خود کفالت خود سری کو جنم دیتی ہے
امریکا نے ہمیں ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ ہم نجانے پھرکیوں اُس کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکا کو ہمارے سماجی اور سرکاری حلقے بہت کامیاب وکامران قرار دے رہے ہیں۔ اِس دورہ کی سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ وہی ٹرمپ جس نے ابھی ایک ڈیڑھ سال قبل ہمارے بارے میں کتنی غلط اور غیر مناسب باتیں کی تھیں کہ پاکستان نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور یہ کہ امریکا نے ہمیں 33 ارب ڈالر دیکر بہت بڑی غلطی کی تھی آج اچانک ایک بار پھر ہم پر مہربان اور فریفتہ ہونے لگا ہے۔ دیکھا جائے کہ اِس ایک ڈیڑھ سال میں ایسی کونسی بڑی تبدیلی رونما ہوگئی ہے کہ جس نے امریکی حکمرانوں کی اِس منفی سوچ کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔
ہم سب یہ بات تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے مابین اچھے دوستانہ تعلقات کا سارا دار ومدار ہماری اطاعت، فرمانبرداری اور تابعداری میں مضمر ہے۔ ہم جتنے اُن کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار رہیں گے ہمارے تعلقات اتنے ہی بہتر اور اچھے رہیں گے۔ ویسے تو اِن تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ ہی سے رہا ہے۔کبھی ہماری حکومتوں کی مضبوطی اور خود داری کی وجہ سے اُن کے احکامات پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے اورکبھی خود امریکا کی مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے اِن تعلقات میںنشیب و فراز اور مدوجزر آتے رہے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک امریکا کبھی ہمارا بہت بڑا حامی اور مددگار رہا ہے اورکبھی ہمارا بہت بڑا مخالف اور دشمن رہا ہے۔ وہ ہم سے مکمل لاتعلق بھی رہنا نہیں چاہتا اور اسرائیل کی طرح ہم سے انتہائی شفقت والا رویہ بھی رکھنا نہیں چاہتا۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ انتہائی معاندانہ رویہ رکھنے کے باعث ہم اُسے چھوڑ کر کسی اوردوسری عالمی طاقت کی گود میں جا بیٹھیں گے اور ایسا امریکا کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ امریکی مفادات کے لیے بہت نقصان دہ اور ضرر رساں ہوگا۔
علاقائی اور جغرافیائی اہمیت کے باعث امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہمیشہ ہی رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی بحیثیت ایک اسلامی ریاست جس کے پاس ایٹمی توانائی بھی موجود ہو اُسے ہم سے مکمل لاتعلق ہونے نہیں دیتی۔ لہذا وہ ہمیں کبھی دھمکی آمیز رویوں سے اور کبھی محبت اور شفقت سے قابو میں رکھنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔اُس کے اور ہمارے بیچ اچھے اور برے تعلقات کا سارا دار و مدار صرف اور صرف اُس کے اپنے مفادات اور ترجیحات پر منحصر ہے۔ اِس میں ہماری کسی حکومت کی قابلیت اور اہلیت شامل نہیں ہے۔ ہاں البتہ جو حکومت وطن عزیز کے مفادات کی خاطر اُس کے احکامات پر عملدرآمد سے روگردانی کرتی ہے وہ اُس حکومت کا بہت بڑا مخالف اور دشمن بن جاتا ہے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کا دیکھا جائے تو قصور ہی یہی تھا۔ وہ اپنے ملک کو خود کفیل اور خود مختار بنانے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط اور مستحکم بنانے کی راہ پر چل پڑے تھے۔ بھٹو صاحب کا ایٹمی توانائی حاصل کرنے کا عزم اور اُسے حاصل کرنے کی کوششیں اُن کی معزولی اور پھر اُن کی ناگہانی موت کا باعث بنیں۔ اِسی طرح میاں نواز شریف کا بھٹو صاحب کے اِس مشن کو تکمیل تک پہنچانا اور وطن عزیزکو دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست کا درجہ دلوانا خود ان کے لیے موت وزیست کا مسئلہ بن گیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات سول حکمرانوں سے زیادہ ہمارے فوجی حکمرانوں کے دور میں رہے ہیں۔ ہمارے کسی بھی سول حکومت کے دور میں یہ تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اِن میں اگر زیادہ خرابی بھی نہیں آئی تو بہت زیادہ بہتری بھی نہیں آ پائی، لیکن مالی اور فوجی امداد سے لے کر پرانے قرضے معاف کردینے تک سبھی کچھ ہمیں اپنے غیر سول ادوار ہی میں ملتارہا۔ سول حکومتوں کے دور میں دھمکیاں اور ڈومور جیسے احکامات ہی ملتے رہے۔آج بھی اگر ہماری اِس سویلین حکومت کے دور میں اِن تعلقات میں کچھ بہتری دکھائی دے رہی ہے تویقینا اِس کے پیچھے بھی کچھ راز پوشیدہ ہونگے جو ہمیں ظاہری اور سطحی طور پردکھائی نہیں دے رہے۔ یہ تو ہمیں شاید کئی سال بعد پتاچلے گا کہ قوم نے اِن اچھے تعلقات کے عوض اپناکیا کچھ قربان کیا ہے۔
یہ بات تو ساری قوم جانتی ہے کہ امریکی حکام اپنے ناپاک ارادوں اور عزائم کی تکمیل کے لیے سویلین سے زیادہ ہمارے غیر سول حکمرانوں پر یقین اور اعتماد کرتے ہیں۔ سویلین حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں اور دشواریاں ہوا کرتی ہیں۔ وہ کوئی بھی بڑا اور اہم کام اپنی مرضی و منشاء سے ہرگز نہیں کرسکتے۔ وہ اپنے عوام اور اپنی پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوا کرتے ہیں ، جب کہ غیر سول حکومتوں کو یہ مشکل درپیش نہیں ہوتی۔ وہاں فرد واحد ہی سارے فیصلے خود کرنے کا مجاز ہواکرتا ہے۔ اُسے کسی پارلیمنٹ اور عوام کو جواب نہیں دینا ہوتا۔ ہمارے لیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکا کا کوئی بھی حکمراں آج تک کسی سول حکومت کے دور میں ہمارے یہاں نہیں آیا، جتنے بھی صدور یہاں تشریف لائے سب کے سب غیر سول ادوار ہی میں ہی لائے۔صدر آئزن ہاور، لینڈن جانسن ، رچرڈ نکسن ، بل کلنٹن اورجارج بش تک سبھی ہمارے آمروں کے دور ہی میں یہاں آتے رہے۔
عمران خان کے حالیہ دورہ امریکا سے برآمد ہونے والی جو بات ہمارے لیے سب سے زیادہ خوش آیند اور اُمید افزا تھی وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیش کش تھی۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ پیش کش بھی کسی لالی پاپ سے کم نہ تھی۔امریکا کو اِس وقت افغانستان میں ہماری مدد کی اشد ضرورت لاحق ہے۔وہ وہاں سے باعزت طریقے سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ خان صاحب کے اِس کامیاب دورے کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کاجھانسا دیکر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت مسئلہ کشمیر میں حل کے لیے کسی تیسرے ملک کی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ کے اِس دعوے کو ہم اگرسچ بھی مان لیں تو سوال اُٹھتا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اُن سے اگر ثالثی کی یہ درخواست دو ہفتے پہلے کی تھی تو اِس انتہائی اہم بات کو اُسی وقت منظر عام پرکیوں نہیں لایا گیا۔
مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے امریکا کتنا سنجیدہ ہے یہ بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ امریکا چاہے تو یہ مسئلہ منٹوں میں حل ہوسکتا ہے، لیکن وہ ایسا چاہے گا کیوں؟ امریکا جانتا ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو پھر ہندوستان اور پاکستان دونوں کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان اُس کے اپنے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات تو ایک طے شدہ امر ہے کہ خود کفالت خود سری کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان اگر خود کفیل ہوگیا تو خود سر اور باغی بھی ہوجائے گا اور پھر اس کی ہشت پائی گرفت سے مکمل آزاد بھی ہوجائے گا۔ لہذا ہمیں خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور اپنے بل بوتے پرکشمیرکے کسی حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔
امریکا نے ہمیں ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ ہم نجانے پھرکیوں اُس کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ خان صاحب کے بظاہر نظر آنے والے اِس کامیاب دورے کے پیچھے صرف اورصرف افغانستان کا ایشو اہم تھا۔ امریکا کو اِس وقت اپنی عزت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ جس طرح افغانستان سے نکلتے ہوئے سوویت یونین ذلیل وخوار ہوا تھا اُسی طرح وہ بھی ساری دنیا میں رسوا اور بے آبرو ہو۔ دنیا میں صرف ایک پاکستان ہی ایسا ملک ہے جو اُس کی یہ مشکل آسان کرسکتا ہے۔ جس کے لیے وہ ہمارے پاؤں تو پکڑ نہیں سکتا لیکن ہمیں اپنی محبت کے جھانسے میں ضرور پھنسا سکتا ہے۔
قدرت کی شان دیکھیے کہ امریکا کو افغانستان میں داخل ہونے کے لیے بھی پاکستان کی مدد درکار تھی اور اب وہاں سے باہر نکلنے کے لیے بھی وہ ہمارا محتاج ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اُس کی چکنی چپڑی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے اُس سے مکمل سودے بازی کریں۔ اُسے افغانستان میں اپنی باعزت واپسی کی فکر ہے اور ہمیں اپنے مالی بحران سے نکلنے کی فکر۔ اِس سے پہلے کہ وہ ہماری مدد سے سرخرو ہوکر یہاں سے بخیریت باہر نکل جائے اور ایک بار پھر ہمیں آنکھیں دکھانے لگے، ہم اپنی علاقائی اور جغرافیائی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے آج اور ابھی اُس کا مکمل خراج حاصل کرلیں۔
ہم سب یہ بات تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے مابین اچھے دوستانہ تعلقات کا سارا دار ومدار ہماری اطاعت، فرمانبرداری اور تابعداری میں مضمر ہے۔ ہم جتنے اُن کے احکامات کے تابع اور فرمانبردار رہیں گے ہمارے تعلقات اتنے ہی بہتر اور اچھے رہیں گے۔ ویسے تو اِن تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ ہی سے رہا ہے۔کبھی ہماری حکومتوں کی مضبوطی اور خود داری کی وجہ سے اُن کے احکامات پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے اورکبھی خود امریکا کی مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے اِن تعلقات میںنشیب و فراز اور مدوجزر آتے رہے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک امریکا کبھی ہمارا بہت بڑا حامی اور مددگار رہا ہے اورکبھی ہمارا بہت بڑا مخالف اور دشمن رہا ہے۔ وہ ہم سے مکمل لاتعلق بھی رہنا نہیں چاہتا اور اسرائیل کی طرح ہم سے انتہائی شفقت والا رویہ بھی رکھنا نہیں چاہتا۔ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ انتہائی معاندانہ رویہ رکھنے کے باعث ہم اُسے چھوڑ کر کسی اوردوسری عالمی طاقت کی گود میں جا بیٹھیں گے اور ایسا امریکا کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ امریکی مفادات کے لیے بہت نقصان دہ اور ضرر رساں ہوگا۔
علاقائی اور جغرافیائی اہمیت کے باعث امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہمیشہ ہی رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی بحیثیت ایک اسلامی ریاست جس کے پاس ایٹمی توانائی بھی موجود ہو اُسے ہم سے مکمل لاتعلق ہونے نہیں دیتی۔ لہذا وہ ہمیں کبھی دھمکی آمیز رویوں سے اور کبھی محبت اور شفقت سے قابو میں رکھنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔اُس کے اور ہمارے بیچ اچھے اور برے تعلقات کا سارا دار و مدار صرف اور صرف اُس کے اپنے مفادات اور ترجیحات پر منحصر ہے۔ اِس میں ہماری کسی حکومت کی قابلیت اور اہلیت شامل نہیں ہے۔ ہاں البتہ جو حکومت وطن عزیز کے مفادات کی خاطر اُس کے احکامات پر عملدرآمد سے روگردانی کرتی ہے وہ اُس حکومت کا بہت بڑا مخالف اور دشمن بن جاتا ہے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کا دیکھا جائے تو قصور ہی یہی تھا۔ وہ اپنے ملک کو خود کفیل اور خود مختار بنانے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط اور مستحکم بنانے کی راہ پر چل پڑے تھے۔ بھٹو صاحب کا ایٹمی توانائی حاصل کرنے کا عزم اور اُسے حاصل کرنے کی کوششیں اُن کی معزولی اور پھر اُن کی ناگہانی موت کا باعث بنیں۔ اِسی طرح میاں نواز شریف کا بھٹو صاحب کے اِس مشن کو تکمیل تک پہنچانا اور وطن عزیزکو دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست کا درجہ دلوانا خود ان کے لیے موت وزیست کا مسئلہ بن گیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات سول حکمرانوں سے زیادہ ہمارے فوجی حکمرانوں کے دور میں رہے ہیں۔ ہمارے کسی بھی سول حکومت کے دور میں یہ تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اِن میں اگر زیادہ خرابی بھی نہیں آئی تو بہت زیادہ بہتری بھی نہیں آ پائی، لیکن مالی اور فوجی امداد سے لے کر پرانے قرضے معاف کردینے تک سبھی کچھ ہمیں اپنے غیر سول ادوار ہی میں ملتارہا۔ سول حکومتوں کے دور میں دھمکیاں اور ڈومور جیسے احکامات ہی ملتے رہے۔آج بھی اگر ہماری اِس سویلین حکومت کے دور میں اِن تعلقات میں کچھ بہتری دکھائی دے رہی ہے تویقینا اِس کے پیچھے بھی کچھ راز پوشیدہ ہونگے جو ہمیں ظاہری اور سطحی طور پردکھائی نہیں دے رہے۔ یہ تو ہمیں شاید کئی سال بعد پتاچلے گا کہ قوم نے اِن اچھے تعلقات کے عوض اپناکیا کچھ قربان کیا ہے۔
یہ بات تو ساری قوم جانتی ہے کہ امریکی حکام اپنے ناپاک ارادوں اور عزائم کی تکمیل کے لیے سویلین سے زیادہ ہمارے غیر سول حکمرانوں پر یقین اور اعتماد کرتے ہیں۔ سویلین حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں اور دشواریاں ہوا کرتی ہیں۔ وہ کوئی بھی بڑا اور اہم کام اپنی مرضی و منشاء سے ہرگز نہیں کرسکتے۔ وہ اپنے عوام اور اپنی پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوا کرتے ہیں ، جب کہ غیر سول حکومتوں کو یہ مشکل درپیش نہیں ہوتی۔ وہاں فرد واحد ہی سارے فیصلے خود کرنے کا مجاز ہواکرتا ہے۔ اُسے کسی پارلیمنٹ اور عوام کو جواب نہیں دینا ہوتا۔ ہمارے لیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکا کا کوئی بھی حکمراں آج تک کسی سول حکومت کے دور میں ہمارے یہاں نہیں آیا، جتنے بھی صدور یہاں تشریف لائے سب کے سب غیر سول ادوار ہی میں ہی لائے۔صدر آئزن ہاور، لینڈن جانسن ، رچرڈ نکسن ، بل کلنٹن اورجارج بش تک سبھی ہمارے آمروں کے دور ہی میں یہاں آتے رہے۔
عمران خان کے حالیہ دورہ امریکا سے برآمد ہونے والی جو بات ہمارے لیے سب سے زیادہ خوش آیند اور اُمید افزا تھی وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیش کش تھی۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ پیش کش بھی کسی لالی پاپ سے کم نہ تھی۔امریکا کو اِس وقت افغانستان میں ہماری مدد کی اشد ضرورت لاحق ہے۔وہ وہاں سے باعزت طریقے سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ خان صاحب کے اِس کامیاب دورے کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کاجھانسا دیکر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت مسئلہ کشمیر میں حل کے لیے کسی تیسرے ملک کی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ کے اِس دعوے کو ہم اگرسچ بھی مان لیں تو سوال اُٹھتا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اُن سے اگر ثالثی کی یہ درخواست دو ہفتے پہلے کی تھی تو اِس انتہائی اہم بات کو اُسی وقت منظر عام پرکیوں نہیں لایا گیا۔
مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے امریکا کتنا سنجیدہ ہے یہ بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ امریکا چاہے تو یہ مسئلہ منٹوں میں حل ہوسکتا ہے، لیکن وہ ایسا چاہے گا کیوں؟ امریکا جانتا ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو پھر ہندوستان اور پاکستان دونوں کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان اُس کے اپنے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات تو ایک طے شدہ امر ہے کہ خود کفالت خود سری کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان اگر خود کفیل ہوگیا تو خود سر اور باغی بھی ہوجائے گا اور پھر اس کی ہشت پائی گرفت سے مکمل آزاد بھی ہوجائے گا۔ لہذا ہمیں خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور اپنے بل بوتے پرکشمیرکے کسی حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔
امریکا نے ہمیں ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ ہم نجانے پھرکیوں اُس کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ خان صاحب کے بظاہر نظر آنے والے اِس کامیاب دورے کے پیچھے صرف اورصرف افغانستان کا ایشو اہم تھا۔ امریکا کو اِس وقت اپنی عزت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ جس طرح افغانستان سے نکلتے ہوئے سوویت یونین ذلیل وخوار ہوا تھا اُسی طرح وہ بھی ساری دنیا میں رسوا اور بے آبرو ہو۔ دنیا میں صرف ایک پاکستان ہی ایسا ملک ہے جو اُس کی یہ مشکل آسان کرسکتا ہے۔ جس کے لیے وہ ہمارے پاؤں تو پکڑ نہیں سکتا لیکن ہمیں اپنی محبت کے جھانسے میں ضرور پھنسا سکتا ہے۔
قدرت کی شان دیکھیے کہ امریکا کو افغانستان میں داخل ہونے کے لیے بھی پاکستان کی مدد درکار تھی اور اب وہاں سے باہر نکلنے کے لیے بھی وہ ہمارا محتاج ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اُس کی چکنی چپڑی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے اُس سے مکمل سودے بازی کریں۔ اُسے افغانستان میں اپنی باعزت واپسی کی فکر ہے اور ہمیں اپنے مالی بحران سے نکلنے کی فکر۔ اِس سے پہلے کہ وہ ہماری مدد سے سرخرو ہوکر یہاں سے بخیریت باہر نکل جائے اور ایک بار پھر ہمیں آنکھیں دکھانے لگے، ہم اپنی علاقائی اور جغرافیائی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے آج اور ابھی اُس کا مکمل خراج حاصل کرلیں۔