت کو ساتھ لیے چل بسا کہ کاش وہ نظریہ وحدانیت کو ثابت کرسکتا۔
آئن اسٹائن کی ناکامیاں جہاں ختم ہوتی ہیں وہیں سے اگلی نسل کے طبیعات دانوں کی کامیابیاں شروع ہوتی ہیں۔ 1960 کی دہائی میں پہلی بار ان ناکامیوں کوکامیابیوں میں بدلا گیا اور یہ کام کرنے والے عبدالسلام شیلڈن گلاشو اور اسٹیون وین برگ۔ ان طبیعات دانوں نے ایسی نئی مساواتیں پیش کیں جنھوں نے برق مقناطیسی قوت اورکمزور نیوکلیائی قوت کو ایک ''کمزور برقی قوت'' کے دو پہلو ثابت کردیا۔ اسی کامیابی نے انھیں 1979 کے نوبل انعام کا حق دار بنایا۔اگلے مرحلے پر یہ پیش گوئی کی گئی کہ ابھی تک بہت سے ذرات دریافت کرنا باقی ہے۔ ذرات کی دریافت کا امکان روشن ہونے کی دیر تھی کہ ان ذرات کا گویا ''شکار'' شروع ہوگیا۔ ہر طرف طبیعات دان اپنے ہتھیار لیے ان کی تلاشی میں نکل کھڑے ہوئے۔
نئے ذرات کی دریافت کا بہترین طریقہ تو وہ ہے جس میں پہلے سے دریافت شدہ ذرات کو آپس میں ٹکرا دیا جاتا ہے۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے کا مشاہدہ نئے ذرات کو سامنے لے آتا ہے۔ بہرحال ''کمزور برقی ذرات'' دریافت کرنے میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ان ذرات کی کمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ذرات جو ڈبلیو پازیٹو، ڈبلیو نگیٹیو اور زیڈ کہلاتے ہیں۔ پروٹون کے مقابلے میں کئی سوگنا بھاری ہوتے ہیں۔ چنانچہ برگ اور ان کے ساتھیوں کا نظریہ سامنے آنے کے باوجود بھی کوئی ایسی ایٹم شکن مشین (Acceleration) لمبے عرصے تک بنائی جاسکے جس میں ایسے ایٹمی تصادم ہوسکیں کہ اس قدر زیادہ کمیت کے ٹکڑے پیدا ہوں۔
بالآخر یہ بات 1983 میں ممکن ہوگئی۔ اسے ممکن بنانے والی مشین ذراتی طبیعات کے یورپی مرکز ''سرن'' میں قائم ''پروٹون'' اینٹی پروٹون کولائڈر تھی۔اس ایٹم شکن میں ہونے والے ذراتی ٹکراؤ سے ڈبلیو پازیٹیو، ڈبلیو نگیٹیو اور زیڈ ذرات پیدا ہوئے اور یوں ثابت ہوگیا کہ چار قوتوں میں کم ازکم دو قوتیں تو بہت زیادہ توانائی کی حالت میں ایک ہوجاتی ہیں۔ اس ثبوت کو حاصل کرنے والے اٹلی کے سائنس دان کارلوروبیا کو بھی نوبل انعام ملا۔ 1983 کی اس کامیابی کے بعد طبیعات دانوں نے اپنی کوششوں کو اور تیزکردیا۔ اور کوشش کرنے لگے پہلے ثابت ہونے والی قوتوں کے ساتھ تیسری قوت کو بھی ملادیا جائے۔
یہ قوت ''طاقتور نیوکلیائی قوت ہے'' موجودہ وقت تک اس سلسلے میں کئی ایک نظریے سامنے آچکے ہیں، لیکن ان سب کے تجرباتی ثبوت بہم پہنچانا جان جوکھوں کا کام ہے۔
تین قوتوں کو ایک ثابت کرنے کا مرحلہ اس وقت ناممکنات کے قریب ہے۔ اس لیے اگر یہ ثابت کرنا ہے تو پھر اور بھی زیادہ طاقتور ایٹم شکن درکار ہوں گے طاقتور ایٹم شکن درکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام بہت زیادہ توانائی کے درجے پر ہی ہوسکتا ہے۔ یہ کام کس قدر مشکلات رکھتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے ثبوت کے لیے ان ذراتی ریزوں کو حاصل کرنا ہوگا جو بذات خود بگ بینگ کے موقع پر پیدا ہوئے تھے جس کے دوران بہت زیادہ توانائی بروئے کار آتی ہے۔
جدید طبیعات دانوں کی ترامیم کے بعد اب نظریہ وحدانیت کا بیان کچھ یوں چلا ہے کہ:
''ممکن ہے کہ کائنات میں سات العباد موجود ہوں۔ لیکن یہ تمام العباد ایک ایٹم سے بھی چھوٹی پیمائش پر ظاہر ہوتے ہوں گے۔ ان العباد کے باہم مل جانے ہی سے وہ ساختیں بنتی ہوں جنھیں ہم بنیادی ذرات کہتے ہیں اور بنیادی ذرات کے باہمی تعاملات سے چار قدرتی قوتوں کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔''
مادے کی بنیادی اینٹ کیا ہے؟
ہمارے اردگرد کی دنیاکس چیز سے بنتی ہے؟ ہمارے آبا و اجداد نے جب اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا تو آگ، ہوا، مٹی اور پانی کے علاوہ جواب نہ بن پڑسکا۔ علم کے اضافے نے عناصر اربعہ کو ایٹم سے بدل دیا۔ ایٹم نہ نظر آنے والا ذرہ تھا جوکوشش کے باوجود نہیں ٹوٹ سکتا تھا اور خیال تھا کہ ایسے ہی ایٹم سے دنیا بنی ہوگی جب کوشش ہوئی تو ایٹم ٹوٹ گیا۔ الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون میں کائنات اب بھی ایک سادہ جگہ تھی جہاں الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون مل کر ایٹم بناتے تھے اور ایٹم کائنات۔کاش واقعی کائنات اتنی آسان اور سادہ ہوتی۔ نئے اور جدید تحقیقی '' اوزار '' سے ایٹم اور ٹوٹا۔ ڈھیروں زیر جوہر (سب ایٹامک) ذرات دریافت ہونے لگے۔ میزون، بیرون، نیوٹرینو وغیرہ وغیرہ۔ ان میں بنیادی ذرات کون سے ہیں اور دنیا کن سے بنتی ہے؟
ایٹم تو ٹوٹا ہی تھا، نیوٹرون اور پروٹون بھی ٹوٹ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ ذرات مزید چھوٹے ذرات سے جنھیں ''کوارک'' کہتے ہیں مل کر بنے ہیں۔ کوارک بھی دو قسم کے نہیں بلکہ آٹھ مختلف اقسام کے ہیں اور ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا ہیں سائنسدان اب کہہ رہے ہیں کہ زیر کوارک ذرات کا بھی وجود ہے جنھیں ''رائی شون'' کا نام دیا گیا ہے لیکن بنیادی ذرات کون سے ہیں دنیاکس چیز سے بنی ہے؟جدید انسانی علم کو ان سوالات کے جوابات کا علم نہیں۔